• 24 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 4)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 4

گناہ سے بچنا ضروری ہے

جب میں حج سے آیا تو جہاز کے کپتان کو عربی سیکھنے کا شوق تھا۔ وہ مجھ سے عربی میں باتیں کیا کرتا۔ ایک دن کہنے لگا اب خوب مزا ہو گیا جو چاہو کرتے رہو کیونکہ حج کر لیا ہے اور اس طرح گناہ معاف ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا صاف ستھرے کپڑے کے متعلق زیادہ احتیاط کی جاتی ہے یا گندے کپڑے کی؟ کہنے لگا صاف کی۔ میں نے کہا پھر جب گناہ معاف ہو گئے ہیں تو اب زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ634)

وصیت سے مستثنیٰ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے لیکن میں یہاں تک احتیاط کرتا ہوں کہ قرض لے کر بھی اگر کوئی رقم خرچ کروں تو اس میں سے دس فیصدی چندہ دیتا ہوں۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا شکرانہ کے طور پر میں دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے بغیر وصیت کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا موقع دیا۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ636)

مومن اور غیر مومن کی حالت

دنیا میں کام دو طرح ہوتے ہیں ایک محبت سے دوسرے خوف سے۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسری کے ساتھ لگی ہوتی ہیں مگر کبھی باری باری آتی ہیں۔ کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے کاموں پر محبت غالب ہوتی ہے اور کچھ وہ ہوتے ہیں جن کے کاموں پر خوف غالب ہوتا ہے۔ یعنی انسان بعض کام خوف سے کرتا ہے اور بعض کام محبت سے۔ یہ دو دائرے ہیں، ان کےمتعلق ایک بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ جن کا دائرہ محبت کا ہوتا ہے وہ خواہش کے ماتحت ہوتا ہے کہ یہ بھی ہو جائے اور یہ بھی حاصل ہو جائے اور جن کا دائرہ خوف کا ہوتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو جائے۔ آج کل جب کہ ایک قسم کا خوف پیدا ہے، میں دیکھتا ہوں بعض کی حالت ایسی ہے کہ وہ کہتے ہیں ایسا نہ ہو جائے یعنی احرار ہمیں تباہ نہ کردیں مگر کام کرنے کا یہ محرک اولیٰ ہے۔ مومن کا محرک یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی لینا ہے اور وہ بھی لینا ہے۔

اس کی مثال بچہ کی سی ہوتی ہے۔ جس کی ترقی محبت کے ماتحت ہوتی ہے اس کی بڑی بڑی امنگیں ہوتی ہیں۔ وہ کبھی کہتا ہے میں بہت بڑا تاجر بنوں گا، کبھی کہتا ہے کہتا ہے بادشاہ بنوں گا لیکن۔ اگر کسی بوڑھے سے پوچھو کہ تمہاری کیا خواہش ہے تو وہ کہے گا بس یہی کہ انجام بخیر ہو جائے۔ بچہ یہ کوشش کرتا ہے کہ یہ بھی لے لوں مگر بوڑھا یہ کوشش کرتا ہے کہ اس بلاسے بچ جاؤں اور اس بلا سے بھی بچ جاؤں۔ بوڑھا آخرت کی فکر میں ہوتا ہے مگر بچہ نئی دنیا پیدا کررہا ہوتا ہے۔ بڈھے کا محرک گرنے والا ہوتا ہے مگر بچے کا بڑھنے والا۔میں ان بڈھوں کا ذکر نہیں کرتا جو مرنے کے وقت تک بھی جوان ہی ہوتے ہیں۔

حضرت انسؓ ایک سو دس برس کی عمر میں جب فوت ہونے لگے اور ان کے دوست ان کے پاس آئے اور پوچھا کوئی خواہش ہے تو انہوں نے کہا شادی کرا دو۔پس مومن کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ کیونکہ جسم کے بڑھاپے کی وجہ سے بڑھاپا نہیں آتا بلکہ روح کے بڑھاپے سے آتا ہے۔ بچہ جب باتیں کرنے لگتا ہے تو اس زمانہ میں کہتا ہے چاندلینا ہے، تارا لینا ہے۔

