• 4 مئی, 2024

سب گناہ شرک کی شاخیں ہیں

جب انسان متواتر گناہ اور برا ئی کرتا ہے تو اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر اس کی نیکی کی قوتیں آہستہ آہستہ کمزور ہو نا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر وہ انسان برائیوں کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ گویا ایک برائی دوسری برائی کو کھنچتی ہے۔ گناہ دراصل اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو گناہ کی نفرت اس کے دل سے کم ہوجاتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کرام نے ہر قسم کی برائیوں اور گناہوں سے بچنے اور دُور رہنے کی تلقین کی ہے۔ ان میں سے صرف چند کا ذکر ان سطور میں کیا جاتا ہے۔

گناہ کی تعریف

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
اصل میں جو لوگ خداتعالیٰ کی ہستی کو ماننے والے ہیں۔ ہم ان کے مذاق پر گفتگوکرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات انسان کی زندگی کے واسطے ایک دائمی راحت اور خوشی کا سر چشمہ ہے۔ جو شخص اس سے الگ ہوتا ہے یا کسی نہ کسی پہلو سے اس کو چھوڑتا ہے۔ اس حالت میں کہا جاتا ہے کہ اس شخص نے گناہ کیا۔ خداتعالیٰ نے فطرت انسانی پر نظر ڈال کر جو اعمال باریک در باریک رنگ میں خود انسان کی اپنی ہی ذات کے واسطے مضر پڑنے والے تھے۔ ان کانام بھی گناہ رکھا۔ گو بعض اوقات انسان ان کی مضرت کو نہ سمجھ سکتا ہو۔ مثلاً چوری کرنا اور دوسروں کے حقوق میں دست اندازی کر کے ان کو نقصان پہنچایا۔ گویاخود اپنی پاک زندگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ زانی کا زنا کرنا اور دوسروں کے حق میں دست درازی کرنا اور خود اپنی فطرت کی پاکیزگی کو برباد کرنا اور طرح طرح کی مشکلات جسمانی، روحانی میں مبتلا ہونا ہے۔ اس طرح سے وہ امور بھی جو فطرت انسانی کی پاکیزگی اور طہارت کے خلاف ہوں گناہ کہلاتے ہیں اور پھر ان امور کے لوازم قریبہ یا بعیدہ بھی گنا ہ کے ضم ضمیمہ ہی سمجھے جاتے ہیں۔خدا تعالیٰ جو سب سے زیادہ علم والا، انسان اور ذرہ ذرہ کا خالق حقیقی ہےاور وہ ان کے خواص کا بھی خالق اور دانا ہے۔ وہ اپنی کامل حکمت اور کامل علم سے ایک بات تجویز کرتا ہے کہ یہ تمہارے حق میں مضر ہے اس کا ارتکاب ہر گز ہرگز تمہارے حق میں مفید نہیں بلکہ سراسر مضر ہے تو انسان ہاں سلیم الفطرت انسان کا یہ کام نہیں کہ اس کی خلاف ورزی کرے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ357-358 ایڈیشن 1984ء)

گناہ خداتعالیٰ کے احکام کی نافرمانی سے پیداہوتا ہے

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
گناہ کے یہ معنے ہیں کہ انسان دیدہ دانستہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے اور ان تمام احکام کے بر خلاف کرے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے اور ان باتوں کو کرے جن کے کرنے سے منع فرمایا ہے گناہ ایسی چیز ہے کہ جس کا نتیجہ اس دنیا میں بھی بد ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ36 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
جس قدر گناہ ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے احکام کی نافرمانبرداری سے پیدا ہوتے ہیں۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ106 ایڈیشن 1984ء)

گناہ ایک خطرناک زہر ہے

ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
جو لوگ ہر روز نئے گناہ گرتے ہیں وہ گناہ کو حلوے کی طرح شیریں خیال کرتے ہیں۔ ان کو خبر نہیں کہ یہ زہر ہے کیو نکہ کوئی شخص سنکھیا جان کر نہیں کھا سکتا۔ کوئی شخص بجلی کے نیچے نہیں کھڑا ہو تا اور کوئی شخص سانپ کے سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا اور کوئی شخص کھانا شکی نہیں کھاسکتا اگرچہ اس کو کوئی دو چار روپے بھی دے۔ پھر باوجود اس بات کے جو یہ گناہ گرتا ہے کیا اس کو خبر نہیں ہے۔ پھر کیوں کرتا ہے؟

