• 17 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 5)

سیّدنا امیر المؤ منین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کا دورہ امریکہ 2022ء
30؍ستمبر 2022ء بروز جمعہ
قسط 5

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بج کر پچاس منٹ پر مسجد فتح عظیم میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھا ئی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے آئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور ہدایات سے نوازا، حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

آج جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ آج کا یہ دن کئی لحاظ سے ایک تاریح ساز دن ہے جو ہمیشہ احمدیت کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ آج حضور انور کے خطبہ جمعہ کے ساتھ ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی کے شہر زائن (Zion) میں مسجد فتح عظیم کا افتتاح ہو رہا تھا۔ پھر زائن کی سرزمین سے خلیفۃ المسیح کا پہلا ایسا خطبہ جمعہ ہےجو ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ ساری دنیا میں براہ راست لائیو نشر ہو رہا تھا۔

اس سے قبل امریکہ کے مشرقی حصّہ واشنگٹن Harrisburg DC اور ساوٴتھ کے علاقہ ہیوسٹن اور مغربی علاقہ لاس اینجلیز سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ ایم ٹی اے پر لا ئیو نشر ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر ڈوئی نے تو یہ کہا تھا کہ اس کے اپنے بسائے ہوئے شہر زائن (zion) سے اسلام کی آواز ہمیشہ کے لئے دبا دی جائے گی۔ اسلام کا کوئی نام لیوا بھی نہ ہو گا۔

آج اللہ تعالی کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ کی زبان سے الہام ’’فتح عظیم‘‘ کے جَلو میں، نہ صرف ڈوئی کے اس شہر میں اسلام کی آواز گونج رہی ہے۔ بلکہ یہاں سے ڈوئی کے ملک امریکہ میں بھی یہ آواز گونج رہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ آواز یہاں سے کل عالَم میں، ساری دنیا میں، ملک ملک، قریہ قریہ، بستی بستی سنائی دے رہی ہے۔ پس آج اس شہر کا چپہ چپہ اور یہاں کے دن رات کا لمحہ لمحہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر گواہی دے رہا ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللّٰہ العظیم۔

نماز جمعہ میں جماعت زائن (zion) کے علاوہ امریکہ کی مختلف دوسری جماعتوں سے احباب بڑے لمبے اور طویل فاصلے طے کرکے شامل ہونے کے لئے پہنچے تھے۔ شامل ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو ایک ہزار سے اڑھائی ہزار میل تک کا سفر طے کرکے آئی تھی۔ نماز جمعہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد دو ہزار سے زائد تھی۔

امریکہ کے علاوہ برطانیہ، جرمنی، سویڈن، برازیل، گیانا، سرینام، پاکستان، کبابیر، کینیڈا سے جماعتی نمائندگان اور دوسرے احباب اس مسجد کے افتتاح میں شمولیت کے لئے پہنچے تھے۔

