• 26 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 19؍نومبر 2021ء

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍نومبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭… حضرت عمرؓ کی خشیتِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ فرماتے اگر دریائے فرات کےکنارے کوئی بکری بھی مرگئی تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے سوال کرےگا۔
٭…عبداللہ بن شہزاد کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عمرؓ کی ہچکیاں سنیں اور مَیں آخری صف میں تھا آپؓ یہ تلاوت کر رہے تھے کہ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بِثِّیْ وَ حُزْنِٓیْ اِلَی اللّٰہِ یعنی مَیں اپنے رنج و الَم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتاہوں
٭… آنحضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو یہ دعا سکھائی تھی کہ اے اللہ میرے ظاہر کو میرے باطن سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو اچھا کر
٭…آپؓ اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرنے والے تھے۔ خشیتِ الٰہی کا یہ عالَم تھا کہ بوقتِ وفات آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ مَیں کسی انعام کامستحق نہیں، مَیں صرف یہ جانتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں

امىرالمومنىن حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز نے مورخہ 19؍ نومبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، ىوکے مىں خطبہ جمعہ ارشاد فرماىا جو مسلم ٹىلى وژن احمدىہ کے توسّط سے پورى دنىا مىں نشرکىا گىا۔ جمعہ کى اذان دىنےکى سعادت فىروز عالم صاحب کے حصے مىں آئى۔تشہد، تعوذ اور سورةالفاتحہ کى تلاوت کے بعد حضورِ انور اىّدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز نے فرماىا:

صحابہؓ کى پہلى حالت اور قبولِ اسلام کے بعد پىدا ہونے والے انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کے واقعے کو بطورمثال بىان فرماىا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہىں کہ جب حضرت عمرؓنےاپنى  بہن اور بہنوئى سے قرآن کرىم سنا تو رو پڑے اور دوڑے دوڑے رسول کرىمﷺ کےپاس گئے اور عرض کى کہ گھر سے نکلا تو آپؐ کو مارنے کےلىے تھالىکن خود شکارہوگىا ہوں۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہىں کہ ىہى صحابہ تھے جو پہلے شراب پىاکرتے،آپس مىں لڑاکرتےلىکن جب انہوں نے آنحضرتﷺ کو قبول کىا اور دىن کے لىے ہمت اور کوشش سے کام لىا تو نہ صرف خود اعلىٰ درجے پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھى اعلىٰ مقام پر پہنچانے کا باعث ہوگئے۔

حضرت عمرؓ  کى خشىتِ الٰہى کى ىہ حالت تھى کہ فرماتے اگر درىائے فرات کےکنارے کوئى بکرى بھى مرگئى تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالىٰ قىامت کے دن مجھ سے سوال کرےگا۔ حضرت انسؓ بىان کرتے ہىں کہ مَىں نے حضرت عمرؓ  کو ىہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے ابن خطاب! تُو ضرور اللہ سے ڈر ورنہ وہ ضرور تجھے عذاب دےگا۔ آپؓ کى انگوٹھى پر ىہ الفاظ کندہ تھےکہ واعظ ہونے کےلحاظ سے موت کافى ہے۔ عبداللہ بن شہزاد کہتے ہىں کہ مَىں نے حضرت عمرؓ  کى ہچکىاں سنىں اور مَىں آخرى صف مىں تھا آپؓ ىہ تلاوت کر رہے تھے کہ اِنَّمَا اَشْکُوْا بِثِّىْ وَ حُزْنِٓىْ اِلَى اللّٰہ ىعنى مَىں اپنے رنج و الَم کى صرف اللہ کے حضور فرىاد کرتاہوں۔ اس رواىت کو بىان کرکے حضرت خلىفة المسىح الرابعؒ فرماتے ہىں کہ جو ذکرِ الٰہى مىں گُم رہتے ہىں ان کو خدا کے سوا کسى اور کا دربار ملتاہى نہىں جہاں وہ اپنے غم اور دکھ روئىں اور اپنے سىنوں کے بوجھ کو ہلکا کرىں۔

پرانے خدمت کرنے والوں اور قربانى کرنے والوں کا آپؓ اتنا خىال رکھتے کہ اىک دفعہ کچھ قىمتى اوڑھنىاں آئىں تو آپؓ نے وہ تقسىم فرمائىں اور حضرت امِّ سلىط کو ىہ کہتے ہوئے اس کا حق دار قرار دىا کہ احد کے دن امِّ سلىط ہمارے لىے مشکىں اٹھا اٹھا کر لاتى تھىں۔ اىک عورت نے اپنے خاوند کى وفات کے بعد پرىشانىوں کا ذکر کىا اور بتاىا کہ وہ خفاف بن اىما غفارى کى بىٹى ہے جو صلح حدىبىہ مىں حضورﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ىہ سن کر آپؓ ٹھہر گئے اور فرماىا کہ واہ واہ! بہت قرىب کا تعلق ہے پھر اىک مضبوط اونٹ پر اناج کى بورىاں لادىں ،سال بھر کےلىے مال اور کپڑے رکھے اوراونٹ کى نکىل اس عورت کےہاتھ مىں دى اور فرماىا کہ ىہ ختم نہىں ہوگا کہ اللہ تمہىں اور دےگا۔