(ملفوظات جلد6 صفحہ62 ایڈیشن 1984ء)

پھر حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
یہ ایک فطرتی قاعدہ ہے کہ جب یقین اور قطعی علم ہو کہ اس جگہ قدم رکھنا ہلاکت ہے یا ایک سوراخ جس میں کالا سانپ ہو اور یہ خود اسے دیکھ بھی لیوے تو کیا اس میں انگلی ڈال سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ غرض یہ فطرت انسانی میں ہی رکھا گیا ہے کہ جہاں اس کو ہلاکت کا یقین ہوتا ہے اس جگہ سے بچتا ہے اور پرہیز کرتا ہے۔ جب تک اس درجہ تک خدا تعالیٰ کی معرفت نہ ہو جاوے اور یہ یقین پیدا نہ ہو جاوے کہ خداتعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ ایک بھسم کردینے والی آگ ہے یا ایک خطرناک زہر ہے تب تک حقیقت ایمان کو نہیں سمجھا گیا اور بغیر ایسے کامل یقین اور معرفت کے پھر ایمان بھی ادھورا ایمان ہے۔ وہ ایمان جس کا اعمال پر بھی اثر نہ ہو۔ یا جو ایمان امتحانی حالات میں ذرا بھی تبدیلی پیدا نہ کر سکے کس کام کا ایمان ہے اور اس کی کیا فضیلت ہو سکتی ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ279 ایڈیشن 1984ء)

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
گناه اگر چہ بہت ہیں اور ان کے بہت سے شعبے اور شاخیں ہیں۔ یہاں تک کہ ہر ادنیٰ قسم کی غفلت بھی گناہ میں داخل ہے۔ لیکن عظیم الشان گناہ جواس مقصد عظیم کے با لمقابل انسان کو اصل مقصد سے ہٹانے کے لیے پڑا ہوا ہے، وہ شرک ہے۔ انسان کی پیدائش کی اصل غرض اور مقصد یہ ہے کہ وہ خدا ہی کے لیے ہو جائے اور گناہ اور اس کے محرکات سے بہت دور ہے اس لیے کہ جوں جوں بدقسمت انسان اس میں مبتلا ہوتا ہے، اسی قدر اپنے اصل مدعا سے دور ہو تا جاتا ہے۔ یہانتک کہ آخر گرتے گرتے ایسی سفلی جگہ پر جا پڑتا ہے جو مصائب اور مشکلات اور ہر قسم کی تکلیفوں اور دکھوں کا گھر ہے جس کو جہنم بھی کہتے ہیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ413-414 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
میرے نزدیک سب گناہ دراصل شرک ہی کی شاخیں ہیں۔ گناہ کا مرتکب انسان اسی لئے گناہ میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ذات اور صفات پر کامل ایمان اور توکل نہیں رکھتا۔

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ320)

ایک گناہ دوسرے گناہ کی جرأت دلاتا ہے

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
گناه کا یہ نتیجہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ دوسرے گناہ کی انسان کو جرأت دلاتا ہے اور اس سے قساوت قلبی پیدا ہوتی ہے حتی کہ گناہ انسان کو مرغوب ہوجاتا ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ270 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ گناہ کوئی مفرد چیز نہیں بلکہ وہ ایک بیج کی طرح ہوتا ہے۔ جس طرح ایک بیج درخت پیدا کردیتا ہے اور پھر اس سے آگے اور درخت پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح ہر گناہ اپنے ظہور کے بعداور گنا ہ پیدا کرتا ہے۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ176)

حضرت جریر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو لوگ بُرے لوگوں میں رہتے ہیں اور باوجود قدرت کے ان کو برائی سے نہیں روکتے اللہ تعالیٰ اُن کو ان کے مرنے سے پہلے سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔

(ابو داؤد کتاب الملاحم، باب الامر و النھی)

گناہ صغیرہ انسان کو گناہ کبیرہ کی طرف لے جاتے ہیں

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
کسی ادنیٰ سے گناہ کو خفیف نہ جاننا چاہیے بلکہ صغیرہ ہی سے کبیرہ بن جاتے ہیں۔ اور صغیرہ ہی کا اصرار کبیرہ ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ56 ایڈیشن 2016ء)

پھر حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
ہماری جماعت کو اس پر توجہ کرنی چاہیے کہ ذرا سا گناہ خواہ کیسا ہی صغیرہ ہو جب گردن پر سوار ہوگیا تو رفتہ رفتہ انسان کو کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے۔ طرح طرح کے عیوب مخفی رنگ میں انسان کے اندر ہی اندر ایسے رچ جاتے ہیں کہ اس سے نجات مشکل ہوجاتی ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ137-138 ایڈیشن 2016ء)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:
نبی کریمﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ ان دونوں کو ان قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے اور انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چُغل خوری کرتا تھا۔

(صحیح بخاری، کتاب الوضو، ما جاء فی غسل البول)

پھر ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
انسان کے اندر دو قسم کے گناہ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن سے انسان خدا کی نافرمانی دیدہ ودانستہ کرتا ہے اور بے باکی سے گناہ کرتا ہے۔ ایسے لوگ مجرم کہلاتے ہیں۔ یعنی خدا سے ان کا بالکل قطع تعلق ہوجاتا ہے اور وہ شیطان کے ہو جاتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو ہر چند بدی سے بچتے ہیں، مگر بعض دفعہ بسبب کمزوری کے کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ166 ایڈیشن 2016ء)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: کسی بھی لغو چیز کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں پھر بڑی بن جایا کرتی ہیں۔

(خطبہ جمعہ 20؍اگست 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں مزید فرماتے ہیں:
ہر ایک اپنا جائزہ لیتا رہے کہ کیاکیا لغویات اس میں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ ہر برائی لغو ہے یا ہرلغو حرکت یا بات گناہ ہے، اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے…

(خطبہ جمعہ 20؍اگست 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور امر بالمعروف کرو اور تم ضرور ناپسندیدہ باتوں سے منع کرو۔ ورنہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کرے اور عذاب نازل ہونے کے بعد تم دعا کرو گے مگر تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔

(ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی الأمر بالمعروف)

بعض گناہ باریک ہوتے ہیں اور انسان سمجھتا ہی نہیں

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
بعض گناہ موٹے موٹے ہوتے ہیں مثلاً جھوٹ بولنا، زنا کرنا، خیانت، جھوٹی گواہی دینا اور اتلاف حقوق، شرک کرنا وغیرہ۔ لیکن بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان اس میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ جوان سے بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اسے پتہ ہی نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ372-373 ایڈیشن 1984ء)

کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ

عبدالرحمٰن بن ابی بکرہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے کہ آپؐ نے تین بار فرمایا: کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے (گناہوں) کا نہ بتاؤں؟ پھر آپؐ نے فرمایا اللہ کا شریک بنانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینایا جھوٹ بولنا۔ رسول اللہﷺ سہارا لئے ہوئے تھے۔ آپؐ بیٹھ گئے اور اس بات کو دہراتے چلے گئے ہم نے سوچا کہ کاش! آپؐ خاموش ہو جائیں۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تین امور یا تین چیزیں وہ ہیں جو تمام گناہوں کی جڑ ہیں۔ پس ان تینوں سے بچو اور ان تینوں سے ہوشیار رہو۔ دیکھو! تکبر سے بچو کیونکہ ابلیس کو تکبر ہی نے اس بات پر انگیخت کیا کہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فرمانبرداری سے انکار کر دیا اور حرص سے بچو کیونکہ یہ حرص او رلالچ ہی تھا جس نے آدم علیہ السلام کو درخت ممنوعہ کا پھل کھانے پر اکسایا اور حسد سے بچو کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں میں سے ایک کو حسد نے ہی اس بات پرآمادہ کیا کہ ا س نے اپنے ساتھی کو قتل کر دیا۔