میرے متعلق ہی آتا ہے کہ رات کو میں رو رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اٹھالیا اور چپ کرنے کے لئے کہا دیکھو وہ تارا ہے۔ اس وقت میں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تارا لینا ہے۔ تو بچہ کی نظر اس طرف جاتی ہے کہ وہ لینا ہے۔ یہی روح ہمارے اندر ہونی چاہئے۔ پس ہم کام اس لئے نہ کریں کہ دشمن ہمیں مار دے گا کیونکہ یہ مومن کی شان نہیں بلکہ مومن کی شان یہ ہے کہ کام اس لئے کرتا ہے کہ یہ بھی لینا ہے اور وہ بھی لینا ہے۔

دیکھو! قرآن کریم میں کیسے لطیف پیرایہ میں یہ بات بیان کی گئی ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ۔ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ طین پانی ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ دو محرک کام پر لگانے والے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہ دو چیزیں رکھیں۔ پھر کیا کیا ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ نطفہ بنا دیا۔ یعنی پانی رہ گیا اور مٹی غائب ہو گئی۔ دوسری جگہ فرماتا ہے۔ وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ہر چیز کو پانی سے زندہ کیا۔ یعنی ہر چیز جذبات اور امنگ والی ہوتی ہے اس میں بڑھنے کی طاقت ہوتی ہے۔ پانی حیات نامیہ ہے۔ آ خر جب پانی کم ہو جاتا ہے تو ہر چیز مٹی بن جاتی ہے گویا ابتداء ماء سے ہوتی ہے اور انجام تراب پر ہوتا ہے۔

یہی مومن اور غیر مومن کی حالت ہوتی ہے۔ مومن اس لئے کام کرتا ہے کہ دنیا بسا جاؤں لیکن غیر مومن اس لئے کرتا ہے کہ فلاں خطرہ سے بچ جاؤں،فلاں مصیبت سے بچ جاؤں۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ643-644)

نصیحت ضرور اثر کرتی ہے

کسی شخص کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بڑا جابر تھا۔ دوسرے لوگ اسے بہت نصائح کرتے مگر اس کے دل پر کسی کی بات کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ اپنی دولت کے گھمنڈ میں اور حکومت کے نشہ میں جو چاہتا کرتا، نہ غرباءکا خیال کرتا نہ ہمسائیوں کے آرام کی اسے کوئی پرواہ ہوتی، دین کے معاملہ میں ہنسی اور تمسخر کرنا اس کا معمول تھا، آخر سب لوگوں نے تنگ آکر اسے کچھ کہنا چھوڑ دیا۔

ایک دفعہ ایک بزرگ نے جو اسے نصیحت کرتے رہتے تھے مگر وہ نہ مانتا تھا اسے خانہ کعبہ میں دیکھا اور حیران رہ گئے۔ پوچھا تم کہاں؟ کہنے لگا آپ کو معلوم ہے بہت لوگوں نے مجھے نصیحتیں کیں مگر مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کیا ہوا تھا۔ ایک دن میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ کوئی اجنبی قرآن کریم پڑھ رہا تھا۔ جب اس نے یہ آیت پڑھی کہ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخَشَحَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِاللّٰہِ یعنی کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو ایماندار کہتے ہیں ان کے دلوں میں خشیت اور ڈر پیدا ہو؟ تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ مجھ پر بجلی گر پڑی ہے۔ میں نے اسی وقت توبہ کی۔ جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں نے ان مظالم کا کفارہ ادا کیا جو دوسروں پر کر چکا تھا اور پھر حج کے لئے چلا آیا۔

تو ایسے اوقات آتے ہیں جب قلوب کی اصلاح ہو جاتی ہے مگر ان وقتوں کو لانے کی کوشش بھی تو کرنی چاہئے۔ اس کے لئے اپنے ارادوں میں تغیرکرنا ضروری ہوتا ہے، اپنی نیتوں کو بدلنا ضروری ہوتا ہے، اپنے اندر عجزوانکسار پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بےشک اس شخص کے کان میں اس وقت آواز پڑی جب وہ بازار میں سے گزر رہا تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو بازار میں پہنچایا تو تھا۔ اسی طرح ہماری کامیابی بھی خداتعالیٰ کے فضل پر ہی منحصر ہے مگراس فضل کو جذب کرنے میں ہماری کوشش کا بھی دخل ہے۔

