• 28 اپریل, 2024

آئیں! ترکی کی سیر پر چلیں

بہت سے قاری حضرات دنیا بھر میں خدا تعالیٰ کی بکھری خوبصورتیوں بالخصوص ترکی کے حوالہ سےسیر کروانے کا ذکرکرتے رہتے ہیں ۔ ان کی خواہش پر ترکی کی مختصر سیرکا تذکرہ ذیل میں دیا جا رہا ہے۔ سیر و سیاحت سے تعلق رکھنے والےقاری حضرات وخواتین سے دنیا بھر کے اہم تاریخی مقامات کی سیر کروانے کی درخواست ہے۔(ایڈیٹر)

خاکسار کو ترکی کا سفر اختیار کئے ہوئے کئی سال ہو گئے تھے۔ بہت سے بھائی بہنوں کے فون آرہے تھے کہ آپ ترکی ضرور آئیں۔ چنانچہ خاکسار نےحضرت اقدس امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ترکی کے سفر کاارادہ کیا۔ مکرم برادرم رشید احمد ارشد انچارج چینی ڈیسک اور خاکسار نے اکٹھے ہی یہ سفر اختیار کیا۔ ہر چند کہ یہ سفر سیر و تفریح اور احمدی احباب سے ملاقات کی نیت سے کیا گیا۔ تاہم بعض جماعتی خدمات بجا لانے کی توفیق بھی مل گئی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

قریبا نصف شب کے وقت ہم استنبول پہنچے تھے۔ استنبول میں ایک رات رہ کر اگلے دن ہی ہم نے ادرانہ (EDIRNE) شہر کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ لیکن ہم نے مناسب خیال کیا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ میزبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر جا کر دعا کر لیں۔ ان کا مزار استنبول شہر کی تاریخی فصیل سے باہر چند کلو میٹر دور ہے۔ لیکن یہ سارا علاقہ اب استنبول شہر کے اندر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے استنبول کو فتح کرنے کے لئے متعدد بار لشکر کشی کی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسلمان ضرور استنبول کو فتح کر لیں گے۔ نیز آپ نے استنبول کو فتح کرنے والے لشکر اور اُس کے کمانڈر کو مندرجہ ذیل الفاظ میں خوشخبری دی تھی۔ آپؐ نے فرمایا:

’’لَتُفْتَحَنَّ الْقَسْطُنْطَیْنِیَّةُ فَلَنِعْمَ الْاَمِیْرُ اَمِیْرُھَا وَلَنِعْمَ الْجَیْشُ ذٰلِکَ الْجَیْشُ‘‘

(مسند امام احمد بن حنبل، جلد6 صفحہ225)

ترجمہ: یعنی قسطنطینیہ (موجودہ استنبول) ضرور فتح ہو جائے گا اس کو فتح کرنے والا کمانڈر کیا ہی اچھا کمانڈر ہو گا اور اُسے فتح کرنے والا لشکر کیا ہی عمدہ لشکر ہو گا۔


آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تعالیٰ نے بحری بیڑہ تیار کیا اور قسطنطینیہ (موجودہ استنبول) پر حملہ کیا۔ متعدد اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس نیت سے لشکر میں شامل ہو گئے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ شہر فتح ہو جائے تو ہم بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اس عمدہ لشکر کا حصہ بن جائیں جو اس شہر کو فتح کرے۔ مسلمان بھی اُن بزرگ صحابہ رضوان اللہ علیہم کو اس لیے ساتھ لے آئے کہ یہ بزرگ لوگ لشکر کے لیے دعا کریں گے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی نیت سے لشکر میں شامل ہو گئے۔ استنبول کے محاصرہ کے دوران ان کی طبیعت خراب ہو گئی تو اُنہوں نے وصیت کر دی کہ اگر اُن کی وفات ہو جائے تو انہیں شہر کی فصیل کے جتنا قریب ہو سکے وہاں لے جا کر دفن کر دیا جائے۔ چنانچہ ان کی وفات کے بعد اُن کو فصیل کے باہر کچھ فاصلہ پر دفن کر دیا گیا۔ بالآخر سلطان محمد فاتح کے زمانہ میں جب یہ شہر فتح ہوا تو اُنہوں نے اپنے استاد ’’آق شمش الدین‘‘ سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے قبر کی جگہ معلوم کریں۔ ’’آق شمش الدین‘‘ نے جب دعا کی تو ان کو ایک جگہ رؤیا میں دکھائی گئی۔ جب وہاں کھدائی کی گئی تو قبر کے آثار مل گئے چنانچہ وہاں پر ایک عمدہ مقبرہ تیار کیا گیا۔ اور ساتھ ہی خوبصورت سی مسجد بھی تعمیر کروائی گئی بعد میں بالعموم عثمانی اراکین سلطنت نے اپنی قبریں اُس مقبرہ کے اردگر تعمیر کروائیں۔ اب یہ مقبرہ زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ ترکی لوگ بالخصوص اپنے بچوں کو ختنہ سے قبل مزار پر لاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ اس مقبرہ کے پہاڑ کی چوٹی پر ایک قہوہ خانہ ہے جہاں سے استنبول کا خوبصورت نظارہ ہوتا ہے. بتایا جاتا ہے کہ مشہور فرانسیسی شاعر پئیر لوٹی (PIER LOTIE) اس جگہ بیٹھ کر شہر کا نظارہ کیا کرتا تھا اور استنبول کی تعریف میں شعر لکھا کرتا تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار پر دعا کرنے کے بعد ہم بس کے ذریعہ ادرنہ (EDIRNE) پہنچے اور ایک تاریخی عمارت میں قیام کیا جسے اب ہوٹل میں بدل دیا گیا ہے۔ قسطنطینہ یا موجودہ استنبول کی فتح سے قبل عثمانی بادشاہوں نے جن شہروں کو اپنا دارالحکومت بنایا ادرنہ (EDIRNE) شہر بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس شہر میں ترکوں نے محلات، مساجد، مدارس، حمام، اور شفاخانے تعمیر کروائے۔ ان میں سے ایک مسجد کا نام ’’بُورمالی جامع‘‘ ہے۔ اِس کے مینار اس طرز کے ہیں کہ جیسے میناروں کے گرد رسہ لپیٹا ہوا ہے. یہ طرز تعمیر اور کسی مسجد میں نظر نہیں آتی۔ گنبد بھی ایک پیالہ کی مانند ہے جس کے اوپر نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس شہر میں اور بھی کئی مساجد ہیں۔ لیکن سب سے مشہور، بڑی اور شاندار مسجد ’’سلیمانیہ جامع‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد عثمانی بادشاہوں کی بنوائی ہوئی سب مساجد میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کا گنبد بھی اندر سے ایک پیالہ کی مانند ہے اور اس پر نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ میں تو انہیں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس قدر حسین کیلگرافی اور کسی مسجد کے گنبد میں شاذ ہی نظر آتی ہے۔ ادرنہ (EDIRNE) شہر میں ایک میوزیم بنایا گیا ہے جہاں تصاویر کے ذریعہ سلطان محمد فاتح ِاستنبول کے حالاتِ زندگی دکھائے گئے ہیں۔ یہ تصاویر ٹی وی اسکرین پر نظر آتی ہیں جو بالخصوص یورپین سیاحوں کے لیے دلچسپی کا موجب ہیں۔ اسی شہر میں ایک پرانا شفا خانہ دکھایا گیا ہے. جس کے تمام حصے دلچسپی کا موجب ہیں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ عثمانی بادشاہوں نے اپنی رعایا کی صحت کا خاص خیال رکھا ہوا تھا۔ ہماری اگلی منزل ’’چناق قلع‘‘ (CANAKKALE) تھی۔ ’’چناق قلعے‘‘ شہر جانے کا راستہ انتہائی خوبصورت تھا۔ ایک طرف سمندر اور دوسری طرف سر سبز و شاداب پہاڑی سلسلہ تھا۔ آگے جا کر سمندر ایک آبنائے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور سمندر کے دونوں طرف سر سبز پہاڑ بہت ہی خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔ سمندر پار کرنے کے لیے بحری جہاز چلتے ہیں جو مسافروں کے علاوہ کاروں وغیرہ کو بھی پار لے جاتے ہیں۔ یہاں میں عرض کر دوں کہ پورے ترکی میں بسوں،ریل گاڑیوں،بحری جہازوں اور ٹیکسیوں وغیرہ کا کرایہ نہایت کم ہے۔ اگر آپ تین یا چار احباب ہوں تو ٹیکسی میں سفر کرنا اور ایک شہر سے دوسرے شہر جانا سب سے اچھا طریق ہے۔ ’’چناق قلعے‘‘ میں ترکوں اور اتحادی افواج کے درمیان شدید جنگ ہوئی تھی۔ لیکن ترکوں نے اتحادی افواج کو ’’چناق قلعے‘‘ سے گزرنے نہیں دیا تھا۔ وہاں پر دونوں محارب گروہوں کے سپاہیوں کے مزارات ہیں۔ جہاں پر وقتاً فوقتاً تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ جس سے یہ سبق ملتا ہےکہ جنگ سے خوشیاں نہیں بالعموم مصیبتیں اور ہم و غم ہی نصیب ہوتے ہیں۔ ’’چناق قلعے‘‘ شہر ایک اور وجہ سے بھی مشہور ہے۔ فتح سے پہلے اس شہر کا نام ٹرووا (TRUVA) تھا۔ فتح کے بعد ترکوں نے بدل کر ’’چناق قلعے‘‘ نام رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقہ کے بادشاہ اور دوسرے علاقہ کے بادشاہ کے درمیان لڑائی تھی۔ لڑائی لمبا عرصہ جاری رہی لیکن حملہ آوروں کو کامیابی نہ ہوئی۔ بالآخر انہوں نے تحفہ کے طور پر ایک بہت ہی عظیم الشان گھوڑا لکڑی کا تیار کیا اور اسے مقامی قلعے کے دروازے پر چھوڑ دیا۔ مقامی لوگ خوشی خوشی اس لکڑی کے گھوڑے کو تحفہ سمجھ کر قلعے کے اندر لے گئے۔ دراصل حملہ آوروں نے اس کے اندر اپنے سپاہی چھپائے ہوئے تھے۔ جو مسلح تھے۔ وہ فوراً باہر نکل آئے اور انہوں نے قلعہ کے دروازے پر متعین سپاہیوں کو قتل کر دیا اور اس طرح باقی فوج بھی قلعہ میں داخل ہو گئی اور حملہ آوروں کو فتح نصیب ہوئی۔ لکڑی کے اس گھوڑے کو سات عجائباتِ عالم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اصل گھوڑا اور میدان جنگ تو ’’چناق قلعے‘‘ شہر سے قریباً پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن اس کی نقل بنا کر ’’چناق قلعے‘‘ شہر کے ساحل پر نصب کر دی گئی ہے۔ جو سیاح اصل گھوڑا دیکھنے کے لیے خرچے اور وقت کی بچت کرنا چاہتے ہوں وہ شہر کے اندر والے لکڑی کے گھوڑے کو دیکھ کر اور تصویریں بنا کر ہی گزارا کر لیتے ہیں۔ ’’چناق قلعے‘‘ کے بعد ہماری اگلی منزل ’’بورصہ‘‘ (BURSA) شہر تھا۔ یہ شہر بھی عثمانیوں کا دارالسطنت رہا ہے۔ یہ شہر ’’علو داغ‘‘ نامی پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع بہت ہی خوبصورت شہر ہے۔ یہاں بعض عثمانی بادشاہوں کے مزار بھی واقع ہیں۔ لیکن غالبا شہر کی سب سے قابل دید اور تاریخی عمارت ’’علو جامع‘‘ یعنی اونچی مسجد ہے۔ یہ مسجد کافی وسیع ہے۔ لیکن اس کی سب سے زیادہ قابل ذکر خصوصیت اس کے اندر دیواروں پر لکھے ہوئے کتبات ہیں۔ فی الوقع یہ مسجد حسن خط کا ایک شاہکار ہے۔ اسکی دیواروں پر چھوٹے اور بڑے سائز میں متعدد آیاتِ کریمہ اور احادیث نبویہ، نیز اللہ، محمد اور بعض اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسماء گرامی لکھے ہوئے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسجد میں عبادت گزار کم لیکن سیاح زیادہ نظر آتے ہیں۔ شہر میں بازنطینی عیسائیوں کے تعمیر کردہ بعض گرجا گھر بھی موجود ہیں۔ جنہیں ترکی حکومت خالص اسلامی تعلیم کے مطابق محفوظ رکھے ہوئے ہے اور انکی مرمت اور زیبائش و آرائش کا کام بھی جاری ہے۔

