• 29 اپریل, 2024

بگ بینگ سے بگ کرنچ تک قرآن اور سائنس کی روسے (قسط سوم- آخری)

بگ بینگ سے بگ کرنچ تک
قرآن اور سائنس کی روسے
قسط سوم- آخری

تسلسل کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن موٴرخہ 11؍جون 2022ء

بگ بینگ سے آگے؟ Beyond the Big Bang
از سر نو جنم لینے والی کائنات کا خیالی نقشہ

تقریباً تمام ماہر فلکیات اس بات پر تو متفق ہیں کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا یہ ایک معمہ ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے پاس تین ہی ممکنات ہیں۔ یا تو کائنات ہمیشہ ہی کھلی رہے۔ یعنی Open Universe. یا یہ کہ یہ کائنات چپٹی ہے یعنی Flat Universe یا پھر بند کائنات یعنی Close Universe۔

Open Universe کے منظر نامے پر یہ کائنات مستقل طور پر پھیلتی رہے گی اور جیسے جیسے یہ پھیلتی جائے گی مادہ لطیف سے لطیف ہوکر پھیلتا چلا جائے گا اور بالآخر کہکشائیں اپنامزید نئے ستارے بنانے والا خام مال ختم Exhaust کردیں گی۔ اور موجود ستارے بجھنا شروع کر دیں گے۔اور کہکشائیں بجائے آگ کے بگولوں کے مٹی اور مردہ ستاروں سے بھرے ہوئے تابوتوں میں بدل جائیں گی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کائنات اندھیروں میں ڈوب جائے گی اور اتنی ٹھنڈی ہو چکی ہو گی کہ بدقسمتی سے ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔

جہاں تک چپٹی کائنات کا تعلق ہے آپ ایک کیرم کی گوٹی کو دیکھ لیں کہ اس کوآپ انرجی دیتے ہیں اور وہ لکڑی کے تختے پر سلائڈ کرتی ہے۔ اسی طرح کی ایک لا متناہی لمبی سطح ذہن میں لائیں جس پر ماربلز رول کر رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ رگڑ سے وہ آہستہ ضرور ہو جائیں لیکن وہ ایک لمبے عرصہ تک اس کے اوپر چلتے رہیں اور بالآخر آرام سے کہیں کھڑے ہو جائیں۔ یہ ہے وہ نقشہ فلیٹ کائنات کا۔ بگ بینگ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تمام انرجی ختم ہو جائے گی اور ایک توازن پیدا ہو گا اور پھر مستقبل بعید میں کہیں جا کر رک جائے گی۔ یہ بھی اوپن یونیورس کی ہی ایک اور قسم بن جاتی ہے کیونکہ حقیقتاً اس مقام تک پہنچنے کے لئے ایک لمبا اور لامتناہی عرصہ لگے گا۔

جہاں تک Closed Universe کا تعلق ہے تو آپ نے bungee jumpers کو دیکھا ہو گا۔ ان کے ساتھ ایک elastic cord بندھا ہوتا ہے۔ جب وہ چھلانگ لگاتے ہیں تو پہلے تو ان کی رفتار بہت تیزی سے بڑھتی ہے لیکن جیسے ہی وہ اس رسی کو کھینچنا شروع کرتے ہیں جس سے وہ بندھے ہوتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کی رفتار کم ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ ایک لمحے کے لئے رکتا ہے just for a moment اور پھر چونکہ وہ رسی اس سے زیادہ ٹینشن نہیں لے سکتی آپ کو واپس جھٹکے کے ساتھ اوپر کھینچ لیتی ہے۔

ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ closed universe بالکل اسی طرح ہی کام کرے گی۔ اس کے پھیلاؤ کی رفتار کم ہو جائے گی یہاں تک کہ یہ اپنے maximum سائز تک پہنچ جائے گی اور پھر اس کی واپسی کا عمل شروع ہوگا۔ جیسے جیسے سائز کم ہو گا اس کی کثافت بڑھے گی یہ مزید گرم ہوتا چلا جائے گااور سائز کم ہوتے ہوتے واپس اپنے عدم تک پہنچ جائے گی۔ یعنی infinitely hot, infinitely dense singularity کی شکل اختیار کر لے گا۔ یعنی جہاں سے ہم چلے تھے واپس وہیں پہنچ جائیں گے۔