جیسا کہ ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص پرندوں کو دانہ ڈالا کرتا تھا کسی نے کہا اس کو اس کا کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے یہ تو کافر ہے۔ آخر جب وہ ایمان لے آیا اور اس سے پوچھا گیا کہ تم کس طرح ایمان لائے؟ تو اس نے کہا وہی پرندوں کو دانے ڈالنا میرے کام آگیا۔

اسی طرح لکھا ہے ایک صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا یارسول اللہ!کفر کی حالت میں میں نے جو نیک اعمال کئے ان کا بھی مجھے کچھ فائدہ ہو گا؟ فرمایا۔ اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا اَسْلَفْتَ۔ اس وقت تم نے جو نیک اعمال کئے انہی کا نتیجہ ہے کہ تم اسلام لائے، انہی کی وجہ سے تمہیں ایمان لانے کی توفیق حاصل ہوئی۔

پس اس شخص کے لئے نصیحت حاصل کرنے کی گھڑی بازار میں آئی مگر اس کے پیچھے اس کا کوئی عمل ضرور تھا۔ اسی طرح تمہارے لئے بھی کامیابی کی گھڑی آسکتی ہے مگر اس کے لئے بھی تیاری کی ضرورت ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ7-8)

جائیداد میں عورت کا حصہ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے بعد اپنے خاندان کے لحاظ سے ہم نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بہنوں کو حصہ دیا اور والدہ صاحبہ کا حصہ نکالا۔ اس وقت ایک سرکاری افسر آیا جس نے آکر کہا کہ آپ قانون کے رو سے ایسا نہیں کر سکتے۔ میں نے اسے کہا اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو ہم ایسی جائیداد اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہیں اور اسے لعنت سمجھتے ہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ10)

صحابہ رسولؐ کا شاندار نمونہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خیال سے کہ مدینہ والوں نے یہ اقرار کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو لڑیں گے باہر جا کر نہیں لڑیں گے، صحابہ سے مشورہ پوچھا مہاجرین یکے بعد دیگرے کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ ہم لڑائی کے لئے تیار ہیں لیکن آپ ﷺاپنا سوال دہراتے چلے گئے تا انصار بھی بولیں۔

تب انصار میں سے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! آپ ﷺنے بار بار دریافت فرمایا اور صحابہ نے جواب دیا مگر پھر بھی آپ ﷺسوال کو دہراتے چلے جا رہے ہیں اس سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ شاید آپ ﷺ انصار سے دریافت فرما رہے ہیں۔ غالباً آپ ﷺکے مدنظر وہ معاہدہ ہے جو ہم نے آپ ﷺکے تشریف لانے پر کیا تھا کہ مدینہ پر حملہ ہو گا تو ہم آپ ﷺکے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے لیکن مدینہ سے باہر جا کر لڑنا ہمارے لئے ضروری نہ ہوگا۔

رسول کریمﷺنے فرمایا ہاں۔ اس پر اس صحابی نے کہایا رسول اللہ! وہ اس وقت کی بات ہے جب ہم نے آپ ﷺ کو اچھی طرح نہ پہچانا تھا لیکن اب تو ہم آپ ﷺکو خوب پہچان چکے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں یا رسول اللہ!یہ سامنے سمندر ہے اگر آپﷺ حکم فرمائیں کہ اس میں گھوڑے ڈال دو تو ہم ایک لمحہ کا تو قف بھی نہیں کریں گے اور اگر دشمن آپ ﷺپر حملہ کرے تو وہ آپﷺ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں پر سے گزر کر نہ آئے گا۔ ہم آپ ﷺ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی اور جب تک جان میں جان رہے گی دشمن کو آپ ﷺ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔

یہ تو ان کا قول تھا مگر عمل سے بھی انہوں نے اس کو درست ثابت کر دیا۔ دنیا میں بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو منہ سے تو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر عمل سے انہیں پورا نہیں کرتے۔ انصار نے (اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی رحمتیں اور برکتیں ان پر ہوں) جو کہا اسے اپنے عمل سے پورا بھی کر دیا۔ ہمیشہ میرا قلب اس صحابی کا ذکر آنے پر اس کے لئے دعائیں کرنے میں لگ جاتا ہے۔ جس نے احد کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اخلاص کا ایسا قابل رشک نمونہ پیش کیا کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال قائم رہے گی۔

