حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے میں آ کر بیٹھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک تہہ بند پہنے ہوئے ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز آپ کے جسم پر نہیں ہے چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے تھے اور میں نے دیکھا کہ ایک صاع کے بقدر تھوڑا سا جو تھا کمرہ کے ایک کونے میں ببول کے پتے تھے اور ایک مشک لٹک رہی تھی میری آنکھیں بھر آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابن خطاب!تم کیوں رو رہے ہو؟ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں کیوں نہ روؤں اس چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے ہیں یہ آپ کا اثاثہ ہے جس میں بس یہ یہ چیزیں نظر آ رہی ہیں اور وہ قیصر و کسریٰ پھلوں اور نہروں میں آرام سے رہ رہے ہیں آپ تو اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے برگزیدہ ہیں اور یہ آپ کا سارا اثاثہ ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ہمارے لیے یہ سب کچھ آخرت میں ہو اور ان کے لیے دنیا میں‘‘؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔
(سنن ابن ماجۃ کتاب الزھد بَابُ:ضِجَاعِ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)