• 20 اپریل, 2024

This Week with Huzoor (9؍ستمبر 2022ء)

This Week with Huzoor
9؍ستمبر 2022ء

موٴرخہ 4؍ستمبر 2022ء بروز اتوار کو اٹلی کی نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ورچوئل ملاقات کاشرف نصیب ہوا جس کے لیے خواتین مسجد بیت التوحید Bologna San Pietro، میں جمع ہوئیں۔ دعا کے بعدتمام لجنہ ممبرات نے رپورٹس پیش کی اور مختلف سوالات کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی حاصل کی جس کی تفصیل ذیل میں ہے:

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سیکرٹری صاحبہ تبلیغ کو تبلیغ کے میدان میں اپنی کوششوں کو مزید بڑھانے کے بارے میں توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’باقاعدہ comprehensive اور جامع پروگرام بنائیں۔ کس طرح ہم نے تبلیغ کرنی ہے، کیا کیا چیز چاہیے، لٹریچر کتنا چاہیے، کس کس طرح لٹریچر تقسیم کرنا ہے، کن لوگوں کو مذہب سے دلچسپی ہے، ان تک کس طرح پہنچنا ہےاور کس طرح ان کو بلانا ہے۔ اپنی واقف کار عورتوں سے سیمینار کریں۔ پرسنل رابطے پیدا کریں۔ ذاتی تعلق پیدا کریں۔ گھر میں بیٹھ کر کھانے پکانے میں یا مردوں کی باتیں سننے میں نہ لگی رہا کریں۔خود بھی باہر نکلیں۔ مردوں کو کہیں کہ ہمارا بھی وہی کام ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔ ٹھیک ہے تمہاری روٹی پانی کا انتظام ہم کر دیتے ہیں۔ وہ تو کریں گے ہی۔ بچے بھی پالنا ہمارا کام ہے۔ بچوں کی تربیت کرنا بھی ہمارا کام ہے لیکن اس کے ساتھ یہ تبلیغ کرنا بھی ہمارا کام ہے۔ بہت بڑے کام ہیں۔ دیکھیں آج کل میں بعض دفعہ عورتوں کی، صحابیات کی مثالیں دے دیتا ہوں کہ وہ کیسے کیسے کام کر رہی تھیں تو وہ اسی لیے دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کے سامنے نمونے قائم ہوجائیں۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سیکرٹری صاحبہ تربیت سے بات کرتے ہوئے نماز کی اہمیت کے بارے فرمایا:

’’نماز کی عادت ڈالیں۔ہر ایک میں یہ تصور پیدا ہو جانا چاہیےکہ جس طرح انسان کی جسمانی زندگی ہے۔وہ ہوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح روحانی زندگی میں نماز کے بغیرزندہ نہیں رہ سکتے۔جتنی مرضی نیکیاں کرنے والے ہوں، نیکیاں عارضی تو ہوتی ہیں۔ موسمی نیکیاں ہوتی ہیں، کبھی ٹھنڈی ہوا چل گئی۔کبھی ٹھنڈا موسم آگیا۔کبھی فرحت بخش موسم آگیا۔ پھر وہی دوبارہ گرمی، ہوا بند۔تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔پھر انسان بے چین ہونا شروع ہو جاتا ہے۔تو فائدہ تبھی ہے جب مستقل مزاجی سے آپ کی جو لجنہ ہیں۔وہ نمازیں پڑھنے والی ہوں۔ اپنے بچوں کی تربیت کریں اوران کو نمازیں پڑھانے والی ہوں۔لجنہ نے صرف خود نمازیں پڑھ لیں تو وہ کافی نہیں ہے جب تک کہ اپنی نسل کو بھی نمازوں کا عادی نہ بنا لیں۔‘‘

