• 29 اپریل, 2024

اطاعت خلافت، کامرانی کی کلید (قسط 2)

اطاعت خلافت، کامرانی کی کلید
قسط 2

تسلسل کے لئے دیکھیں قسط 1 الفضل آن لائن موٴرخہ 21؍جون 2022ء

بعد کے حالات وواقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ دراصل صلح حدیبیہ ہی اس فتح عظیم کی جانب پہلا قدم تھا جس کی بشارت رب کریم نے دی تھی۔ اسی طرح ایک اور واقعہ میں فتح شام کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ 13؍ہجری میں رومیوں میں کئی اطراف سے لشکر کشی کی گئی۔ ایک دستہ کے قائد حضرت یزید بن ابوسفیان تھے۔ ابوسفیان کے ایک بیٹے کا نام بھی یزید تھا، یہ پہلے فوت ہو گئے تھے، جو اردن کے مشرق کی طرف سے حملہ آور ہوئے۔ دوسرے کے حضرت شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہ تھے جو بَلْقَاء کی طرف سے آگے بڑھے۔ تیسرے کے قائد حضرت عمرو بن عاصؓ تھے جو فلسطین کی طرف سے شام میں داخل ہوئے۔ چوتھے دستے کے قائد حضرت ابوعبیدہ بن جَراحؓ  تھے جو حِمص کی طرف بڑھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ جب یہ سب ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ سپہ سالار ہوں گے۔ ہر لشکر چار ہزار پر مشتمل تھا جبکہ حضرت ابوعبیدہؓ کا لشکر آٹھ ہزار کا تھا۔ جب لشکر روانہ ہونے لگے تو حضرت ابوبکرؓ نے قائدین لشکر کو فرمایا دیکھو! نہ اپنے پر تنگی وارد کرنا نہ اپنے ساتھیوں پر۔ اپنی قوم اور ساتھیوں پر ناراضگی کا اظہار نہ کرنا۔ ان سے مشورے کرنا اور انصاف سے کام لینا۔ ظلم و جور سے دور رہنا کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتا اور کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھتا۔ اور جب تمہاری دشمن سے مڈھ بھیڑ ہو جائے تو دشمن کو پیٹھ نہیں دکھانا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اس دن پیٹھ پھیرے گا اس پر خدا کا غضب ٹوٹے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا سوائے اس کے کہ جو لڑائی کے لیے جگہ بدلتا ہے یا اپنے ساتھیوں سے رابطہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ قرآن کریم میں سورۂ انفال میں آیت سترہ میں یہ لکھا ہوا ہے۔ پھر فرمایا کہ دیکھو! جب تم دشمن پر غلبہ پاؤ تو کسی بچے، بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا، کسی جانور کو ہلاک نہ کرنا، عہد شکنی نہ کرنا، معاہدہ کر کے اسے خودنہ توڑنا۔

حضرت ابوعبیدہؓ نے سب سے پہلے شام کے شہر مآب کو فتح کیا۔ وہاں کے باشندوں نے جزیہ کی شرط پر صلح کر لی۔ اس کے بعد آپؓ نے جَابِیَہ کا رخ کیا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ رومیوں کا بڑا لشکر مقابلے کے لیے تیار ہے۔ اس پر حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں مزید مدد کے لیے درخواست کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ جواس وقت عراق کی مہم پر مامور تھے ان سے فرمایا کہ نصف لشکر حضرت مثنّٰی بن حارثؓ کی قیادت میں چھوڑ کر تم حضرت ابوعبیدہؓ کی مدد کو پہنچ جاؤ اور حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو خط لکھا کہ مَیں نے خالد کو امیر مقرر کیا ہے اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ تم اس سے بہتر اور افضل ہو۔ پورے خط کا متن یہ ہے کہ اللہ کے بندے عتیق بن ابوقُحَافہ۔ عتیق حضرت ابوبکرؓ کا اصل نام تھا اور ابوقحافہ ان کے والد کا نام تھا۔

