• 29 اپریل, 2024

دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 33)

دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 33

جہاں اسباب غیر مؤثر ہوں وہاں دعا سے کام لے

خدا تعالےٰ کی ان صفاتِ ربّ، رحمٰن، رحیم، مالک یوم الدین پر توجہ کی جاوے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسا عجیب خدا ہے۔ پھر جن کا ربّ ایسا ہو کیا وہ کبھی نامراد اور محروم رہ سکتا ہے؟ ربّ کے لفظ سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دوسرے عالم میں بھی ربوبیت کام کرتی رہے گی۔ جہاں اسباب غیر موثر ہوں وہاں دعا سے کام لے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ249 ایڈیشن 1984ء)

دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ
سے کام نہیں لینا چاہئے

دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لئے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے(جو کہ دراصل سب سے مقدم ہے اور جس کی تعلیم خدا تعالیٰ نے بھی دی ہے، بحوالہ البدر) وہ دعا ہے اس لئے جس قدر ہو سکے دعا کرو۔ یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرّب اور مفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن: 61) تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لئے قبول کروں گا۔ دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہیئے۔ دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نہیں اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہوسکتا ہے۔

بلکہ یہ فخر اور ناز صرف صرف اسلام ہی کو ہے دوسرے مذاہب اس سے بکلی بے بہرہ ہیں۔ مثلاً عیسائیوں نے جب یہ سمجھ لیا ہےکہ ایک انسان (جس کو انہوں نے خدا مان لیا) نے ہمارے لئے قربانی دے دی ہے۔ انہوں نے اس پر بھروسہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ ہمارے سارے گناہ اس نے اٹھالئے ہیں۔ پھر وہ کونسا امر ہے جو اس کو دعا کے لئے تحریک کرے گا۔ ناممکن ہے کہ وہ گدازشِ دل کے ساتھ دعا کرے۔ دعا تو وہ کرتا ہے جو اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کو سمجھتا ہے لیکن جو شخص اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتا ہے وہ دعا کیوں کرے گا۔ اس نے تو پہلے ہی سمجھ لیا ہےکہ گناہ دوسرے شخص نے اٹھالئے ہیں اور اس طرح پر اس کے ذمہ کوئی جوابدہی نہیں تو اس کے دل میں تحریک کس طرح ہو گی۔ اس نے اور شئے پر بھروسہ کر لیا ہے اور اس طرح پر اس طریق سے جو دُعا کا طریق ہے وہ دُور چلا گیا ہے۔

غرض ایک عیسائی کے نزدیک دعا بالکل بے سود ہے اور وہ اس پر عمل نہیں کر سکتا۔ اس کے دل میں وہ رقّت اور جوش جو دعا کےلئے حرکت پیدا کرتا ہے نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح پر ایک آریہ جوتناسخ کا قائل ہے اور سمجھتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہو سکتی اور کسی طرح پر اس کے گناہ معاف نہیں ہو سکتے وہ دُعا کیوں کرے گا؟ اس نے تو یہ یقین کیا ہوا ہے کہ جُونوں کے چکر میں جانا ضروری ہے اور بیل۔ گھوڑا۔ گدھا۔ گائے۔ کُتّا۔ سؤر وغیرہ بننا ہے۔ وہ اس راہ کی طرف آئے گا ہی نہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے۔

مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دُعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی رُوح پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الُوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لئے قوی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ حالت میسّر آجاوے تو یقینا ً سمجھو کہ باب اجابت اس کے لئے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کے لئے عطا ہوتی ہے یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے۔

مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت اور حالت سے محض ناواقف ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہو گئے ہیں کیونکہ وہ ان تاثیرات کو نہیں پاتے اور منکر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔ پھر دعا کی کیا حاجت ہے۔ مگر میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تو نِرا بہانہ ہے انہیں چونکہ دعا کا تجربہ نہیں اس کی تاثیرات پر اطلاع نہیں اس لئے اس طرح کہہ دیتے ہیں۔ ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں؟ خطرناک امراض میں مبتلا ہوتے ہیں تو طبیب کی طرف دوڑے جاتے ہیں بلکہ میں سچ کہتا ہوں کہ سب سے زیادہ چارہ کرنے والے یہی ہوتے ہیں۔ سیّد احمد خاں بھی دعا کے منکر تھے۔ لیکن جب اُن کا پیشاب بند ہوا تو دہلی سے معالج ڈاکٹر کو بُلایا۔ یہ نہ سمجھ لیا کہ خود بخود ہی پیشاب کھُل جاوے گا۔ حالانکہ وہی خدا ہے جس کے ملکوت میں ظاہری دنیا ہے جبکہ دوسرے اشیاء میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ باطنی دنیا میں تاثیرات نہ ہوں۔ جن میں سے دُعا ایک زبردست چیز ہے۔ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قضا و قدر میں سب کچھ ہے مگر کوئی یہ تو بتائے کہ خدا تعالیٰ نے وہ فہرست کس کو دی ہے جس سے معلوم ہو جاوے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ان اسرار پر کوئی فتح نہیں پا سکتا۔ ظاہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص قبض سے بیمار ہے تو تربد یا کسٹرائیل جب اس کو دیا جاوے گا تو اسے اسہال آ جاویں گے۔ اور قبض کھُل جائے گی۔ کیا یہ اس امر کا بیّن ثبوت نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیرات رکھی ہوئی ہیں۔

اسی طرح پر اَور تدابیر کرنے والے ہیں۔ مثلاً زراعت کرنے والے اور یہی معالجات کرنے والے وہ خوب جانتے ہیں کہ ان تدابیر کی وجہ سے اُنہوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اور اشیاء میں مختلف اثر دیکھے ہیں۔ پھر جبکہ ان چیزوں میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دعاؤں میں جو وہ بھی مخفی اسباب اور تدابیر ہیں اثر نہ ہوں؟ اثر ہیں اور ضرور ہیں لیکن تھوڑے لوگ ہیں جو ان تاثیرات سے واقف اور آشنا ہیں اس لئے انکار کر بیٹھتے ہیں۔ میں یقیناً جانتا ہوں کہ چونکہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو اس نقطہ سے جہاں دُعا اثر کرتی ہے دُور رہ جاتے ہیں اور وہ تھک کر دُعا چھوڑ دیتے ہیں اور خود ہی یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہے میں کہتا ہوں کہ یہ تو اُن کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے۔ جب تک کافی وزن نہ ہو خواہ زہر ہو یا تریاق اس کا اثر نہیں ہوتا۔ کسی کو بھوک لگی ہوئی ہو اور وہ چاہے کہ ایک دانہ سے پیٹ بھر لے یا تولہ بھر غذا کھا لے تو کیا ہو سکتاہے کہ وہ سیر ہو جاوے؟ کبھی نہیں۔ اسی طرح جس کو پیاس لگی ہوئی ہے ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس کب بُجھ سکتی ہے۔ بلکہ سیر ہونے کے لئے چاہیئے کہ وہ کافی غذا کھاوے اور پیاس بجھانے کے واسطے لازم ہے کہ کافی پانی پیوے۔ تب جاکر اس کی تسلّی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح پر دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہیئے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ اس وقت ہٹنا نہیں چاہیئے جب تک دُعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے۔ جو لوگ تھک جاتے اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے۔ میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے۔ اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں خیالی بات نہیں۔ جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو۔ اﷲ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اسے آسان کر دیتا ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ دعا بڑی زبردست اثر والی چیز ہے۔ بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے۔ دنیا کی تنگیاں مشکلات اس سے دُور ہوتی ہیں۔ دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے اور خدا تعالےٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے۔ گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے۔ بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پر ایمان ہے کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خد اہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ261-266 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

سٹراسبرگ فرانس میں جماعت کی تبلیغی سرگرمیاں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2022