خطبہ جمعہ اور خلاصہ خطبہ جمعہ

پروگرام کے مطابق ایک بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد فتح عظیم تشریف لائے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج آپ یہاں زائن کی مسجد کے افتتاح کےلیے جمع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ امریکہ کو توفیق دی کہ اس مسجد کی تعمیر کرے اور اُس شہر میں کرے جو جماعت کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ دو دن پہلے ایک جرنلسٹ نے مجھ سے سوال کیاکہ یہ مسجد یہاں کے لئے اتنی اہم کیوں ہے؟ مساجد تو ہمارے لیے ہر ایک اہم ہوتی ہے میں نے اسے یہی کہا تھا۔ تمام مساجد ہی ہمارے لئے اہم ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ صرف اس مسجد کے لئے خاص طور پر میں یہاں آیا ہوں۔ مَیں نے کہا پہلے بھی مساجد کے افتتاح کے لئے جاتا رہتا تھا۔ تو بہرحال اس کو میں نے کہا کہ اس مسجد کی ایک اور اہمیت بھی ہےاور وہ یہ ہے کہ اُس شہر میں تعمیر ہوئی ہے جو ایک مخالفِ اسلام کا آباد کیا ہواشہر ہے اور جن لوگوں کو تاریخ سے دلچسپی ہے وہ اس تاریخ کے جاننے کی کوشش کریں گے اور اس تاریخ کے بتانے کے لئے کیونکہ جماعت کے علاوہ تو کوئی اس شہر کی تاریخ کو نہیں جانتا نہ ڈوئی کو جانتا ہے۔ ایک نمائش کا اہتمام بھی جماعت نے کیا ہوا ہے۔ جس سے اس شہر کی تاریخ پر روشنی پڑتی ہے جو جماعت کے نزدیک اس شہر کی اہمیت ہے اور جن کو دلچسپی ہے وہ اس نمائش سے کچھ حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بہرحال جیسا کہ میں نے کہا اس شہر کی تاریخی اہمیت اور ایک نام نہاد دعوےدار اور اس کاحضرت اقدس مسیح موعودؑ کے خلاف غلط زبان استعمال کرنا اور پھر بالمقابل کھڑا ہونا اور پھر اس کا خاتمہ ہونااور شہر میں جماعت کا قائم ہونا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والا ہر احمدی کو بناتا ہے اور بنانا چاہئے اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہم اس شہر کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے باوجود اس کے کہ شروع میں کونسل نے مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی تھی مسجد بنانے سے انکار کر دیا تھا تو لوگ ہمارے حق میں کھڑے ہوئے اور کونسل کو مجبور کیا کہ وہ ہمیں مسجد کی تعمیرکی اجازت دےدے۔