(الترغیب والترھیب باب الکاف باب فی الترھیب)

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
سب سے اول آدم نے بھی گناہ کیا تھا اور شیطان نے بھی۔ مگر آدم میں تکبر نہ تھا۔ اس لئے خداتعالیٰ کے حضور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور اس کا گناہ بخشا گیا۔ اسی سے انسان کے واسطے توبہ کے ساتھ گناہوں کے بخشا جانے کی امید ہے۔ لیکن شیطان نے تکبر کیا اور وہ ملعون ہوا۔ جو چیز کہ انسان میں نہیں متکبر آدمی خواہ مخواہ اپنے لئے اس چیز کے دعوے کے واسطے تیارہو جاتا ہے۔انبیاء میں بہت سے ہنر ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک ہنر سلب خودی کا ہوتا ہے۔ ان میں خودی نہیں رہتی۔ وہ اپنے نفس پر ایک موت وارد کر لیتے ہیں۔ کبریائی خدا کے واسطے ہے جو لوگ تکبر نہیں کرتے اور انکساری سے کام لیتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوتے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ281 ایڈیشن 1984ء)

پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام بڑے بڑے گناہ کرنے والوں، لوگوں کے حق مارنے والوں، لوگوں پہ ظلم کرنے والوں، جھوٹ بولنے و الوں، دھوکہ دینے والوں، لوگوں پر الزام تراشیاں کرنے والوں، بری مجلس میں بیٹھنے والوں کو ایک ہی زمرے میں شمار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا پھر مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ایمان کے دعوے کے بعد ہم میں کہیں کوئی برائی تو نہیں۔ یا ہم ایسی برائیاں کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے والوں میں سے تو نہیں۔

(خطبہ جمعہ 20؍اگست 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

گناہ دل کو ناپاک کر دیتا ہے

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
ایک شخص اگر قطعاً کوئی گناہ نہ کرے۔ مگر اس کے دل میں گناہ اور برائی سے الفت ہو اور گناہ کے ذکر میں اسے لذت محسو ہو تو وہ نیک اور پاک نہیں کہلائے گا۔ جب تک کہ اس کے دل میں بھی یہ بات نہ ہو کہ اسے گناہوں سے ملوث نہیں ہونا چاہیئے اسی طرح کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ عادت کے ماتحت انہیں غصہ آجاتا ہے مگر گالی نہیں دیتے لیکن ان کا دل کہہ رہا ہوتا ہے کہ فلاں انسان بڑا بدمعاش اور شریر ہے ایسے لوگوں کے متعلق ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ پاکیزہ ہیں بلکہ یہ کہیں گے کہ وہ اپنے گند کو چھپائے بیٹھے ہیں۔ پس اسلام میں پاکیزگی دل کی ہے۔ اعمال اور زبان تو آلات اور ذرائع ہیں جن سے پاکیزگی ظاہر ہوتی ہے۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ653)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کو نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کو بلکہ وہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے کہ ان میں کتنا اخلاص اور حسن نیت ہے۔

(مسلم کتاب البر والصلة باب تحریم ظلم المسلم وخدعه)

حداعتدال سے گزر جا نا ہی گناہ کا موجب ہوتا ہے

ایک جگہ حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
دراصل انسان کا حدِاعتدال سے گزر جانا ہی گناہ کا موجب ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ بات پھر عادت میں داخل ہو جاتی ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ137 ایڈیشن 2016ء)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں نہیں داخل ہونے دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ!انسان چاہتاہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، جوتی اچھی ہو اور خوبصورت لگے۔ آپؐ نے فرمایا:یہ تکبر نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتاہے، یعنی خوبصورتی کو پسند کرتاہے۔ تکبر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرنے لگے، لوگوں کو ذلیل سمجھے، ان کو حقار ت کی نظر سے دیکھے اوران سے بری طرح پیش آئے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ)

