• 5 مئی, 2024

سو سال قبل کا الفضل

23؍اکتوبر 1922ء دو شنبہ (سوموار)
مطابق یکم ربیع الاول1341 ہجری

صفحہ اول پر مدینۃ المسیح کی خبروں میں حضرت مصلح موعودؓ کی صحت کے بارے میں خبر درج ہے کہ ’’حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے ٹانگ کے درد میں خدا کے فضل سے تکلیف بہت کم ہے۔‘‘

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بیٹے میاں عبدالسلام صاحب کے نکاح کا اعلان شائع ہوا ہے۔ ان کا نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے محمودہ صاحبہ بنت چودہری ابوالہاشم صاحب ایم اے انسپکٹر اسکول بنگال کے ساتھ مبلغ ایک ہزا روپیہ حق مہر پر پڑھا۔

صفحہ نمبر1 اور 2 پر مکرم محمد یوسف خان آف جہلم کا خط مرسلہ ازشکاگو شائع ہوا ہے جو موصوف نے 10ستمبر 1922ء کو تحریر کیا۔ یہ خط ’’امریکہ میں اشاعتِ اسلام۔ احمدیہ مسجد۔ مخلصوں کی جماعت۔چند اور نومسلم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔

اس خط میں انہوں نے تحریر کیا کہ ’’عاجز شہر شکاگو میں اپنے ایک ذاتی کام کی خاطر آیا۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اُس نے اپنے فضل و کرم سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب جیسا انسان احمدیہ جماعت کو ادا کیا۔جن کو موجودہ زمانہ کا خالد کہنا بے جا نہ ہو گا۔ان کی دو سالہ جدو جہد کا یہ ثمر نکلا کہ آج تک قریباً تین صد انسان تثلیث کو خیرباد کہہ کر کامل مذہبِ اسلام کے پیرو بن گئے۔ دوم انہوں نے رسالہ ’’مسلم سن رائز‘‘ جاری کر دیا۔ مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جن دنوں میں حضرت مفتی صاحب ’’مسلم سن رائز‘‘ کے پہلے پرچہ کے لیے مضامین تیار کر رہے تھے۔ان دنوں میں انہیں انجمن کی طرف سے کئی ماہ سے خرچ نہ ملا تھا۔ تاہم انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے کسی نہ کسی طرح پرچہ شائع کر دیا جو کہ اب باقاعدہ چل رہا ہے۔پھر اُن کے دل میں ایک مسجد کے لیے ایک ایسی تڑپ تھی جو کہ بیان سے باہر ہے۔گذشتہ سال میں نے اُن کی دو تین نوٹ بکیں دیکھیں اور اُن کے پہلے صفحہ پر ذیل کی عبارت اُن کے ہاتھ کی لکھی ہوئی پائی۔

’’یااللہ تُو مجھے ایک مخلص جماعت عطا فرما جوکہ تیری عبادت کرنے والے ہوویں اور ایک میگزین اپنے کامل مذہب اسلام کی اشاعت کے لیے چھپوانے کی طاقت دے اور ایک مسجد بنوانے کی توفیق دے۔جس میں تیرے نام کی پرستش کی جاوے۔‘‘

یہ اُن کے دل میں ایک ایسی تمنا تھی جس کے لیےوہ ہر لمحہ دعاؤں میں لگے رہتے تھے اور اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے انہیں یہی ایک آرزو بے چین کیے ہوئے تھی۔ آخر وہ وقت آگیا کہ قادر خدا نے اپنے صادق مجاہد کی ہر سہ خواہشات کو پورا کر دیا۔ مسجد پر دو مینارو ایک بڑا گنبد بھی بنوایا گیا۔ مسجد کے نیچے والے حصہ میں دفتر و رہائش کی جگہ ہے۔اس شہر میں قریباً 150 نو مسلم احمدی ہیں اور یہ نہایت ہی مخلص جماعت ہے۔ میں ان کا اخلاص دیکھ کر بہت ہی حیران ہوں کیونکہ مغربی اقوام خصوصاً امریکن لوگوں میں ایسے اخلاص و محبت کی روح کا پیدا ہونا بھی ایک معجزہ ہے۔‘‘

