• 19 اپریل, 2024

انفوڈیمک (افواہ سازی) بہت بڑی خیانت ہے

ہمارے معاشرہ میں افواہ سازی کا بازار ہر وقت گرم رہتا ہے۔ ساری دنیا میں یکم اپریل (اپریل فول) کو بڑی بھیانک، خطرناک اور تکلیف دہ جھوٹی خبریں بنا کر پھیلانے کا رجحان افواہ سازی کو ہوا دیتا ہے بلکہ آج کل الیکٹرانک میڈیا، خبروں کے افشاء میں بازی لے جانے کے چکروں میں من گھڑت خبریں نشر کرتا رہتا ہے۔ اس سلسلہ میں پرنٹ میڈیا کہیں سے بھی پیچھے نہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر کے ماحول میں آلودگی پیدا کردی ہے۔

افواہ سازی، جھوٹ پر ہمارا ادارہ گاہے بگاہے اسلامی تعلیم سے قارئین کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ خاکسارکو کسی نے ماہنامہ انصاراللہ بھارت کے شمارہ جون 2020ء میں شائع ہونےوالاایک مضمون بھجوایاہے۔جومکرم محمد سہیل سابق صوبائی امیر جماعت احمدی آندھرا پردیش حیدرآباد دکن کے رشحات قلم سے ہےاور اس کا عنوان ہے:

’’انفوڈیمک افواہ سازی بہت بڑی خیانت ہے‘‘

گو یہ مضمون اسلامی تعلیمات پر مشتمل ہے لیکن موصوف نے قارئین کی دلچسپی اور ان میںچاشنی پیدا کرنے کے لئے مضمون کو ایک جدّت دی ہے اور نیا رنگ دے کر پڑھنے والوں کو صرف پڑھنےکی حد تک نہیں بلکہ عمل کرنے کی بہت لطیف پیرایہ میں ترغیب بھی دلائی ہے۔

خاکسار جناب محمد سہیل اور ماہنامہ انصاراللہ انڈیا کے پیشگی شکریہ اور تعاون کے ساتھ اسے اداریہ کا رنگ دے کر اس مضمون کے کچھ حصے قارئین الفضل لندن آن لائن کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جناب محمد سہیل کو اس علمی و روحانی مائدہ تیار کرنے پر جزائے خیر دے اور ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دیتا چلے جائے۔ آپ لکھتے ہیں:

’’دسمبر 2019ء کے آخر میں دنیا کے سب سے بڑی آبادی والا ملک چین کے شہر وُہان میں شروع ہونے والی وبائی مرض کرونا وائرس نے انتہائی سرعت کے ساتھ دنیا کے 213 ممالک میں پھیل کر لوگوں میں ایک دہشت پیدا کر دی ہے۔ یہاں تک کہ عالمی صحت ادارہ کی طرف سے 11 مارچ 2020ء کو اسے عالمی وبا قرار دے دیا گیا۔

انفوڈيمك (cimedofni) کی اصطلاح

ظاہر ہے کہ وبائی ایّام میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افواہیں گردش میں آتی ہیں ۔ اس قسم کی افواہوں کے لئے بین الاقوامی ادارہ صحت (WHO) نے ایک نئی ٹرم متعارف کروائی ہے جسے ’’انفوڈیمک‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایپی ڈیمک (وبا) اور انفارمیشن (معلومات) کے امتزاج سے بننے والی اس ٹرم کی وضاحت کرتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ بعض اوقات کی وبا کی نسبت اس سے متعلق افواہیں اور غلط معلومات زیاده تیزی سے پھیلتی ہیں، جس سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ آج کورونا وائرس کا نام اور covid-19 کی ٹرم بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ خوف کی فضا دامن گیر اور عالمی ماحول سوگوار ہے۔ حکومتیں اپنے عوام کو اس وبا سے بچانے کے لئے ہر قسم کے اقدام اٹھانے میں کوشاں ہیں۔ کہیں کامیابی کی موہوم سی امید تو کہیں یہ جنگ زوروں پر ہے۔ نہیں کہا جاسکتا کہ کب تک یہ حالات رہیں گے، کتنی جانیں اس کا نوالہ بنیں گی اورکس کس نظام کی صف لپیٹ دی جائے گی۔فی الوقت یہ وباپھیلتی ہی جارہی ہے۔