وہ واقعہ یہ ہے کہ احد کی جنگ میں جب کفار میدان سے چلے گئے اور مسلمان اپنے زخمیوں اور شہیدوں کی تلاش میں نکلے تو ایک انصاری نے دیکھا کہ ایک دوسرے انصاری بہت بری طرح زخمی ہو کر میدان جنگ میں پڑے ہیں اور چند منٹ کے مہمان معلوم ہوتے ہیں۔ وہ صحابی ان کے پاس گئے اور کہا اپنے گھر والوں کو کوئی پیغام دینا چاہو تو دے دو، میں پہنچا دوں گا۔ اس وقت اس صحابی نے جو جواب دیا وہ نہایت ہی شاندار تھا۔ اس حالت میں کہ وہ موت کے قریب تھے اور اپنی موت کے بعد اپنی بیوی بچوں کی حالت کا نظارہ ان کی آنکھوں کے سامنے تھا انہوں نے جو ایمان کا نمونہ دکھایا وہ بتاتا ہے کہ انصار نے جو کہا سچے دل سے کہا تھا اور اسے پورا کر کے دکھا دیا۔ انہوں نے کہا میں پہلے ہی اس بات کی انتظار میں تھا کہ کوئی دوست ملے تو اس کے ذریعہ اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجوں، اچھا ہوا تم آگئے۔ پھر کہا وہ پیغام یہ ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے رشتہ داروں اور میرے دوستوں سے کہہ دینا کہ جب تک ہم زندہ تھے ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے رسول کریم ﷺ کی حفاظت کی مگر اب ہم اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور یہ قیمتی امانت تمہارے سپرد کرتے ہیں امید ہے کہ آپ ہم سے بھی بڑھ کر اس کی حفاظت کریں گے۔ یہ کہا اور جان اپنے پیدا کرنے والے کے سپرد کر دی۔یہ ایسا شاندار ایمان کا مظاہرہ ہے کہ جس کی مثال صحابہ رسول کریم ﷺ کے سوا کسی اور جگہ بہت کم مل سکتی ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ11-13)

وعدہ فراموش

ہم ملامت کرتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کو، ہم ان کے اس فعل پر اظہار نفرت کرتے ہیں۔ جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ کہ جاوٴ! موسیٰ تم اور تمہارا خدا ان سے لڑو ہم تو یہ بیٹھے ہیں۔

مگر ذرا غور تو کرو کیا ہم میں سے کئی ایسے نہیں جن کی حالت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں سے بھی بدتر ہے؟ وہ کہتے تو یہ ہیں کہ ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں لیکن عین موقع پر کھسک جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے جو یہ کہا کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۔ تو انہوں نے اس طرح بتا دیا کہ ہم لڑنے کے لئے تیار نہیں تمہیں جو انتظام کرنا ہو خود کر لو۔ گویا انہوں نے وقت پر آگاہ اور ہوشیار کر دیا مگر ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو آگاہ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔

ان کی مثال اس امیر کی سی ہے جس نے اپنے بھائی سے کہا تھا کہ تم کو اپنے لئے کسی جائیداد کی ضرورت نہیں میرے کھجوروں کے اتنے باغ کھڑے ہیں، ایک درخت کی کھجوریں تم لے جانا۔ اس کے بھائی نے کہا وقت پر میں آپ کو یہ بات کہاں یاد دلاتا رہوں گا، ایک درخت میرے لئے مقرر کر دو میں اس کی حفاظت بھی کروں گا اور وقت پر کھجوریں لے جاوں گا۔ امیر نے کہا کہ یہ تو بڑے شرم کی بات ہے کہ میرے اتنے نوکر ہوں اور تم اپنے درخت کی حفاظت کرو اسی طرح رہنے دو اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ آخر جب وقت آیا تو غریب بھائی نے کہا کہ اپنے مالیوں سے کہہ دیں کہ مجھے ایک درخت بتا دیں تاکہ میں اس کی کھجوریں تڑوالوں۔ تو پھر امیر نے کہا کہ کیا میرے نوکر تمہارا یہ کام نہیں کر سکتے؟ پھر جب کھجوریں گھر میں لے جانے کا وقت آیا تو غریب بھائی نے کہا اب مجھے کھجوریں دے دی جائیں تاکہ میں گھر لے جاسکوں۔ امیر بھائی نے کہا یہ بھی میرے لئے مناسب نہیں۔ جہاں اتنی کھجوریں جائیں گی وہاں یہ بھی چلی جائیں گی میرے نوکر تمہارے گھر پہنچا دیں گے۔ آخر جب سب کھجوریں اس کے گھر پہنچ گئیں اور بھائی خالی کا خالی رہ گیا اور اس نے شکایت کی تو اس نے جواب دیا کہ اب کے تو نوکروں سے غلطی ہو گئی ہے تم کو اگلے سال کھجوریں دیں گے۔

