• 5 مئی, 2024

کائنات کی تخلیق

بگ بینگ(Big Bang)

فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا نام ’’بگ بینگ‘‘ یعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔ بگ بینگ کے مطابق ابتدا میں یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی، (جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ کہکشاؤں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ کائنات کی ابتدا اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔

قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنات کے متعلق بتایا گیا ہے:

اَوَلَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا

(الانبیا: 31)

ترجمہ: اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے انکو پھاڑ کر جدا کر دیا۔

اس قرآنی آیت اور بگ بینگ کے درمیان حیرت انگیز مماثلت سے انکار ممکن ہی نہیں ! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب جو آج سے 1400سال پہلے عرب کے ریگستانوں میں ظاہر ہوئی، وہ اپنے اندر ایسی غیر معمولی سائنسی حقیقت لیے ہوئے ہو۔

پھیلتی ہوئی کائنات

1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہو اکہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے۔

Everyday Mysteries ,Fun Science Facts from the Library of Congress

(Daily science of nature 23, April 2020)

ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن پاک میں کائنات کی فطرت اور خاصیت کے حوالے سے کیا ارشاد ہوتاہے:

وَالسَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ ﴿۴۸﴾

(الذاریات: 48)

ترجمہ:اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کووسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں عربی لفظ ’’موسعون‘‘ کا صحیح ترجمہ’’ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘ بنتا ہے اور یہ ایک ایسی کائنات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی وسعتیں مسلسل پھیلتی جا رہی ہوں۔ عصر حاضر کا مشہور ترین فلکی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) اپنی تصنیف اے بریف ہسٹری آف ٹائم باب سوم میں لکھتا ہے کہ
’’یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے، بیسویں صدی کے عظیم علمی و فکری انقلابات میں سے ایک ہے۔‘‘

غور فرمائیں کہ قرآن پاک کے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی، اس کے باوجود متشکک ذہن رکھنے والے بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک میں فلکیاتی حقائق کا موجود ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ عرب اس علم میں بہت ماہر تھے۔ فلکیات میں عربوں کی مہارت کی حد تک تو ان کا خیال درست ہے لیکن اس نکتے کا ادراک کرنے میں وہ ناکام ہوچکے ہیں کہ فلکیات میں عربوں کے عروج سے بھی صدیوں پہلے ہی قرآن پاک کا نزول ہو چکا تھا۔

علاوہ ازیں اوپر بیان کردہ بہت سے سائنسی حقائق، مثلا بگ بینگ سے کائنات کی ابتدا وغیرہ سے تو عرب اس وقت بھی واقف نہیں تھے جب وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے عروج پر تھے لہٰذا قرآن پاک میں بیان کردہ سائنسی حقائق کسی بھی طرح سے فلکیات میں عربوں کی مہارت کا نتیجہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ درحقیقت اس کے برعکس بات سچ ہے، عربوں نے فلکیات میں اس لیے ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا گیا ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب الہام، عقل، علم اور سچائی میں اس موضوع پر فرماتے ہیں کہ
نزول قرآن کے وقت کائنات کی ساخت اور اجرام فلکی کے متحرک یا جامد ہونےکے متعلق انسانی تصور بہت مبہم اور قدیم تھا۔ مگر اب یہ حالت نہیں۔ اب کائنات کے متعلق ہمارا علم کافی ترقی کر چکا ہے اور وسیع ہو چکا ہے۔ تخلیق کائنات کے متعلق بعض نظریات کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اب وہ مسلّمہ حقائق کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جبکہ کچھ اور نظریات پر ابھی تحقیق جاری ہے۔ یہ نظریہ کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اب سائنسی حلقوں میں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ سب سے پہلے ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے 1920 کی دہائی میں یہ انکشاف کیا تھا۔ مگر اس سے بھی تیرہ سو سال قبل قرآن کریم درج ذیل آیت میں اس کا ذکر واضح طور پر فرما چکا تھا۔

وَالسَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ ﴿۴۸﴾

(الذٰریٰت: 51)