اللہ کے بندے عتیق بن ابو قحافہ کا خط ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کے نام۔ تجھ پر خدا کی سلامتی ہو۔ مَیں نے شام کی فوجوں کی کمان خالد کے سپرد کی ہے۔ آپ اس کی مخالفت نہ کرنا اور سننا اور اطاعت کرنا۔ مَیں نے تمہیں اس پر والی مقرر کیا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ تم اس سے افضل ہو لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں، خالد بن ولیدؓ میں، فنِ حرب کی صلاحیت یعنی جنگی معاملات کی صلاحیت تمہاری نسبت بہت زیادہ ہے۔ اللہ مجھے اور تمہیں صحیح راہ پر گامزن رکھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ لکھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے حِیرہ، عراق میں ایک شہر کا نام ہے وہاں سے حضرت ابوعبیدہؓ کو خط لکھا کہ اللہ کی آپؓ پر سلامتی ہو۔ مجھے حضرت ابوبکرؓ نے شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا ہے اور فوجوں کی قیادت میرے سپرد فرمائی ہے۔ خدا کی قسم! مَیں نے اس کا کبھی مطالبہ نہیں کیا اور نہ میری خواہش تھی۔ آپؓ کی وہی حیثیت ہو گی جو پہلے ہے۔ ہم آپؓ کی نافرمانی نہیں کریں گے اور نہ آپؓ کو نظر انداز کر کے کوئی فیصلہ کریں گے۔ آپؓ مسلمانوں کے سردار ہیں۔ آپؓ کی فضیلت کا ہم انکار نہیں کرتے اور نہ آپؓ کے مشورے سے مستغنی ہو سکتے ہیں۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد2 صفحہ 19تا 21) (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ804، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء) (سیر الصحابہ جلد4 صفحہ457، 459 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) (فرہنگ سیرت صفحہ110 زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی 2003ء) یہ دیکھیں۔ یہ ہے مومنانہ شان۔ دونوں طرف سے کس طرح عاجزانہ طور پر اطاعت کا اظہار کیا گیا ہے۔

اسی طرح ایک واقعہ حضرت خالد بن ولیدکی اطاعت و فرمانبرادری کے حوالے سے ملتا ہے جنہیں خود رسول کریم ؐ نے سیف اللہ کا خطاب عطا کیا تھا۔ جو اسلام لانے کے بعد واقعتاً دشمنوں کے لئے ننگی تلوار کی طرح تھے جو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے باعث جنگ کا پانسہ پلٹنے میں ماہر سمجھے جاتے تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ شام کے علاقہ میں مسلم افواج کے کمانڈر انچیف تھے لیکن حضرت عمر فاروق ؓنے خلیفہ بننے کے بعد بعض مصالح کی وجہ سے آپؓ کو معزول کرکے حضرت ابوعبیدہ بن الجرّاحؓ کو کمانڈرانچیف مقرر فرما دیا۔ جب یہ اطلاع خالد بن ولیدؓ کو ملی تو آپ نے اطاعتِ خلافت کا شاندار نمونہ پیش کرتے ہوئے خود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ خلیفۃالرسول کی طرف سے ابوعبیدہ بن الجرّاح (اَمینُ الامّت) سپہ سالار مقرر ہوئے ہیں ان کی اطاعت کرو۔ آپؓ خود چل کر ابوعبیدہ کے پاس گئے اور انہیں سپہ سالاری سونپ دی۔ عسکری تاریخ میں شاذ ہی ایسی مثال ملے گی لیکن یہ سب خلافت کی اطاعت کے سبب ممکن ہوا کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ ساری کامیابیوں کا دارومدار اطاعتِ خلافت میں ہے۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے ’’یرموک کی فتح سے چند روز قبل حضرت ابوبکرؓ کا وصال ہو گیا، آپؓ کی وفات ہو گئی اور حضرت عمرؓ خلیفہ منتخب ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے شام کی نگرانی اور فوجوں کی قیادت حضرت ابوعبیدہؓ کے سپرد کی۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ کو حضرت عمرؓ کی اس تقریر کا خط پہنچا تو اس وقت جنگ پورے زوروں پر تھی اس لیے حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کا اظہار نہ کیا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کو جب اس کا علم ہوا کیونکہ حضرت خالد بن ولیدؓ اس وقت کمانڈر تھے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ نے اس کو کیوں چھپائے رکھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا اس لیے کہ ہم دشمن کے بالمقابل تھے اور مَیں کسی طرح آپ کی دل شکنی نہیں چاہتا تھا۔ جب مسلمانوں کو فتح ہوئی تو حضرت خالد کا لشکر عراق واپس جانے لگا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت خالدؓ کو کچھ دیر اپنے پاس روکے رکھا۔ جب حضرت خالدؓ روانہ ہونے لگے تو انہوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ اس امّت کے امین تمہارے والی ہیں یعنی حضرت ابوعبیدہؓ۔ اس پر ابوعبیدہؓ نے فرمایا مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ خالد بن ولید خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ غرض اس طرح محبت اور احترام کی فضا میں دونوں قائد ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔

(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف جلد2 صفحہ26-27 الفضل انٹر نیشنل سیرت النبیؐ نمبر 27؍اکتوبر تا 03؍نومبر 2020ء صفحہ 5تا9)

صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں ایک چیز ہمیں نہایت واضح نظر آتی ہے اوروہ یہ کہ وہ خلفاء اور امراء کی اطاعت سے کسی صورت میں بھی جی نہ چراتے تھے۔ اور اپنے علم و فضل کے باوجود ان کے ساتھ اختلاف کو گوارا نہ کرتے تھے۔ بلکہ ان کے پیچھے چل کر قومی وحدت کو برقرار رکھتے تھے اور یہی ایک چیز ہے جس نے اختلافات کے باوجود ان کے شیرازہ کو منتشرنہ ہونے دیا۔ اور من حیث القوم ان کو اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ اپنی کمی تعداد، غربت، بے بسی اور انتہائی کمزوری کے باوجود وہ بڑے بڑے طاقت ور دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب و کامران ہوتے تھے۔

اسی طرح ایک واقعہ ہمیں حضرت علی ؓ کے دور خلافت میں ملتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب رومی بادشاہ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی جنگ کی خبر معلوم کر کے اسلامی مملکت پر حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہؓ نے اسے لکھا کہ ہوشیار رہنا ہمارے آپس کے اختلاف سے دھوکہ نہ کھانا۔ اگر تم نے حملہ کیا تو حضرت علیؓ کی طرف سے جو پہلا جرنیل تمہارے مقابلہ کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ430)

آپؓ نے اس کا ذرا تفصیل سے ذکر اس طرح بھی بیان فرمایا ’’کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب روم کے بادشاہ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں اختلاف دیکھا تو اس نے چاہا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر بھیجے۔ اس وقت رومی سلطنت کی ایسی ہی طاقت تھی جیسی اس وقت امریکہ کی ہے۔ اس کی لشکر کشی کا ارادہ دیکھ کر ایک پادری نے جو بڑا ہوشیار تھا کہا بادشاہ سلامت آپ میری بات سن لیں اور لشکر کشی کرنے سے اجتناب کریں۔ یہ لوگ اگرچہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ کے مقابلے میں متحد ہو جائیں گے اور باہمی اختلاف کو بھول جائیں گے۔ پھر اس نے کہا کہ آپ کتے منگوائیں اور انہیں ایک عرصہ تک بھوکا رکھیں۔ پھر ان کے آگے گوشت ڈالیں وہ آپس میں لڑنے لگ جائیں گے۔ اگر آپ انہی کتوں پر شیر چھوڑ دیں تو وہ دونوں اپنے اختلاف کو بھول کر شیر پر جھپٹ پڑیں گے۔ اس مثال سے اس نے یہ بتایا کہ تُو چاہتا ہے کہ اس وقت حضرت علی اور معاویہ کے اختلاف سے فائدہ اٹھا لے لیکن مَیں یہ بتا دیتا ہوں کہ جب بھی کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کا سوال پیدا ہو گا یہ دونوں اپنے باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے اور دشمن کے مقابلے میں متحد ہو جائیں گے اور ہوا بھی یہی۔ جب حضرت معاویہ کو روم کے بادشاہ کے ارادے کا علم ہوا تو آپ نے اسے پیغام بھیجا کہ تُو چاہتا ہے کہ ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرے لیکن مَیں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میری حضرت علی کے ساتھ بیشک لڑائی ہے لیکن اگر تمہارا لشکر حملہ آور ہوا تو حضرت علی کی طرف سے اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے جو سب سے پہلا جرنیل نکلے گا وہ میں ہوں گا۔‘‘ (مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات، انوار العلوم جلد25 صفحہ416-417) یہ تھا وہ پیغام جسے سن کر رومی بادشاہ نے وقتی طور پر لشکر کشی کا ارادہ ملتوی کردیا۔

اسلام کے دور آخر پر نگاہ ڈالیں تو تاریخ احمدیت ایسے بے شمار واقعات سے مزین ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول حاجی الحرمین حافظ حکیم مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی تو ساری زندگی اطاعت و فدائیت کے واقعات سے معمور ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پیارے مرید حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے بارے میں فرماتے ہیں۔ ’’مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں۔ کثرت مال کے ساتھ کچھ قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا۔ مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے … خدا تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے۔آمین ثم آمین

چہ خوش بُودے اگر ہر یک ز اُمت نور دیں بودے
ہمیں بُودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے

ترجمہ:کیا ہی اچھا ہوتا اگر قوم کا ہر فرد نورالدین بن جائے۔ مگریہ تب ہی ہو سکتاہے کہ جب ہر دل یقین کے نور سے بھر جائے۔

