• 29 اپریل, 2024

فقہی کارنر

تعداد رکعات

(حضرت مسیح موعودؑ سے) پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعداد کیوں رکھی گئی ہے؟

آپؑ نے فرمایا:۔
اس میں اللہ تعالیٰ نے اسرار رکھے ہیں۔ جو شخص نماز پڑھے گا۔ وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر رہے گا ہی۔ اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے۔ لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ جب وہ پیدا ہو جاتی ہے تو وہ بس کر جاتا ہے۔

دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں۔ جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے۔ اصل غرض ذکر الٰہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے۔ اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔ تذکرة الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودا لیا اور ستر ہزار کا دیا مگر ایک آ ن میں بھی خدا سے جدا نہیں ہوا۔ پس یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فر مایا ہے۔

لَا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہ ِ

(النور: 38)

جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں۔ وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فرا موش نہیں کرتے۔

(الحکم 24 جون 1904ء صفحہ1)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اگست 2022