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی یہ ارشاد ہے کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس اس لحاظ سے ہم احمدیوں کے لئے صرف ایک خوشی کادن نہیں ہے بلکہ انتہائی شکر گزاری کا دن بھی ہے اس خداکی شکر گزاری کا دن ہےجس نے ہمیں مسجد کی تعمیر کے ساتھ زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی سچائی کا بھی زندہ نشان دکھایا۔ تاریخ کے اوراق میں بھی جو اس زمانے کی تاریخ ہے اس میں سے بھی چند باتیں میں بیان کروں گا جس سے اس اہمیت کا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا اور لوگوں کو اس کو تسلیم کرنے کا پتہ چلتا ہے اور جتنا ہم شکر گزار بنیں گے اتنا ہی خدا تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں سے نوازتارہے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے نشان ہم پر کھلتے جائیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس یہ ہماری شکر گزاری کی حالت ہے جو ہمیں ان نشانوں کی سچائی کا گواہ بنائے گی۔ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے جماعت کی ترقی کے بیشمار وعدے ہیں وہ آپ کو جماعت کی ترقیات دکھائے گا اورد کھا رہا ہے اور آئندہ بھی دکھائے گا لیکن ہم ان ترقیات کے دیکھنے اور ان کا حصہ بننے کے حق دار تب ہوں گے جب ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانے والے ہوں گے اور اُس کاحق ادا کرنے والے ہوں گے۔ بے شمارو عدے ہیں جو ہم نے اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے دیکھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر ہروعدے کو پورا ہونے کے نظارے دکھاتا ہے۔ یہ وعدوں کے پورا ہونے کا نظارہ نہیں تو اور کیا ہے کہ آج سے ایک سو بیس سال پہلے جس جھوٹے دعویدار اور دشمن اسلام کی ہلاکت کی پیشگوئی آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کےفرمائی تھی آج اس کے شہر میں جس کے بارے میں اس کا اعلان تھا کہ کوئی مسلمان یہاں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ عیسائی نہیں ہو جاتا اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق دی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے کام۔ ایک عرب پتی اور دنیاوی جاہ و حشمت رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ نے جھوٹا کر دیا، ختم کر دیا اور پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے اپنے فرستادے کا دعوی جو اسلام کی نشاة ثانیہ کے ساتھ کیا گیا تھا دنیا کے دو سو بیس ممالک میں گونجنے کے سامان بھی پیدا کر دئیے ییں لیکن کیا یہاں ہمارا کام ختم ہو جاتا ہے ؟ کیا یہی کافی ہے کہ امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر میں ہم نے مسجد بنا لی اور جماعت کوترقی مل گئی۔ نہیں! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کو میدان عمل بنایا ہے۔ ہم نے تو چھوٹے شہر بڑے شہر اور ملکوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانا ہے۔ ہم اگر اپنے وسائل دیکھیں تو یہ بڑا وسیع کام نظر آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سب کے باوجود ہمارے سپرد یہ کام کیا ہوا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے لیکن آپ نے فرمایا یہ سب کام جو کئے جا رہے ہیں یہ تو ہماری معمولی کوشش ہے اس کے ساتھ اصل میں تو دعاؤں کی ضرورت ہے، دعاؤں سے یہ کام ہونے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس اس اہم بات کو ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ دعاؤں کی طرف توجہ دیں اور مساجد کی تعمیر بھی اس لئے ہوتی ہے کہ اس میں عبادت کے لئے لوگ جمع ہوں۔ پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔ جمعوں میں باقاعدگی اختیار کریں۔ دنیا کے لہو و لعب اور کاموں میں اپنی عبادتوں کو نہ بھول جائیں۔ اگر ہم اپنی عبادتوں کو بھول گئے تو یہ مسجد بنانا صرف ایک ظاہری ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔ دنیا کو ہم بتا رہے ہوں گے کہ یہاں ایک مسلمانوں کی مسجد بن گئی ہے لیکن ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کے نز دیک اس قابل نہیں ہوں گے کہ اس مسجد کی برکات سے فیض پانے والے ہوں یا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدد گاروں میں سے ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ مسلسل دعاؤں سے میرے مددگار بنو تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلد سے جلد پوار ہوتا دیکھیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کا اسلام کی فتح کا وعدہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاراکون نبی ہو سکتا تھا اور ہےلیکن کیا اس کے باوجود جنگ بدر کے موقع پر آپ کی گریہ وزاری عجز خوف خشیت اور دعا ایک عظیم مقام پر نہیں پہنچی ہوئی تھی؟ اس قدرگریہ وزاری تھی کہ آپ کی چادر بار بار کندھے سے اتر جاتی تھی اور پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! فتح و نصرت کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے تو پھر آپ اس قدربے چینی کا کیوں اظہار فرما رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ فتوحات میں بھی مخفی شرائط ہوتی ہیں اس لئے میرا کام نہایت تضرع سے اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد مانگنا ہے اور پھر دشمن کے بار بار کے حملوں مختلف مواقع پر بار بار حملوں اور ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے باوجود چند سالوں کے بعدہی اللہ تعالیٰ نے جو فتح دی اس جیسی فتح عظیم نہ تاریخ نے دیکھی نہ سنی کہ جان کے دشمن نہ صرف مسلمان ہو گئے بلکہ آپ کے عاشق بن گئے اپنی جانیں آپ پر نچھاور کرنے کی عملی تصویر بن گئے۔ دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی دشمن ہماری لاشوں پر سے گزرے بغیر آپ تک نہیں پہنچ سکتا اور جن کی قسمت میں ذ لت و رسو ائی لکھی تھی انہیں اللہ تعالیٰ نے تباہ و برباد کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تھیں جو یہ انقلاب لائیں۔ پس آج بھی فانی فی اللہ کے غلام صادق کی دعائیں ہی ہیں جو اپنے وقت پر پورا ہو کر دنیا کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے لائیں گی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تم جو میری طرف منسوب ہوتے ہو اپنی دعاؤں اور اپنے عمل سے میری مدد کرو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج ہم اس مسجد میں بیٹھے ہیں اس کا افتتاح کر رہے ہیں اس کا نام بھی فتح عظیم مسجد رکھا ہے اور یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام اور پیشگوئی کے حوالےسے رکھا گیا ہے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ڈوئی کی ہلاکت کی پیشگوئی فرمائی تھی اور آپ نے فرمایا تھا کہ یہ نشان جس میں فتح عظیم ہو گی عنقریب ظاہر ہو گا اور دنیا نے دیکھاکہ پندرہ بیس دن کے اندرہی اللہ تعالیٰ نےاسے ہلاک کر دیا اور بڑی ذلت سے ہلاک کر دیا۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس سے کیا سلوک کیا وہ ایک علیحدہ تفصیل ہے۔ بہرحال اس کی ہلاکت کے نشان کو اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر آپ نے فتح عظیم قرار دیا اور آج اس کا اگلا قدم ہے جو اس شہر میں ہم مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں۔ آپ کے الہام کے ایک حصہ کو ہم نے تقریبا ایک سو پندرہ سال پہلے پوراہوتے دیکھااور اس کا اگلا قدم ہم آج پورا ہوتےدیکھ رہے ہیں۔ ایک سو پندرہ بیس سال پہلے اس وقت کے اخباروں نے جو دنیاوی اخبار ہیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو اپنے اخباروں میں جگہ دی اور پھر اس کی ہلاکت کی بھی خبر دی۔ پس یہ خدا تعالیٰ کا نشان تھا جسےدنیا نے مانا۔ ایک اخبار کے کچھ حصہ کا میں یہاں ذکر کر دیتا ہوں زیادہ تو نہیں ہو سکتا۔ 23 جون 1907ء کے The Sunday Herld Boston نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعا ر ف لکھاپھر آپ کا دعوی اور چیلنج لکھاپھرڈوئی کے حوالےسے لکھا۔ اس کے اسی اخبارکے کچھ الفاظ میں پیش کر دیتا ہوں۔ وہ کہتا ہےاس نے ہیڈنگ یہ جمایا۔