یہ بظاہر ہنسی کی بات ہے مگر دنیا میں ہو رہی ہے اور ہم میں بھی ہو رہی ہے۔ ہر موقع پر ہماری جماعت کے بعض لوگ اقرار کرتے ہیں کہ جس قربانی کی بھی ضرورت ہو گی وہ ہم کریں گے لیکن جب کسی قربانی کے پیش کرنے کا وقت آتا ہے تو ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے متعلق میں کہتا ہوں کاش! وہ حضرت موسیٰؑ کے ساتھیوں والا یہ جواب ہی دے دیتے کہ فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ۔ تاہمیں اپنے دنیوی سامانوں کا صحیح اندازہ لگانے کا موقع تو مل جاتا،اور ہم ان لوگوں کی وجہ سے جو قربانی کرنے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر قربانی کرتے نہیں،دھوکہ میں نہ رہتے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ13-14)

نجات کے لئے ہر حکم پر عمل کرنا ضروری ہے

ہم میں سے بھی کئی ہیں جو کہتے ہیں ہم اگر اسلام کے کسی حکم پر عمل نہیں کرتے یا کسی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو کیا ہوا،ہم حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کو تو مانتے ہیں۔ اگر کوئی اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے اور اس سے اسلامی احکام کے مطابق سلوک نہیں کرتا تو وہ یہ کہہ دینا کافی سمجھتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں۔ اگر کوئی اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیتا تو کہہ دیتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں۔اگر کوئی اپنے بچوں کو تعلیم اسلامی طرز کے مطابق نہیں دلاتا تو کہہ دیتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں، اگر کوئی داڑھی منڈاتا ہے تو کہہ دیتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں۔ مگر مانتا کیا ہے خاک۔ جب وہ تفصیلی احکام نہیں مانتا۔

اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے گودنے والے سے کہا تھا کہ میری کلائی پر شیر گود دو۔ جب اس نے سوئی ماری اور اسے درد ہوا تو کہنے لگا کیا کر رہے ہو؟ گودنے والے نے کہا شیر کا دایاں کان گودنے لگا ہوں۔ اس نے کہا اگر دایاں کان چھوڑ دیا جائے تو پھر شیر رہتا ہے یا نہیں؟ گودنے والے نے کہا رہتا ہے۔ وہ کہنے لگا اچھا اسے جانے دو اور آگے چلو۔ پھر اس نے سوئی ماری تو کہنے لگا اب کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا شیر کا بایاں کان گودتا ہوں۔ کہنے لگا اگر بایاں کان نہ ہو تو کیا شیر رہتا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا ہاں رہتا ہے۔ کہنے لگا پھر آگے چلو۔ اسی طرح اس نے ہر عضو کے متعلق کہنا شروع کیا، آخر گودنے والے نے سوئی رکھ دی اور کہہ دیا کہ اس طرح شیر کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔

تو بے شک انسان کمزور ہے، اس سے قصور ہو جاتا ہے مگر ایک قصور ہو گیا، دو ہو گئے یہ کیا کہ ہر حکم کو چھوڑ دے۔ پھر اس میں اسلام کا کیا باقی رہ سکتا ہے۔ صرف یہ مان لینا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ سے نبی ہو سکتا ہے اور یہ سمجھ لینا کہ اس طرح اسلام دنیا میں غالب آجائے گا ایسا ہی ہے جیسا کہ ڈاکٹر اقبال کا یہ کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین مان لینے کے بعد پھر خواہ کچھ کرو کوئی حرج نہیں اور اسلام غالب آجائے گا۔پس ہمارا فرض اسلام کو اس کی جزئیات سمیت قائم کرنا ہے اور اپنی اصلاح کے لئے ہر حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ20-21)