سیکرٹری صاحبہ نے بیان کیا کہ حضور ہماری 11 میں سے 9 مجالس باقاعدہ رپورٹس دیتی ہیں۔جس میں سے 8 تو ہماری اردو بولنے والی مجالس ہیں اور ایک بنگلہ بولنے والی مجلس ہے۔ حضور یہ باقاعدہ رپورٹس دیتی ہیں۔ حضور جو کمی ہے وہ ہماری افریقن جماعت یا عرب جماعت سے ہے تو ان کی تربیت کے لیے ہم کیا کریں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے ان کو بھی اعتماد میں لیں۔وہ بھی آپ لوگوں میں ہی کمی ہے۔آپ لوگ صحیح طرح رابطہ نہیں رکھتے۔نا آپ لوگ افریقنوں میں جا کر بیٹھتے ہیں نا آپ عربوں میں جا کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے نان اور حمس وغیرہ کھاتی رہیں اور وہاں افریقنوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے banku اورkenky اور smoked fish۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر یہ چیزیں کھائیں تو ان کو پتا لگے گا کہ یہ ہم میں سے ہی ہیں۔ نا کوئی پاکستانی ہے نہ کوئی عرب، نہ کوئی غانین، افریقن، سب کومل جل کر رہنا ہے۔ یہ بھی تربیت کا بہت بڑا کام ہے۔ ایک احمدی معاشرہ قائم کر دیں۔ایک صحیح اسلامی معاشرہ قا ئم کر دیں۔جس میں کوئی قوم نہیں ہے سب ایک ہیں، مسلمان ہیں اور احمدی مسلمان ہیں۔ تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔یہ بہت بڑا کام ہے۔نمازوں کے ساتھ یہ بھی ایک چیلنج ہے جو آپ نے تربیت کا کرنا ہے کہ سب کو اکٹھا کریں اور ایک بنائیں اورحضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا جو مقصد ہے کہ دین ِ واحد پر جمع کرنا۔وہ ٹارگٹ اپنے سامنے رکھیں کہ ہم نے ایک بن کر رہنا ہے اور جہاں کمی ہے وہاں جا کر پتا کریں کہ کیوں کمی ہے۔اس کمی کی وجہ ہماری کمزوری ہے یا ان کی کمزوری ہے اور جس طرف بھی کمزوری ہے ا سکو دور کرنا ہے۔یہ بھی سیکرٹری تربیت کا اور جو آپ کی ہر مجلس میں متعلقہ سیکرٹری تربیت ہیں ان کا کام ہے۔‘‘

میر اسوال یہ ہے کہ کچھ ایسی لجنہ ہیں جو جماعت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی اور جب ہم ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ ملنے سے بھی انکار کر دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں آپ ہماری کیا رہنمائی فرماتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’بات یہ ہے کہ آپ صرف جماعتی کام کے لیے ان سے رابطہ کرتی ہیں۔اسی لیے کرتی ہیں نا کہ آج جماعت کا اجلاس ہو رہا ہے، جلسہ ہو رہا ہے، اجتماع ہو رہا ہے۔اس لیے تم آ جاؤ یا تم چندہ دے دو یا فلا ں مالی تحریک میں حصہ لو۔ان سے جماعتی کام کے لیے رابطے نہ کریں بلکہ پہلے ان سے ذاتی تعلق کے لیے رابطے کریں۔جب آپ سے ذاتی تعلق پید اہو جائے گا۔تو ان کو پتالگے گا کہ یہ صرف ہم سے چندہ لینے کے لیے ہی نہیں آ رہیں۔آہستہ آہستہ پھر انہیں جماعتی تنظیم کا بتائیں۔جو پاکستانی ہیں ان کو بھی تو آہستہ آہستہ جب تعلق پیدا ہو جائے گا۔ بتائیں۔ انہیں بتائیں کہ تمہارے اندر تو کوئی ایسی خوبی تو نہیں تھی جس کی وجہ سے اٹلی کی حکومت نے تم کو یہاں رہنے کے لیے جگہ دی۔ تم لوگ پاکستان سے اسائیلم لے کر یہاں آئے ہو۔یا باہر کے ملکوں سے بھی، تم کمانے کے لیے آئے ہو تو اللہ نے جو فضل کیا ہے اس کااظہار کرنے لیے ضروری ہے کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنواور جماعتی پروگراموں میں حصہ لیا کرو۔تو آہستہ آہستہ ذاتی تعلق پیدا ہو گا۔پھر باتیں سمجھانا بھی شروع کر دیں۔ایک دم اگر آپ ان کو سمجھائیں گی تو مختلف طبعیتیں ہوتی ہیں۔وہ پھر چِڑ بھی جاتی ہیں اور پھر چِڑ کر وہ آپ کو جواب دینے لگ جاتی ہیں۔approach صحیح ہونی چاہیے۔‘‘