عظیم ہے مرزا غلام احمد جو مسیح ہے جنہوں نے ڈوئی کے عبرتناک انجام کی خبردی اور اب وہ طاعون سیلاب اور زلزلے کی پیشگوئی کر رہے ہیں

یہ کہتا ہے کہ اگست کے تئیس دن گزرے تھے جب قادیان ہندوستان کے مرزا غلام احمد، الیگزینڈر ڈوئی جو ایلیا ثانی کہلاتا تھا اس کی موت کی خبر دی جو گزشتہ مارچ میں پوری ہو گئی۔ پھر کہتا ہے کہ یہ انڈین آدمی دنیا کے مشرقی علاقوں میں کئی سالوں سے شہرت رکھتا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ آخری زمانے میں جس سچے مسیح نے آنا تھا وہ میں ہوں اور خدا تعالیٰ نے اسے عزت بخشی ہے۔ امریکہ میں پہلی دفعہ اس کا ذکر 1903ء میں ہواجب ایلیاء سوم کے ساتھ اس کا تنازعہ منظر عام پر آیا۔ ڈوئی کی وفات کے بعد سے انڈین نبی نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا ہے کیونکہ اس نے ڈوئی کی وفات کا بتایا تھا کہ اس کی یعنی مرزا صاحب کی زندگی میں ہی نہایت دکھ اور تکلیف کے ساتھ اس کی وفات ہو جائے گی۔ مسڑ ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتا یا اشارة میرے مقابل پر کھڑا ہو گا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائےفانی کو چھوڑ دے گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے کہتا ہے اگر مسٹرڈوئی اس مقابلے سے بھاگ گیا توآج میں امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہئے کہ یہ تمام دعوی اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکر اور فریب تھااور اگرچہ وہ اس طرح موت سے بھاگنا چاہےگا لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلے سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے۔ پس یقینا سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد ترایک آفت آنے والی ہے کیونکہ اس دونوں صورتوں میں سےضرور ایک صورت اسےپکڑ لے گی۔ اب میں اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتا ہو کہ اےقادر اور کامل خدا! جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے اور ظاہر ہوتا رہے گا یہ فیصلہ جلد کر کہ ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دےکیونکہ اس زمانے میں تیرے عاجز بندے اپنے جیسے انسان کی پرستش میں گرفتارہو کرتجھ سے بہت دور جا پڑے ہیں۔