Closed universe آہستہ آہستہ بتدریج big crunch کی طرف بڑھے گی۔بگ بینگ کے بالکل مخالف۔

لیکن اس میں کتنی حقیقت ہے یا ہم کیسے جان پائیں کہ closed universe ہی ہمیں بگ کرنچ کی طرف لے جا رہی ہے۔ اوپن اور فلیٹ universe کیوں نہیں۔

تو اس کے لئے ماہرین فلکیات نے کئی قسم کے نظریات اور اندازے پیش کئے ہیں۔ انہیں قیاسی تخمینہ یا educated guesses کہہ سکتے ہیں۔

یہ جاننے کے لئے کہ کیا کائنات ہمیشہ کے لئے پھیلتی چلی جائے گی، کہیں رکے گی یا دوبارہ سکڑتی ہوئی واپس عدم تک آئے گی یہ جاننا ضروری ہے کہ دو بڑی قوتوں، کشش ثقل اور بگ بینگ کی قوتوں میں سے آ فاقی کھینچا تانی tug-of-war میں کونسی قوت جیتے گی۔ ایک تو بینگ پارٹ ہے بگ بینگ کا۔ یعنی وہ دھماکہ جس نے کائنات کوغلیل کی طرح چاروں طرف اچھال دیا۔ اور دوسری قوت ہے gravity یعنی کشش ثقل کی جس سے چیزیں ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ اگر کائنات میں gravity کی قوت زیادہ ہوگی اور پھیلاؤکی طاقت پر غالب ہو گی تو اس کا لازمی نتیجہ سکڑاؤ ہے اور اگر نہیں تو پھر یہ کائنات مسلسل وسعت پذیری کی طرف گامزن رہے گی۔

تو کیا ہم اس قوت کی صحیح طور پر پیمائش کر سکتے ہیں؟

گو ماہرین فلکیات یہ تو جانتے ہیں کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے لیکن وہ صحیح طور پر یہ پیمائش نہیں کر سکتے کہ اس پھیلاؤ کے لئے کونسی قوت زیادہ ذمہ وار ہے۔ بلکہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ کائنات کی Density یعنی کثافت معلوم کر لیں اور یہ جتنی زیادہ ہو گی اتنا ہی کشش ثقل بھی زیادہ ہو گی۔ اگر اس اصول کو دیکھیں تو اس کی کوئی حد تو ہونی چاہئے یعنی threshold – a critical limit اور یہ فیصلہ کرے گی کہ کیا کشش ثقل اتنی ہے کہ وہ پھیلاؤ کو روک کر ہر چیز کو واپس اپنے ارد گرد یا اپنی طرف کھینچنا شروع کر دے۔ اور پھیلنے کی بجائے سکڑنے کا عمل شروع ہو جائے۔ اس کے لئے ماہرین فلکیات نے حساب کےقوانین بھی بنائے ہیں۔

علم کائنات کے ماہرین کے مطابق اس وقت کہکشاؤں میں یعنی ستاروں اور سیاروں میں موجود مادہ اتنا نہیں ہے کہ اس سے پھیلاؤ کا عمل رک سکے۔ یعنی Open Universe کا نظریہ کہ کائنات مسلسل پھیلتی چلی جائے گی زیادہ مقبول ہونا چاہئے۔ لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات میں کچھ اس قسم کا مادہ بھی موجود ہے جو دیکھا نہیں جا سکتا۔ یہ وہ dark matter ہے جو شاید کائنات میں کشش ثقل کو اتنا بڑھانے کا باعث بن جائے کہ کائنات کے سکڑنے کے عمل کی وجہ ہو۔

حال ہی میں ماہرین فلکیات نے کچھ مشاہدات کئے ہیں جس سے پتہ چلا ہے کہ کائنات میں کوئی اور ایسی ان دیکھی چیز بھی ہے جسے dark energy کا نام دیا گیا ہے۔ کیا یہ dark energy کائنات کے انجام پر گہرا اثر مرتب کرے گی؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