(نشان آسمانی، روحانی خزائین جلد4 صفحہ410-411)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ میں اطاعت و ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ فرماتے ہیں کہ ’’جن دنوں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد صاحب بیمار تھا۔ایک دفعہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو اس کے دیکھنے کے لئے گھر میں بلایا۔ اس وقت آپ صحن میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا۔ حضرت مولوی صاحبؓ آتے ہی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے۔ حضرت مسیح موعودؑنے فرمایا مولوی صاحب چارپائی پر بیٹھیں۔مولوی صاحب نے عرض کیا حضور! میں بیٹھا ہوں اور کچھ اونچے ہو گئے۔ اور ہاتھ چارپائی پر رکھ لیا مگر حضرت صاحب نے جب دوبارہ کہا تو مولوی صاحب اٹھ کر چارپائی کے ایک کنارہ پر پائنتی کے اوپر بیٹھ گئے۔اس روایت کے نیچے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کا نوٹ بایں الفاظ درج ہے ’’مولوی صاحب میں اطاعت و ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا‘‘ اللہ اللہ اطاعت آقا میں کیسا کمال ہے کہ وہ شخص جو کسی بڑے سے بڑے آدمی کے سامنے زمین پر بیٹھنے کے لئے طالب علمی کے زمانہ میں بھی تیار نہیں ہوتا تھا، دینی و دنیوی ترقیات کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے کے بعد بھی حضرت مسیح پاکؑ کے سامنے زمین پر بیٹھنے ہی میں سعادت عظمیٰ سمجھتا ہے۔

(حیات نور صفحہ188-189)

ایک مرتبہ آپ مطب میں بیٹھے تھے۔ ارد گرد لوگوں کا حلقہ تھا۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ مولوی صاحب! حضور یاد فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس طرح گھبراہٹ کے ساتھ اٹھے کہ پگڑی باندھتے جاتے تھے اور جوتا گھسیٹتے جاتے تھے۔ گویا دل میں یہ تھا کہ حضور کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔ پھر جب منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تم جانتے ہو نورالدین کا یہاں ایک معشوق ہوتا تھا جسے مرزا کہتے تھے۔ نورالدین اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔

(حیات نور ص188)

تو یہ نمونہ تھا ان لوگوں کا جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرما رکھا ہے۔

مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

یعنی ہم صحابہؓ جیسا کردار اختیار کریں گے ان کا رنگ چڑھائیں گے۔ محبت و عشق اور اس درجہ اطاعت کی مئے پئیں گے جو صحابہؓ نے پی تو اَخْزَی الْاَعَادِیْ دیکھنے کو ملے گا۔ یعنی ہمارا دشمن ذلیل اور رسوا ہوگا۔

حضرت مصلح موعود ؓ ایک موقع پر احباب جماعت کو اطاعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جس طرح حنین کی لڑائی کے موقع پر جب رسول کریم ﷺ کی طرف سے یہ آواز بلند کرائی گئی کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اور صحابہ بیتاب ہوکر اُس آواز کی طرف بھاگے بلکہ جن کے گھوڑے نہیں مُڑتے تھے انہوں نے اُن کی گردنیں کاٹ دیں او رپیدل دَوڑے۔ اسی طرح … وہی خدا جو اُس وقت فوجوں کے ساتھ تائید کرنے آیا آج میری مدد پر ہے اور اگر آج تم خلافت کی اطاعت کے نکتہ کو سمجھ لو تو تمہاری مدد کو بھی آئے گا۔ نصرت ہمیشہ اطاعت سے ملتی ہے۔ جب تک خلافت قائم رہے نظامی اطاعت پر اور جب خلافت مٹ جائے انفرادی اطاعت پر ایمان کی بنیاد ہوتی ہے۔ پس میں تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ خواہ تم کتنے عقلمند اور مدبر ہو، اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اورتم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کرسکتے۔ پس اگر تم خداتعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ اس کاکوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اٹھنا بیٹھنا کھڑا ہونا اور چلنا، تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو۔ بیشک میں نبی نہیں ہوں لیکن میں نبوت کے قدموں پر اور اس جگہ پر کھڑا ہوں۔ ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتاہے وہ یقینا نبی کی اطاعت سے باہر جاتا ہے۔ جو میرا جوأ اپنی گردن سے اُتارتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جوأ اُتارتا ہے۔ اور جو اِن کا جوأ اُتارتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کا جوأ اُتارتا ہے۔ اورجو آنحضرت ﷺ کا جوأ اُتارتا ہے وہ خداتعالیٰ کا جوأ اُتارتا ہے۔ میں بے شک انسان ہوں خدا نہیں ہوں مگر میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خداتعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔

(خطبات محمود جلد18صفحہ376تا377،الفضل 4ستمبر 1937)

(باقی کل ان شاء اللہ)

(درثمین احمد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

سٹراسبرگ فرانس میں جماعت کی تبلیغی سرگرمیاں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2022