اىک دفعہ حضرت عمرؓ رات گئے مختلف گھروں مىں  داخل ہوئے جہاں حضرت طلحہ نے آپؓ کو دىکھ لىا۔ اگلى صبح حضرت طلحہ ان گھروں مىں سے اىک گھر مىں گئے وہاں اىک بوڑھى نابىنا عورت تھى جس نے حضرت طلحہ کے پوچھنے پر بتاىا کہ رات جو شخص مىرے گھر آىا وہ کافى عرصےسے مىرى خدمت کررہا ہے اور مىرے کام کاج کو ٹھىک کرتا ہے اور مىرى گندگى  دور کرتا ہے۔

حضرت عمرؓ شام سے واپسى پر قافلے سے الگ ہوکر لوگوں کے حالات معلوم کرنے کےلىے نکلے۔ دُوردرازاىک خىمے مىں اىک بوڑھى عورت سے اس کا حال درىافت کىا تو اس نے کہا کہ خدا عمر کو مىرى طرف سے جزائے خىر نہ دےجب سے وہ خلىفہ ہواہے مجھے اس کى طرف سے کوئى عطىہ نہىں ملا۔ حضرت عمرؓ نےفرماىا کہ عمرکوتىرے حالات کى خبر کىسے ہوگى۔ اس عورت نے کہا سبحان اللہ! مَىں گمان نہىں کرتى کہ کوئى شخص لوگوں پر والى بن جائے اور اسے ىہ خبر نہ ہو کہ اس کے مشرق و مغرب مىں کىا ہے۔حضرت عمرؓ ىہ سن کر رو پڑے اور فرمانے لگے کہ ہائےہائے عمر! کتنے دعوےدار ہوں گے ہر اىک تجھ سے زىادہ دىن کى سمجھ رکھنے والا ہے۔پھر آپؓ نے اس عورت سے کہا کہ تُو اپنى مظلومىت کے حق کو کتنے مىں بىچتى ہے کہ مَىں عمر کو جہنم سے بچانا چاہتا ہوں۔ اس عورت نے اول تو اسے مذاق جانا پھر پچىس دىنار قبول کرلىے۔ اسى اثنا مىں حضرت علىؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وہاں داخل ہوئے اور حضرت عمرؓ کو امىرالمومنىن کہہ کر مخاطب کىا۔ ىہ سن کر وہ عورت ڈر گئى، پر حضرت عمرؓ نے فرماىا تجھ پر کوئى جرم نہىں۔ اس کے بعد آپؓ نے اىک تحرىر لکھى کہ آج عمر نے فلاں عورت  سے اس کاحق مظلومىت پچىس دىنار مىں خرىدا ہے ، اب اگر وہ محشر مىں اللہ کے سامنے دعوىٰ کرے تو عمر اس سے برى ہے۔ على اور عبداللہ اس پر گواہ ہىں۔ آپؓ نے وہ تحرىر حضرت علىؓ کو دى اور فرماىا کہ اگر مَىں تم سے پہلے گزر جاؤں تو ىہ تحرىر مىرے کفن مىں رکھ دىنا۔

حضرت عمرؓ نے اىک لڑکى سے اپنے بىٹے عاصم کا رشتہ صرف اس کى سچائى کو دىکھ کر کردىا تھا۔ اىک شخص کو بازار مىں راستے سے ہٹانے کے لىے اپنے کوڑے سے اشارہ کىا وہ کوڑا ہلکا سا اس کے لباس سے لگ گىا۔ اىک سال بعد اس شخص کو چھ سو درہم دىے  اور فرماىا کہ ىہ اس کا بدلہ ہے۔ آپؓ ىہ بھى دىکھا کرتے کہ بازار مىں اشىاء کى قىمتىں اىسى ہوں جن سے کسى بھى فرىق کے شہرى حقوق متاثر نہ ہوں۔ اىک شخص نے اپنى بىٹى کے متعلق بتاىا کہ اس سے گذشتہ زندگى مىں غلطى ہوئى تھى اور اللہ تعالىٰ کى حدود مىں سے اىک حد اس پر لگ گئى تھى۔ اس نے خود کشى کى بھى کوشش کى تھى لىکن اب وہ توبہ کر چکى ہے۔ کىا اس کى شادى کے لىے پىغامات لانے والوں کو اس سب کا بتاىا جائے۔ حضرت عمرؓ نے فرماىا کہ اللہ نے اس کا پردہ رکھا اور تُو اس کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ اللہ کى قسم! اگر تُو نے اىسا کىا تو مَىں تجھے پورے شہر والوں کے سامنے عبرت کا نشان بناؤں گا۔