کہتے ہیں کہ gravity کے برعکس، جو کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کو کم کرتی ہے dark energy اس کے پھیلاؤ میں ممد و معاون ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 73 فیصد dark energy ہے۔ dark matter اس کا 23 فیصد ہے اور عام مادہ۔ جو کہ ہم دیکھ سکتے ہیں۔ وہ معمولی سا صرف 4 فیصد ہے۔ اس قسم کے اعدادو شمار اور یہ کہ dark energy جو کہ ایک ایسی قوت مہیا کرتی ہے جو کائنات کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے۔ ہمارے لئے یہ کہنا آسان ہو گا کہ بگ کرنچ کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مشہور زمانہ سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے dark energy کے وجود کا پتہ آج سے ایک سو سال قبل 1917ء میں ہی لگا لیا تھا۔اگرچہ اس نے اس کو یہ نام نہیں دیا تھا اور بعد میں اس کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے اپنے اس نظریہ کو چھوڑ بھی دیا تھا۔ لیکن اب سائنسدان حیران ہیں کہ شاید آئن سٹائن درست ہی تھا؟ بہرحال اب ہم اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے کہ کچھ لوگ بگ کرنچ کے نظریہ کو اب بھی کیوں اتنی اہمیت دیتے ہیں اور یہ بھی دیکھیں گے کہ یہ محض کائنات کا اختتام ہی نہیں بلکہ ایک نئی کائنات کا آغاز بھی ہے۔

ظاہر ہے کائنات کے اختتام کے بارہ میں کوئی واضح پیشگوئی کرنا آسان بات نہیں ہے۔لیکن ایک لمحے کے لئے اگر خیال کر لیا جائے کہ کائنات کی density اپنی اس حد سے critical value سے جو کہ کائنات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کافی ہے، اس سےتجاوز کر چکی ہے۔ یہ بگ کرنچ کا سبب بن سکتا ہے جو کہ ایک لحاظ سے وی سی آر کے ریوائنڈ بٹن کو دبانے کے برابر ہے۔ اور جب gravity کائنات میں ہر چیز پر اثر انداز ہو گی تو کہکشاؤں کے جھنڈ ایک دوسر کے قریب آتے جائیں گے اور کہکشائیں ایک دوسرے میں ضم ہونا شروع ہوجائیں گی حتیٰ کہ اربوں سال بعد ایک بہت بڑی کہکشاں mega-galaxy معرض وجود میں آئے گی۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ یہ کہکشاں ایک بہت ہی بڑا کڑاہا ہے جس کے اندر ستارےتاش کے پتوں کی طرح ملائے جا رہے ہوں اور اس عمل میں وہ اتنی گرمی پیدا کریں کہ درجہ حرارت ہمارے سورج کے درجہ حرارت سے بھی بڑھ جائے اور آخرکار ستارے پھٹ جائیں اور اس سے بلیک ہولز جنم لیں پہلے ذرا آہستہ اور پھر تیزی کے ساتھ۔ اور جیسے جیسے اختتام قریب ہوتا جا ئے، یہ سیاہ شگاف ہر چیز کو تیزی کے ساتھ اپنے اندر کھینچ لیں۔ حتیٰ کہ یہ تمام بلیک ہولز ایک دوسرے میں ضم کر جائیں اور ایک بہت ہی بڑا دیو ہیکل جیسا بلیک ہول بن جائے جو کہ ساری کائنات کو اپنے اندر کھینچ کر اس طرح بند کرلے جیسے drawstring bag کی ڈوری کھینچ کر بیگ بند ہو جاتا ہے۔ آخرکا ر کچھ بھی نہیں رہے گا سوائے ایک super-hot, super-dense singularity کے۔ جو کہ ایک اور کائنات کے لئے بیج ہوگا۔ بہت سے سائنسدان اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ بیج ’’big bounce‘‘ میں دوبارہ اُگے گا اور سارا پراسس پھرسے شروع ہوجائے گا۔

کیا ہی خوب تفسیر کی ہے سائنسدانوں نے اس قرآنی ارشاد کی کہ:

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ

(الانبیاء: 105)

جس دن ہم آسمان کو لپىٹ دىں گے جىسے دفتر تحرىروں کو لپىٹتے ہىں جس طرح ہم نے پہلى تخلىق کا آغاز کىا تھا اس کا اعادہ کرىں گے ىہ وعدہ ہم پر فرض ہے ىقىناً ہم ىہ کر گزرنے والے ہىں۔

اس آیت میں زمین و آسمان کی صف لپیٹ دینے کا ذکر ہے۔ اور ساتھ ہی یہ ذکر بھی فرما دیا گیا ہے یہ ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ اسی کائنات سے جو کہ عدم میں ڈوب جائے گی، نئی کائنات پیدا کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اس کا اعادہ کرتا رہے۔

(تعارفی نوٹ سورۃ الانبیاء بحوالہ قرآن کریم اردو ترجمہ کے ساتھ از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ542)

اس کو اگر قرآن میں سورۃ الانبیاء کی آیت 31کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے جس میں کائنات کے آغاز کا ذکر ملتا ہے تو ایک بڑی خاص پیشگوئی کے ساتھ اس کا ذکر ہے کہ اس کے مشاہداتی ثبوت غیر مسلمانوں کے ذریعہ اکٹھا ہوں گے اور اس آیت کا خاتمہ بھی انہیں الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہ سارا کچھ جاننے کے بعد بھی کیا تم ایمان نہیں لاؤ گے؟

آخری بلیک ہول کائنات کے بچے کھچے مادہ کو نگل جائے گا۔ جونہی یہ مادہ واقعاتی افق (Event Horizon) کے قریب پہنچتا ہے تو سکڑ کر ایک فیتے کی شکل اختیار کر جاتا ہے جو اس گڑھے میں غرق ہونے سے پہلے، گڑھے کی گردش کے باعث اس کے گرد چکر لگانے لگتا ہے۔ اس سے انسان کے ذہن میں فوراً ایک کاتب کے گول پارچے لپیٹنے کا تصور ابھرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں کائنات کے اختتام کو کاتب کے بھی کھاتوں کے لپیٹنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ زاویائی معیار حرکت Angular Momentum کی بہترین عکاسی کرتی ہے جب یہ کائنات ایک باریک ربن کی طرح گھومتے ہوئے بلیک ہول (قعراء سودا) میں داخل ہو تی چلی جاتی ہے۔ گھومتا ہؤا ستارہ اپنی ہی کشش ثقل کی وجہ سے چھوٹا ہوتے ہوئےاور زمان و مکان کی ہیئت کو تبدیل کرتے ہوئے ایک گھومتے ہوئے بلیک ہول (قعرا ءسودا) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بلیک ہول(قعرا سودا) کے گرد کشش ثقل کی فصیل بن جاتی ہے جس میں سے روشنی تک باہر نہیں آسکتی۔ اس کے قریب ہر طرح کا مادہ اس کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اور جوں جوں خلا سے مادہ اس میں گرتاہے توں توں کشش ثقل اور برقی مقناطیسی Electromagnetic دباؤ میں اضافہ کے باعث یہ مادہ ایک ربن کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بجائے کسی اور شکل میں تبدیل ہونے کے،تیزی کے ساتھ گھومتے ہوئے بلیک ہول کے گرد لپیٹا جاتا ہے۔

اس آیت میں یہ پیشگوئی بھی فرما دی گئی ہے کہ ایک طرف سے بلیک ہول میں داخل ہونے کے بعد یہ مادہ ایک نئی کائنات کی صورت میں دوسری طرف سے برآمد ہو گا۔ اس آیت میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ بلیک ہول (کالا شگاف) میں ڈوب جانے کے بعد اِس کائنات سے ایک نئی کائنات پیدا کی جائے گی۔ کائنات از سر نو ایک وائٹ ہول (White Hole) سے دوبارہ جنم لے گی اور ایک صبح نو کا آغاز ہوگا۔ وائٹ ہول دراصل ایک سائنسی اصطلاح ہے جو اسی قسم کے تخلیقی واقعہ پر اطلاق پاتی ہے۔ یہ بعینہٖ سائنسی تصریح تو نہیں ہے بلکہ از سر نو جنم لینے والی کائنات کا خیالی نقشہ ہے۔