’’سوغوت‘‘ (SOGUT) نامی قصبہ میں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے عثمان غازی کے والد محترم ارطغرل غازی کا مزار موجود ہے۔ ارطغرل غازی کے نام پر ایک ڈرامہ سیریل بھی تیار کی گئی ہے جو پاکستان میں انتہائی شوق سے دیکھی جاتی ہے۔ ’’بورصہ‘‘ شہر سے ’’علوداغ‘‘ پہاڑ پر جانے کے لیے بسوں، وینوں اور کاروں کا راستہ بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں شہر سے پہاڑ پر جانے اور آنے کے لیے ایک چئیر لفٹ کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ موسم گرما میں ہزاروں سیاح پہاڑ پر جا کر وہاں کی تازہ ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لوگ پہاڑ پر جا کر گوشت خرید کر اپنے ہاتھ سے گرل کرتے ہیں اور اس طرح سیر کا لطف اٹھاتے ہیں۔ چونکہ سردیوں کی آمد آمد تھی اس لیے ہم نے پہاڑ پر جانے کی بجائے شہر کے اندر ہی سیر و سیاحت کو ترجیح دی۔ یہاں میں عرض کر دوں کہ ترکی میں جدید مارکیٹس کثرت سے تعمیر کی گئی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم کسی یورپین مارکیٹ میں گھوم رہے ہیں۔ ’’بورصہ‘‘ میں بھی جدید مارکیٹس تعمیر کی گئی ہیں جو کسی لحاظ سے بھی دنیا کی کسی بھی جدید مارکیٹ سے کم نہیں۔ ’’بورصہ‘‘ شہر میں گرم پانی کے چشمے بھی ہیں۔ جہاں لوگ نہاتے ہیں اور ان چشموں کا پانی کئی بیماریوں سے شفایابی کا بہترین ذریعہ ہے۔ بعض فائیو اسٹار ہوٹلوں کے اندر چشموں سے نکلنے والا گرم پانی لا کر حوض بنائے گئے ہیں۔ جہاں ہوٹل میں ٹھہرنے والے مسافر کوئی اجرت ادا کیے بغیر نہاتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ’’بورصہ‘‘ سے ہمیں ’’یالووا‘‘ (YALOVA) شہر جانا تھا۔ جہاں سے ہم بحری جہاز کے ذریعہ استنبول پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مکرم برادرم محمت اوندر صاحب (MEHMET ONDER) نے ہمیں مشورہ دیا کہ ازنیق (IZNIK) کا قصبہ راستہ میں ہی ہے. وہاں پر وہ گرجا ہے جہاں عیسائیوں کی پہلی کانفرنس ہوئی تھی۔ چنانچہ ہم ایک ٹیکسی کے ذریعہ ’’اِزنیق‘‘ (IZNIK) پہنچے اور مذکورہ گرجا کی زیارت کی۔ گرجا کی عمارت تو اب ایک قسم کا کھنڈر بن چکی ہے۔ البتہ اسکی چھت اور دیواریں صحیح حالت میں ہیں۔ کہیں کہیں عیسائیوں کے قدیم نقش ونگار بھی موجود ہیں۔ ترکی حکومت نے اس کھنڈر نما عمارت کے اندر ہی ایک حصہ میں قالین بچھا کر اُسے مسجد میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن وہاں بھی نمازی کم اور سیاح زیادہ نظر آتے ہیں۔ مجھے بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ اگر اس قدیم کھنڈر نما عمارت کو ویسے ہی رہنے دیا جاتا جہاں سیاح جا کر اس کا نظارہ کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ہماری اگلی منزل ’’یالوا‘‘ (YALOVA) تھی۔ راستہ میں سیب، ناسپاتی اور بالخصوص زیتون کے باغات سڑک کے دونوں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں گرم چشمے کا پانی بھی بہہ رہا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور کے بیان کے مطابق موسم گرما میں کثرت سے سیاح اس علاقے میں آتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے مکانات سیاحوں کو کرایہ پر بھی دے دیتے ہیں۔ یہ باغات ’’بورصہ‘‘ سے شروع ہو کر ’’یالوا‘‘ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ’’یالوا‘‘ کے اندر بھی گرم پانی کے چشمے ہیں جن کو حماموں کے اندر پہنچایا گیا ہے۔ لوگ شفایابی کے لیے ان حماموں میں گرم پانی سے نہاتے ہیں۔ ’’یالوا‘‘ سے بحری جہاز، بسوں، موٹروں اور عام مسافروں کو لے کر استنبول کے ایک محلہ ’’پیندک‘‘ (PENDIK) پہنچتے ہیں۔ کرایہ بھی بہت کم ہے۔ ’’پیندک‘‘ پہنچ کر ہم نے ایک ٹیکسی لی اور احمدیہ مشن ہاؤس پہنچ گئے۔ جہاں ہماری رہائش کا انتظام مکرم صادق احمد بٹ صاحب صدر جماعت ترکی کے ارشاد پر کیا گیا تھا۔ ہمیں وہاں ہر طرح کی سہولت رہی۔ فَجَزَاہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَحْسَنَ الْجَزَآء۔