پھر اخبار لکھتا ہے کہ شروع میں ڈوئی نے مشرق بعید کی طرف سے اس چیلنج پر کوئی عوامی توجہ نہیں دی لیکن 26 ستمبر 1903ء کو اس نے اپنے زائن سٹی پبلیکیشن میں کہا کہ لوگ بعض دفعہ مجھ سے کہتے ہیں کہ تم اس طرح کی چیزوں کو جواب کیوں نہیں دیتے۔ کہتا ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے ان مکھیوں اور مچھروں کا جواب دینا چاہئے۔ اگر میں اپنے پاؤں ان پر رکھ دوں تو انہیں کچل دوں۔ میں انہیں موقع دیتا ہوں کہ اڑ جائیں اور زندہ رہیں۔ صرف ایک دفعہ اس نے کسی بھی طرح سے یہ ظاہر کیا کہ ا سے مرزا غلام احمد کے وجود کا علم ہے اس نے مرزا صاحب کو بیوقوف محمدی مسیح کے نام سے ذکر کیا۔ نعوذ باللہ اور 12 دسمبر 1903ء کو وہ لکھتا ہے اگر میں خدا کا نبی نہیں ہوں تو خدا کی زمین میں اور کوئی بھی نہیں اس کے بعدآنے والے جنوری میں اس نے لکھا کہ میرا کام یہ ہے کہ لوگوں کو مشرق مغرب شمال اور جنوب سے باہر نکالنا ہے اور انہیں اس اور دوسرے صیحونی شہروں میں آباد کرنا ہے۔ اس وقت تک جب تک مسلمانوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ اللہ ہمیں وہ وقت دکھائے۔ یہ ڈوئی نے لکھا جبکہ مرزا صاحب نے اسے سختی سے چیلنج کیا۔ اخبار پھر لکھتا ہے کہ مرزا صاحب نے سختی سے اسےچیلنج کیا کہ اللہ سے دعا کروکہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے ہلاک ہو جائے۔ ڈوئی ااس حالت میں مرا کہ اس کے دوست اسے چھوڑ کرجانے لگے اور قسمت خراب ہو گئی۔ وہ فالج اور جنون جیسے امراض میں مبتلا ہو گیا اور اسے عبرتناک موت ملی۔ اس کے ساتھ صیحون شہر اندرونی اختلافات کے باعث تباہ و برباد ہو گیا۔ مرزا صاحب سامنے آئے ہیں اور انہوں نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ وہ چیلنج یا پیشگوئی جیت گئے ہیں اوروہ ہرسچائی کے طالب کو سچائی قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اعلان کیا ہے۔ وہ اس آفت کو جو ان کے امریکہ مخالف پر پڑی خدائی انتقام کے سا تھ ساتھ خدائی انصاف کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

