دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جب ان پر کوئی ابتلا آتا ہے تو بجائے اس کے وہ شکستہ دل ہو کر زندگی سے ہی مایوس ہو جائیں وہ اس ابتلا کو ایک چیلنج سمجھ کر نہ صرف اس کو قبول کرتے ہیں بلکہ کوشش کر کے اس ابتلا سے کامیابی سے نکلتے ہیں اور اس میں سے خیر کے پہلو بھی نکال لیتے ہیں۔ بوزنیا کے شہر زاوی ڈونیسا کی رہنے والی مسلم خاتون محترمہ آڈیسا مو ھا وچ بھی انہی افراد میں سے ہیں جنہوں ایک ابتلا میں مبتلا ہو جانے کے بعد اس کو چیلنج کے طور پر قبول کیا اور پھر اپنی اس کاوش میں نہ صرف اپنی فیملی بلکہ کئی دوسری فیملیز کے لیے بھی خیر کےپہلو کو نکال لیا۔
ان کے تین بچے ہیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے میں انہوں نے کچھ غیر معمولی نفسیاتی بیماری کی علامات دیکھیں۔ اپنے شہر اور پھر دیگر بڑے شہروں میں واقع ہسپتالوں اور سرکاری محکموں کے پاس گئیں لیکن ان کو کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔بجاے مایوس ہونے کے انہوں نے اپنی جیسی ایک ماں جس کا بچہ بھی کچھ ایسی ہی بیماری کا شکار تھا اس کے ساتھ مل کر اس بیماری کے بارہ میں معلومات حاصل کیں اور دونوں خواتین نے اپنے بچوں کا علاج شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ ان کی اس کاوش کی خبریں شہرمیں پھیلنے لگیں۔ یو ایس ایڈ اور دیگر رفاہی اداروں نے آ کر ان سے ملاقات کی اور ان کے جذبہ کی لگن اور خلوص کو سراہا اور مدد دینی شروع کر دی۔ اسی طرح کے کچھ اور بچے بھی ان کے پاس آنے لگے۔ سب بچوں کے والدین اور شہری انتظامیہ کی مدد سے ایک مناسب جگہ کا بندوبست ہو گیا۔ یو ایس ایڈ اور دیگر محکموں اور تنظیموں کے تعاون سے مالی مدد بھی ملنی شروع ہو گئی اور ہیومینٹی فرسٹ نے بھی بعض معاملات میں مدد دینی شروع کر دی۔ان کا اپنا بچہ چند سالوں میں صحت یاب ہو گیا اور اب اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے اسی طرح کے دیگر بچے بھی صحت یاب ہو کر معاشرہ کا مفید وجود بن چکے ہیں۔ محترمہ موصوفہ نے اپنے بچے کی مکمل صحت یابی کے بعد انسانی بہبود کی اس کاوش کو خدا حافظ کہنے کی بجائے اس انسانی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا اور اب پچھلے دس سالوں سے وہ یہ خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ اس وقت ان کے پاس موزوں مرکز ہے جہاں مختلف قسم کی تھراپیز کا جدید سامان نصب ہے۔آٹھ اسپیشلسٹ تھرا پسٹ ان کے سنٹر میں کل وقتی خدمات بجا لا رہی ہیں اور اس وقت زیر علاج بچوں کی تعداد نوے سے اوپر ہے جس میں چھ ماہ سے لے کر سولہ سترہ سال کے بچے اور بچیاں شامل ہیں۔ ہفتہ میں پانچ دن صبح آٹھ بجے سے لے کر شام چار بجے تک بچے ان کے سنٹر میں آتے ہیں اور علاج کے مختلف پراسیسز سے گزرتے ہیں۔ اکتوبر کے آخری عشرہ میں ان کے سنٹر کو ہیٹنگ سسٹم کے چلانے کے لیے ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کی طرف سے جلانے والے میٹیریل کی شکل میں مدد مہیا کی گئی جو بوسنیا کے ہیو مینٹی فرسٹ کے ڈائریکٹر مکرمی حفیظ الرحمان صاحب نےخود جا کر دی۔ اس موقع پر ان سے بات چیت بھی ہوئی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کا جذبہ ابھی بھی تازہ اور آتشی ہے اور وہ اپنے ملک بوسنیا کے اس قسم کے بیمار بچوں کی خدمت کے لیے ہمہ تن تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی میں برکت ڈالتا رہے۔ آمین۔
(رپورٹ: زبیر خلیل خان ڈائریکٹر برائے بلکان ممالک ہیومینٹی فرسٹ جرمنی)