• 18 مئی, 2024

آئندہ عملی اصلاح کا معیار بلند ہو تو ماں باپ کو اپنی حالت کی طرف بھی نظر رکھنی ہو گی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ یہ خیال نہ آئے کہ بچہ بڑا ہو گا تو پھر تربیت شروع ہو گی۔ دو سال، تین سال کی عمر بھی بچے کی تربیت کی عمر ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، بچہ گھر میں ماں باپ سے اور بڑوں سے سیکھتا ہے اور اُن کو دیکھتا ہے اور اُن کی نقل کرتا ہے۔ ماں باپ کو کبھی یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ ابھی بچہ چھوٹا ہے، اُسے کیا پتہ؟ اُسے ہر بات پتہ ہوتی ہے اور بچہ ماں باپ کی ہر حرکت دیکھ رہا ہوتا ہے اور لاشعوری طور پر وہ اُس کے ذہن میں بیٹھ رہی ہوتی ہے اور ایک وقت میں آ کے پھر وہ اُن کی نقل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بچیاں ماؤں کی نقل میں اپنی کھیلوں میں اپنی ماؤں جیسے لباس پہننے کی کوشش کرتی ہیں، اُن کی نقّالی کرتی ہیں۔ لڑکے باپوں کی نقل کرتے ہیں۔ جو برائیاں یا اچھائیاں ماں باپ میں ہیں، اُن کی نقل کریں گے۔ مثلاً جب یہ بڑے ہوں گے اور ان کو پڑھایا جائے گا کہ یہ برائیاں ہیں اور یہ اچھائیاں ہیں، جیسے مثلاً جھوٹ ہے، یہ بولنا برائی ہے، وعدہ پورا کرنا اچھائی ہے۔ لیکن ایک بچہ جس نے اپنے ماں باپ کی سچائی کے اعلیٰ معیار نہیں دیکھے، جس نے ماں باپ اور گھر کے بڑوں سے کبھی وعدے پورے ہوتے نہیں دیکھے، وہ تعلیم کے لحاظ سے تو بیشک سمجھیں گے کہ یہ جھوٹ بولنا برائی ہے اور وعدے پورے کرنا نیکی ہے اور اچھائی ہے لیکن عملاً وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اپنے گھر میں اس کے خلاف عمل دیکھتے رہے ہیں۔ بچوں کی عادتیں بچپن سے ہی پختہ ہوجاتی ہیں، اس لئے وہ بڑے ہو کر اس کو نہیں تسلیم کریں گے۔ اگر ماں کو بچہ دیکھتا ہے کہ نماز میں سست ہے اور باپ گھر آ کر پوچھے اگر کہ نماز پڑھ لی تو کہہ دے کہ ابھی نہیں پڑھی، پڑھ لوں گی تو بچہ کہتا ہے کہ یہ تو بڑا اچھا جواب ہے۔ مجھ سے بھی اگر کسی نے پوچھا کہ نمازپڑھ لی تو مَیں بھی یہی جواب دے دیا کروں گا۔ ابھی نہیں پڑھی، پڑھ لوں گا۔ یا یہ جواب سنتا ہے کہ بھول گئی، یا یہ جواب سنتا ہے کہ پڑھ لی، حالانکہ بچہ سارا دن ماں کے ساتھ رہا اور اُسے پتہ ہے کہ ماں نے نماز نہیں پڑھی۔ تو بچہ یہ جواب ذہن میں بٹھا لیتا ہے۔ اسی طرح باپ کی غلط باتیں جو ہیں وہ بچے کے ذہن میں آ جاتی ہیں اور اُن کے جو بھی جواب غلط رنگ میں باپ دیتا ہے، وہ پھر بچہ ذہن میں بٹھا لیتا ہے۔ تو ماں باپ دونوں بچے کی تربیت کے لحاظ سے اگر غلط تربیت کر رہے ہیں یا غلط عمل کر رہے ہیں تو اُس کو غلط رنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اپنے عمل سے غلط تعلیم اُس کو دے رہے ہیں اور بچہ پھر بڑے ہو کے یہی کچھ کرتا ہے، عملاً یہی جواب دیتا ہے۔

اسی طرح ہمسایوں، ماں باپ کی سہیلیوں اور دوستوں کے غلط عمل کا بھی بچے پر اثر پڑ رہا ہوتا ہے۔ پس اگر اپنی نسل کی، اپنی اولاد کی حقیقی عملی اصلاح کرنی ہے تاکہ آئندہ عملی اصلاح کا معیار بلند ہو تو ماں باپ کو اپنی حالت کی طرف بھی نظر رکھنی ہو گی اور اپنی دوستیاں ایسے لوگوں سے بنانے کی ضرورت ہو گی جو عملی لحاظ سے ٹھیک ہوں۔ تو بہر حال بچپن میں نقل کی بھی عادت ہوتی ہے اور ماحول کا اثر بھی ذہن میں بیٹھ جانے والا ہوتا ہے۔ اگر بچے کو نیک ماحول میں رکھ دیں گے تو نیک کام کرتا چلا جائے گا۔ اگر بُرے ماحول میں رکھ دیں گے تو بُرے کام کرتا چلا جائے گا اور بُرے کام کرنے والے کو جب بڑے ہو کر سمجھایا جائے گا کہ یہ بری چیز ہے اُسے مت کرو تو اُس وقت وہ اُن کے اختیار سے نکل چکا ہو گا۔ پھر ماں باپ کو شکوہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے۔

(خطبہ جمعہ 13؍دسمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

This Week with Huzoor (9؍ستمبر 2022ء)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 نومبر 2022