یوں تو استنبول اپنی ذات میں ایک دنیا ہے جہاں تاریخی عمارتیں، مساجد، محلات، حمام، انڈر گروانڈ پانی کے حوض وغیرہ کثرت سے ہیں۔ لیکن ہماری پہلی تلاش وہ مزارات تھے جن کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ اصحابِ کرام کے مزارات ہیں۔ جو کچھ فصیل کے اندر بھی ہیں اور کچھ فصیل کے باہر بھی ساتھ ہی ہیں۔ خصوصاً ’’اَدِرنے قاپے‘‘ (EDIRNE KAPI) کی طرف دائیں جانب فصیل کے اندر اور باہر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مزارات بتائے جاتے ہیں۔ اسی طرح ’’قوجہ مصطفٰی پاشا‘‘ محلہ کے اندر مشرقی جانب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو صاحبزادیوں کے مزارات بتائے جاتے ہیں۔ لیکن کوئی شحض یہ بیان نہیں کر سکتا کہ بازنطینی عیسائیوں کے زیر قبضہ شہر کے اندر یہ مزارات کیسے تعمیر ہو گئے۔ ہو سکتا ہے کہ اُس زمانہ کے حالات کے مطابق مزار کی شکل میں صرف یادگاریں ہوں تاکہ مسلمان وہاں جا کر ان بزرگوں کے لیے دعا کر سکیں۔ ہمارا مقصد بھی یہی تھا اور ہم نے ان مزاروں کو تلاش کر کے ان بزرگوں کی بلندی درجات کے لیے اور اپنی مغفرت کے لیے خدا تعالیٰ سے دعائیں کیں۔ استنبول کے یورپین سائیڈ والے سمندر کے ساتھ ہی قریباً سو میٹر کے فاصلہ پر ’’یَیرے باطان جامع‘‘ (YERE BATAN CAMI) یعنی زیرِ زمین ایک بہت وسیع مسجد ہے۔ جو باہر سے نظر نہیں آتی۔ لیکن نیچے جا کر اتنی بڑی مسجد دیکھ کر انسان حیران ضرور ہوتا ہے۔ یہ مسجد ’’قارا قوئے‘‘ کے علاقہ میں ہے۔ اس مسجد میں بھی بعض اصحابِ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مزارات بتائے جاتے ہیں۔ ہم نے وہاں پہنچ کر بھی دعا کی۔ (KARA KOY) آج کل سیاحوں کا زیادہ رُخ ’’آیا صوفیا‘‘ نامی گرجے سے مسجد میں تبدیل شدہ عمارت کی طرف ہے۔ کسی زمانہ میں یہ مشرقی رومن سلطنت کا سب سے بڑا گرجا تھا۔ مسلمانوں نے استنبول کی فتح کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کر دیا۔ قریباً پانچ سو سال یہ عمارت مسجد کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ عثمانی سلطنت کے اختتام اور جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ لیکن موجودہ حکومت نے اسے دوبارہ مسجد میں تبدیل کر دیا ہے۔ اندر جا کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مشہور حدیث یاد آئی کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں کی مساجد تو عظیم الشان ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ یہی حالت اس مسجد کی نظر آئی۔ سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے اندر داخل ہونا اور اندر سےباہر نکلنا مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن عبادت کرنے والے خال خال ہی نظر آئے۔ انتظامیہ نے لکڑی کے تختوں کے ذریعہ سیاحوں کے لیے ایک جگہ مقرر کر دی ہے تاکہ سیاح اس لکڑی سے آگے نہ جائیں۔ مردوں اور عورتوں کا اتنا رش تھا کہ اس ماحول میں سکون سے عبادت کرنا بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا۔ موجودہ حکومت نے ایک پہاڑی کے اوپر ایک جدید مسجد بھی تعمیر کرائی ہے۔ جس کا اسٹائل تو پرانی مسجد جیسا ہی ہے لیکن یہ ایک بالکل جدید عمارت ہے۔ جس میں جگہ جگہ لفٹس لگی ہوئی ہیں اور اتنی بڑی مسجد ہے کہ ترکی کی تمام مساجد اس کے مقابل میں بہت چھوٹی رہ گئی ہیں۔ حتٰی کہ استنبول کی مشہور سلطان احمد مسجد جسے ’’بلیوماسک‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ نیز ’’ادرنے‘‘ (EDIRNE) کی سلیمیہ مسجد بھی اس نئی مسجد سے بہت چھوٹی ہیں۔ مسجد تک پہنچنے کے لیےاسپیشل سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس مسجد میں بھی عبادت کرنے والے کم اور سیاح زیادہ نظر آئے۔ یہ مسجد استنبول کے ایشیا والے حصہ میں ہے اور فی الواقع قابل دید ہے۔ استنبول میں عثمانی بادشاہوں اور اُمراء کے متعدد محلات ہیں۔ اُن میں سے پہلا محل وہ ہے جسے جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس محل کے مین گیٹ پر ایک توپ رکھی ہوئی ہے اس لیے اِس کو ’’توپ قاپے سرائے‘‘ یعنی توپ کے گیٹ والا محل کہا جاتا ہے۔ اسی محل کے ایک حصہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور بعض انبیاءِ کرام کے مقدسات بھی رکھے ہوئے ہیں۔ چوبیس گھنٹے بعض حفاظ باری باری یہاں پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ عثمانیوں کے زمانہ میں بھی یہی طریق رائج تھا۔ دوسرا بڑا محل ’’دولما باغیچہ‘‘ محل ہے جو باسفورس کے کنارے سمندر میں بھرتی کر کے بنایا گیا ہے۔ یہ محلات استنبول کے یورپین حصہ میں ہیں۔ استنبول کے ایشیا والے حصہ میں باسفورس کے کنارے بعض محلات ہیں جو ہمارے زمانہ میں زائرین کے لیے کھولے نہیں گئے تھے۔ مثلاً ’’بے لیبر بے عی‘‘ (BEYLER BEYI) محل جو باسفورس کے اوپر بنے ہوئے بغیر ستونوں کے رسیوں والے پل کے بالکل ساتھ ہی ہے۔ یہ محل آج بھی بند تھا۔ صرف اسکے باغیچہ میں جانے کی اجازت دی گئی۔ دوسرا محل جو باسفورس کے کنارے ہے۔ اسے ’’کوچوک صو قصرے‘‘ (KUCUK SU KASRI)کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ رہائشی محل نہیں۔ صرف دن کے وقت خاص خاص میٹنگز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہ نسبتاً چھوٹا ہے لیکن نہایت ہی خوبصورت ہے۔ اس کی سفید رنگ کی عمارت واقعی قابلِ دید ہے۔ باسفورس کے ایشیا والے حصہ میں ’’انا دولو قاواغی‘‘ (ANADOLLI KAVAGI) بحری جہازوں کا آخری اسٹاپ ہے۔ وہاں مچھلی کے متعدد ریسٹورنٹ ہیں۔ اسی کے قریب پہاڑ پر حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کا مزار بتایا جاتا ہے اور وہاں بالخصوص دینیات پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں جاتے ہیں اور مزار کے کنارے بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ جب خاکسار ترکی میں طالب علم تھا اس وقت کئی دیگر شہروں کا سفر کرنے کا موقع بھی میسر آیا۔ لیکن اُس وقت کے ترکی اور موجودہ ترکی میں بہت فرق ہے۔ لہٰذا خاکسار صرف ان جگہوں کا ذکر کرنا چاہتا ہے جہاں خاکسار کو حالیہ سفر کے دوران جانے کی توفیق ملی۔ ان میں سے ایک شہر ’’ایسکی شہر‘‘ (ESKI (SEHIR ہے۔ اسے ترکی کا ’’وینس‘‘ (VENICE) بھی کہا جاتا ہے۔ اسکے لفظی معنی ہیں ’’قدیم شہر‘‘ یا ’’پرانا شہر‘‘۔ لیکن یہ ایک خوبصورت اور جدید شہر ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک نہر ہے جس کے اندر کشتیاں اور چھوٹے بحری جہاز چلتے ہیں۔ ان کا کرایہ بھی کچھ زیادہ نہیں۔ اس نہر کے ساتھ ہی کھانے کے بہت عمدہ ریسٹورنٹس ہیں۔ شہر کے ایک حصے میں بے حد خوبصورت اور وسیع و عریض پارک بنایا گیا ہے۔ جس میں پانی کی ایک جھیل بھی ہے اور فوارے وغیرہ بھی لگائے گئے ہیں۔ ’’ڈزنی لینڈ‘‘ کی طرز کی ایک عمارت بھی بنائی گئی ہے جہاں سے شہر اور پارک کا نظارہ نظر آتا ہے۔ ٹیکسی طلب کرنے کے لیے مین گیٹ پر گھنٹی لگی ہوئی ہے۔ گھنٹی دبانے پر چند منٹ میں ٹیکسی پہنچ جاتی ہے۔ شہر میں یونیورسٹی بھی ہے۔ شہر کی آب و ہوا بھی صاف ہے۔ عمارتیں بہت عمدہ ہیں۔ غرض یہ ایک قابل دید شہر ہے۔ خاکسار اور برادرم مکرم رشید احمد ارشد صاحب ٹرین پر صبح اس شہر کی طرف روانہ ہوئے اور سیر و سیاحت کے بعد اسی روز شام کے وقت مشن ہاؤس واپس پہنچ گئے۔