مخفی گناہ ظاہر گناہ سے بدتر ہوتے ہیں

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
جب کوئی مصائب میں گرفتار ہوتا ہے تو قصور آخر بندے کا ہی ہوتا ہے خداتعالیٰ کا تو قصور نہیں۔ بعض لوگ بظاہر بہت نیک معلوم ہوتے ہیں اور انسان تعجب کرتا ہے کہ اس پر کوئی تکلیف کیوں وارد ہوئی یا کسی نیکی کے حصول سے یہ کیوں محروم رہا لیکن دراصل اس کے مخفی گناہ ہوتے ہیں جنہوں نے اس کی حالت یہانتک پہنچائی ہوئی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ بہت معاف کرتا ہے اور درگذر فرماتا ہے۔ اس واسطے انسان کے مخفی گناہوں کا کسی کو پتہ نہیں لگتا۔ مگرمخفی گناہ دراصل ظاہر کے گناہوں سے بدتر ہوتے ہیں۔ گناہوں کا حال بھی بیماریوں کی طرح ہے بعض موٹی بیماریاں ہیں ہر ایک شخص دیکھ لیتا ہے کہ فلاں بیمار ہے مگر بعض ایسی مخفی بیماریاں ہیں کہ بسا اوقات مریض کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مجھے کوئی خطرہ دامنگیر ہورہا ہے۔ ایسا ہی تپ دق ہے کہ ابتداء میں اس کا پتہ بعض دفعہ طبیب کو بھی نہیں لگ سکتا یہاں تک کہ بیماری خوفناک صورت اختیار کرتی ہے ایسا ہی انسان کے اندرونی گناہ ہیں جو رفتہ رفتہ اسے ہلاکت تک پہنچادیتے ہیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ280-281 ایڈیشن 1984ء)

گناہ کا علاج سچی توبہ ہے

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:

وَہُوَ الَّذِیۡ یَقۡبَلُ التَّوۡبَۃَ عَنۡ عِبَادِہٖ وَیَعۡفُوۡا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَیَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

(الشوری: 26)

ترجمہ: اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی غلطیوں کو معاف کرتا ہے اور جوکچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے۔

(تفسیر صغیر)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ گناہ سے سچی تو بہ کر نے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یعنی گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے اور گناہ کے بدنتائج سے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھتا ہے۔ پھر حضورؐ نے یہ آیت پڑھی۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔عرض کیا گیا یا رسول اللہ! توبہ کی علامت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا۔ ندامت اور پشیمانی علامتِ توبہ ہے۔

(الدر المنثور جلد1 صفحہ291)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اس آدمی کو بھی نہیں ہوتی جسے جنگل بیابان میں کھانے پینے کی چیزوں سے لدا ہوا اس کا گم ہونے والا اونٹ اچانک مل جائے۔

(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التوبۃ)

حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
استغفار ایک عربی لفظ ہے اس کے معنے ہیں طلب مغفرت کرنا کہ یاالٰہی! ہم سے پہلے جو گنا ہ سر زد ہو چکے ہیں ان کے بد نتائج سے ہمیں بچا کیونکہ گناہ ایک زہر ہے اور اس کا اثر بھی لازمی ہے اور آئندہ ایسی حفاظت کر کہ گناہ ہم سے سر زد ہی نہ ہوں۔ صرف زبانی تکرار سے مطلب حاصل نہیں ہوتا۔