جس پر موصوفہ نے کہا: جی ان شاءاللّٰہ۔

سوال: اکثر شوہر جماعتی کاموں میں یا تعلیمی کلاسز میں اپنی بیویوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے…

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: ’’ان کی اصلاح کریں۔ان کی اصلاح کرنا بھی آپ کا ہی کام ہے۔اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ اچھے شوہر بن جائیں اور جماعت کے اچھے مرد ممبر بنیں۔ایک تو یہ کریں۔تا کہ آئندہ نسل کو تو وہ سنبھال سکیں۔ایک تو لمبے عرصے کی پلاننگ ہے۔اگلی نسل کی تربیت کرنا عورتوں کا کام ہے۔ تا کہ وہ صحیح تعاون کرنے والے ہوں۔ دوسرے جو نہیں کرتے۔عورتیں پھر دیکھیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں، ان سے پوچھیں؟اگر ان کو یہ شکوہ ہے ’’کہ تم سارا وقت جماعت کو دے دیتی ہو، لجنہ کے کام کرتی رہتی ہو، لجنہ کے نام پر سارا دن باہر رہتی ہو، میں گھر آؤں تو گھر خالی ہوتا ہے۔میرے کھانےکا انتظام صحیح نہیں ہوتا۔بچے صحیح تربیت حاصل نہیں کر رہے۔بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔‘‘ تو پھر شوہر صحیح ہیں۔اس لیے اپنے کام کو تقسیم کریں۔ دیکھیں، صحیح پلان کریں۔کہ کس طرح ہم نے بچوں کا بھی حق ادا کرنا ہے، خاوندوں کا بھی حق ادا کرنا ہے۔ گھر کو سنبھالنا ہے اور پھر جو وقت ہے وہ جماعتی کاموں میں لجنہ کو بھی دینا ہے۔تو پوری پلاننگ کر کے کریں۔سوچیں، سکیم بنائیں پھر لجنہ کی ممبرات جن کے خاوند ان کو کام نہیں کرنے دیتے ان سے کہیں کہ تم اس پر عمل کر کے دیکھو۔شاید کامیابی ہو جائے۔یہ توہر ایک کیس کے اوپر انفرادی طور پر ہر ایک کو الگ الگ فیصلہ کرنا ہو گا۔لیکن یہ بہر حال دیکھنا ہو گا کہ عورت پر گھر کی ذمہ داری ہے، بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے اور خاوند کا خیال رکھنے کی بھی ذمہ داری ہے۔یہ نہیں ہے کہ خاوند کو کہہ دےکہ، میں لجنہ کے کام جا رہی ہوں، تم آج روٹی بنا لینا۔ یہ نہیں ہو گا۔پھر تو گھر میں لڑائیاں ہوں گی اور لڑائیوں سے ہم نے بچنا ہے۔میں بالکل یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ گھروں میں لڑائیاں کریں اور فتنے پیدا کریں۔عورتوں کو چاہیے کہ حکمت سے کام کریں اور سمجھانا چاہیں تو عورتیں سمجھا سکتی ہیں۔‘‘