ان تشویش ناک حالات کا تقاضا ہے کہ ہم سب یکجان ہو کر اس کے مقابلے پر آئیں ۔ ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر اپنی اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریاں پوری کریں۔ انسانیت کی بقا کی جنگ میں متحد ہوں،خوف کو دوربھگائیں، احتیاط کریں، درست معلومات حاصل کریں اور ہر فیک (fake) نیوز سے خودبھی دُور رہیں اور دوسروں کوبچائیں۔

اس وقت میڈیا کے ذریعہ ہماری رسائی دنیا جہان کی معلومات تک ہے لیکن ان نیوز میں سے سچی اور جھوٹی خبر کی تمیز کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہر خبر پر کان دھریں گے اورہر پیغام کو سوچے سمجھے بغیر آگے سینکڑوں لوگوں کو ارسال کرتے رہیں گے تو خود سکون میں ہوں گے نہ دوسروں کو سکون سے رہنے دیں گے۔

افواہ پھیلانا قابل سزا جرم ہے

چونکہ آج کل فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ جس میں روزانہ سینکڑوں برقی پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ اگر دیکھا جائےتو شایدان میں سے پانچ فیصد پیغامات بھی مفید یا ضروری نہ ہوں۔ بہت سارے لوگ یہ پیغامات آگے پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کورونا وبا کے ان ایام میں افواہیں پھیلانےکی وبابھی زوروں پر ہے اور بغیر کسی تصدیق کے تمام کی تمام معلومات روزانہ کی بنیاد پرسوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہیں۔

ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ نے ہمیں بلا تصدیق ہر بات آگے پھیلانے سےمنع فرمایا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے ہر بات کو شیئرکرنے میں کوئی وقار نہیں بلکہ کسی شخص کے جھوٹا ہو نے کی یہ کافی دلیل ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے بغیر تصدیق کئے آگے پہنچا دے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا۔ کَفٰی بِالْمَرءِ کذباً اَنْ یُّحُدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعِ (صحیح مسلم، المقدمۃ) کہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کافی دلیل ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا پھرے۔

افواہ پھیلانا خیانت کے مترادف ہے

معاشرہ میں رہنے والے ہر انسان کا حق ہے کہ اسے درست معلومات تک رسائی ہو ۔ جبکہ افواہ پھیلانے والا اس بنیادی حق کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور دوسروں کے حقوق میں دخل اندازی کر کے بددیانتی اور خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔

’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایک بات بیان کرو جسے وہ تو سچ جانے اورتم خود اس سے جھوٹ کہو۔

اس سے بڑی خیانت اور کیا ہوگی کہ لوگ آپ کی بات کوسچ سمجھ رہے ہوں جبکہ وہ بے بنیاد ہو۔ ایسا کر کے ہم اپنی بددیانتی پر مہر لگاتے اور دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول ﷺ نے مسلمان کی جامع تعریف فرمائی ہے۔

اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلَمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِهٖ وَيَدِہٖ

(متفق علیہ)

کہ مسلمان تو دراصل وہی جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔ اس حدیث کی ایک دوسری روایت میں مُسْلِمُوْنَ کی جگہ اَلنَّاسُ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ یعنی حقیقی مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے عامۃ الناس محفوظ رہیں۔

عصر حاضر میں لازم نہیں کہ ہم کسی کے سامنے جا کر اسے ہاتھ یا زبان سے تکلیف دیں ۔ بلکہ دور رہتے ہوئے اور آج کل کے حالات میں گھر میں رہتے ہوئے ہاتھوں میں پکڑے فون کے ذریعہ دوسروں کو زیادہ تکالیف پہنچانے کااہتمام کیاجاسکتا ہےجوشایدآمنےسامنےبھی ممکن نہ ہو۔ جدید وسائل کے ذریعہ ہزار ہا میل کی دوری تک ہمارے ہاتھ دوسروں کےگریبان تک پہنچنےلگےہیں۔ ہمارے آڈیوویڈیو پیغامات حدودو قیود سے باہر دوسروں کی آزادی میں گھسنے لگے ہیں۔

بغیرتحقیق کےہرایک کی بات پراعتبارکرتے چلےجانا۔ہرمیسج کو ہزاروں لوگوں تک آگے پہنچانے کی خودساختہ ڈیوٹی نبھانے کی کوشش میں لگےرہنا، بعض اوقات دوسروں کی تکلیف اور اپنے لئے ندامت کا باعث بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قبیح فعل سے روکنے کے لئے قرآن مجید میں ارشاد فر مایاکہ اے وہ لوگوجوایمان لائے ہو! تمہارے پاس اگر کوئی بد کردار کوئی خبر لائےتو (اس کی)چھان بین کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو۔ پھر تمہیں اپنے کئے پر پشیمان ہونا پڑے