ترجمہ: اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت دینے والے ہیں۔

یاد رہے کہ ایسی کائنات کا تصور جو مسلسل پھیلتی چلی جا رہی ہو صرف قرآن کریم میں ہی مذکور ہے۔ کسی اور آسمانی صحیفہ میں اس کا دُور کا اشارہ بھی نہیں ملتا۔ سائنسدانوں کے نزدیک یہ دریافت کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے انہیں کائنات کی تخلیق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ نیز یہ دریافت تخلیق کائنات کی مرحلہ وار اس طرح وضاحت کرتی ہے جو بگ بینگ (Big Bang) کے نظریہ سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔

بلیک ہول کا تصور

قرآن کریم اس سے بھی آگے بڑھ کر کائنات کے آغاز، انجام اور پھر ایک اور آغاز کے مکمل دور کو بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم کائنات کی پیدائش کے پہلے کا جو نقشہ پیش کرتا ہے، وہ ہو بہو بگ بینگ کے نظریہ کے مطابق ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں:

اَوَلَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۳۱﴾

(الانبیاء: 21)

ترجمہ:کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے۔ پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ یہاں معنی خیز بات یہ ہے کہ اس آیت میں بالخصوص غیر مسلموں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ مذکورہ بالا راز سے پردہ غیر مسلموں نے اٹھانا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح یہ امر قرآن کریم کی صداقت کا ایک زندہ نشان بن کر ان کے سامنے آ جائے۔

اس آیت کے دو الفاظ یعنی ’’رتقًا‘‘ (بند کیا گیا ہیولہ) اور ’’فتقنا‘‘ (ہم نے اسے پھاڑ کر الگ کر دیا) میں بنیادی پیغام پوشیدہ ہے۔ مستند عربی لغات میں ’’رتقاً‘‘ کے دو مطالب بیان کئے گئے ہیں اور دونوں ہی اس موضوع سے متعلق ہیں۔ ایک معنی یکجان ہو جانے کے ہیں اور دوسرے معنی کامل تاریکی کے ہیں۔ یہاں یہ دو نوں ہی مراد ہو سکتے ہیں اور دونوں کو ملا کر بعینہٖ ایک بلیک ہول کا نقشہ ابھرتا ہے۔

بلیک ہول اس وسیع و عریض مادہ کی منفی شکل ہے جو اپنی ہی کشش ثقل کے دباؤ کے زیر اثر سکڑ کر اپنا مادی وجود کھو بیٹھتا ہے۔ سورج سے تقریباً پندرہ گنا بڑے ستارے جب اپنا دورِ حیات ختم کر چکتے ہیں تو ان سے بلیک ہول کے بننے کا آغاز ہوتا ہے۔ ان ستاروں کی کشش ثقل ان کے وجود کو سکیڑ کر چھوٹی سی جگہ پر سمیٹ لیتی ہے۔ اس کشش ثقل کی شدت کی وجہ سے مادہ مزید سکڑ کر سپرنووا (Supernova) کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ اس مرحلہ پر مادہ کے بنیادی ذرات مثلاً مالیکیول، ایٹم وغیرہ پس کر ایک عجیب قسم کی توانائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ زمان و مکان کے اس لمحہ کو ایونٹ ہورائزن (Event Horizon) یا واقعاتی افق کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی اندرونی کشش ثقل اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ حتیٰ کہ روشنی بھی اس سے باہر نہیں جا سکتی اور واپس جذب ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں مکمل تاریکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ ان حقائق سے ذہن خود بخود قرآن کریم میں مذکور لفظ ’’رتقاً‘‘ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ جس کا مطلب مکمل تاریکی ہے اور اس کو اصطلاحاً Singularity کہا جاتا ہے جو Event Horizon یا واقعاتی افق سے بھی آگے کہیں دور واقع ہوتی ہے۔

