حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً سات سال کے بعد مجھے جماعت احمدیہ جاپان سے یہاں آکر مخاطب ہونے کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی دوسری جماعتوں کی طرح جماعت احمدیہ جاپان بھی ترقی کی طرف بڑھنے والی اور اس طرف قدم مارنے والی جماعتوں میں سے ہے۔ اخلاص ووفا اور مالی قربانیوں میں بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے۔ لیکن افرادِجماعت کو یہ ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ کبھی ان کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ ہم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہماری تعدادمیں بھی کچھ اضافہ ہوا ہے، ہماری مالی قربانیاں بھی بڑھی ہیں، ہم نے ایک نئی جگہ خرید لی ہے جویہاں ضروریات کے لئے کئی سال کے لئے کافی ہے۔ ہم نے ایک نئی جگہ اس لئے خرید لی کہ ہمارے عبادتوں کے علاوہ دوسرے فنگشنزبھی وہاں ہو سکیں۔ یہ نیا مرکز جوآپ نے خریدا ہے اس کی تفصیلات بھی مَیں آگے بیان کروں گا لیکن یہاں یہ بیان کرنا چاہتاہوں کہ یہ نئی وسیع جگہ جوآپ کی نمازوں کے لئے کافی ہے اور جو جماعت کی موجودہ تعداد ہے، اس کے لحاظ سے جلسوں کے لئے بھی کچھ عرصے کے لئے کافی ہو گی۔ دفاترکے لئے بھی آپ کو جگہ مل جائے گی۔ گیسٹ ہاؤس ہے، مشن ہاؤس ہے اور دوسری سہولتیں ہیں اور جماعت احمدیہ جاپان نے اس کی خرید کے لئے بڑی مالی قربانیاں بھی دی ہیں۔ اور مالی قربانیوں کا حق بھی ادا کیا ہے لیکن ہمیشہ یادرکھیں کہ حقیقی حق ادا ہوتا ہے جب ہم ان باتوں کو سمجھیں اور اُن پر عمل کریں جو حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں کرنے کے لئے کہی ہیں۔ آپ کی بیعت میں آکر ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ایک حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔ وقتی جذبات کے تحت بعض قربانیاں اور بعض عمل بے شک بعض اوقات نیکیوں کی طرف رغبت دلانے کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے ہوں تواللہ تعالیٰ کے فضلوں کوحاصل کرنے والے اور اُن کو سمیٹنے والے بھی بن جاتے ہیں لیکن ہم جو اپنے آپ کوحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے والا کہتے ہیں، ہمارے مقصد حقیقت میں تب حاصل ہو سکتے ہیں جب ہم مستقل مزاجی سے اپنے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے کی کوشش کریں۔ جب ہم جماعت احمدیہ کے قیام کے مقصد کو اپنے پیشِ نظر رکھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مُنْعَم عَلَیْھِم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ فرمایاہے ان کو حاصل کرناہر انسان کا اصل مقصدہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کوقائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیارکرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیارکی تھی تاکہ اس آخری زمانے میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پربطورِ گواہ ٹھہرے۔‘‘
(الحکم 31؍مارچ 1905ء جلد 9 شمارہ نمبر 11صفحہ 6 کالم 2)
پس یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے لگائی ہے کہ ہم نے اُن مقاصدکو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نے حاصل کئے یا اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مسلسل جان، مال اور وقت کی قربانی دی۔ اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ڈرتے ہوئے ادا کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ڈرتے رہے اور اپنی دعائیں پیش کرتے رہے۔ کسی قربانی پر فخر نہیں کیا بلکہ یہ دعا کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کئے توایسے کہ اپنی راتوں کو بھی عبادتوں سے زندہ رکھا اور اپنے دنوں کو بھی باوجود دنیاوی کاروباروں کے اور دھندوں کے یادِ خدا سے غافل نہیں ہونے دیا۔
پس یہ وہ مقصدہے جو ہم میں سے ہر ایک کوحاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ مقصدہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم نے یہ مقصدپا لیا تو اپنی پیدائش کے مقصدکو حاصل کرلیا۔ کیونکہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ ہم جب مساجد بناتے ہیں یا اجتماعی عبادت کے لئے کوئی جگہ خریدتے ہیں تو یہی مقصد پیشِ نظر ہوناچاہئے کہ ہم نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی پیدائش کے مقصد کی بلندیوں پر جانا ہے۔ دنیا میں تو جو مقاصد ہیں اُن کی بعض حدود ہیں۔ ایک خاص بلندی ہے جس کے بعد انسان خوش ہو جاتاہے کہ میں نے اُسے پا لیا ہے۔ یا اس دنیا میں ہی اس کے نتائج حاصل کر لئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کا مقصد تو ایساہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے قربت کے نئے سے نئے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے اور پھر مرنے کے بعدبھی اس دنیا کے عملوں کی اگلے جہان میں جزاہے جس میں اللہ تعالیٰ کے لا محدود رحم اور فضل کے تحت ترقی ممکن ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے اور ایسے انعامات کا انسان وارث بنتاہے جو انسان کی سوچ سے بھی باہرہیں۔ صحابہ رِضْوَانُ اللّٰہ عَلَیْھِم نے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کیں اور ’’رضی اللّٰہ عنہ‘‘ کا اعزاز پایا۔
(خطبہ جمعہ 8؍نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)