(الحجرات: 7)

بنیادی حقوق کی پاسداری کرنے والے اس حکم پر عمل کر کے دوسروں کو بھی تکلیف سے بچا سکتے ہیں اور خودبھی قصوروارٹھہرکر نادم ہونے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو چند سیکنڈز میں موصول ہونے والے پیغامات کی تحقیق کرسکتےہیں۔ غلط پیغام فارورڈ کرکے گنہگار بننے اور شرمندہ ہونے سے بہتر ہے کہ چند سیکنڈ ز کی ریسرچ کرکے خبر کی حقیقت معلوم کر لی جائے۔

سچائی کو ترجیح دیں

قرآن مجید نے ہمیں ہر حال میں سچ کا دامن تھامے رکھنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ بلکہ ایساسچ جسے قول سدید کہا جا سکے۔ یعنی صاف سیدھی اورکھری بات۔ یہی ایک مومن کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا (الاحزاب:71) یعنی اور تم ہمیشہ صاف اورسیدھی بات کیا کرو۔

پھر ہمیں ایک قدم اور آگے چل کریہ سبق بھی دیا گیا کہ خواہ مخواه معاملات کی ٹوہ میں لگے رہنا اور کسی امر کے متعلق ایسا موقف اختیار کرنا جس کاہمیں علم نہ ہومناسب نہیں۔ الله تعالیٰ نے جو اعضاء ہمیں عطا کئے ہیں ان کےدرست استعمال اور کان، آنکھ اور دل وغیرہ کے متعلق سوال کئے جانے سے بھی خبردار کر دیا ہے۔ فرمایا۔ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۚ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُـوْلًا (بنی اسرائیل :37) یعنی اور وہ موقف اختیار نہ کر جس کا تجھے علم نہیں۔ یقیناً کان اور آنکھ اور دل میں سے ہر ایک سے متعلق پوچھا جائےگا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لَاتَقْفُ کے معنی ہیں لَا تَقُل جو صحابہ وتابعین سے ثابت ہیں۔ جس چیز کا علم نہ ہو وہ منہ سے نہ نکالو۔ آج کل ایسی بیباکی بڑھ رہی ہے کہ پالیٹکس اور اکانوی کے معنی تک نہیں جانتے اور اپنے اخبار اس کےلئے وقف کرنے پر بیٹھے ہیں۔

(حقائق الفرقان ، جلد دوم صفحہ535)

پھر ایسے لوگوں کو جو جھوٹ بولتے اور افواہیں پھیلاتے ہیں بڑی سخت وعید کی گئی ہے، انہیں لعنتی کہا گیا ہے۔ ایک سعید فطرت کیونکر خدا تعالیٰ کی لعنت مول لینا چاہے گا اور وہ بھی کسی ایسے معاملے میں جس سے کوئی نفع حاصل نہیں۔ جو صرف معاشرے میں بے چینی پیداکرسکتا اور دوسروں کے لئے نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا۔

اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینہ میں جھوٹی خبریں اڑاتے پھرتے ہیں باز نہیں آئیں گے تو ہم ضرور تجھے(ان کی عقوبت کے لئے ) ان کے پیچھے لگا دیں گے۔ پھر وہ اس (شہر) میں تیرے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑا۔ (یہ) دھتکارے ہوئے، جہاں کہیں بھی پائے جائیں پکڑ لئے جائیں اور اچھی طرح قتل کئے جائیں۔

(الاحزاب:62-61)

افواہ سازی مؤمن کے شایان شان نہیں

ایک مومن کی شان تو یہی ہے کہ وہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے اور ہرلمحہ اپنے رب کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اس جہان میں زندگی کے ایّام گزارے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔’’

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ 12)

اگرہماری سوچ اس نہج پرچلناشروع کردےتوکیسےممکن ہےکہ ہم ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلا کر اپنے جھوٹے ہونے کا ثبوت خودفراہم کرتے چلے جائیں۔ یقیناً جھوٹ اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ مومنین کا ہدف مقرر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُـمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران:103) ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائےہو! اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کےتقویٰ کا حق ہے اور ہر گزنہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔

روز مرہ زندگی میں ہمیشہ سچ کو فوقیت دینا، سچائی کا ساتھ دینا،سچوں اور صدیقوں کی حمایت میں کھڑا ہونا بھی مومنین کا امتیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُـوْنُـوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ (التوبہ:120) ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