بلیک ہول ایک بار معرض وجود میں آ جائے تو یہ بڑی تیزی سے پھیلنے لگتا ہے۔ کیونکہ دوردراز کے ستارے اس کی بڑھتی ہوئی کشش ثقل کی وجہ سے اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق ایک بلیک ہول میں موجود مادہ کی مقدار سورج میں موجود مادہ کی مقدار سے دس کروڑ گنا ہو جاتی ہے۔ اس کی کشش ثقل کا میدان وسیع ہوتے ہی خلا سے مزید مادہ اس کی طرف اتنی تیزرفتاری سے کھنچتا چلا جاتا ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ 1997ء میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ہماری کہکشاں میں ایک بلیک ہول میں موجود مادہ کی مقدار سورج میں موجود مادہ کی مقدار سے دو لاکھ گنا زیادہ ہے۔ بعض اعداد وشمار کے مطابق بہت سے بلیک ہول ایسے بھی ہیں جن میں سورج سے تین ارب گنا زیادہ مقدار میں مادہ موجود ہے۔ ان کی کشش ثقل اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ بڑے بڑے ستارے بھی اپنا راستہ چھوڑ کر ان کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ اور بلیک ہول میں غائب ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ’’رتقاً‘‘ کا عمل مکمل ہو کر Singularity یا اس واحد ہیولہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جو مکمل طور پر بند بھی ہے اور تاریک بھی۔ رہا اس سوال کا جواب کہ یہ کائنات کس طرح پیدا ہوئی تھی۔ تو اس کے متعلق دو تازہ ترین نظریات بگ بینگ کے نظریہ کی ہی تائید کرتے ہیں۔ ان نظریات کے مطابق یہ کائنات ایک ایسی Singularity یا وحدت سے جاری ہوئی جس میں مقیّد مادہ اچانک ایک زبردست دھماکہ سے پھٹ کر بکھرنا شروع ہو گیا اور اس طریق پر Event Horizon یا واقعاتی افق کے ذریعہ ایک نئی کائنات کا آغاز ہوا۔ جس مرحلہ پر بلیک ہول کی حد سے روشنی پھوٹنا شروع ہوئی اسے وائٹ ہول (White Hole) کہا جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک نظریہ کے مطابق یہ کائنات ہمیشہ پھیلتی چلی جائے گی جبکہ دوسرے نظریہ کے مطابق ایک مرحلہ پر پہنچ کر کائنات کا پھیلاؤ رک جائے گا اور کشش ثقل اسے اندر کی طرف کھینچنا شروع کر دے گی۔ آخرکار تمام مادہ واپس کھینچ لیا جائے گا اور غالباً ایک اور عظیم الشان ’’بلیک ہول‘‘ جنم لے گا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم مؤخرالذکر نظریہ کی تائید کرتا ہے۔

کائنات کی تخلیق اوّل کے ضمن میں قرآن کریم بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ اس کائنات کا خاتمہ ایک اور بلیک ہول کی صورت میں ہو گا۔ اس طرح کائنات کی ابتدا اور اس کا اختتام ایک ہی طرز پر ہو گااور یوں کائنات کا دائرہ مکمل ہو جائے گا۔ چنانچہ قرآن کریم اعلان کرتاہے۔

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ

(الانبیاء: 105)

ترجمہ: جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے جیسے دفتر تحریروں کو لپیٹتے ہیں۔

اس آیت کریمہ سے واضح ہو تا ہے کہ کائنات ابدی نہیں ہے۔ نیز ایک وقت یہ عالم بھی کھاتوں کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ سائنسدان بلیک ہول کا جو نقشہ کھینچتے ہیں وہ اسی آیت کے بیان کردہ نقشہ سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔

جوں جوں خلا سے مادہ بلیک ہول میں گرتا ہے توں توں کشش ثقل اور الیکٹرومگنیٹک (Electromagnetic) قوت کی شدت کی وجہ سے دباؤ کے تحت ایک چادر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ چونکہ بلیک ہول کا مرکز اپنے محور کے گرد گھومتا رہتا ہے اس لئے یہ تمام مادہ کوئی نامعلوم صورت اختیار کرنے سے پہلے اس کے گرد لپیٹا جاتا ہے۔

اسی آیت کریمہ میں آگے چل کر بیان کیا گیا ہے:

کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾

(الانبیاء: 105)

