• 5 مئی, 2024

پلیز! کرونا کے مریض معانقہ یا مصافحہ نہ کریں

پلیز! کرونا کے مریض معانقہ یا مصافحہ نہ کریں
COVID-19 کی بیماری ابھی مکمل ختم نہیں ہوئی

مؤرخہ 13 اگست علی الصبح نماز تہجد کے بعد جب موبائل فون پر ڈاک کے میسجز دیکھے تو ان میں کینیڈا سسکاٹون سے مکرمہ بشریٰ نذیر آفتاب کا ایک میسج تھا جس میں یہ لکھا تھا میں نے کل ایک چھوٹا سا مضمون بعنوان ‘‘کووڈ 19 میں ایک بے وقتی ملاقات کی سزا’’ بھجوایا ہے۔ یہ مضمون اب الفضل آن لائن میں شائع ہوچکا ہے۔ کیونکہ جلسہ سالانہ ویسٹرن کینیڈا پر ماسک نہ پہننے کے نتیجہ میں یہاں سسکا ٹون میں گھروں کے گھر کرونا کی وجہ سے بیمار پڑے ہیں۔ ہمارے بھی ایک فیملی ممبر نے دوسروں کی دیکھا دیکھی ماسک اتار دیا تھا اور اس کا خوف ناک نتیجہ اب ہم سب بھگت رہے ہیں۔

عجیب اتفاق ہے کہ خاکسار نے اداریے لکھنے کے لیے جو موضوعات کے لیے ذہن سازی کر رکھی ہوئی ہے اس میں بھی کووڈ19-کے حوالہ سے احتیاطی تدابیر کا موضوع سر فہرست ہے۔ کیونکہ میں محسوس کر رہا تھا کہ دوست احباب کووڈ 19کو ابھی تک سنجیدگی سے (seriously) نہیں لے رہے اور احتیاطی تدابیر کو خیر باد کہتے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اب اس متعدی بیماری نے ہمارے ساتھ ہی رہنا ہے جو اس سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے رہیں گے وہ ہی اس سے بچتے رہیں گے۔

مجھے یاد ہے کہ خاکسار ایک شادی میں با صرار شمولیت اور پوری SOPs اختیار کرنے کے باوجود کرونا میں مبتلا ہو چکا تھا۔ کیونکہ ہمارے ایشائی معاشرہ میں نستعلیق طریقے سے جپھی ڈالنا، معانقہ کرنا اور دونوں ہاتھوں سےمصافحہ کرنا شامل ہے۔ اس لیے جب ایک اور فیملی شادی کے فنکشن پر مجھے مدعو کیا گیا تو جب خاکسار نےعمر کے اعتبار سے معذرت کی تو کہا گیا کہ آپ نے ہی صدارت کے فرائض ادا کرنے ہیں اور دعا کروانی ہے۔ تو مجھے مجبوراً اس فنکشن میں بھی شامل ہونا پڑا۔ مجھے احساس تھا کہ اس خوشی کے موقع پر بہت سے ایسے عزیز و اقارب سے بھی ملنا ہو گا جن سے Covid-19کے دوران ملاقات نہ ہوسکی تھی۔ تو خاکسار نے ایک بہت ہی کلر فل بیج تیار کروا کر اپنی ویسٹ کوٹ (waistcoat) کے اوپرچسپاں کر لیا۔ (اس پر کیا رقم تھا یہ ابھی مخفی ہی رہنے دیں ) چنانچہ دعوت میں اس کا خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ مدعووین اس سے محظوظ بھی ہوئے اور ممکن ہے بعضوں نے در پردہ مذاق بھی سمجھا ہو لیکن لوگ کیا کہیں گے؟ کے الزام لگنے کے احساس کو اپنے اوپر طاری ہونے نہیں دیا اور اس کےذہن میں آنےکے باوجود خاکسار کو جرأت دکھلانی پڑی۔ اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دوستوں نے دور رہ کرصرف سلام دعا ہی پر اکتفا کیا۔ یاد رہے کہ یہ مشورہ خاکسار نے امریکہ اور کینیڈا کے ٹرپ پرجاتے ہوئے ایک دوست کو بھی دیا تھا۔ مگر انہوں نے یہ کہہ کر اس مشورہ کو ٹال دیا کہ یہ تو بہت دل گردہ اور حوصلہ والی بات ہے اس پر عمل کرنے پر لوگ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ مذاق بھی اڑائیں گے اور سُوئے اتفاق کہ وہ وہاں پہنچ کر کرونابیماری کی لپیٹ میں آکر اس کا شکار ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور صاحب فراش ہوگئے اس طرح وقت اور پیسہ کے نقصان کے ساتھ ساتھ ان کا سارا Trip بھی خراب ہوگیا۔