جس پر موصوفہ نے کہا: جی ان شاءاللّٰہ۔

سوال: خوش قسمتی سےکچھ لوگ جو پیدائشی احمدی ہیں مگراس کے با وجود وہ دینی تعلیم کی کمی کا شکار ہیں اور یہ کمی ان کی اولادوں میں منتقل ہو رہی ہے۔تربیتی کوشش کے باوجود مثبت نتائج سامنے نہیں آرہے۔ پیارے حضور ایسے احمدی احباب کے لیے آپ کیا نصیحت فرمائیں گے کہ وہ اپنی نسلوں کو بچائیں اور دین اسلام کےمستقبل کے معماروں کی حفاظت کریں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’ابھی جو سیکرٹری تربیت کو میں نے جو باتیں کہی ہیں اس پر عمل کریں۔ایسی عورتیں ہیں جن کی دینی تربیت کمزورہے۔ان کی خود تربیت کریں اور ان کی لڑکیاں اور بچے جو ہیں ان کو ذیلی تنظیمیں سنبھالیں۔بچوں کو سنبھالیں۔لڑکوں کوخدام الاحمدیہ سنبھالے۔لڑکیوں کو لجنہ سنبھالے، تربیت کرے۔ان کی اپنے گھروں میں تربیت کریں۔یہ تو ایک مستقل کرنے والا کام ہے۔اس کی اہمیت بتائیں۔تو آہستہ آہستہ کم از کم اگلی نسلیں ٹھیک ہو جائیں گی۔یہ اگر نہیں بھی تو اگلی نسلیں ٹھیک ہوں گی۔لیکن اگر وہ دنیا داری میں پڑ گئے تو پھر ان سے کہیں کہ دنیا داری میں تو تباہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہونا۔آخر میں پھر رؤو گے۔ پیار سے، محبت سے، ذاتی تعلق پیدا کر کے، ذاتی رابطے کر کے ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہیے۔پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں۔ ذاتی رابطے کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کی لجنہ کی تھوڑی سی تعداد ہےتو ان کے ساتھ اگر ذاتی رابطے قائم کریں تو بڑے آرام سے ہو سکتے ہیں۔ایسا مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے۔چھوٹی سی جماعت میں تو بہت کام ہو سکتے ہیں۔بڑی جماعتیں ہو ں جن کی ہزاروں کی تعداد ہو، وہاں تو مسائل پید اہو سکتے ہیں۔آپ کی چھوٹی سی جماعت ہے۔آپ کے ہاں توتربیت کے جو بھی مسائل اُٹھتے ہیں ان کا فوری حل ہونا چاہیے۔اگر آپ کا آپس میں ایکا ہے، محبت اور پیار ہے۔ جو عاملہ ممبرات ہیں یا دوسری پڑھی لکھی اور سمجھدار ہیں۔ان میں (ایکا) پیدا کریں تو آہستہ آہستہ یہ بات باقیوں میں بھی پیدا ہوتی جائے گی۔یہ جو سارے جماعتی کام ہیں، سختی سے نہیں ہو سکتے۔ہمارے پاس فوج تو کوئی نہیں کہ سختی کریں۔پیار اور محبت سے ہی ہونے ہیں۔یہی اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو بھی فرمایا تھا۔قرآن کریم کا یہی حکم ہے۔پیار اور محبت سے کام لو اور انہیں قریب لاؤ۔تو یہ تمہارے قریب آ جائیں گے۔سختی کرو گے تو دور بھاگ جائیں گے۔‘‘