سترہ ہجرى مىں حضرت عمرؓ مدىنے سے شام کےلىے روانہ ہوئے اور سرغ مقام پر پہنچے وہاں آپؓ کو علم ہوا کہ رملہ اور بىت المقدس کے راستےمىں چھ مىل کے فاصلے پر اىک وادى عمواس ہے، جہاں طاعون پھوٹ پڑى ہے۔ اس وبا نے پورے شام کو اپنى لپىٹ مىں لےلىا اور پچىس ہزار کے قرىب اموات ہوئىں۔ حضرت عمرؓ اس دوران کس طرح لوگوں کى فکر کرتے رہے، اس کا بىان صحىح بخارى کى رواىت مىں ملتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے رسول کرىمﷺ کا ىہ فرمان پىش فرماىا کہ جہاں وبا پھوٹ پڑے وہاں مت جاؤ اور اگر اس جگہ پر ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے مت نکلو۔  اس وبا کے نتىجے مىں حضرت ابوعبىدہؓ اور شام مىں آپ کے جانشىن حضرت معاذ بن جبلؓ فوت ہوگئے۔ حضرت معاذ نے اپنا قائم مقام حضرت عمرو بن عاصؓ کو مقرر فرماىا تھا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے لوگوں کو فرماىا کہ پہاڑوں مىں چھپ کر اپنى جانىں بچاؤ۔ اس طرىق سے وبا آہستہ آہستہ کم ہوکر ختم ہوگئى۔ جب ىہ اطلاع حضرت عمرؓ کو ملى تو آپؓ نے اسے بہت پسند فرماىا۔

حضرت ابوعبىدہؓ کے علاوہ حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ىزىد بن ابو سفىانؓ، حضرت حارث بن ہشامؓ ، حضرت سہىل بن عمروؓ اور حضرت عتبہ بن سہىلؓ اور دىگر معززىن بھى اس وبا سے فوت ہوئے۔

حضرت عمرؓ  کى قبولىتِ دعا کے واقعات مىں ذکر ملتا ہے کہ اىک دفعہ شدىد قحط پڑا تو آپؓ نے نمازِ استسقا ادا کى اور خدا سے دعا کى تو فى الفور بارش ہوگئى۔ اسلام سے قبل مصر کے لوگوں مىں رسم تھى کہ جب درىائے نىل خشک ہوتا تو وہ اىک کنوارى لڑکى کو سجا سنوار کر درىا مىں ڈال دىتے۔ اسلام کے بعد جب درىائے نىل خشک ہوا تو حضرت عمرؓ نے دعا کرکے اىک رقعہ بھجواىا جس پر درج تھا کہ اے درىائے نىل! اگر تجھے اللہ تعالىٰ چلا رہاہے تو مَىں دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے چلائے۔ آپؓ کے حکم کے مطابق وہ رقعہ درىا مىں ڈالا گىا تو درىا جارى ہوگىا۔ حضرت سارىہ اسلامى لشکر کے ساتھ مشکل مىں گرفتار ہوئے تو حضرت عمرؓ  کى زبان پرمدىنے مىں ىہ الفاظ جارى ہوئے کہ‘‘ ىا سارىة الجبل’’ ىہ الفاظ حضرت سارىہ کو مىدانِ جنگ مىں سنائى دىے اور ىوں مسلمان بڑى تباہى سے محفوظ رہے۔ اىک دفعہ قىصرِروم کوشدىد سر درد کى شکاىت ہوگئى جوہزار علاج سے بھى ٹھىک نہ ہوا۔ بالآخر حضرت عمرؓ  کى پرانى، مىلى ٹوپى بطور تبرک پہننے سے خدا نے شفادى۔

حضرت عمرؓ دعا کىا کرتے کہ اے اللہ! مجھے نىک لوگوں کے ساتھ وفات دے، مجھے آگ کے عذاب سے بچا۔ اے اللہ! مىرى عمر زىادہ اورقوت کم ہوگئى ہے اور مىرى رعىت پھىل گئى ہے تُو مجھے ضائع کىے بغىر وفات دے دے۔آنحضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو ىہ دعا سکھائى تھى کہ اے اللہ مىرے ظاہر کو مىرے باطن سے بہتر بنا اور مىرے ظاہر کو اچھا کر۔ آپؓ اللہ کى راہ مىں بہت زىادہ خرچ کرنے والے تھے۔ خشىتِ الٰہى کا ىہ عالَم تھا کہ بوقتِ وفات آنکھوں  سے آنسو رواں تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ مَىں کسى انعام کامستحق نہىں، مَىں صرف ىہ جانتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں۔

خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے فرماىا کہ ابھى تھوڑى سى باتىں ہىں جو آئندہ ان شاء اللہ بىان ہوجائىں گى۔

٭…٭…٭

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک مؤرخہ 19؍نومبر 2021ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