• 3 مئی, 2024

شرک کے معانی اور اس کی تین اقسام

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

پھر ہمیں توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔ آپ نے مزید گہرائی میں جا کر بتایا کہ:
’’شرک تین قسم کا ہے۔ اوّل یہ کہ عام طور پر بت پرستی، درخت پرستی وغیرہ کی جاوے۔‘‘ (بعض لوگ درختوں کی پوجابھی کرتے ہیں۔) ’’یہ سب سے عام اور موٹی قسم کا شرک ہے۔ دوسری قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا جاوے کہ فلاں کام نہ ہوتا تو مَیں ہلاک ہوجاتا۔ یہ بھی شرک ہے۔ تیسری قسم شرک کی یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے وجود کے سامنے اپنے وجود کو بھی کوئی شے سمجھا جاوے‘‘۔ یعنی مَیں بھی کچھ کر سکتا ہوں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم کچھ نہیں کر سکتے، ایک مومن کوہر کام کرنے سے پہلے ان شاء اللہ ضرور کہنا چاہئے) فرمایا کہ ’’موٹے شرک میں توآج کل اس روشنی او ر عقل کے زمانہ میں کوئی گرفتار نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی درختوں کی پوجا کریں یا بعض ایسے ہوں جو پہلی قسم کا شرک کرتے ہوں ) ’’البتہ اس مادی ترقی کے زمانہ میں شرک فی الاسباب بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘ (اسباب پر انحصار، چیزوں پر انحصار، لوگوں پر انحصار بہت زیادہ ہو گیا ہے۔)

(ملفوظات جلد2 صفحہ215-216 ایڈیشن 2003ء)

اسباب میں جیسا کہ مَیں نے کہا لوگوں پر بھی انحصار ہے، دولت پر اور سامان پر انحصار ہے، جہاں اپنے کام کر رہے ہیں اُن کے مالکوں پر انحصار ہے، بعض افسروں کی خوشامد کر رہے ہوتے ہیں۔ جب یہ حالت ہو جائے کہ اسباب پر یا کسی ذات پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہو جائے تو پھر انسان اُس مقصد کو بھول جاتا ہے جو اُس کی پیدائش کا مقصد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری سمجھا جائے تو وہ معبود ہو جاتا ہے۔ جب ایک شخص سمجھے کہ اس کے بغیر میرا گزارہ ہی نہیں ہے تو پھر وہ خدا کے مقابلے پر آ جاتا ہے۔ پھر ایسی چیز بن جاتا ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اُس کے ساتھ تعلق بھی عبادت بن جاتا ہے۔ اور عبادت کے لائق صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات: 57) یعنی جنّوں اور انسان کی پیدائش کی غرض عبادت ہے۔ اور عبادت کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
’’یعنی اے لوگو! تم اُس خدا کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ یعنی اُسی کو اپنے کاموں کا کارساز سمجھو۔‘‘ جتنے بھی تمہارے کام ہیں اُن کو کرنے والا، اُن کی تکمیل کرنے والا، اُن کو انتہا تک پہنچانے والا، کامیابی دینے والا صرف خدا تعالیٰ ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی پرستش اور عبادت ہے۔ ’’اور اُس پر توکل رکھو۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ340)

پھر فرمایا یعنی اے لوگو! اُس خدا کی پرستش کرو جس نے تم کو پیدا کیا۔ ’’عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے اس سے دل لگاؤ۔‘‘ باقی خدا جو ہیں، باقی جو دنیا کے معبود ہیں، اُنہوں نے ختم ہو جانا ہے۔ زندہ رہنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے اس لئے اُسی سے دل لگاؤ۔ فرماتے ہیں کہ ’’پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے اور دوسری سب چیزوں کو اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھا جائے۔ اور جو شخص اولاد کو یا والدین کو یا کسی اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت اُنہیں کا فکر رہے تو وہ بھی ایک بُت پرستی ہے۔ بُت پرستی کے یہی تو معنی نہیں کہ ہندوؤں کی طرح بُت لے کر بیٹھ جائے اور اُس کے آگے سجدہ کرے۔ حد سے زیادہ پیارو محبت بھی عبادت ہی ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ602 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اے لوگو! تم اُس خدائے واحد لاشریک کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا۔ چاہیئے کہ تم اُس قادر توانا سے ڈرو جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو تمہارے لئے چھت بنایا۔ اور آسمان سے پانی اُتار کر طرح طرح کے رزق تمہارے لئے پھلوں میں سے پیدا کئے۔ سو تم دیدہ دانستہ اُنہیں چیزوں کو خدا کا شریک مت ٹھہراؤ جو تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد1 صفحہ520 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

(خطبہ جمعہ 26؍جولائی 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سٹراسبرگ فرانس میں جماعت کی تبلیغی سرگرمیاں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2022