(تخلیق کائنات کا اعادہ، تصویری تصریح، الہام عقل علم اور سچائی از حضرت مرزا طاہر احمدؒ صفحہ254-255)

الغرض قرآن کریم کی اس آیت میں ایک نئی کائنات کی تخلیق کا وعدہ دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں موجود اس عظیم دعویٰ کی تصدیق ابھی موجودہ انسانی علم کی دسترس سے باہر ہے گو اس بارہ میں بعض مفروضے اس سمت میں رہنمائی کرتے نظر آ تے ہیں۔ لیکن یہ جان کر ہر کوئی حیرت کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے کہ یہ علم عرب کے صحراء میں ایک اُمّی انسان کو ساتویں صدی عیسوی میں وحی کیا گیا تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’بلیک ہول میں گم کائنات ایک بار پھر اندھیرے سے باہر آ جائے گی اور تخلیق کا یہ عمل ایک بار پھر شروع ہو جائے گا۔قرآن کریم کے مطابق کائنات کے سکڑنے اور پھیلنے کا عمل ایک جاری عمل ہے۔ تخلیق کے آغازاور اس کے انجام سے متعلق قرآنی نظریہ بلا شبہ غیر معمولی شان کا حامل ہے….. لیکن یہ دیکھ کر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ تخلیق سے دہرائے جانے کے متعلق یہ اتنے ترقی یافتہ نظریات آج سے چودہ سو سال قبل صحرائے عرب کے اُمی ﷺ پر بذریعہ وحی منکشف فرمائے گئےتھے۔‘‘

(قرآن کریم اور کائنات۔ بحوالہ الہام، عقل، علم اور سچائی از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ264-265)

اس ضمن میں درج ذیل آیات بھی پیش کی جاتی ہے۔

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۷۶﴾ وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ﴿۷۷﴾

(الواقعہ: 76-77)

مفردات میں مَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ سے مراد ستاروں کی منازل لیا گیا ہے۔ عربی میں مَوَاقِعَ کا مطلب ٹوٹنا کے اور ستاروں کے گرنے کی جگہ بھی لیا گیا ہے۔ مَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ سے مرادستاروں کے جھرمٹ یا Shooting of stars کے بھی کئے جاتے ہیں۔

(قرآن کریم کے مشکل الفاظ کے معنی ٰاز مولانا بشیر احمد قمر)

یہاں یہ بات اہم ہے کہ کائنات میں ایسے مقامات موجود ہیں جنہیں سائنسدان ’’ستاروں کی منازل‘‘ یا سفید غار یا شگاف (White Holes) یا کوثرز Quasars سیاہ غار (Black Holes) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ گو یہ جگہیں یا مواقع ستاروں کی خصوصیات تو نہیں رکھتیں۔

وائٹ ہول بے پناہ توانائیوں کا ذخیرہ ہوتا ہے جو ان توانائیوں کو کائنات میں مختلف مقامات کی طرف چھوڑی جاتی ہے جو لاکھوں نوری سالوں کے فاصلوں تک پہنچتی ہیں۔ یہ کوثریں اتنی قوت کی مالک ہوتی ہیں کہ یہ کہکشاؤں یا اربوں ستاروں کا جھرمٹ بناتی ہیں۔اور کہکشاؤں کا بیج تصور کی جاتی ہیں جن سے مزید اجرام فلکی نکلتے ہیں۔

جبکہ بلیک ہول ایک مرتا ہوا ایسا ستارہ ہے جس کا ثقلی انہدام اتنا شدید ہوتا ہے اور اس حد تک جاری رہتا ہے جہاں تمام مادہ اور توانائی ایک نہ نظر آنے والے نقطہ یا اکائی (Singularity) تک سکڑ جاتا ہے۔ یہ اس کے نزدیک سے گزرنے والی ہر چیز کو جس میں ستارے اور تابکاری شعائیں بھی شامل ہیں یعنی تمام مادی اشیاء اور وقت کو کھینچ کر اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔ یعنی اس کے قرب میں وقت بھی اچانک تحلیل ہو جاتا ہے۔دوسرے الفاظ میں بلیک ہول کو ایک ستارے کا پر اسرار مقبرہ کہا جا سکتا ہے۔جہاں ثقلی انہدام کے نتیجے میں ہر شے ان کی نزدیکی میں فنا ہو کر غائب ہو جاتی ہے۔