در اصل ہمارے دوست اس کو غیر اہم سمجھتے ہو ئے بہت نارمل لیتے ہیں۔ اوّل تو خود بیمار ہو کر اس بیماری سے نبرد آزما ہونا کو ئی آسان نہیں لیکن اس بیماری کی بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ متعدی بیماری ہے جو اپنے ساتھ بہت سے دیگر ساتھیوں کوبھی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہ اتنا غیر محسوس طریقے سے ہوتا ہے کہ جس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے بہت سے مہذب اور پڑھے لکھے احباب نے اس کی تکلیف کو سمجھا اور خود بھی احتیاط کی اور بنی نوع کے لیے بھی احتیاط کا باعث بنے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے چند مثالیں پیش ہیں۔

  • ایک دوست کا اپنی بیٹی کی شادی سے قبل کرونا پازیٹو آگیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو گھر میں محصور کر لیا اور دوسروں کی بھلائی کے لیے قربانی کرتے ہوئے فنکشن پر نہیں گئے۔
  • ایک دوست کی والدہ وفات پا گئیں اور وہ ان دنوں کرونا میں مبتلا تھے۔ انہوں نے جنازہ پر جانے اور تدفین سے معذرت کر لی کہ میرا جانا دوسروں کے لیے خطرے سے خالی نہیں۔
  • ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آئے روز مبلغین کرام کی ماؤں یا باپوں کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کرونا کی وجہ سےان کا بیٹا جنازہ میں شامل نہیں ہو سکا۔

لیکن اس کے بالمقابل بعض ایسے دوست اور خواتین بھی ہیں جنہوں نے کرونا پازیٹو ہونے کے باوجود ہر فنکشن میں شرکت کی اور دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث ثابت ہوئے۔

ایک دوست نے تو حد ہی کردی، اپنے دوست ڈاکٹر کے پاس گئے پہلے تسلی سے معانقہ کیا اور پھر فرمانے لگے کہ مجھے یہ مشورہ کرنا ہے کہ کرونا کی بیماری سے نجات کیسے حاصل کروں اور کس قسم کا سرٹیفیکیٹ بنواؤں کہ ائرپورٹ والے زیادہ تنگ نہ کریں۔ اپنے اس دوست کی بات سے وہ ڈاکٹر صاحب دنگ رہ گئے اور اس سوچ میں چلے گئے کہ میں اپنے آپ کو کرونا سے اب کیسے بچاؤں گا؟

