• 19 اپریل, 2024

تلاوت قرآن کریم سے متعلق خلفائے احمدیت کی تڑپ (قسط 1)

تلاوت قرآن کریم سے متعلق خلفائے احمدیت
کی تڑپ اور احبابِ جماعت کو تحریکات
(قسط 1)

قارئین کی دلچسپی اور ایمانیات کو حرارت دینے کے لیے خلفاء کی تحریکات کا نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ جو ہربدھ کوقارئین کے ایمان وایقان کو تازہ کیا کرے گا۔ یہ مائدہ مکرم ذیشان محمود آف سیرالیون تیار کیا کریں گے۔ امید ہے یہ مبارک سلسلہ قارئین کو خلافت کےساتھ مزید پختگی کا باعث بنے گا۔

(ایڈیٹر)

قرآن کریم سے متعلق خلفائے کرام نے مختلف اوقات میں تلاوت قرآن کریم سے متعلق تحریکات پیش کیں۔ حضرت خلیفة المسیح الاول ؓ کا ہر روزہ عمل صر ف اور صرف قرآن کریم کے گرد گھومتا تھا۔ ایک بار حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے سوال کیا کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے تو فرمایا:
’’مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ قرآن مجید عملی طور پر کل دنیا کا دستور العمل ہو‘‘۔

(الحکم 7 جولائی 1911ء صفحہ2 کالم3)

پھر فرمایا:
’’قرآن کو مضبوط پکڑو۔ قرآن بہت پڑھو اور اس پر عمل کرو‘‘۔

(الحکم 21 جنوری 1911ء صفحہ8 کالم3)

انجمن موصیان قرآن پڑھائے

5؍اگست 1966ء کو حضور نے انجمن موصیان اور موصیات قائم کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔ خطبہ جمعہ 4؍اپریل 1969ء میں حضور نے موصیان کو قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا خاص فریضہ سپرد کرتے ہوئے فرمایا:
’’خدا چاہتا تھا کہ یہ تنظیم قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے سے اپنا کام شروع کرے‘‘۔

پھر ان کے معین فرائض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
ایک تو موصیوں کے صدر اور نائب صدر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ کے موصیوں کا جائزہ لے کر ایک ماہ کے اندر اندر ہمیں اس بات کی اطلاع دیں کہ کس قدر موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں اور جو موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں ان میں سے کس قدر موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں اور جو موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں ان میں سے کس قدر قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہر موصی کو قرآن کریم آتا ہو اور تیسری ذمہ داری آج میں ہر اس موصی پر جو قرآن کریم جانتا ہے یہ ڈالنا چاہتا ہوں کہ وہ دو ایسے دوستوں کو قرآن کریم پڑھائے جو قرآن کریم پڑھے ہوئے نہیں اور یہ کام باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت ہو اور اس کی اطلاع نظارت متعلقہ کو دی جائے۔‘‘

(خطبات ناصر جلد2 صفحہ563-564)

حضور نے اس مقصد کے لئے 6 ماہ کا عرصہ مقرر فرمایا۔
اسی خطبہ میں حضور نے مجلس انصاراللہ کو خصوصیت سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خود قرآن سیکھیں اور جن کے راعی ہیں ان کو بھی سکھائیں اسی طرح حضور نے خدام اور لجنہ کو بھی تعلیم القرآن کی نگرانی کا ارشاد فرمایا:
چھ ماہ میں ناظرہ قرآن ختم کریں۔

حضور نے موصیان کے سپر دتعلیم القرآن کے فریضہ کا ذکر کرتے ہوئے 20 جون 1969ء کے خطبہ میں فرمایا:
’’میں نے اس کے لئے چھ ماہ کا عرصہ رکھا تھا لیکن بہت سے دوستوں نے میری توجہ اس طرف پھیری ہے کہ چھ مہینے کے اندر سارے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لینا یا بہتوں کے لئے ناظرہ پڑھ لینا بھی ممکن نہیں۔ پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ قرآن کریم نہ ختم ہونے والا سمندر ہے۔ انسان ساری عمر قرآن کریم سیکھتا رہے پھر بھی وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے قرآنی علوم سب کچھ حاصل کرلیا ہے۔

بہرحال چونکہ بہت سوں کے لئے چھ ماہ کے عرصہ میں قرآن کریم ناظرہ سیکھنا یا اس کا ترجمہ سیکھنا مشکل ہے۔ بعض کے لئے شائد ممکن ہی نہ ہو اس لئے اس مدت کو چھ ماہ سے بڑھا کر جیسا کہ دوستوں نے مشورہ دیا ہے میں ڈیڑھ سال تک کر دیتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ڈیڑھ سال میں سارے نہیں تو بڑی بھاری اکثریت اگر وہ دل سے قرآن کریم پڑھیں تو قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیں گے اور ترجمہ سیکھنے والے ترجمہ سیکھ لیں گے۔