عام طورپر اس آیت کامفہوم یہ لیاجاتاہےکہ صحبت صالحہ کے حصول کے لئے صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔ یقیناً یہ معنی بہت اعلی ہیں اورجماعت مومنین کو صحبت صالحین سے مستفید ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ تاہم اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اے مومنین کی جماعت ! الله کا تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کی حمایت کرنے کے لئے اور ان کا ساتھ دینے کے لئے ان کے ساتھ کھڑےہو جاؤ۔

اس لحاظ سے ان ایام میں ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے میں انتشار کو کم کرنے کے لئے خود تو کسی قسم کے جھوٹ کا حصہ نہ بنیں بلکہ جو درست اور اچھی خبریں ہیں صرف ان کا ساتھ دیں۔

اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ وَالَّـذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِـرَامًا (الفرقان :73) ترجمہ: اور یہ وہ (اللہ تعالیٰ کے نیک) بندے ہیں جو جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے۔

گواہی کی ایک قسم وہ ہے جو کسی مقدمہ وغیرہ میں دینا پڑتی ہے۔فی زمانہ گواہی کی ایک صورت یہ بھی پیداہوگئی ہےکہ جس پیغام کوہم اپنے سوشل میڈیاہینڈل یاموبائل فون وغیرہ سے آگے شیئر کرتے ہیں۔دراصل ہم اس کےگواہ بن جاتےہیں۔فون یا کمپیوٹر پر کی گئی ہماری ہر ایک کلک کا حساب رہتا ہے۔ گویا ہمارے دستخط ہو جاتے ہیں اور گواہیاں ثبت ہوتی جاتی ہیں۔ہم ان معلومات کےذمہ دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔

سچائی کس طرح نیکی کےبچے پیدا کرتی ہے اور جھوٹ کس طرح بُرائی کوجنم دیتا چلا جاتا ہے اس کی ایک جھلک حضرت محمد ﷺ کے اس ارشاد گرامی میں ہے۔

حضرت ابن مسعودبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے اور جھوٹ گناہ کی طرف اور گناہ جہنم کی طرف لے کر جاتا ہے اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے وہ اللہ کے ہاں کذّاب لکھاجاتاہے۔

(مسلم کتاب البر والصلۃ)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فر ماتے ہیں:
’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بُت ہے۔ جس پربھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ پھر فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج:31) بت پرستی کےساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے۔ جیسا احمق انسان الله تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سرجھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کو بت بناتا ہے…….اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنا مدار سمجھتے ہیں۔ مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 636)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
روزمرہ کے جھوٹ ہیں جو گھروں میں چل رہے ہیں۔ گھروں میں جھوٹ کی فیکٹریاں اور کار خانے لگے ہوئے ہیں۔پس معاشرے کوجھوٹ سے پاک کریں۔ کیونکہ جھوٹ کے بغیر نہ تو ہم موحد بن سکتے نہ توحید کی تعلیم دے سکتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 14۔اگست 1992ء)

سب کچھ آن ریکارڈہے
سورہ نور میں ایک اہم واقعہ بیان ہوا ہے، اس میں ہمارے لئےکئی نشانات ہیں۔ جوغلطی اس زمانے کے لوگوں سے ہوئی اس پرگرفت بھی کی گئی ہے اور آئندہ ایسی حرکتوں سے باز رہنے کی تنبیہہ بھی۔

فرمایا: جب تمہاری زبانیں بولتی چلی جارہی تھیں ایک ایسے معاملے کےبارےمیں جس کاتمہیں کوئی حتمی علم نہیں تھا۔ تم اسےمعمولی خیال کررہے تھے جب کہ اللہ تعالیٰ کےنزدیک وہ بہت بڑی بات تھی۔ اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًاۖ وَهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْـمٌ (النور:16) ترجمہ:قرآن مجیدنے ہمیں یہ تنبیہہ بھی کی ہے کہ خبردار جو کچھ تم کہتے ہواور بولتے ہو وہ سب آن ریکارڈ ہے۔ فرمایا۔ مَّا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْهِ رَقِـيْبٌ عَتِيْدٌ (ق:19) ترجمہ: اور وہ کوئی بات نہیں کہتامگراس کے پاس ہی اس کا ہمہ وقت مستعد نگران ہوتا ہے۔ جب کسی نے منصف کے سامنے گواہی درج کروانی ہو تو اپنے ایک ایک لفظ پرغور کرتا ہے کیونکہ دیا گیا بیان ریکارڈ کا حصہ بن جائے گا۔ جھوٹ ثابت ہونے کی صورت میں سزا بھی مل سکتی ہے اور عزت کا جنازہ بھی نکل جائے گا۔ اسی طرح ہمیں اپنے ہر قول کی نگرانی کرنی چاہئے کہ لکھا تو جا رہا ہے۔