توبہ کے معنے ہیں ندامت اور پیشمانی سے ایک بد کام سے رجوع کرنا۔ توبہ کوئی برا کام نہیں ہے۔ بلکہ لکھا ہے کہ تو بہ کرنے والا بندہ خدا کو بہت پیارا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا نام بھی توّاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنے گناہوں اور افعال بد سے نادم ہوکر پیشمان ہوتا ہے اور آئندہ اس بد کام سے باز رہنے کا عہد کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس پر رجوع کرتا ہے رحمت سے۔ خداانسان کی توبہ سے بڑھ کر توبہ کرتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر انسان خدا کی طرف ایک بالشت بھر جاتا ہے تو خدا اس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہے۔ اگر انسان چل کر آتا ہے تو خداتعالیٰ دوڑ کر آتا ہے یعنی اگر انسان خداکی طرف توجہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی رحمت، فضل اور مغفرت میں انتہاء درجہ کا اس پر فضل کرتا ہے۔ لیکن اگر خدا سے منہ پھیر کے بیٹھ جاوے تو خداتعالیٰ کو کیا پروا۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ338-339 ایڈیشن 1984ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اپنے رب سے استغفار کرو، پھر اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہترین معیشت عطا کرے گا اور وہ ہر صاحبِ فضیلت کو اس کے شایان شان فضل عطا کرے گا اور اگر تم پھر جاؤ تو یقیناً مَیں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تو دیکھیں فرمایا کہ استغفار کرو اور جو استغفار نیک نیتی سے کی جائے، جو توبہ اس کے حضور جھکتے ہوئے کی جائے کہ اے اللہ! یہ دنیاوی گند، یہ معاشرے کے گند، ہر کونے پر پڑے ہیں۔ اگر تیرا فضل نہ ہو، اگر تو نے مجھے مغفرت کی چادر میں نہ ڈھانپا تو مَیں بھی اِن میں گر جاؤں گا۔ مَیں اس گند میں گرنا نہیں چاہتا۔ میری پچھلی غلطیاں، کوتاہیاں معاف فرما، آئندہ کے لئے میری توبہ قبول فرما۔ تو جب اس طرح استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ پچھلے گناہوں کو معاف کرتے ہوئے، توبہ قبول کرتے ہوئے، اپنی چادر میں ڈھانپ لے گا اور پھر اپنی جناب سے اپنی نعمتوں سے حصہ بھی دے گا۔ دنیا سمجھتی ہے کہ دنیا کے گند میں ہی پڑ کر یہ دنیاوی چیزیں ملتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو توبہ کرنے والے ہیں، جو استغفار کرنے والے ہیں، ان کومَیں ہمیشہ کے لئے دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازتا رہوں گا۔ اُن کی زندگی میں بھی ان کے لئے اس دنیا کے دنیاوی سامان ہوں گے اور ان پر فضلوں کی بارش ہو گی اور اُن کے یہ استغفار اور اُن کے نیک عمل آئندہ زندگی میں بھی اُن کے کام آئیں گے اور یہی استغفار ہے جس سے شیطان کے تمام حربے فنا ہو جائیں گے۔

(خطبہ جمعہ 20؍مئی 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حقیقی استغفار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اُن جذبات و خیالات سے بچنے کی دعا مانگی جائے جو خدا تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے میں روک ہیں اور جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا، یہ جذبات دبانے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی تو پھر تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ کی حالت پیدا ہو گی۔ وہ حالت پیدا ہو گی جب انسان پھر مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر جب یہ حالت ہو تو بندہ اللہ تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقی استغفار اور توبہ صرف الفاظ دہرا لینا یا منہ سے اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی اپنی حالت کی تبدیلی کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے۔ جب انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرتا ہے تو پھر انسان کے لئے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے دینی اور دنیاوی فائدے ملتے ہیں۔ دنیا و آخرت کے فائدے اسی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد انسان بنتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 13؍جنوری 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

گناہوں سے بچنے کا طریق

ایک جگہ حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
گناہوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خوف الٰہی دل میں پیدا ہو۔ بغیر اس کے انسان گناہوں سے بچ نہیں سکتا اور خوف بغیر معرفت کے پیدا نہیں ہوسکتا۔ جب کسی کے سر پر ننگی تلوار لٹک رہی ہو اور اس کو یقین ہو کہ اگر فلاں کام میں کروں گا تو یہ تلوار میرے سر میں لگے گی پھر وہ کس طرح وہ کام کرسکتا ہے؟ اس کو یقین ہے کہ وہ تلوار اس کو دکھ دے گی۔ اس قسم کا یقین اگر خداتعالیٰ پر ہو اور اس کی عظمت اور اس کا جلال اس کے دل میں گھر کر جائے تو کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بدی کا ارتکاب کرے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ52 ایڈیشن 1984ء)