جیسا کہ ایک پیر بیان کرتا ہے کہ دشمن کے مرنے پر خوشی نہیں کرنی چاہئے کہ ہم ڈوئی کی زندگی کے بعض مخصوص حالات کی طرف اشارہ کریں۔ اس طرح کی چیزیں ہمارے دماغوں میں بہت دور ہیں۔ ہم ان حقائق کو اپنے مقصد کے لئےاورمزید سچائی کے اظہار کے لئےشائع کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا مقدس مذہب مردوں کی برائی کرنے کی تعلیم نہیں دیتالیکن اس یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ حقائق کو اس وقت چھپا لیا جائے جب ان کا ظاہر کرنا معاشرےکے حق میں اور انسانیت سچائی اور خدا کی خاطر ہو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ ایک اخبار کا نمونہ ہے جو انہوں نے پیش کیا ہے۔ یقینا یہ فتح تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی پر دلیل بھی تھی اور ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا آپ کا مشن تو بہت وسیع ہے یہ تو ایک محاذ کی ایک جگہ کی فتح کا ذکر ہے۔ ہماری حقیقی خوشی تو اس وقت ہو گی جب ہم دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے لائیں گے۔ اس کے لئے ہمیں اب اس مسجد کے بننے کے ساتھ تبلیغ کے نئے راستے تلاش کرنےہوں گے۔ مسیح محمدی کے دلائل کو د نیا کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ پہلے سے بڑھ کر اپنی عملی اور روحانی حالت کو بہتر بنانا ہو گا۔ جیسا کہ میں نے کہا اصل فتح عظیم تو فتح مکہ تھی۔ کیا فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین نے یا بعد کے مسلمانوں نے تبلیغ کا کام کو روک دیا تھا؟ کیا اسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش نہیں کی تھی ؟ جنگوں سے علاقے فتح نہیں کئے تھے؟ ہاں جنگیں بھی ہوئیں لیکن اس لئے نہیں کہ دین پھیلے بلکہ دل جیتے تھے جس سے قربانی کرنے والے لوگ گروہ در گروہ اسلام میں شامل ہوتے چلے گئے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہونے والی فتح کو مستقل تبلیغ اور دعاؤں سے دائمی کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کا شمار ان آخرین میں ہو تا ہے جو پہلوں سے ملے تو کیا پہلوں نے تبلیغ روک دی تھی اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں میں بہتری روک دی تھی ؟ عبادتوں کے معیارکم کر دئیے تھے۔ جب تک یہ چیزیں رہیں مسلمانوں میں اسلام ترقی کرتا رہا اور مسلمانوں پر زوال اس وقت آنا شروع ہواجب دنیا غالب آنے لگی اور تقوی کے معیارگرنےشروع ہو گئے۔ عبادتوں کی طرف کم ہوتی چلی گئی لیکن کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تھا کہ قیامت تک اس دین کو قائم رکھنا ہے اور تمکنت عطا فرمانی ہے ا س لئے آخری زمانے میں مسیح موعو داور مہدی معہود کو بھیجے گا پھر مسیح موعود کو بھیجا اور آپ نے دنیا کو اپنی بعثت کی خبر دی اور باوجود وسائل نہ ہونے کے یورپ اور امریکہ اور دنیا کے کئی ملکوں میں آپ کا پیغام پہنچا اور ڈوئی کے حوالے سے ہم دیکھ ہی ر ہے ہیں کہ کس شان سے پہنچا۔ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو اسلام کی نشاة ثانیہ کا بیج بویا تھا وہ ایک شان سے دنیا میں پھیلتا پھولتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے بے شمار وعدے فرمائے ہیں آپ کو الہاما فرمایا۔ خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے خدا تجھے غیر معمولی عزت دے گا۔ لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں تجھے بچاؤں گا اور اس طرح کے بیشمار وعدے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ سے کئے اور جماعت کی ایک سو تینتیس سالہ تاریخ اس بات پر گو اہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے وعدے پو رے فرماتا چلا جا رہا ہے۔ آج جو جماعت دنیا کے 220 ممالک میں پھیلی ہوئی ہے یہ اللہ تعالی کا کام ہے کہ اس نے اس پیغام کو پہنچانے کے سامان فرمائے ہیں اور دنیا آج مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود اور مہدی معہود کے طور پر جانتی ہے۔ ہر مخالف کو مقابل پر بلایا آپ نے اور اسےراہ فرار اختیارکرنے کے علاوہ چارہ نہ رہا یا اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ و برباد کر دیا۔ ہاں انبیاء کی جماعتوں کی مخالفتیں جاری رہتی ہیں لیکن دشمن جو چاہتا ہے وہ حاصل نہیں کر سکتا۔ یہی جماعت احمدیہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پورے وسائل اور طاقتوں کے ساتھ کیا زور ہے جو دشمن نے جماعت کو ختم کرنے کے لئے نہیں لگایا اور اب بھی لگا رہے ہیں۔ کمزور ایما ن اس سے ٹھوکر بھی کھاتے ہیں لیکن ایک جاتا ہے تو ہزاروں اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے پس اگر ہمیں اخلاص کا دعوی ہے ہم اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی تو پھر ہمیں اپنی تمام تر صلاحتوں کے ساتھ اس مسیح و مہدی کا مددگار بننا ہو گا۔ وہ نمونہ دکھانا ہو گاجو صحابہ نے دکھایا۔ ہم نے مسلمانوں کو بھی دین واحد پر جمع کر کے ان کے اندر سے تم بدعات کو ختم کرنا ہے اور غیر مسلموں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آشنا کرواکر انہیں خدائےواحد کی عبادت کرنے والا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا بنانا ہے تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کر سکتے ہیں ورنہ ہمارے بیعت کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ اس کے حصول کے لئے ہمیں اپنی عباد تو ں کے معیار اونچے کرنے ہوں گے ورنہ مسجدیں بنانا تو بے مقصد ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہم اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطبہ جمعہ کا مکمل متن حسب طریق الفضل میں علیحدہ شائع ہو گا۔ خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تھا یہ مسجد کے بارہ میں انہوں نے تفصیل لکھی تھی لیکن وہ تو بعد میں پتہ لگ جائے گی۔ کچھ میں بتا بھی چکا ہوں۔