  • مجھے علم ہے کہ کسی کی والدہ محترمہ کرونا سے وفات پا گئیں جس کی وجہ سے گھر کے تمام افراد کرونا میں مبتلا تھے مگر نہ صرف جنازہ پر رشتہ داروں، عزیزوں کو مدعو کیا گیا بلکہ تدفین کے بعد تعزیت کرنے والوں کے لیے گھر کے دروازے بھی کھلے رکھے۔
  • اپنی بیٹی اور عزیزوں کی شادیوں میں کرونا پازیٹو کے باوجود یہ کہتے ہوئے شرکت کی کہ یہ مواقع بعد میں میسر نہیں آتے یا زندگی میں ایک دفعہ ہی آتے ہیں۔ لوگوں کے مزاج کی سادگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے !!!
  • ان محفلوں میں دلہن کے والد نے نہ صرف شمولیت کی بلکہ آنے والے مہمانوں کامعانقوں کے ساتھ استقبال کیا۔ جپھی ڈالنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ تو کرونا میں مبتلا تھے۔ اور یہ خیال خام لیے پھرتے تھے کہ ان کی کرونا سے دوستی ہوگئی ہے۔ حالانکہ وہ جنت الحمقاء میں رہتے ہیں۔
  • اسی پر بس نہیں بلکہ غیر ممالک میں شادی attend کرنے کی صورت میں کرونا پازیٹو کی اطلاع کے باوجود عزیزو اقارب سے ان کے گھروں کا visit کرنا، کرونا میں مبتلا ہونے کے باوجود ملاقات کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
  • مجھے ایک میاں بیوی نے بڑے فخر سے بتلایا کہ ہم تو آج مارکیٹ میں خرید و فروخت کے لیے گئے تھے۔

جبکہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جس علاقہ میں متعدی وباء ہو تو وہاں سے کوئی شخص دوسری جگہ نہ جائے اور نہ ہی اس جگہ کاکوئی visit کرے۔

حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ بہت بڑے قافلہ کے ساتھ شام کا سفر اختیار کیا۔ جب آپؓ سرغ نامی مقام پر پہنچے تو آپؓ کو بتایا گیا کہ شام میں وباء پھوٹ پڑی ہے۔ حضرت عمرؓ نے مہاجر صحابہ، انصار صحابہ اور قریش کے سرداروں سے الگ الگ مشورہ کیا کہ کیا اس وبائی صورت حال میں ہمیں شام جانا چاہیے یا یہیں سے واپس چلے جانا چاہیے؟۔ تینوں گروہوں کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ آپ کے ساتھ چنیدہ لوگ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقربین ہیں۔ ان کو ساتھ لے کر وباء کے علاقہ میں جانا مناسب نہیں۔ کسی قسم کا خطرہ مول نہ لیا جائے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے واپس جانے کا حکم صادر فرمایا۔

حضرت ابو عبیدہ ؓ اور بعض دیگر صحابہ نے اس کی مخالفت کی تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے ابو عبیدہ! ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی کی طرف جا رہے ہیں۔ دیکھو! اگر تمہارے اونٹ ایک ایسی وادی میں جائیں جس کی دو گھاٹیاں ہوں۔ ایک سر سبز و شاداب اور دوسری خشک چٹیل ویران۔ تو تم لازماً اپنے جانوروں کوسر سبز و شاداب وادی میں چراؤ گے۔ ابھی یہ بات ہوہی رہی تھی کہ اس موقعہ پر حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ تشریف لے آئے جنہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سنائی کہ اگر کسی علاقہ میں وباء پھیلی ہوئی ہو تو وہاں نہ جاؤ اور وباء والے علاقہ سے کسی اور جگہ بھی نہ جاؤ۔ حضرت عمرؓ نے اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور مدینہ واپس جانے کا فیصلہ فرمایا۔

(مسلم کتاب السلام باب الطاعون)

جو دوست یا خواتین اس وبائی کیفیت میں مبتلاء ہونے کے باوجود اپنی بیماری کواخفاء میں رکھتے ہیں یا یہ کہ کر اس کی مہلک کیفیت کو غیر اہم بنانے کے لیے کہتے ہیں کہ اب تو یہ نزلہ زکام اور فلوہی کی طرح ہے یہ مناسب نہیں۔ مخلوق جو اللہ کی عیال ہے سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس بیماری سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ تب حقوق العباد کا صحیح حق ادا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اپنی امان میں رکھے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایک قابل توجہ امر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2022