مبلغ کا کام مباحثات کرنا نہیں

مبلغ کا کام مباحثات کرنا نہیں بلکہ دین اور تقویٰ قائم کرنا ہے۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی سادگی کو دیکھا ہے۔ میں بچہ تھا مگر مجھے یاد ہے ہم آپ کا چہرہ دیکھ کر سمجھتے کہ معلوم نہیں آپ سوال کا جواب دے سکیں گے یا نہیں مگر جب جواب دیتے تو سائل کو مطمئن کرکے خاموش کر دیتے۔

پس ہمیں وہ تیز طرار مبلغ نہیں چاہئیں جو خم ٹھونک کر میدان مباحثہ میں نکل آئیں اور کہیں آؤہم سے مقابلہ کر لو۔ ایسے مبلغ آریوں اور عیسائیوں کو ہی مبارک ہوں ہمیں تو وہ چاہئیں جن کی نیچی نظریں ہوں جو شرم و حیا کے پتلے ہوں، جو اپنے دل میں خوف خدا رکھتے ہوں، لوگ جنہیں دیکھ کر کہیں کہ یہ کیا جواب دے سکیں گے۔ ہمیں ان فلسفیوں کی ضرورت نہیں جو مباحثوں میں جیت جائیں بلکہ ان خادمان دین کی ضرورت ہے جو سجدوں میں جیت کر آئیں۔ اگر وہ مباحثوں میں ہار جائیں تو سو دفعہ ہار جائیں۔ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے کہ زبانیں چٹخارہ لیں مگر ہمارے حصہ میں کچھ نہ آئے۔ سر جنبش کریں اور ہم محروم رہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ26)

دین کی خدمت تنخواہ کی خاطر نہ کریں

مبلغ وں کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ گزارہ لینے میں عیب نہیں مگر گزارہ کے لئے کام کرنا عیب ہے۔ مبلغ وہ ہے کہ اسے کچھ ملے یا نہ ملے اس کا فرض ہے کہ تبلیغ کا کام کرے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو ایک دن وہ کپڑے کی گٹھڑی لے کر بیچنے کے لئے چل پڑے اس پر صحابہؓ نے کہا اگر آپ نے یہ کام جاری رکھا تو خلافت کے فرائض کس طرح ادا ہوں گے؟ اس پر انہوں نے کہا میں پھر گزارہ کیونکر کروں؟ صحابہؓ نے کہا ہم آپ کے لئے وظیفہ مقرر کر دیتے ہیں۔

یہ گزارہ ایسا نہ تھا کہ اگر نہ ملتا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دین کی خدمات سرانجام نہ دیتے وہ پھر بھی اسی طرح کام کرتے۔ پس ایسے مبلغ رکھنے چاہئیں جن میں نیکی ہو، تقویٰ ہو، جو دین کی خدمت تنخواہ کی خاطر نہ کریں بلکہ تنخواہ اس لئے لیں کہ دین کی خدمت کر سکیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ27)

اولاد سے ایسی محبت کرو

میں نے ایک عورت دیکھی جس نے ایسا اخلاص دکھایا جو کسی تعلیم یافتہ عورت سے کم نہ تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ میں ایک عورت روتی ہوئی آپ کے پاس آئی اور آکر کہا میرا لڑکا عیسائی ہو گیا ہے۔ وہ لڑکا مسلول تھا مگر وہ عورت بار بار کہتی میں یہ نہیں چاہتی کہ یہ لڑکا بچ جائے بلکہ میں یہ چاہتی ہوں کہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے، پھر خواہ مر جائے۔ میری اس وقت دس بارہ سال کی عمر ہوگی مگر ابھی تک مجھے اس کی شکل یاد ہے۔ وہ لڑکا بھی کوئی ایساضدی تھا کہ بیماری کی حالت میں رات کو اٹھ کر چوری بھاگ گیا۔ جب اس کی ماں کو معلوم ہوا تو وہ اکیلی اس کے پیچھے بھاگی ہوئی گئی اور بٹالہ کے قریب سے پکڑ کر لے آئی۔ آخر اس کی جدوجہد اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی دعا نے اثر دکھایا اور وہ مسلمان ہو گیا۔ پھر دوسرے تیسرے دن مر گیا۔