مزید برآں موصوف نے شہر شکاگو میں ہونے والے ایک جلسہ کا ذکر کیا ہے۔جس کا بارش کے باعث انعقاد ممکن نظر نہ آتا تھا۔ تاہم انہوں نے اپنے مکتوب میں لکھا کہ ’’مگر اسلام کے شیدائیوں کی ایک جماعت وقتِ معین پر جمع ہو گئی۔‘‘

صفحہ 2 پر حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی ہفتہ وار رپورٹ بابت صیغہ لنگر خانہ حضرت مسیحِ موعودؑ شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں دورانِ ہفتہ لنگ خانہ میں آنے والے مہمانان کے اسماء اور ہونے والے اخراجات کا ذکر ہے۔

صفحہ3 اور 4 پر محترم سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب از سکندرآباد کا ایک مضمون بعنوان ’’زمانہ حال کے مصلح کے متعلق فیصلہ کا آسان طریق‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس مفصل مضمون میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ:
’’آج چھ سال کا عرصہ ہوتا ہے کہ خاکسار نے انجمن احمدیہ حیدرآباد دکن کے سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت مرزا صاحبؑ کے دعویٰ کی صداقت سے متعلق ایک مضمون پڑھ کر سنایا تھا۔جس میں اس بات پر زور دیا تھا کہ جبکہ اسلام میں یہ بات مسلم ہے کہ ہر صدی کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسے عظیم الشان شخص کا ظہور ہوتا ہے جس کے ذریعہ اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے اور یہ اسلام کی ایسی عظیم الشان خصوصیت ہے جو اور کسی مذہب میں پائی نہیں جاتی۔ اور خداتعالیٰ کی طرف سے جو شخص دین کی تجدید کی لیے ظاہر ہوتا ہے وہ ہر گز جھوٹے دعوے نہیں کرتا۔ تو وہ تمام لوگ جو حضرت مرزا صاحبؑ کے دعویٰ کو غلط قرار دیتے ہیں وہ بتلائیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ کے سوا وہ کون صادق شخص ہے جس نے اس حدیث شریف کے مطابق اس صدی کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر ظاہرہو کر دینِ اسلام کو ازسرِ نو تازہ کیا اور اس کے ذریعہ قائم شدہ اسلام کی شان و شوکت دنیا میں آشکار کرنے کے کام میں دن رات مصروف ہے۔ اگر ایسا کوئی شخص زندہ ہے تو اُس کویا اُس کے قائمقام کو پبلک میں پیش کرو اور ہم سے دس ہزار روپیہ انعام لو۔ یہ چیلنج اردو، عربی، انگریزی وغیرہ زبانوں میں بار بار شائع کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو حق کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کی جرأت نہ دی۔‘‘

اسی طرح حضرت سیٹھ صاحب نے اسی مضمون میں ہندوستان کے علماء کو مباہلہ کا چیلنج بھی پیش کیا۔

صفحہ 5 تا 7 پر ’’حضرت خلیفۃ المسیح کی ڈائری‘‘ کے عنوان سےحضرت مصلح موعودؓ کے 11ستمبر تا 15اکتوبر 1922ء کے ملفوطات شائع ہوئے ہیں۔ جن میں آپؓ نے مختلف سوالات کے جوابات ارشاد فرمائے ہیں نیز متفرق امور پر گفتگو فرمائی ہے۔ مذکورہ ڈائری کے بعض عناوین ذیل میں درج ہیں۔