بلیک ہول کے بارہ میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ زمین سے ایک خاص فاصلہ پر موجود ہوتے ہیں اور انتہائی ثقلی قوت کے باعث ان تمام زائد توانائیوں، جو ستاروں کے جھرمٹوں اور ثریا سے نکلتی ہیں، کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔

کائنات کے اختتام کے بارہ میں صرف یہی ایک ہی نظریہ نہیں ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی کےپال سٹین ہارٹ Paul J. Steinhardt اور کیمبرج یونیورسٹی کے نیل ٹیور وک Neil Turok کی سربراہی میں چند ماہرین کائنات نے ابھی حال ہی میں یہ تحقیق کی ہے کہ big chill کو big crunch سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے خیال میں اس کائنات کا آغاز بگ بینگ سے ہوا جس کے بعد آہستہ آہستہ اس کائنات کا پھیلاؤ ہوا جس کے ساتھ بتدریج dark energy بننا شروع ہوئی۔ دراصل ہم اس وقت اس سٹیج سے گزر رہے ہیں۔ جو آگے ہو گا اس کے بارہ میں کئی قسم کی قیاس آرائیاں ہیں۔لیکن ان کا خیال ہے کہ کائنات میں dark energy جمع ہوتی چلی جائے گی اور جیسے جیسے یہ ہو گا کائنات کے پھیلاؤ میں مزید تیزی آتی چلی جائے گی۔ اور یہ پھیلاؤ کہیں رکے گا نہیں بلکہ کھربوں سال تک جاری رہے گا یہاں تک کہ کائنات میں موجود تمام مادہ اور توانائی اس حد تک پھیل جائے گا کہ ہماری کائنات ٹوٹ کر کئی کائناتوں میں بکھر جائے گی۔ اور یہ جو پر اسرار dark energy ہے واپس ان کائناتوں میں عام مادہ اور توانائی میں بدل جائے گی۔ جو کہ کئی اور بگ بینگ کا محرک بن جائے گا اور پھیلاؤ کے ایک اور دور کا دوبارہ آغاز ہو گا۔

بہرحال تین نظریات ہیں کائنات کے اختتام کے حوالے سے جو کہ سائنسدان پیش کرتے ہیں:
بگ کرنچ جس کے مطابق یہ کائنات compress ہوتے ہوئے دوبارہ اس اکائی تک پہنچ جائے گی جس سے اس کا آغاز ہوا تھا۔

دوسرے نمبر پر ہے the big rip جس کے مطابق ہماری کائنات پھیلتی ہی جائے گی اور بالآخر پھٹ کرمختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی یعنی eventually rips apart۔

اور تیسرے نمبر پر ہے the big freeze جس میں کائنات پھیلتی جائے گی۔ ایک وقت آئے گا کہ ستاروں کے بننے کا عمل بند ہو جائے گا No more star formation اور پیچھےصرف بلیک ہولز ہی رہ جائیں گے۔

اگر کائنات کے پھیلاؤ اور اس کے خاتمہ کے بارہ میں میری یہ گفتگو کسی کے لئے مایوسی کا سبب بنی ہے تو تسلی رکھیں کہ کائنات کے اختتام کا تعین شاید اربوں نہیں بلکہ کھربوں سال تک کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس کافی وقت ہے کہ ہم ان چیزوں پر زیادہ توجہ دیں جو کہ زیادہ یقینی ہیں یعنی کہ ہماری اپنی زندگی، ہماری پیدائش، اس کا مقصد، ہماری پرورش اوراس زندگی کے بعد حیات بعد الموت۔

(پروفیسر مجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

سٹراسبرگ فرانس میں جماعت کی تبلیغی سرگرمیاں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2022