ترجمہ: جس طرح ہم نے پہلی تخلیق کا آغاز کیاتھا اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ وعدہ ہم پر فرض ہے۔ یقینا ًہم یہ کر گزرنے والے ہیں۔

اس آیت میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ جب کائنات ایک بلیک ہول میں گم ہو جائے گی تو اس کے بعد ایک نیا آغاز ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کائنات کی از سرنو تخلیق کرے گا جیسا کہ اس نے پہلے کیا تھا۔ بلیک ہول میں گم کائنات ایک بار پھر اندھیرے سے باہر آ جائے گی۔ اور تخلیق کا یہ عمل ایک بار پھر شروع ہو جائے گا۔ قرآن کریم کے مطابق کائنات کے سکڑنے اور پھیلنے کا عمل ایک جاری عمل ہے……

قرآن کریم یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ تمام اجرام فلکی مسلسل حرکت میں ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی ساکن نہیں ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:

کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۳۴﴾

(الانبیاء: 21)

ترجمہ: سب (اپنے اپنے) مدار میں رواں دواں ہیں۔

یہ ہمہ جہت اعلان تمام کائنات کا احاطہ کرتا ہے اور ہمارا نظام شمسی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مزیدبرآں قرآن کریم سے یہ بھی ثابت ہے کہ تمام اجرام فلکی بیضوی مداروں میں گردش کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ تمام اجرام اپنی فنا کے مقررہ وقت کی طرف رواں دواں ہیں۔ مندرجہ ذیل آیات ان موضوعات پر روشنی ڈال رہی ہیں۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ ﴿۳﴾

(الرعد: 3)

ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے بلند کیا جنہیں تم دیکھ سکو۔ پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا اور سورج اور چاند کو خدمت پر مامور کیا۔ ہر چیز ایک معین مدت تک کیلئے حرکت میں ہے۔ وہ ہر معاملہ کو تدبیر سے کرتا ہے (اور) اپنے نشانات کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم اپنے رب سے ملاقات کا یقین کرو۔

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَیُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ ۫ کُلٌّ یَّجۡرِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّاَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۳۰﴾

(لقمان: 30)

ترجمہ: کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے۔ ہر ایک اپنی مقررہ مدت کی طرف رواں دواں ہے اور (یاد رکھو کہ) اللہ اس سے جو کچھ تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَیُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ۙ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ ۫ۖ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ لَہُ الۡمُلۡکُ ؕ وَالَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مَا یَمۡلِکُوۡنَ مِنۡ قِطۡمِیۡرٍ ﴿۱۴﴾

(فاطر: 14)

ترجمہ: وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کر تا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے۔ ہر ایک اپنے مقررہ وقت کی طرف چل رہا ہے۔ یہ ہے اللہ، تمہارا رب۔ اسی کی بادشاہت ہے اور جن لوگوں کو تم اسکے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کی جھلی کے بھی مالک نہیں۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ۚ یُکَوِّرُ الَّیۡلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیۡلِ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اَلَا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفَّارُ ﴿۶﴾

(الزمر: 6)

ترجمہ: اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ دن پر رات کا خول چڑھا دیتا ہے اور رات پر دن کا خول چڑھا دیتا ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ہر ایک اپنی مقررہ میعاد کی طرف متحرک ہے۔ خبردار ! وہی کامل غلبہ والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔

اب ہم سورج کی حرکت کے بارہ میں قرآن کریم کے ایک اور حیرت انگیز انکشاف کا ذکر کرتے ہیںجس کا ذکر کسی اورالہامی کتاب میں نہیں ملتا۔ چنانچہ قرآن کریم یہ اعلان کرتا ہے:

وَالشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿۳۹﴾

(یٰس: 39)

ترجمہ: اور سورج (ہمیشہ) اپنی مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ کامل غلبہ والے (اور) صاحب علم کی (جاری کردہ) تقدیر ہے۔

اس آیت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ خلا میں ایک ایسا مقام ہے جو بالآ خر سورج کی آخری قرار گاہ بنے گا۔ اگر چہ اس آیت میں صرف سورج کا ذکر ہے لیکن بعد کی آیات میں تمام کائنات کو سورج کی اس حرکت کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے:

وَالشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿ؕ۳۹﴾ وَالۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِیۡمِ ﴿۴۰﴾ لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَلَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَکُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۴۱﴾

(یٰس: 39-41)

ترجمہ: اور سورج (ہمیشہ) اپنی مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ کامل غلبہ والے (اور) صاحب علم کی (جاری کردہ) تقدیر ہے اور چاند کے لئے بھی ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔ سورج کی دسترس میں نہیں کہ چاند کو پکڑ سکے اور نہ ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے۔

اگر صر ف سورج ہی ایک معین سمت میں سفر کررہا ہے تو اگلی آیت میں یہ بیان نہ ہوتا کہ سورج اور چاند کا باہمی فاصلہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے اور وہ کبھی بھی نہ تو ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور نہ ہی دور جائیں گے۔ یہ ایک ایسی تقدیر ہے جس میں ان کے مقررہ وقت تک کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ سورج اور چاند ایک ہی سمت میں سفر کر رہے ہیں۔

یہ حرکت صرف، سورج اور چاند تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے مطابق تمام اجرام فلکی نہایت خاموشی سے محو سفر ہیں۔ نیز بہت سی آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ تمام آپس میں دکھائی نہ دینے والے رشتوں میں وابستہ ہیں۔ چنانچہ اگر ان میں سے کوئی اپنا بیضوی مدار چھوڑتا ہے تو باقی بھی باہمی توازن برقرار رکھنے کے لئے اسی کے مطابق حرکت کرتے ہیں:

وَہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۳۴﴾

(الانبیاء: 34)

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب (اپنے اپنے) مدار میں رواں دواں ہیں۔

لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَلَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَکُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۴۱﴾

(یٰس: 41)

ترجمہ: سورج کی دسترس میں نہیں کہ چاند کو پکڑ سکے اور نہ ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور سب کے سب (اپنے اپنے) مدار پر رواں دواں ہیں۔

قرآن کریم کا یہ منفرد اسلوب زمین کی اپنے محور کے گرد گردش کے بارہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

اُس زمانہ کے عامۃ الناس ان آیات میں مضمر پیغام کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے تھے اور یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے تھے کہ پہاڑوں کی حرکت زمین کی حرکت سے وابستہ ہے نیز یہ کہ اگر سورج خلا میں ایک مخصوص مقام کی طرف سفر کر رہا ہے تو تمام کائنات بھی اسی طرح حرکت پذیر ہے۔ یہ نظریہ کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اس دور کے سائنسدانوں کے تصور میں بھی نہیں آیا تھا لیکن قرآن کریم کے گہرے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ساری کائنات خلا میں ایک خاص سمت میں سفر کر رہی ہے۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے تو تمام کی تمام 180ارب یا اس سے بھی زیادہ کہکشائیں جن میں ہمارے نظام شمسی کی حیثیت ایک چھوٹے سے نقطہ کی ہے سورج کی طرح ایک معین سمت میں سفر کر رہی ہیں۔

(الہام عقل، علم اور سچائی صفحہ 261-271)

اسی طرح کائنات کے بارے میں فرمایا کہ
کائنات کے متعلق آپ کا جو بھی نظریہ ہو ایک بات تو بہرحال طے ہے کہ یہ ابدی نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ

(البقرہ: 11)

ترجمہ: وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا آغاز کرنے والا ہے۔

اللہ کی ذات کے علاوہ ہر چیز فانی ہے۔

کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۷﴾ وَّیَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَالۡاِکۡرَامِ ﴿۲۸﴾

(الرحمٰن: 27-28)

ترجمہ:ہر چیز جو اس پر ہے فانی ہے مگر تیرے رب کا جاہ و حشم باقی رہے گا جو صاحبِ جلال و اکرام ہے۔

