• 27 اپریل, 2024

پھر سود کی وجہ سے معاشرے کا امن کس طرح برباد ہو رہا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پھر سود کی وجہ سے معاشرے کا امن کس طرح برباد ہو رہا ہے۔ جو غریب ہے وہ غربت کی چکی میں پستا چلا جاتا ہے۔ پیسنے والا اس سود کے پیسے سے اپنی تجوریاں بھر رہا ہوتا ہے۔ اور بظاہر بے تحاشہ پیسہ کمانے والا جو شخص ہے وہ اپنے خزانے بھر رہا ہوتا ہے، لیکن دل کا چین اور سکون ان میں نہیں ہوتا۔ کئی لوگ ہیں جو لکھتے ہیں اور کہتے ہیں بلکہ پاکستان میں مَیں نے دیکھے بھی ہیں کہ پیسوں کے باوجود راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ تو یہ عموماً سود ہی ہے جس نے ایک ملک کے معاشرے میں ملکی سطح پر بھی انفرادی سطح پر بھی پیسے کو ایک خاص طبقے کے گرد منتقل کر دیا ہے، ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ اور عموماً امیر ملکوں میں بھی جہاں بظاہر اچھے حالات ہیں، اسی سود کی وجہ سے تقریباً ہر شخص یا اکثریت قرض کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اس کو محسوس نہیں کرتے اور اپنی زندگی میں اس سے باہر نہیں نکل سکتے۔

گزشتہ دنوں میں یہاں ایک پروگرام تھا، یونیورسٹی میں ایک فنکشن تھا۔ یہ بات مَیں نے وہاں کی اور بتایا کہ یہ بھی ایک طرح کی غلامی ہے تو یونیورسٹی کے چانسلر سمیت بہت سے لوگوں نے اس کی تائید کی اور ان لوگوں کا اس تائید کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ یہ خدا کا کلام ہے جو سچائی سے پُر ہے اور اس کے احکامات پر عمل کئے بغیر دنیا کی نجات ہو ہی نہیں سکتی اور جس طرح مَیں نے کہا سود غلامی کی ایک قسم ہے اور غلامی میں کبھی محبتیں نہیں پنپ سکتیں۔ ہمیشہ نفرتیں اٹھیں گی اور امن برباد ہو گا۔ پھر ہمارے غریب ملک ہیں کہ جہاں سود پر قرضے لیتے ہیں عموماً سندھ وغیرہ میں توہندو اس کاروبار میں ہمیشہ زیادہ ہے لیکن بعض مسلمان بھی یہ کام کرتے ہیں اور مخصوص لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہیں اور یہ جوسود پر قرضے ہیں یہ تمام عمر اس قرض لینے والے کو بلکہ ان کی نسلوں کو بھی کبھی سر اٹھانے نہیں دیتے۔

ایک امریکن اکانومسٹ ہے اس نے ہندو پاکستان کی ریسرچ پہ لکھا تھاکہ یہ لوگ ایسے ہیں جو بظاہر زمیندار بھی ہیں، جائیدادوں والے بھی ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہیں قرض لے کر اور زندگی گزارتے ہیں قرض لے کر اور اس دنیا سے جب جاتے ہیں تب بھی قرض ہوتا ہے جو آگے اولادوں کوٹرانسفر ہو جاتا ہے۔ تو یہ سود ہی ہے جو ان کو اس مشکل میں گرفتار کئے ہوئے ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرنے والے ہوں تو بجائے یہ کہ نسلیں تک قرض کی زنجیروں میں جکڑیں اور پروان چڑھیں اور پھرآگے اگلی نسلوں کو ٹرانسفر کریں، بے چینی اور بے چارگی سے زندگی گزاریں وہ اس سے بچ سکتے ہیں۔ اور جب لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے، قرضوں میں جکڑے ہوتے ہیں تو پھر یہ کبھی نیک جذبات دوسروں کے لئے پیدا کرنے والے نہیں ہو سکتے خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کے یہ مقروض ہوتے ہیں۔ پھرغریب ملکوں میں جن میں بہت سے مسلمان ممالک شامل ہیں مثلاً پاکستان ہے ویسے تو اسلام کا بہت نام ہے۔ لیکن ان کی بھی سودی نظام سے جان نہیں چھوٹ سکی۔ سود کا جو بھی نام رکھ لیں۔ بعض جگہ انہوں نے کچھ تبدیلیاں کی ہیں لیکن عملی صورت سود دینے کی ہی ہے۔ یہاں بھی امیر طبقہ جب بینکوں سے قرض لیتا ہے تو ادائیگی نہیں کرتا اور کچھ عرصے کے بعد وہ بڑی بڑی رقمیں معاف ہو جاتی ہیں۔ لیکن غریب طبقہ جو ہے وہ پستا چلا جاتا ہے، ساری سختیاں اسی پر ہو رہی ہوتی ہیں اور یہ باتیں پھر غریبوں میں بے چینی پیدا کرتی ہیں اور کسی طبقے کی بے چینی سے معاشرے میں سلامتی اور امن نہیں رہ سکتا۔ تو جیسا کہ مَیں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی اس قدر ہے کہ غریب حقیقت میں پریشان ہے اور وہاں جو حالات ہیں اس وجہ سے امیر اور غریب کے فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ جب یہ فاصلے بڑھتے ہیں تو پھر امن اور سلامتی کی ضمانت اس معاشرے میں نہیں دی جا سکتی۔ پس جہاں پاکستان کے احمدی اپنے ملک کے لئے دعا کریں وہاں ہمارا بھی فرض ہے کہ جو پاکستان سے باہر دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے دعا کریں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جون 2007)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 22 جولائی 2020ء