پھر حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں:
گناہ سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لئے یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ انسان موت کو یاد رکھے اور خدائے تعالیٰ کے عجائبات قدرت میں غور کرتا رہے کیونکہ اس سے محبت الٰہی اور ایمان بڑھتا ہے اور جب خدائے تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوجائے تو وہ گناہ کو خود جلاکر بھسم کر جاتی ہے۔

دوسرا ذریعہ گناہ سے بچنے کا احساس موت ہے۔ اگر انسان موت کو اپنے سامنے رکھے تو وہ ان بد کاریوں اور کوتاہ اندیشیوں سے باز آجائے اور خداتعالےٰ پر اسے ایک نیا ایمان حاصل ہو اور اپنے سابقہ گناہوں پر توبہ اور نادم ہونے کا موقعہ ملے۔انسان عاجز کی ہستی کیاہے؟ صرف ایک دم پر انحصار ہے۔ پھر کیوں وہ آخرت کا فکر نہیں کرتا اور موت سے نہیں ڈرتا اور نفسانی اور حیوانی جذبات کا مطیع اور غلام ہو کر عمر ضائع کردیتا ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ16-17 ایڈیشن 1984ء)

نیکیاں بدیوں کو مغلوب کر لیتی ہیں

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:

وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکۡرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾

(ہود: 115)

ترجمہ: اور (اے مخاطب!) تو دن کی دونوں طرفوں نیز رات کے (متعدد اور مختلف) اوقات میں عمدگی سے نماز ادا کیا کر۔ یقیناً نیکیاں بدیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ (تعلیم اللہ کی) یاد رکھنے والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔

(تفسیر صغیر)

حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم جہاں کہیں ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے رہو۔ کسی گناہ کے سر زد ہوجانے کے بعد نیکی کرو کیونکہ نیکی گناہ کو مٹا دیتی ہے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔

(ترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاءفی معاشرة الناس)

حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ سورۃ ہود کی آیت 115 کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اسلامی کفارات کیا ہیں۔ گناہوں کی سزائیں۔ گناہوں پر جرمانے اور گناہ کے پیچھے نیکی۔ کیسا سچ ہے اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ (نیکیاں دور کردیتی ہیں برائیوں کو) قانون قدرت میں بھی دیکھو قانون قدرت کی خلاف ورزی سے سزائیں آتی ہیں تو اس خلاف ورزی کے بعد قانون کی متابعت اور خلاف ورزی کے نقصان پر کچھ خرچ ہی کرنا پڑتا ہے۔

(حقائق الفرقان جلد2 صفحہ378)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ اے اللہ کے رسولؐ! میں گناہ کا مرتکب ہوا ہوں اور سزا کا مستحق ہوں۔ نماز کا وقت ہو چکا تھا اس شخص نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نماز ختم ہوئی تو اس نے پھر عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! میں سزا کا مستحق ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے مقررہ قانون کے مطابق سزا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تُو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ اس نے کہا جی حضوؐر! پڑھی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس نیکی کی وجہ سے تجھے بخش دیا گیا ہے۔ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔

(بخاری کتاب المحاربین اذا اقربا لحد)

حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
نیکوں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ بدیوں کو دور کردیتی ہے۔ نماز کے نتیجہ میں تعلق باللہ اور اخروی فائدہ کے علاوہ اس دنیا میں بھی انسان کو جو نمایاں فائدہ پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں اور اس کے معاشرہ میں حسن پیدا ہونے لگ جاتا ہے اور بدیاں دور ہونی شروع ہوجاتی ہیں اور یہ اٹل اور ازلی ابدی قانون قدرت ہے اس میں آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے کہ حسنات سے برائیاں دور ہوتی ہیں۔

(خطبات طاہر جلد2 صفحہ404 خطبہ جمعہ 5جنوری 1983ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا خاص فضل اور رحم فرماتے ہوئے برائیوں اور گناہوں کے سر زد ہونے سے محفوظ رکھے اور بنی نوع انسان کو بھی توفیق دے کہ وہ گناہوں کے اندھیروں سے باہر نکلیں آمین۔

(سید عمار احمد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

This Week with Huzoor (9؍ستمبر 2022ء)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 نومبر 2022