عنطراپی کے عمل اور وجود کائنات کے معمہ کے حل کی صرف ایک ہی صورت ہے اور یہ وہ حل ہے جسے قرآن کریم نے چودہ سو سال قبل پیش فرما دیا تھا۔ یہ ایک ایسی کائنات نہیں جس کے تخلیقی عمل میں گزشتہ بچا ہوا مادہ استعمال کرنا پڑے۔ بلکہ خالق کائنات اس کائنات کو ہر بار ازسر نو تخلیق کرتا ہے اور جب ایک کائنات اپنی تخلیق کا مقصد پورا کر لیتی ہے تو خداتعالیٰ اسے ختم کر دیتاہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ اعلان اس وقت فرمایا جب دنیا میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ ایسے اعلانات ہی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح امور غیب کے اسرار ایک تسلسل کے ساتھ شہود میں بدلتے چلے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ اسرار ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ تک پوشیدہ رہے اور ان کی کنہ تک نہیں پہنچا جا سکا۔ لیکن تحقیق و جستجو کے اس جدید دور میں یوں کھل کر سامنے آگئے جیسے ان کا ہمیشہ سے اس دور سے ہی تعلق رہا ہو۔

ایک اور امر بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند صدیوں میں سائنس کی عظیم الشان ترقیات کے باوجود اس صدی کے آغاز تک سائنسدان اس بات کے قائل تھے کہ ایٹم کو توڑا نہیں جا سکتا۔ کچھ عرصہ تک تو وہ اسی نظریہ پر قائم رہے لیکن بالآخر وہ ایٹم کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایٹم بم سے دنیا میں ہونے والی تباہی کے ساتھ ہی ایٹم کے غیر فانی ہونے کا نظریہ بھی دم توڑ گیا۔ بعدازاں پروٹان کے متعلق بھی یہی نظریہ پیش کیا گیا کہ اسے توڑنا محض حسابی امکان ہے، عملًاا یسا نہیں ہو سکتا۔ بہت زیادہ اخراجات سے تیار کی گئی گہری، زمین دوز تجرباتی سرنگوں کے ذریعہ اب تھوڑے تھوڑے کمزور سے شواہد ملنا شروع ہوئے ہیں کہ پروٹان کو توڑنا بھی ممکن ہے اور اسکی ممکنہ توڑ پھوڑ کے مشاہدہ کیلئے بہت وسیع اور مہنگے تجربات کئے جا رہے ہیں تا کہ ثابت کیا جا سکے کہ پروٹان کو توڑا جا سکتا ہے۔ اور اس کی عمر کا اندازہ لگانے کیلئے سائنسدانوں کو اب محض تھوڑا سا وقت درکار ہے۔

پروٹان کی توڑ پھوڑ کیسے اور کس شکل میں ہوتی ہے اور کیا اس کے بعد اسی مادہ سے دوبارہ پروٹان بن سکتا ہے یا نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب سائنسدانوں کی آئندہ آنے والی نسلیں دے سکیں گی۔ بہرحال گزشتہ نظریات کے برعکس اب یہ طے ہے کہ پروٹان ہمیشہ باقی نہیں رہتے۔

قرآن کریم اس کے متعلق چودہ سو سال پہلے ہی واضح فیصلہ دے چکا ہے۔ ہر اس چیز کیلئے جو پیدا کی گئی ہے ایک مدت مقرر ہے اور ایک دن وہ لازماً ختم ہو جائے گی صرف خداتعالیٰ ہی عدم سے وجود میں لاتا ہے اور جب چاہتا ہے معدوم کر دیتا ہے۔

قرآن کریم کا ایک دلکش انداز یہ ہے کہ وہ ایسی ایسی اصطلاحیں اور محاورے استعمال کرتا ہے جو بہت بعد میں کہیں جا کر انسانوں نے اختیار کیں۔ اس جدید دور میں ہر شخص اس سائنسی طریق سے واقف ہے جس کے مطابق اکثر اشیاء پر درج ہوتا ہے کہ یہ چیز کب تیار کی گئی اور کب تک قابل استعمال رہے گی۔ مثلاً جب پل بنائے جاتے ہیں تو ان کے افتتاح سے بھی پہلے انجینئر ان کی عمر کی تعیین کر کے ان کے ستونوں پر اسے کندہ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح موٹر گاڑیوں، ریلوے انجنوں، ریل کی پٹریوں، سڑکوں اور متعلقہ سازو سامان کیلئے بھی یہی طریق اختیار کیا جاتا ہے درحقیقت انسان کے استعمال میں آنے والی ہر چیز کیلئے ایک عمر مقرر ہے۔ جس کی تعیین سائنسی بنیادوں پر کی جا سکتی ہے۔ آج کل تو ڈبوں اور بوتلوں میں بکنے والی خوردنی اشیا پر بھی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں چیز فلاں تاریخ تک قابل استعمال ہے۔