جس پر موصوفہ نے کہا: جی ان شاءاللّٰہ۔

سوال: کچھ کووِڈ کی وجہ سے اور کچھ موجودہ مالی بحران کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے زیر اثر بہت سے لوگ مالی کمزوری کا شکار ہو رہے ہیں اور اقتصادی طور پر پریشانیاں اور بے چینیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں آپ ہمیں کیا نصیحت فرمائیں گے اور نوجوان نسل کو آپ ان حالات سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل دیں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: ’’یہ توساری دنیا کے حالات ایسے ہو رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ اپنے اندر قناعت پید اکرو۔اگر قناعت پیدا ہو جائے تو جو فضول خرچیاں ہیں، غلط قسم کی خواہشات ہیں ان میں کمی آ جاتی ہے۔اب اگر ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے جومیک اپ کا سامان ہے وہ فلاں جگہ کا، مہنگا ترین، ہی لینا ہےیا میں نے کپڑے پہننے ہیں توفلاں ڈیزائنر کے ہی کپڑے پہننے ہیں اور اس پر خرچ کرنا ہے، تو ظاہر ہے بے چینیاں پیدا ہوں گی۔لیکن اگر قناعت ہے۔توپھر جو بھی ہے اس میں گزارہ کرنا ہے تو خود ہی احساس پیدا ہو جائے گا۔دنیا میں ہر جگہ اب یہ گیس کی کمی ہو نے والی ہے۔ fuel کی مہنگائی ہو گئی ہے اور مزید ہو گی اور اس میں کمی بھی ہو گی۔تو اس سےقیمتوں میں باقی چیزوں پر بھی اثر ہو گا۔یہ صرف احمدی عورتوں کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے ہر شخص کا سوال ہے۔تو اسی طرح اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا ہو گا۔جو دین سے تعلق رکھنے والے ہیں تو وہ پھر دنیاوی لالچ میں نہیں ڈوبتے۔آپ لوگوں نے تو دنیا کو گائیڈکرنا ہے کہ بجائے اس کے کہ دنیا کے لالچ کے پیچھے پڑ کرایک دوسرے کے حقوق کومارو، حقوق غصب کرو، چوریاں کرو اور ڈاکے ڈالویا قتل و غارت کرو یا ملک میں یا حکومتوں کے خلاف فساد پیدا کرو یا جلوس نکالو، اپنے اندر قناعت پیدا کرواور کم سے کم خرچے میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔یہ احمدی اپنی تربیت اس طرح کر لیں گے تو باقی دنیا کی بھی تربیت کر سکیں گے۔اس کے لیے تو ایک مستقل کوشش ہے۔اپنے حالات کے مطابق وہاں ایک لائحہ عمل بنائیں۔ایک عمومی لائحہ عمل تو میں کئی دفعہ دے چکا ہوں کہ قناعت پیدا کریں، اپنے دین سے تعلق پیدا کریں۔تو جو دنیاوی خواہشات ہیں وہ کم ہو جاتی ہیں۔ورنہ دنیاوی خواہشات تو کبھی کم ہو ہی نہیں سکتیں، بڑھتی چلی جائیں گی۔یہ تو ایسی بیماری ہے جس طرح کھجلی کی، سکِن کی بیماری ہوتی ہے۔انسان کھجلتا رہتا ہے اور اس کو مزا آتا رہتا ہے اور پھراپنے آپ پر زخم ڈال لیتا ہے۔یہ تو بالآخرپھر اپنے آپ کو زخمی کرنے والی بات ہو گی۔اس لیے قناعت، اللہ تعالیٰ کاذکراور نمازوں کی طرف توجہ کرو، تو خود ہی ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔اللہ سے تعلق پیدا کر لیں، باقی بیماریاں خود ہی دور ہو جائیں گی۔‘‘

سوال: میرا سوال یہ ہے کہ شادی کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ یہاں اٹلی میں اکثر لڑکیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: ’’پہلا کام تو لڑکیوں کا یہی ہوتا ہے کہ وہ گھر کو سنبھالیں۔ اگر خاوند کہتا ہے کہ تعلیم چھوڑ دو۔تو بہتر یہ ہے کہ گھر میں فساد سے بچنے کے لیے تعلیم چھوڑ دو اور اگر بچے پیدا ہو جاتے ہیں تو بچوں کی تربیت پہلا فرض ہے اور اگر کسی پروفیشنل تعلیم میں ہے، کوئی عورت پڑھ رہی ہے۔ میڈیکل کر رہی ہے یا کچھ اور جس سے دنیا کو فائدہ ہو رہا ہو تو بچوں کی پیدائش کے دوران خاوندسے اجازت لے کر اس تعلیم کو بعد میں بھی جاری رکھ سکتی ہے۔ یا شادی سے پہلے ایک معاہدہ کر لے کہ میں یہ تعلیم پڑھ رہی ہوں اس کو میں نے پڑھنا ہے۔ اس پروفیشن میں میں نے جانا ہے تو مجھے شادی کے بعد بھی پڑھنے کی اجازت ہو گی۔ تو پھر گھروں میں فساد نہیں ہوتا۔ جھگڑے نہیں ہوتے۔لیکن پہلی بات یہی ہے کہ اگر بچے ہوں تو بچوں کی طرف توجہ کرو۔ میں نے کئی عورتیں دیکھی ہیں، احمدی عورتیں ہیں۔ بچے بھی پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی ہے۔ بچوں کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی بن گئیں۔تو کچھ عرصہ ان کو بریک لینا پڑا۔ لیکن اپنی تعلیم جاری رکھی اور اگر خاوند بالکل نا پسند کریں اور پہلے معاہدہ بھی نہیں ہوا تو پھر یہی ہے کہ گھروں کو سنبھالو اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرو۔‘‘

(ٹرانسکرپشن و کمپوزنگ۔ ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 16)