خاکسار 1985ء میں استنبول یونیورسٹی سے پی- ایچ- ڈی کرنے کے بعد استنبول سے علیحدہ ہوا تھا۔ اس کے بعد جب بھی ترکی جانے کا موقع ملا غیر معمولی ترقی نظر آئی۔ عمدہ عمدہ سڑکیں، نئی عمارتیں، نئے نئے شاپنگ مال، زیر زمین ریلوے ٹرام، زیر زمین سمندر کے نیچے بنائی جانے والی ٹنل، جہاں سے بسیں کاریں اور ٹرک وغیرہ گزرتے ہیں۔ اسی طرح باسفورس کے اور تعمیر ہونے والے رسوں کی مدد سے بغیر ستونوں کے بنے ہوئے پل، خلاصہ یہ کہ کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ ہر چیز ہی بے نظیر ہے۔ لیکن مجموعی طور پر استنبول یورپ کے مقابلہ میں کم ازکم نصف سے بھی زیادہ سستا ہے۔ لباس یورپین اسٹنڈرڈ کا ملتا ہے لیکن قیمت بہت کم۔ کھانا سستا، ٹرام، بس، بحری کشتیوں وغیرہ نیز ٹیکسیوں کا کرایہ نہایت ہی کم ہے۔ ہوٹل اچھے اور سستے۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ آنکھیں کھلی رکھیں۔ چیزوں کی خرید کے وقت ضرورت پڑنے پر ’’بارگینگ‘‘ کر لیں تو آپ کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا ایک مرکز ہے جو ایشیا والے حصہ میں ہے۔ جماعت میں کثرت سے عرب ممالک خصوصاً شام سے آمدہ اور بعض پاکستانی موجود ہیں۔ جو نوجوان انگریزی جانتے ہیں اور اسکولوں اور کالجوں میں انگریزی کی تعلیم دینے کے قابل ہیں ان کے لیے ترکی میں کام اور رہائش کا سنہری موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کو دنیا کے ہر ملک میں مضبوط سے مضبوط تر کر دے۔ ترکی ایک عظیم ملک ہےاور ترک ایک عظیم قوم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک اور اس قوم کو بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطاء فرمائے اور احمدیت کا کثرت سے اس ملک اور قوم میں نفوذ ہو۔ آمین۔

(ڈاکٹر محمد جلال شمس۔ انچارج ٹرکش ڈیسک برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

آج کی دعا