• 23 جون, 2025

حضورِ انور ایدہ اللہ کے دورہ برکینا فاسو 2004ء کی خوبصورت یادیں حضرت آپا جان کی دلنشین نصائح اور محبتوں کے تذکرے

انسانی زندگی میں کئی واقعات اور لمحات ایسے گذر جاتے ہیں جن کے اثرات بہت دیر پا ہوتے ہیں۔ایک احمدی مسلمان کی زندگی میں خلافت کے قرب میں گزارے ہوئے لمحات خوبصورت یادوں کی مانند زندہ رہتے ہیں۔ احمدیوں کا خلافت کے ساتھ جو عشق و وفا کا تعلق ہے اسے دنیا کا اور کوئی آدمی نہیں سمجھ سکتا ، جو اس لذت سے آشنا نہیں۔ دنیا کے ہر کونے میں لاکھوں کروڑوں احمدی دل اپنے محبوب آقا کی ایک جھلک دیکھنے اور قرب میں کچھ لمحات گزارنے کے لئے تڑپتے ہیں۔ عشق و وفا کی داستانیں جو قرون اولیٰ میں تھیں آج پھر مہدی آخر الزمان کے دور میں زندہ ہوئی ہیں۔ جماعت اور خلیفہ وقت کا یہ دو طرفہ تعلقِ اخوت و محبت اس طرح مضبوطی سے قائم ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی۔

اگر کوئی احمدی چشم تصور میں دیکھے کہ خلیفۃ المسیح اس کے پاس مہمان بن کر آنے والے ہیں ،تو جو حالت ایسے فرد کی ہو گی اس سے کئی گنا زیادہ خوشی اور گھبراہٹ کی کیفیت مجھ پر وارد تھی ، جب یہ خبر ملی کہ ہم سب کے محبوب اورپیارے آقا برکینا فاسو کے دورے پر تشریف لا رہے ہیں۔

ایک طرف تو خوشی سےقدم زمین پر نہیں پڑتے تھے اور سوچوں ہی سوچوں میں جاگتی آنکھوں سے کئی خواب دیکھ ڈالے۔ لیکن جب اپنی کم مائیگی کی طرف نگاہ کی اور نئی قائم ہونے والی لجنہ برکینا کی طرف دیکھا تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔سوچتے تھے کہ ہمارا کیا بنے گا؟ہم اتنی بڑی ذمہ داری اٹھا نے کے قابل نہ جماعت اور لجنہ اتنی فعال کہ اس عظیم مہمان کی شایان شان مہمان نوازی کر کےاس نعمت کی قدر کا حق ادا کر سکیں۔

مجموعی طور پر برکینافاسو کی جماعت کو قائم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا۔ پھر لجنہ کی تنظیم تو ابھی صرف دارالحکومت اواگادوگو اور چند دیگر مقامات پر ہی قائم تھی۔ جماعت تنظیمی طور پر ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی۔ اس پر مستزاد کہ حضور گھانا کے دورہ کے بعد برکینا فاسو تشریف لارہے تھے جہاں پرانی فعال جماعت، تنظیمیں مضبوط اور لجنہ کے اجتماعات کو شروع ہوئے بھی نصف صدی گذر چکی تھی۔

انہی سوچوں کے بھنور میں دن رات گزرنے لگے۔ تاہم دل میں ایک یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور غیبی مدد فرمائے گا۔ اس لئے دعاؤں کی طرف خصوصی توجہ کی توفیق ملی۔ دورے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ امیر صاحب نے لجنہ کے ساتھ میٹنگ کر کے ان کوذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ جلسہ سالانہ کے انتظامات احسن رنگ میں کرنے کیلئے صدر صاحبہ لجنہ نے متعدد میٹنگز کیں۔کئی ریجنزکے دورے کئے۔اور انسانی تدبیر کے مطابق کافی کوشش کی۔

جیسے جیسے ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ کی تاریخ قریب آرہی تھی، جوحضور انور کی آمد کا دن تھا ، ویسے ویسےبظاہر سمٹتے ہوئے کام بگڑ تے نظر آرہے تھے۔ عاجزہ کی ۲۰۰۱ کے جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔لیکن زندگی میں کبھی خاندان اقدس حضرت مسیح موعود ؑ کی خواتین مبارکہ کے قرب میں رہنے اور اس طرح ملنے اور مہمان نوازی کا موقع نہیں ملا تھا۔ دل میں خاندان حضرت اقدس مسیح موعود کے لئے انتہائی احترام اور رعب بھی تھا۔ جو میں سمجھتی ہوں ان افراد کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے۔

جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت بیگم صاحبہ مدظلہا برکینافاسو تشریف لائیں، تو احترام اور دل پر رعب کی اسی کیفیت میں ان سے پہلی بار ملی۔لیکن پہلی ہی ملاقات مصافحہ اور معانقہ نے سب پریشانیاں دور کردیں۔ آپ بہت ہی ملنسار اور محبت کرنے والا وجود ہیں۔ آپ کی پر کشش شخصیت اور ملنساری کی وجہ سے ساری لجنہ آپ کی گرویدہ ہوگئیں۔ پہلی ہی ملاقات میں ان سے بے تکلفی ہوگئی۔

جب ہم نے آپ سے اپنے انتظامات میں نظر آنے والی خامیوں کو بیان کرکے معذرت اور وضاحت کرنا چاہی کہ ہماری جماعت ابھی نئی ہے ،تربیت میں کمی ہے، نظام کی سمجھ نہیں ،گھانا کی جماعتیں اورلجنہ فعال ہے ،تو حضرت آپا جان مدظلہا نے بہت پیار اور شفقت سے فرمایا آپ تو خواہ مخواہ پریشان ہورہی ہیں، سب بہت اچھا ہورہا ہے۔ گھانا کی جماعت کی عمر دیکھیں۔کہاں ۸۰سالہ پرانی جماعت اور کہاں آٹھ دس سالہ پرانی نوزائیدہ برکینا فاسو کی جماعت۔ میں تو بہت خوش ہوں۔

حضرت آپا جان مدظلہا کا ہمیں نصیحت کرنے کااندازہ بہت دلکش تھا۔آپ کی الفت و شفقت مقامی خواتین کے ساتھ بہت نمایاں تھی۔ اگرچہ زبان کی مشکل حائل تھی لیکن محبت کی زبان سب کوسمجھ آرہی تھی۔ آ پ ہر ایک سے مصافحہ کرتیں ،بچوں کو پیار کرتیں۔ یہ منظر بہت پیارا لگتا ، ہماری لجنہ انتہائی خوش تھیں۔ آپ نے صدر صاحبہ لجنہ کو اپنے پاس بیٹھا کے مختلف ہدایات دیں۔ کام کرنے کا طریقہ سمجھایااور بہت حو صلہ افزائی فرمائی۔

ہم مرکزی مبلغین کی بیویوں کو فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے پیار کرنے ،ان کے دل جیتنے اور تربیت کرنے کیلئے آئے ہیں۔ اس لئے ایسا حسن سلوک کریں کہ کسی کو کوئی دوری محسوس نہ ہو۔ آپ کی ان نصائح کا گہرا اثر ہوا۔ہماری صدر صاحبہ لجنہ جو عیسائیت سے احمدی ہوئی تھیں۔ ہر اجلاس ہر میٹنگ میں ہر ریجن کے دورہ پر یہی بات دہراتی تھیں کہ بیگم صاحبہ نے ہمیں فرمایا ہے کہ لجنہ کو فعال کریں۔ ہمیں حضور کی نصائح پر عمل کرنا چاہئے اور سب کو مل کر کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں بہت محنت کرنی ہے تاکہ حضور کے اگلے دورہ سے پہلے ہم میں نمایا ں تبدیلی ہو۔

حضرت آپا جان مدظلہا نے ہر موقع پر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ ہمارے گھر میں مرکزی مبلغین کے اہل وعیال ٹھرے ہوئے تھےجن کی تعداد پچاس سےزائد تھی۔ پھر دیگر ذمہ داریاں بھی تھیں جن کی وجہ سے مجھے پریشانی رہتی کہ کھانا لیٹ نہ ہوجائے۔پھر معیار کا فکر ہوتا تھا۔ عاجزہ نے بعض دفعہ پریشانی کے عالم میں بیگم صاحبہ سے پوچھا کہ کھانے وغیرہ کے متعلق کوئی ہدایت ہو تو فرمائیں۔ لیکن آپ نے ہمیشہ کسی نہ کسی کھانے کی تعریف کی کہ فلاں چیز اچھی بنی تھی کس نے بنائی تھی۔ اس سے مجھے احساس ہوتا کہ ہماری دلجوئی اور حوصلہ افزائی فرما رہی ہیں۔