پس خالق کائنات کی اپنی مخلوق کے بارہ میں باریک تفاصیل سے آگاہی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ قرآن کریم کا اسلوب اور اصطلاحات بالکل جدید معلوم ہوتی ہیں۔ مختصراً کائنات کے محدود ہونے کے متعلق یہ قرآنی اصول کہ، ہر چیز کو فنا ہے اور بالآخر وہ ختم ہو جائے گی، کبھی بھی باطل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تخلیق کے عظیم الشان منصوبے کی کتاب میں ہر چیز کا آغاز اور انجام پہلے سے درج کیا جا چکا ہے۔

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾

(الانبیاء: 105)

ترجمہ: جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیںگے جیسے دفتر تحریروں کو لپیٹتے ہیں جس طرح ہم نے پہلی تخلیق کا آغاز کیا تھا اُس کا اعادہ کریںگے۔ یہ وعدہ ہم پر فرض ہے۔ یقیناً ہم یہ کر گزرنے والے ہیں۔

اب ہم ذیل میں اپنے مذکورہ بالا موقف کی تائید میں بعض ممتاز سائنسدانوں کے حوالے پیش کرتے ہیں۔

پال ڈیویز (Paul Davies) جو ایڈلیڈ (Adelaide) یونیورسٹی میں نیچرل فلاسفی کے پروفیسر ہیں اور ٹمپلٹن (Templeton) جیسا اعلیٰ اعزاز حاصل کر چکے ہیں یوں رقم طراز ہیں:
’’انیسویں صدی کے وسط میں سائنسدانوں کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت تک ماہرین طبیعیات کا مطالعہ ایسے قوانین تک محدود تھا جو حاضر وقت سے مطابقت رکھتے تھے۔ اور جو وقت کے اعتبار سے ماضی اور مستقبل میں چنداں فرق کے روادار نہیں تھے۔ پھر حرارت اور انتقال حرارت کی دریافت سے صورت حال ہمیشہ کیلئے تبدیل ہو گئی۔ حرارت کی سائنس میں سب سے اہم اور مرکزی نقطہ دوسرا قانون حرارت ہے۔ جس کے مطابق حرارت ٹھنڈک سے گرمی کی بجائے گرمی سے ٹھنڈک کی طرف سفر کرتی ہے۔ اس قانون کو الٹایا نہیں جاسکتا۔ یہ قانون کائنات میں وقت کی سمت معین کرنے والے ایک ایسے اشارے کا کام دیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلیاں ایک ہی سمت میں ہورہی ہیں۔ چنانچہ سائنسدانوں نے بہت جلد یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ کائنات مسلسل ایک ایسے مقام کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں پہنچ کر درجہ حرارت برابر ہو جائے گا۔ اور کائنات ایک ایسی حالت پر آکر ٹھہر جائے گی جہاں حرارت سرے سے مفقود ہو گی۔ اس انتہائی حالت کو، جس میں مالیکیول بے ترتیب ہو جائیں گے، عنطراپی کہا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے کہ کائنات ابھی تک فنا نہیں ہوئی یعنی عنطراپی کی آخری حد نہیں آئی، یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کائنات ازلی نہیں ہے۔‘‘

DAVIES, P. (1992) The Mind of God:Science and The Search for the Ultimate Meaning. Penguin Books Ltd England, p.47

(الہام عقل، علم اور سچائی صفحہ 278-281)

(سید طفیل احمد شہباز۔ مربی سلسلہ نشرو اشاعت قادیان)

پچھلا پڑھیں

ایک قابل توجہ امر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2022