حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس اس زمانے میں جب غیر بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ اسلام کی خوبصورتی کا اقرار کرتے ہیں، جو حقیقی اسلام ہے جو قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق ہے تو کیا ایک احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریوں کااحساس نہیں ہونا چاہئے۔ ایک احمدی کی ذمہ داری تو ان باتوں سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ اس جلسہ میں شامل ہو کر اپنی علمی، عملی، اعتقادی اور روحانی صلاحیتوں کوکئی گنا بڑھانے کا ذریعہ بنائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں بتایا تھا کہ اس میں شامل ہو کر تقویٰ اور خدا ترسی میں نمونہ بنو۔ یہ جلسہ تمہارے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے والا بن جائے۔ نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے نمونہ بن جاؤ۔ بھائی چارے میں ایک مثال قائم کرو۔ انکسار اور عاجزی پیدا کرو۔ دین کی خدمت کے لئے اپنے اندر ایک جوش اور جذبہ پید کرو۔ اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اس جلسہ کے دنوں میں اپنے عہدِ بیعت کے جائزے لو، جس میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ:
’’مجھے ایسے لوگوں سے کیا کام ہے جو سچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر اُٹھا نہیں لیتے‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ363 اشتہار نمبر117التوائے جلسہ 17دسمبر 1893ء)
پس یہ ایک احمدی کے کرنے کے بہت بڑے کام ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک بہت بڑا مشن لے کر آئے تھے۔ اگر ہم نے آپ کی بیعت کا حق ادا کرنا ہے اور اس مشن کو پورا کرنا ہے جو آپ لے کر آئے تو پھر ہمیں اُن تعلیمات پر غور کرنا ہو گا جو آپ نے ہمیں دیں۔ ہمیں اُن تمام توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنی ہو گی جو آپ نے ہم سے رکھیں۔ پس ہمیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ہم احمدی ہو گئے ہیں اور مقصد پورا ہو گیا ہے۔ اب احمدی ہونے کے بعد ان باتوں اور ان چیزوں اور اُن توقعات کی تلاش کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہیں۔ یہ جلسہ کے تین دن کیونکہ اجتماعی طور پر روحانی ماحول کے دن ہیں اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر تلاش کر کے اور یہاں کے پروگراموں سے فائدہ اُٹھا کر ہمیں ایک حقیقی احمدی بننے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے، اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
اِس وقت میں اُس فہرست میں سے چند باتوں کا ذکر کروں گا اور آپ کے سامنے پیش کروں گا جو اُن معیاروں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کی ہے۔
جلسہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد آپ نے یہ بیان فرمایا تھا کہ تا آنے والوں کے دل میں تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ کیا ہے؟ اس بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’تقویٰ کوئی چھوٹی چیز نہیں، اس کے ذریعہ سے اُن تمام شیطانوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جو انسان کی ہر ایک اندرونی قوّت و طاقت پر غلبہ پائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام قوّتیں نفسِ امّارہ کی حالت میں انسان کے اندر شیطان ہیں‘‘۔ نفسِ امّارہ نفس کی ایسی حالت کو کہتے ہیں جو بار بار بدی کی طرف لے جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے کی بجائے شیطان نے جو دنیا میں بے حیائی پھیلائی ہوئی ہے، اُس کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ برائیوں کو خوبصورت کر کے دکھاتا ہے۔ فرمایا کہ یہی انسان کا شیطان ہے جو تمہیں ہر وقت بہکاتا رہتا ہے۔ فرمایا کہ یہ انسانی قوتیں جو انسان کو ورغلاتی رہتی ہیں، ’’اگر اصلاح نہ پائیں گی تو انسان کو غلام کر لیں گی‘‘۔ فرمایا کہ ’’علم و عقل ہی بُرے طور پر استعمال ہو کر شیطان ہو جاتے ہیں‘‘۔ بعض انسانوں کو اپنے علم پر اور اپنی عقل پر بڑا ناز ہوتا ہے اور یہ ناز ہی اُن کو شیطان بنا دیتا ہے اور یہی علم اور عقل ہی شیطان بن جاتا ہے۔ ’’متقی کا کام کو اُن کی اور ایسا ہی اور دیگر کُل قُویٰ کی تعدیل کرنا ہے‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ21۔ ایڈیشن 2003ء)
یعنی اپنی ان طاقتوں کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں ٹھیک کرنا ہو گا، صحیح موقعوں پر اور انصاف کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا اور جب یہ ہو گا تو یہ تقویٰ ہے۔
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے۔ تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسا ہی رُوبہ دنیا تھے، اُن تمام آفات سے نجات پاویں۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ7 ایڈیشن 2003ء)
(خطبہ جمعہ 4؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)