1۔ اصحابِ کبار، امہات المومنین اور آنحضرتﷺ پر معاذاللہ نازیبا اعتراضات پر مشتمل کتاب ’’ہفوات المسلمین‘‘ کا ذکر اور اس کتاب کی ضبطگی پر حضورؓ کا ارشاد کہ ’’اس کا اثر طبائع پر اچھا نہیں ہو گا۔لوگ یہی کہیں گے کہ جواب نہ بن پڑا۔ چاہیے تھا کہ صیغہ امورِ مذہبی کو اس جواب کی طرف توجہ دلائی جاتی۔‘‘
2۔ حضرت مصلح موعودؓ نے دوخطوط کی آمد کا ذکر فرمایا۔ جن میں سے ایک مولوی مبارک علی صاحب کا ہے جس میں انہوں نے کیپٹن ڈگلس صاحب سے گفتگو اور ملاقات کا حال لکھا ہے۔ اس خط میں انہوں نے ذکر کیا کہ ’’انہوں (کیپٹن ڈگلس۔ناقل) نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ ’’غلام احمد‘‘ کا سلسلہ یہاں لنڈن تک پہنچ گیا۔‘‘
3۔ حضورؓ نے جرمنی کی اُس زمانہ کی حالت اور وہاں کے علوم کے ذکر میں فرمایا ’’اس وقت لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور وہاں جا کر عملی علوم سیکھنے چاہئیں۔‘‘
4۔ ہندوستانی طلباء کے متعلق فرمایا ’’ہندوستانیوں کی غرض تو پڑھنے سے ملازمت ہوتی ہے۔ علوم کے لیے کم پڑھتے ہیں۔ ان کے سامنے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کھائیں گے کیا۔‘‘
5۔ مغربی موجدوں کے متعلق فرمایا کہ ’’انہوں نے بالعموم غربت میں زندگی بسر کی ہے۔جس شخص نے ٹیلیگراف ایجاد کیا ہے وہ تمام عمر لوہار کا کام کرتا رہا۔ جب اُس نے یہ ایجاد کی تو لوگوں اُس کو بڑا بڑا معاوضہ پیش کیا کہ وہ اس کا طریق بتا دے لیکن اس نے ان کو یہی کہا کہ میں جس کارخانہ میں کام کرتا رہا اور جو مجھے اس کام میں لگے رہنے کے لیے فرصت دیتا تھا اسی کو بتاؤں گا۔ چنانچہ اس کو بتایا اور وہ کروڑ پتی ہو گیا۔‘‘
6۔ بنگال کے رہنے والے ایک شخص مسٹر بوس کی تحقیقات کا ذکر فرمایا کہ اُس نے ثابت کیا ہے کہ درختوں میں احساس پایا جاتا ہے نیز اندھیرا ایک نسبتی امر ہے۔

7۔ فرمایا ’’میں نے ایک لیکچر کے دوران کہا تھا کہ بہت سے اخلاقی گناہ ہیں جن کی اصلاح جسمانی علاج کے ذریعہ ہو سکتی ہے۔ پیغامیوں نے اس پر بہت ہنسی اڑائی تھی۔ میرے پاس گو اور بھی ثبوت ہیں لیکن میں نے اب پڑھا ہے کہ امریکہ میں ایک ڈاکٹر نے بھی لکھا ہے کہ کئی گناہوں کا علاج جسمانی علاج کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔‘‘

8۔ غیراحمدی بچے کا جنازہ نہ پڑھنے کی توجیہ۔

9۔ ایک احمدی مبلغ مکرم مصباح الدین صاحب کے ولایت پہنچنے سے متعلق تبصرہ فرمایا۔

10۔ لاہور کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’وہاں ہماری جماعت کے تین سو کے قریب آدمی ہیں مگر سالہا سال سے وہاں کا ایک بھی آدمی سلسلہ میں داخل نہیں ہوا۔‘‘

11۔ ترکوں میں تبلیغ کا ذکر۔

12۔ درسِ قرآن کے بعد دعا کے بارہ میں فرمایا ’’ہر روز درس کے بعد دعا کرنا یہ کوئی مسنون طریق نہیں۔ ہاں اگر قرآنِ کریم ختم ہو یا کوئی اور خصوصیت ہو یا کوئی خاص موقع اور ضرورت ہو تو دعا کرنا جائز ہے۔‘‘

13۔ محرم کے کھانوں کے متعلق فرمایا کہ یہ بھی بدعت ہیں۔

14۔ ایک شخص کے اس سوال کا مفصل جواب عطا فرمایا کہ جب مان لیا کہ آپ سچے خلیفہ ہیں تو پھر بیعت کی کیا ضرورت ہے۔

مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221023.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 5)