(خطبات ناصر جلد2 صفحہ690-691)

تلاوت کرنے اور ترجمہ سیکھنے کی تحریک

4 جولائی 1997ء کو حضور نے کینیڈا میں ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا اور تعلیم القرآن کی طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’کلام الٰہی سے محبت ایک ایسی چیز ہے جو نسلوں کو سنبھالے رکھتی ہے … قرآن کریم پر زور دینا اور تلاوت سے اس کا آغاز کرنا بہت ہی اہم ہے۔ مگر تلاوت کے ساتھ ان نسلوں میں، ان قوموں میں جہاں عربی سے بہت ہی ناواقفیت ہے ساتھ ترجمہ پڑھنا ضروری ہے۔ ترجمے کے لئے مختلف نظاموں کے تابع تربیتی انتظامات جاری ہیں مگر بہت کم ہیں۔ جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا اٹھاسکتے ہیں۔ اس لئے جب میں ایسی رپورٹیں دیکھتا ہوں کہ ہم نے فلاں جگہ قرآن کریم کی کلاس جاری کی یا فلاں جگہ قرآن کریم کی کلاس جاری کی تو میں ہمیشہ تعجب سے دیکھتا ہوں کہ اس کلاس میں سارے سال میں بھلا کتنوں نے فائدہ اٹھایا ہوگا اور جو فائدہ اٹھاتے بھی ہیں تو چند دن کے فائدے کے بعد پھر اس فائدے کو زائل کرنے میں باقی وقت صرف کر دیتے ہیں۔ وہی بچے ہیں جن کو آپ نے قرآن کریم سکھانے کی کوشش کی چند دن بعد ان سے پوچھ کے دیکھیں تو جو کچھ سیکھا تھا سب بھلا چکے ہوں گے۔ بڑی وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری جو بڑی نسل ہے اس نے قرآن کریم کی طرف پوری توجہ نہیں دی اور اکثر ہم میں بالغ مرد وہ ہیں جو دین سے محبت تو رکھتے ہیں لیکن ان کو یہ سلیقہ سکھایا نہیں گیا کہ قرآن سے محبت کے بغیر دین سے محبت رکھنا کوئی معنے نہیں رکھتا اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔

…پس تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالنا اور اس کے معانی پر غور سکھانا یہ ہماری تربیت کی بنیادی ضرورت ہے اور تربیت کی کنجی ہے جس کے بغیر ہماری تربیت ہو نہیں سکتی اور یہ وہ پہلو ہے جس کی طرف اکثر مربیان، اکثر صدران، اکثر امراء بالکل غافل ہیں۔ ان کو بڑی بڑی مساجد دکھائی دیتی ہیں، ان کو بڑے بڑے اجتماعات نظر آتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ بڑے جوش سے اور ذوق و شوق سے لوگ دور دور کا سفر کرکے آئے اور چند دن ایک جلسے میں شامل ہوگئے لیکن یہ چند دن کا سفر تو وہ سفر نہیں ہے جو سفر آخرت کے لئے ممد ہوسکتا ہے۔ سفر آخرت کے لئے روزانہ کا سفر ضروری ہے اور روزانہ کے سفر میں زاد راہ قرآن کریم ہے۔ … ہر گھر والے کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی طرف توجہ دے، قرآن کے معانی کی طرف توجہ دے، ایک بھی گھر کا فرد ایسا نہ ہو جو روزانہ قرآن کے پڑھنے کی عادت نہ رکھتا ہو اور قرآن کریم کو پھر مضامین سمجھ کر پڑھے اور جو بھی ترجمہ میسر ہو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے … قرآن کریم کے ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی طرف ساری جماعت کو متوجہ ہونا چاہئے کوئی بھی ایسا نہ ہو جس کے پاس سوائے اس کے کہ شرعی عذر ہو جو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت سے محروم رہے۔

تلاوت کا آغاز تلاوت کے برتن قائم کرنے سے ہوتا ہے اور برتن سے میری مراد یہ ہے کہ شروع کر دیں تلاوت پھر رفتہ رفتہ علم بڑھائیں اور تلاوت کو معارف سے بھرنے کی کوشش کریں، معارف سے پہلے علم سے بھرنے کی کوشش ضرور کریں۔ … میں چاہتا ہوں کہ اس صدی سے پہلے پہلے ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے اور ہر گھر میں روزانہ تلاوت قرآن کریم ہو۔ کوئی بچہ نہ ہو جسے تلاوت کی عادت نہ ہو۔ اس کو کہیں تم ناشتہ چھوڑ دیا کرو مگر سکول سے پہلے تلاوت ضرور کرنی ہے اور تلاوت کے وقت کچھ ترجمہ ضرور پڑھو، خالی تلاوت نہیں کرو اورجب آپ یہ کام کرلیں گے تو پھر اردگرد … بنانے کی کوشش کریں اور ان نمازیوں کو گھروں سے … کی طرف منتقل کریں کیونکہ وہ گھر جس کے بسنے والے خدا کے گھر نہیں بساتے قرآن کریم سے اور آنحضرت ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ایسے گھروں کو ویران کر دیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ ان تقاضوں کوپورا کریں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 12؍اگست 1997ء)

خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997ء میں پھر حضور نے جماعت کینیڈا کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’آپ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اگلے دو سال میں ضرور اللہ تعالیٰ ایسے حیرت انگیز نظارے دکھائے گا جن کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن ساری جماعت کو اس وقت کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ کیونکہ جتنے زیادہ تیزی کے ساتھ احمدی پھیلیں گے اتنے ہی زیادہ خطرات ہیں اور ان کو سنبھالنے کا کام بہت اہم ہے۔ اس ضمن میں میں نے گزشتہ خطبہ میں جماعت احمدیہ کینیڈا کو اور اس کی وساطت سے آپ سب کو نصیحت کی تھی کہ ساتھ ساتھ بعض بنیادی علمی کمزوریاں ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ان میں سے سب سے پہلے قرآن کریم کی طرف توجہ ہے۔ جن گھروں میں باقاعدہ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت ترجمے کے ساتھ نہیں ہوتی اور ترجمے کے ساتھ قرآن کریم نہیں پڑھایا جاتا آپ بودی نسلیں آگے بھیجیں گے۔ نام کے احمدی رہیں گے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک رہیں اور کام کے کبھی بن بھی سکیں گے یا نہیں۔ مگر جن کو بچپن سے قرآن سکھایا جائے اور قرآن کا … علم ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا قرآن باقی بستی پر غالب آیا کرتا ہے۔ قرآن کو اپنے گھروں پر غالب کردیں اپنے بچوں پر غالب کر دیں۔ ہر بچے پر یہ فرض کردیں کہ وہ قرآن کریم کو سوچے سمجھے اور روزانہ کچھ نہ کچھ اتنا ضرور قرآن کا عرفان حاصل کرے کہ اس کے نتیجے میں اس کی اپنی تربیت شروع ہو جائے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 29؍اگست 1997ء)

تلاوت کرنے کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور فرشتوں کے حلقے میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے، اپنے بچوں کو پڑھائیں، انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں۔ اور یاد رکھیں کہ جب تک ان چیزوں پہ عمل کرنے کے ماں باپ کے اپنے نمونے بچوں کے سامنے قائم نہیں ہوں گے اس وقت تک بچوں پہ اثر نہیں ہو گا۔ اس لئے فجر کی نماز کے لئے بھی اٹھیں اور اس کے بعد تلاوت کے لئے اپنے پر فرض کریں کہ تلاوت کرنی ہے پھر نہ صرف تلاوت کرنی ہے بلکہ توجہ سے پڑھنا ہے اور پھر بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی پڑھیں، انہیں بھی پڑھائیں۔جو چھوٹے بچے ہیں ان کو بھی پڑھایا جائے‘‘۔

(الفضل 7 فروری 2006ء)

بیوی بچوں کی روزانہ تلاوت کی طرف توجہ کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احباب جماعت کو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی نصیحت کرتے ہوئے خطبہ جمعہ 24 ستمبر 2004ء میں فرماتے ہیں:
’’ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں۔ پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود ؑکی تفسیر پڑھیں …

پس بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھیں۔ ہرگھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہئے۔ پھر ترجمہ پڑھنے کی کوشش بھی کریں اور سب ذیلی تنظیموں کو اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے، خاص طور پر انصاراللہ کو کیونکہ میرے خیال میں خلافت ثالثہ کے دور میں ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا۔ اسی لئے ان کے ہاں ایک قیادت بھی اس کے لئے ہے جو تعلیم القرآن کہلاتی ہے۔ اگر انصارپوری توجہ دیں تو ہر گھر میں باقاعدہ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی کلاسیں لگ سکتی ہیں۔۔۔

اللہ کرے کہ ہم خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانے والے ہوں اور اپنے دلوں کو منور کرنے والے ہوں اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ انصاراللہ کے ذمہ خلافت ثالثہ میں یہ لگایا گیا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کریں، قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ دیں۔ گھروں کو بھی اس نور سے منور کریں لیکن ابھی بھی جہاں تک میرا اندازہ ہے انصاراللہ میں بھی 100 فیصد قرآن کی تلاوت کرنے والے نہیں ہیں۔ اگر جائزہ لیں تو یہی صورتحال سامنے آئے گی اور پھر یہ کہ اس کا ترجمہ پڑھنے والے ہوں‘‘۔

(روزنامہ الفضل 7 دسمبر 2004ء)

(باقی آئندہ ان شاءاللہ)

(ذیشان محمود۔ مبلغ سلسلہ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

تمام نوروں کا سبب اور ذریعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2021