• 5 مئی, 2024

حضرت خواجہ غلام نبیؓ

حضرت خواجہ غلام نبی رضی اللہ عنہ۔ چکوال/ ڈیرہ دون

حضرت خواجہ غلام نبی رضی اللہ عنہ ولد میاں احمد دین صاحب اصل میں چکوال کے رہنے والے تھے۔ آپ اندازاً 1889ء میں پیدا ہوئے اور 1907ء میں قادیان حاضر ہوکر حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کا شرف پایا۔ اخبار بدر 10؍اکتوبر 1907ء صفحہ 3 پر سلسلہ حقہ کے نئے ممبر کے تحت آپ کا نام ’’میاں غلام نبی صاحب چکوال‘‘ بھی درج ہے۔ آپ کا تعلق ایک تجارتی گھرانے سے تھا چنانچہ بعد ازاں تجارت کے سلسلے میں ڈیرہ دون (اتر پردیش۔ انڈیا) چلے گئے اور وہیں زندگی بسر کی۔ آپ سے پہلے آپ کے بھائی حضرت خواجہ محمد امین صاحبؓ (ان کی وفات کا اعلان اخبار الفضل میں یوں درج ہے: ’’میرے والد خواجہ محمد امین صاحب چکوال 16؍دسمبر کو وفات پاگئے ہیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ مرحوم نہایت متقی اور با خدا انسان تھے …. خواجہ محمد شفیع از بمبئی‘‘۔ الفضل 26؍دسمبر 1940ء صفحہ2) احمدیت سے وابستہ ہوچکے تھے جس کی وجہ سے آپ کو احمدیت کے متعلق تحقیق میں بڑی مدد ملی۔ آپ اپنی روایات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پہلی دفعہ خاکسار غالبًا ماہ اگست 1907ء میں قادیان شریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اور تحقیق حق کے لئے آیا تھا۔ دو دن دارالامان رہنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ان دنوں حضور کھڑکی میں سے مسجد مبارک میں تشریف لایا کرتے تھے۔ ان دنوں حضور علیہ السلام مسجد مبارک کے اس حصہ میں نماز پڑھا کر تے تھے جو مسجد مبارک میں بجانب مغرب ایک چھوٹے سے کمرہ کی شکل میں بنا ہوا تھا۔ دوسری دفعہ جب میں قادیان شریف آیا تو مسجد مبارک کی توسیع ہو چکی تھی۔ مؤرخہ 30ستمبر 1907ء کو خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بعد نماز ظہر بیعت کی تھی۔ حضور علیہ السلام کے سر مبارک کے بال بہت باریک تھے اور شانوں کے قریب تک لمبے تھے اور حنا کی وجہ سے سرخ تھے۔ جب میں نے حضور علیہ السلام کے سر مبارک کے بالوں کی طرف دیکھا تو مجھے یہ گمان ہوا کہ حضور ابھی ابھی غسل فر ما کر تشریف لائے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور علیہ السلام کے سر مبارک کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں حالانکہ در اصل ایسا نہ تھا مجھے ایسا معلوم ہوا۔ بغور دیکھنے سے معلوم ہو اکہ یونہی بال چمک رہے ہیں۔ حضور کی خدمت شریف میں مولویوں کی مخالفت کا ذکر آیا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولویوں نے ہمارا بہت کام کیا ہے غالبًا فرمایا کہ اگر ہم لاکھوں روپیہ بھی خرچ کرتے تو بھی اتنی تبلیغ نہ ہوتی جتنی کہ مولویوں نے ہماری مخالفت کر کے ہمارا کام مفت میں کیا ہے۔ فرمایاایک مولوی ایسے گاؤں میں جا کر جہاں کے لوگ ہمارا نام تک بھی نہیں جانتے ہماری مخالفت میں وعظ کرتا ہے اور ہماے دعویٰ کا ذکر کرتا ہے۔ اس مجلس میں سے ہمارا ذکر سن کر ایک دو آدمی تحقیقات کرنی شروع کر دیتے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد وہ احمدی ہو جاتے ہیں۔ دوسری دفعہ وہی مولوی صاحب جب اس گاؤں میں آتا ہے تو وہ سنتا ہے کہ یہاں میرے گذشتہ سال کے مخالفانہ وعظ کے بعد ایک دو شخص احمدی ہو گئے ہیں۔ اس طرح وہاں آہستہ آہستہ جماعت بن جاتی ہے …..‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 1 صفحہ 61،62)

آپ کی بیعت شادی میں رکاوٹ کا باعث اور مخالفت کا طوفان کھڑا کرنے کا سبب بنی لیکن آپ نے بڑی استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا بالآخر آپ کی اہلیہ نے اغلبًا 1910ء میں قادیان حاضر ہوکر بیعت کر لی۔ جیسا کہ ذکر ہوا آپ تجارت کے سلسلے میں ڈیرہ دون سکونت پذیر ہوگئے تھے اور پھر ساری زندگی وہیں گزاری۔ آپ تہجد و نوافل کی پابندی، خلافت سے وابستگی، نظام سلسلہ کی اطاعت، جوش تبلیغ، حسن سلوک، مہمان نوازی، مبلغین سلسلہ کی عزت و محبت، شکر گذاری، توکل علی اللہ، صبر و تحمل اور ایثار وغیرہ جیسی خوبیوں کے حامل تھے۔ ایک مرتبہ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں حاضر تھے، اس حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے اخبار الفضل لکھتا ہے:
’’شیخ غلام نبی صاحب سوداگر سامان موٹر کار ڈیرہ دون سے تبلیغ کے متعلق حضور نے دریافت فرمایا۔ شیخ صاحب نے عرض کیا کہ اس وقت تک وہاں جلسہ وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا، یوں تبلیغ ہوتی ہی رہتی ہے۔ اس پر فرمایا جلسوں سے لوگ احمدی نہیں ہوا کرتے نہ اس قدر لوگ جلسوں میں احمدی ہوئے ہیں، احمدی ہونے والے تو یوں تلاش کیے جائیں پھر ان کو تبلیغ کی جائے وہ احمدی ہوجائیں گے۔‘‘

(الفضل 24؍اکتوبر 1921ء صفحہ 2)

آپ نے 18؍دسمبر 1942ء کو وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 1904) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ آپ کے متعلق آپ کے بیٹے مکرم خواجہ مبارک احمد صاحب کا ایک مضمون اخبار الفضل 4؍اکتوبر 1951ء میں موجود ہے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ بھی نہایت مخلص اور نیک خاتون تھیں، انہوں نے 18؍اپریل 1958ء کو لاہور میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ (الفضل 25؍اپریل 1958ء صفحہ 6) ان کے متعلق بھی ایک مضمون الفضل 16؍مئی 1958ء صفحہ 4،5 پر شائع شدہ ہے۔ آپ کی اولاد میں سے خواجہ مبارک احمد صاحب، خواجہ عبدالمجید صاحب کراچی (وفات: 31؍مارچ 1992ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ)، خواجہ عبدالحمید صاحب، غلام فاطمہ صاحبہ، مبارکہ بیگم صاحبہ (الفضل 2؍جنوری 1943ء پر کوکب ایوانی صاحب کے ساتھ نکاح کا اعلان ہے) اور امۃ الحفیظ صاحبہ کا علم ہوا ہے۔ اَللّٰھم اغفر لہٗ و ارحمہٗ۔

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ایک قابل توجہ امر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2022