جب حضور برکینا فاسو تشریف لائے تو گرمیوں کے دن تھے۔ درجہ حرارت چالیس سینٹی گریڈ کے قریب تھا۔ گرمی اور گرد و غبار کی شدت تھی۔ میں نے حضرت آپا جان سے کہا کہ مجھے اپنے کپڑے دھونے کے لئے دے دیں۔ لیکن آپ نے کپڑے دینے سے صاف انکار کر دیا۔میں نے إصرار کیا اور جب میرا إصرار حد سے بڑھا تو آپ نے فرمایا کہ چلو پھر ایک شرط ہوگی۔ میں نے کہا ٹھیک مجھے شرط منظور ہے آپ کپڑے دیں۔ آپ نے فرمایا کہ میری شرط یہ ہے کہ خود نہیں دھوؤگی۔ گھر کی ملازمہ سے دھلواؤ گی۔ میں خاموش ہوگئی کیونکہ میری تو خواہش تھی کہ مجھے یہ سعادت ملے ۔مجھے خاموش دیکھ کر فرمایا کہ اگر شرط منظور نہیں تو میں کپڑے نہیں دوں گی۔ میں نے بڑے بوجھل دل سے کہا ٹھیک ہے، لیکن۔۔۔ آپ نے فرمایا لیکن ویکن کچھ نہیں جو میں نےکہا اسی کے مطابق ہو۔

جلسہ کے اختتامی خطاب کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ کی جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔ آپ کچھ دیر سٹیج پر تشریف فرمارہے۔ ا س دوران میں ناصرات نے نظمیں پیش کیں۔ حضور انور کے پہلو میں کرسی پر آپ بھی تشریف فرما تھیں۔ جب حضور واپس تشریف لے گئے تو وہ کرسی خالی ہوگئی۔ بیگم صاحبہ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ مجھے اس کرسی پر بیٹھنے سے حجاب محسوس ہو رہا تھا۔آپ نے مجھے بازو سے پکڑ کر بیٹھادیا اور کچھ ہدایات دیں۔

29 مارچ 2004 کو لجنہ اماء اللہ نے حضرت آپا جان کے ساتھ ڈنر کا اہتمام ہمارے گھر میں کیا ہوا تھا۔ ڈنر میں نیشنل عاملہ کے علاوہ دیگر ایکٹو لجنہ اور بعض غیر از جماعت خواتین کو بھی بلایا ہوا تھا۔جب آپ تشریف لائیں تو سب کے ساتھ گھل مل گئیں۔ صدر صاحبہ کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھاکر لجنہ کے کام کرنے کے طریق سمجھائے۔ان کی بڑی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اسی طرح دیگر ممبرات کے ساتھ بھی گفتگو ہوتی رہی ہمارا کافی وقت آپ کے ساتھ گذرا جس کی لذت آج بھی تازہ ہے۔آپ نے سب کے بچوں کو پیار کیا۔بچوں اور عورتوں کو اچھا خاصا نقدانعام دیا جسے آج بھی وہ عورتیں یاد کرتی ہیں۔

مجھے یاد ہے اس دن ڈنر کے آخر پر حضورانور بھی تشریف لے آئے تو ہمارے ایک مبلغ صاحب کی بیوی نے بےساختہ کہا کہ واقف زندگی سے شادی کرنے کا آج سب سے بڑا فائدہ ہوا ہے۔ یعنی آپا جان کے ساتھ یادگار لمحات گذر ے اور حضور کے بھی بہت قریب ہوکر دعائیں لیں۔

ہومینٹی فرسٹ کی طرف سے واگادوگومیں22 سلائی مشینیں آپ نے مستحق خواتین میں تقسیم فرمائیں۔ اسی طرح بوبو جلاسو شہر میں دس مشینیں تقسیم کیں۔ آپ کو یہاں کے لوگوں کی غربت کا بہت شدت سے احساس تھا۔ہمارے مبلغ شکیل صدیقی صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ بشریٰ طیبہ ان دنوں سخت بیمار تھیں اور ہسپتال میں داخل تھیں۔آپ ان کی عیادت کیلئے ہسپتال تشریف لے گئیں۔ ان کے ماتھے پر مسلسل ہاتھ پھیرتی اوران کے لئے دعائیں کرتی رہیں۔انہیں بہت تسلیاں دیں اور حوصلہ افزائی کی۔