یہاں مسجد فتح عظیم کے حوالہ سے کوائف درج کئے جاتے ہیں۔

مسجد فتح عظیم کے کوائف

مارچ 2016ء میں 10 ایکڑ رقبہ پر مشتمل دو پلاٹس ایک لاکھ 65 ہزار ڈالر میں خرید لئے گئے۔ 2015ء میں یہی پلاٹس ایک ملین ڈالر کے اندر فروخت ہو رہے تھے۔ اس وقت کے اقتصادی بحران کی وجہ سے اس شہر کی انتظامیہ کے بعض پراجیکٹ کینسل ہوئے جس کی بناء پر جماعت کو یہ 10 ایکڑ کا قطعہ زمین بہت کم قیمت پر مل گیا۔ 10 جولائی 2021ء کو مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ جو مسجد، نمائش ہال اور ساتھ دفاتر وغیرہ تعمیر ہوئے ہیں۔ اس کا مسقف حصہ 11 ہزار 678 مربع فٹ ہے۔ نمائش کے لئے جو ہال تعمیر کیا گیا ہے اس کا رقبہ 888 مربع فٹ ہے۔ مسجد ہال کا مردانہ حصہ 823 مربع فٹ اور عورتوں کا حصہ 774 مربع فٹ پر مشتمل ہے۔ اس طرح یہ دونوں حصے 1597 مربع فٹ پر مشتمل ہیں۔ نیچے والے فلور میں ملٹی پرپز ہال تعمیر ہوا ہے جس کا رقبہ 2451 مربع فٹ ہے۔ مسجد کے مردانہ اور خواتین کے ہال میں مجموعی طور پر 150 سے زائد افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس ہال میں تقریبات کے لئے کرسیوں پر 450 افراد کو بٹھایا جا سکتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لئے علیحدہ علیحدہ واش روم اور وضو کی جگہیں بنائی گئی ہیں۔ مسجد کے ساتھ ملحقہ کمپلیکس میں جماعتی دفتر، لجنہ کے دفاتر، لائبریری، IT آڈیو، وڈیو روم، کمرشل کچن اور سٹوریج کے لئے جگہیں بنائی گئی ہیں۔ مسجد کے ساتھ پارکنگ کے لئے بھی جگہ ہے جہاں 98 گاڑیاں آ سکتی ہیں۔

منارۃ المسیح کی طرز مینارہ کی تعمیر

زائن مسجد میں منارۃ المسیح کی طرز پر ایک مینار تعمیر کرنے کی بھی منظوری ملی ہے۔ اس مینار کی اونچائی 70 فٹ ہو گی۔ اس کا سنگ بنیاد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ کے دوران 27 ستمبر بروز منگل کو رکھا تھا۔

مسجد کے ساتھ تین فلور پر مشتمل گیسٹ ہاؤس بھی بنا ہے۔ تینوں فلور کا مجموعی رقبہ تین ہزار مربع فٹ ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطبہ جمعہ ایک بج کر پچاس منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور نے نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