وہ عورت ان پڑھ تھی مگر ایسی ہزار پڑھی ہوئی عورتیں اس پر سے قربان کی جا سکتی ہیں جو اپنے مذہب اور اپنی اولاد سے اس قسم کی پاک محبت نہیں رکھتیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ34)

ہر کام کرنے کی عادت ڈالو

جس کام کی عادت نہ ہو اس کا کرنا دوبھر ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بوجہ شدید مخالفت کے ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے اس لئے خریدو فروخت کے معاملہ سے ہم بالکل نابلد تھے۔

ایک دفعہ ایک عورت نے جو ہمارے گھر میں مہمان آئی ہوئی تھی دو پیسے اور گلاس دیا کہ دکان سے جاکر دودھ لا دو۔ مجھے یاد ہے کہ یہ سن کر میرے کان اور آنکھیں انگارے کی طرح گرم ہو گئیں۔ میں اپنی اس کمزوری کی وجہ سے کہ اگر کوئی مجھے کام کہے تو مجھ میں اس سے انکار کرنے کی ہمت کم ہے، گلاس اور پیسے لے کر باہر تو چلا گیا مگر میرا سارا جسم کانپ رہا تھا کیونکہ مجھے اس قسم کے کام کی عادت نہ تھی۔

غرض عادت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ان عادتوں کو توڑ کر اپنے آپ کو اس مقام پر لے جائیں جہاں کوئی بھی کام کرنے میں مشکل نہ پیش آئے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ36-37)

سنانے کی سچی لگن ہو تو زمین آسمان سنیں گے

حافظ روشن علی صاحب مرحوم کا ایک لطیفہ مجھے بہت پیارا لگتا ہے۔ وہ ایک دفعہ مدراس گئے جہاں ایک مقام پر رات کو جلسہ کیا گیا تاکہ لوگ سننے کے لئے آسکیں کیونکہ ان دنوں وہ لوگ دن کو دھان کی نلائی کا کام کرنے میں مصروف رہتے تھے، رات کو کچھ لوگ آگئے اور حافظ صاحب نے تقریر شروع کی مگر دوران تقریر میں سب سو گئے اور حافظ صاحب برابر تقریر کرتے رہے آخر ساری تقریر کرکے انہوں نے کہا اے زمین و آسمان! تو گواہ رہ کہ میں نے خدا کا پیغام یہاں پہنچا دیا اور یہ کہہ کر لوگوں سے کہا اب اٹھ بیٹھو تقریر ختم ہو گئی ہے۔

پس اگر کوئی انسان نہ سنے تو ہوا کو سنا دو اور زمین و آسمان کو گواہ بنا لو۔ جب تم میں سنانے کی ایسی لگن پیدا ہو جائے گی تو زمین و آسمان میں درد پیدا ہو گا اور وہ لوگوں کے سینے میں جاگزیں ہو جائے گا اور وہ حق کی طرف دوڑے آئیں گے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ41-42)

نکاح پر نکاح

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی نے نکاح پر نکاح پڑھا دیا۔ میں نے اسے کہا یہ تم نے کیا کیا؟ تو وہ کہنے لگا سخت مجبوری کی حالت میں ایسا کیا گیا ہے۔ حضرت مولوی صاحب فرماتے میں نے سمجھا دیہاتی لوگوں نے اسے مارا پیٹا ہوگا اور اس طرح مجبور کیا ہوگا اس لئے میں نے ہمدردی سے پوچھا کیا مجبوری پیش آگئی تھی؟ کہنے لگا چڑی کے برابر روپیہ نکال کر انہوں نے میرے سامنے رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا؟ میں نکاح پڑھانے پر مجبور ہو گیا۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ50-51)

صدقہ عذاب سے بچاتا ہے

ایک بزرگ کے متعلق حضرت خلیفہ اوّلؓ سناتے کہ وہ امراء کے گھروں میں جاتے اور ان سے مانگ کر کچھ نہ کچھ رقم لے آتے، پھر وہ لوگوں کو دے دیتے۔ کسی نے کہا آپ اس طرح بلا ضرورت کیوں مانگتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ امیر لوگ صدقہ نہیں دیتے۔ میں ان سے مانگ کر لاتا ہوں اور دوسروں کو دے دیتا ہوں تاکہ وہ دعا دیں اور اس صدقہ کا ثواب ان امراء کو پہنچے اور وہ عذاب سے بچ جائیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ84-85)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ تنزانیہ 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2022