زبانیں قابومیں رہیں

دیکھا گیا ہے کہ بریکنگ نیوز دینے کے شوقین حضرات جلدی میں پیغامات کو آگے پہنچانے میں کوشاں رہتے ہیں۔بعض اوقات کسی کی بیماری کی حالت کووفات کی خبربنا کرپیش کردیاجاتاہے۔کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کا کوئی عزیز بستر مرگ پر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہو۔ آپ اس کی جلد صحتیابی کے لئے دعائیں اور ہر مناسب تدبیر کر رہے ہوں لیکن اچانک آپ کے فون پر تعزیت اور افسوس کے پیغامات آنا شروع ہو جائیں۔ کس قدر تکلیف دہ وہ لمحات ہوں گے۔ کیسا ذہنی تشدد ہے جو ہم بغیر سوچے سمجھے چند سیکنڈز میں دوسروں پرکر دیتے ہیں ۔ آنحضورؐ نے ہمیں ایسی حرکات کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ترجمہ: حضرت اعمش کہتے کہ آنحضرت ﷺ نےفرمایا کسی کام میں جلدبازی نہیں کرنی چاہے سوائے اس کے کہ آخرت کا کام ہو۔

(سنن أبی داود، كتاب الأدب باب فی الرفق)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’چاہئےکہ تمہاری زبانیں تمہارے قابو میں ہوں۔ ہرقسم کےلغواور فضول باتوں سے پرہیز کرنے والی ہوں۔جھوٹ اس قدرعام ہورہا ہے کہ جس کی کوئی حدہیں۔ درویش، مولوی ، قصہ گو، واعظ اپنے بیانات کو سجانے کے لئے خدا سے نہ ڈر کر جھوٹ بول دیتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات، جلددوم صفحہ266)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قرآن کریم میں بھی اس بات کی بار بار تاکید فرمائی گئی ہے تو جب کوئی افواہ سنوتو خواہ مخواہ اس کوقبول نہ کر لیا کرو اور آگے نہ چلا دیا کرو۔ ادھر کان میں افواہ پڑی اور زبان نے اس کو اچھال دیا، یہ بہت بڑا گناه ہے اور اس کے نتیجہ میں سوسائٹی میں لوگوں کے متعلق بد روایتیں پھیلتی ہیں اور جھوٹ کے تَنے پھوٹتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 2 فروری 2001ء)

سچائی ایک بنیادی خلق

مذاہب عالم میں صدق کی تاکید کی گئی ہے۔ چونکہ سچائی کا اظہار ایک بنیادی خُلق ہے۔ جس کی توقع ہر انسان سے کی جاتی ہے۔غیر مذہبی معاشرہ بھی سچ کو بنیادی خُلق سمجھتا ہے۔جس سےواضح ہوتاہے کہ یہ فطرت کی آوازہے۔ بےبنیاد افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانا اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت سمجھی جاتی ہے۔ جس کی توقع کسی مومن سے تو بہرحال نہیں کی جاسکتی۔ان تکلیف دہ ایام میں ہمیں الله تعالیٰ سے تمام دکھی انسانیت کے لئے دعا کرنی چاہئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یادرکھیں جوآجکل دنیاکےحالات ہورہےہیں اورمعاشی حالات بھی انتہائی خراب ہوچکےہیں۔جب ایسے معاشی حالات آتے ہیں تو پھر جنگوں کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں۔ پھر دنیا دار حکومتیں اپنے مفادات کے حل تلاش کرنے کے لئے دنیاوی حیلوں سے اس کے حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اپنی عوام کی توجہ بٹانے کے لئے اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو پھر مزید مشکلات میں ان کو ڈالنے والی ہوں۔ پھر مزید تباہی میں یہ لوگ چلے جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی عقل د ے کہ وہ بھی عقل سے کام لیں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے دنیا میں مزید فساد پیدا ہو…اس وبا سے بچنے کےلئے دعائیں کریں اور کوشش کریں اور اس بیماری کے علاج کے لئے بھی جو سائنسدان کوشش کررہے ہیں ان کی مددکریں۔‘‘

(خطبہ جمعہ: 24 اپریل 2020ء)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس وبا سے نجات بخشے۔ آمین‘‘

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 22 جولائی 2020ء