فیملی ملاقاتیں اور تاثرات

پروگرام کے مطابق چھ بج کر بیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے اور فیملیز ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا۔ آج شام کے اس سیشن میں 32 فیملیز کے 152 افراد نے ا پنے پیارے آقا سے ملاقات کا شرف پایا۔ ان سبھی افراد نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھو ٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقات کرنے والی یہ فیملیز Zionکی مقامی جماعتوں کے علاوہ دیگر آٹھ جماعتوں اور مقامات سے آئی تھیں۔ جن میں شکاگو Chicago, ST.Louis, Detroit, Oshkosh, Milwaukee, Miami لاس اینجلز اور Bay point ہیں Miami سے آنے والی فیملی 1404 میل، لاس اینجلز سے آنے والی 2046 میل bay point سے آنے والی فیملیز 2142 میل کا سفر طے کر کے پہنچی تھیں۔

آج اکثر احباب مرد و خواتین کی حضور انور کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ ان کے چہروں پر ایک غیر معمولی خوشی تھی۔ ہر ایک کے اپنے اپنے جذبات تھے۔ ملاقات کر کے باہر نکلتے تو ایک دوسرے کو خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ مبارکباد دیتے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ خوشیاں دائمی بنا دے اور یہ ان انتہائی مبارک لمحات کی ہمیشہ کے لئے حفاظت کرنے والے ہوں۔

*ملاقات کرنے والوں میں ایک دوست شبیر احمد صاحب شکاگو سے آئے تھے کہنے لگے کہ آج ہم کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضور سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ہر کسی انسان کو یہ موقع نصیب نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ نعمت اور سعادت پاکستان میں اللہ کی خاطر ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے بعد ملی ہے۔

*ایک دوست عدیل احمد صاحب سے آئے تھے کہنے لگے میں آج بہت خوش ہوں اور خوش نصیب بھی ہوں کہ میرے بچوں کی خدا کے چنے ہوئے خلیفہ سے ملاقات ہوئی۔

*انصر حسن صاحب لاس اینجلز سے 2046 میل کا سفر طے کر کے ملاقات کے لئے آئے تھے۔ ملاقات کے بعد انہوں نے بتایا کہ سال 2013ء میں، میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں حضور انور سے ایک ساحلی علاقے کے قریب مل رہا تھا۔ میں نے یہ خواب اس وقت دیکھا تھا جب میں پاکستان میں تھا اور میرے امریکہ آنے کا کوئی امکان بھی نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے امریکہ تک پہنچا دیا اور اب ایک ساحلی علاقے کے قریب ہی میری حضور انور سے ملاقات ہوئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر ایسا فضل ہے کہ میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔

*جماعت شکاگو سے ملاقات کے لئے آنے والے دوست وقاص احمد صاحب نے بتایا کہ میری خوشی کی اس وقت انتہا نہ رہی کہ جب میں دفتر میں داخل ہوا تو حضور انور کو معلوم تھا کہ میرے والد کون ہیں۔ میں حیران رہ گیا کیونکہ یہ میری زندگی کی پہلی ملاقات تھی۔

*عثمان ضیاء صاحب جماعت ST. Louisسے آئے تھے۔ ملاقات کے بعد کہنے لگے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حضور انور کے بابرکات وجود میں جلال ہے۔ میں نے نور ہی دیکھا ہے۔

*سلمان احمد صاحب جو جماعت شکاگو سے آئے تھے کہنے لگے کہ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں کچھ بیان کر سکوں۔ بس یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ میں نے ملاقات کی سعادت پائی ہے اور میں نے حضور انور سے دعائیں حاصل کیں۔ حضور انور نے ہمیں بہت دعائیں دیں۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بجے بیس منٹ تک جاری رہا۔

بعد ازاں ساڑھے آٹھ بجے حضور انور نے مسجد فتح عظیم میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی قیامگاہ پر تشریف لے گئے۔

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ تنزانیہ 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2022