آپ کی شفقت اور بے تکلفی نے ہم سب کو آپ کے اتنا قریب کردیا تھا کہ دس دن آنکھ جھپکنے میں گذر گئے۔اور برکینافاسو سے آپ کی روانگی کا وقت آن پہنچا۔ آپ کے جانے کے بعد دل بہت بوجھل تھا۔ کسی کام کو دل نہیں کررہاتھا بلکہ ایک سوگوار ساماحول بنا ہواتھا۔ بچے الگ خاموش تھے۔ مبلغین کی بیویاں جو حضورانورکی آمد کی وجہ سے اواگا دوگو میں ہمارے گھر میں تھیں، کسی کو سجنے سنورنے کا شوق رہا نہ بات چیت کرنے کی تمنا۔ سب اس سوچ میں گم تھے کہ یہ دن اتنی جلدی کیوں گذر گئے۔ بڑے بوجھل دل کے ساتھ ہم آپ کو الوداع کرنے ائر پورٹ گئے تھے۔آنکھیں بابار بھیگ رہی تھیں۔ اب استقبال والے دن کی طرح خوشی اور جوش جذبے نہیں تھے ۔ اب بہت اداس ماحول تھا۔ہاتھ ہل تو رہے تھے،ہونٹ بھی ’’الوداع یا امیر المومنین الوداع‘‘ کہہ رہے تھے لیکن سوچ کے دائرے وسیع سے وسیع تر ہوتے جارہے تھے۔ کیا زندگی میں پھر ایسے خوش نصیب مواقع ملیں گے۔ میں نے دیکھا کہ بعض عورتیں تو ضبط کرکے کھڑی رہیں اور بعض اپنے آنسوں اور سسکیوں کو نہ دبا سکیں۔

ائر پورٹ پر کھڑے تھے کہ جہاز میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ اچانک وی آئی پی لاؤنج کا دروازہ کھلا اور آپا جان نےمجھے کہا کہ دس دس کا وفد بنا کر اندر آجائیں۔ میں نے لپک کر صدر صاحبہ کابازو پکڑ ااور بےساختگی سے کہا جلدی کریں دروازہ نہ بند ہوجائے۔ میں کچھ عورتوں کو لے کر آپا جان کے پاس آگئی۔ اس کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی گویا ایک دم ساری کائنات میرے قدموں میں آگئی ہو۔ ہم لوگ کافی دیر آپ کے پاس بیٹھی رہیںدعا کی درخواست کی۔ وہاں بھی آپا نے صدر صاحبہ لجنہ کو کام کی طرف توجہ دلائی۔ آپا جان نے میری بیٹی طوبیٰ سے باتیں کیں اسے ڈھیروں دعائیں دیں۔ طوبیٰ وہاں سے اٹھ کر میرے میاں کے پاس چلی گئی جو اس وقت حضورانور کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں جاکر حضور سے بھی بہت دعائیں لیں۔

جب جہاز کی روانگی کا وقت ہو گیا اور ہم لوگ واپس آنے لگےتومیرے میاں نے تعارف کرواتے ہوئے میرے متعلق کہا کہ یہ چوہدری رشید الدین صاحب کی بیٹی ہیں۔ ا س پر حضور نے فرمایا یہ تو تعارف کروارہی تھی کہ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کی بھانجی ہے۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ کیوں نہیں بتایا کہ چوہدری صاحب کی بیٹی ہو۔ پھر اباجی کی صحت کا دریافت فرمایا۔میں نے دعا کی درخواست کی او ر اس طرح لمحہ لمحہ آنکھوں میں سجا کریہ دعائیں کرتے گھر کو لوٹے:

ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری
ہر لمحہ ہر آن خدا حافظ و ناصر

اگر میں یہ لکھوں تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ دورہ جماعت برکینا فاسو کے لئے اور ہم واقف زندگی مبلغین و ڈاکٹرز اور ان کی فیملیز کے لئے بے حد سعادت اور برکات کا موجب تھا۔ ہم واقفین زندگی اور ہمارے بچے اس سعادت پرجتنا رشک کریں کم ہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست
گر نہ بخشد خدائے بخشندہ

(تدوین و ترتیب چوہدری نعیم احمد باجوہ۔ نمائندہ روزنامہ الفضل لندن)

(امۃ القیوم ثاقب اہلیہ محمود ناصر ثاقب صاحب امیر جماعت برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 22 جولائی 2020ء