• 7 مئی, 2024

خلافت نور ِ رب العالمیں ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

خلافت  نور ِ رب العالمیں ہے

انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرکے بے یارو مددگار نہیں چھوڑ دیا بلکہ جہاں اس نے ہر زمانہ میں انسان کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے سامان بہم پہنچائے ،وہاں اس کی روحانی زندگی میں ہدایت و راہنما ئی کے دروازے بھی ہمیشہ کھولتا رہا اور ظلمت کے ہر دور میں صحیح راستہ دکھانے کے لئے نبوّت اور پھر نبوّت کے بعد خلافت کی صورت میں اپنے نور کی شمعیں روشن کر کے   دنیا کو منوّر کرتا رہا ۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ لوگوں نے ہر دور میں نور الہٰی ہونے کے باوجود اپنی روحانی آنکھیں بند کرلیں اور اس نور سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اسے چھپانے اور بجھانے کے درپے ہو جاتے رہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے فضل سے اپنے نورِ نبوّت و خلافت کی نہ صرف حفاظت فرماتا رہا بلکہ ہر آزمائش کے دَور میں اپنی تائید ونصرت سے کامیابی و کامرانی کے نت نئے دروازے کھولتے ہوئے اپنی قدرت کا ثبوت عطا فرماتا رہا۔  چنانچہ قرآن کریم جیسی عظیم اور مقدّس کتاب گواہی دیتی ہے کہ آتشِ نمرود ابراہیم ؑ کا راستہ روک سکی نہ لشکرِ فرعون موسیٰؑ  کو تباہ کر سکا۔ برادرانِ یوسفؑ کی تدابیر انہیں پر الٹا دی گئیں اور عیسیٰؑ کے مقابل پر دشمنوں کا صلیبی منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ چھوٹے چھوٹے پرندوں کے سامنے ابرہہ کے ہاتھیوں کا لشکر   بے بس ہوگیا اور آنحضور ﷺ  جیسے ایک یتیم بچے کے سامنے مکّہ کے سرداروں  کو جُھکا دیا گیا۔غرض  ازل سے چشم فلک حق و باطل  میں مقابلے    اور  نور الہٰی   اور نار ابلیس کی  معرکہ آرائی کا مشاہدہ کرتی آئی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فعل نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ دشمن کا کوئی منصوبہ اس کے نور کی شمعوں کا راستہ نہیں روک سکا اور نہ ہی روک سکے گا۔ فرمایا يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (الصّف: ۹) کہ وہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کر نے والا ہے۔ خواہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔

حدیث نبوی ﷺ کے مطابق دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے قریباً پچیس انبیاء کا ذکر فرمایا اور ان کی اقوام میں سے ماننے اور انکار کرنے والوں کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ سوال یہ ہے صرف انہیں انبیاء کا ذکر کیوں فرمایا؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورۃ یوسف میں بیان فرمایا کہ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (یوسف: آیت ۱۱۲) کہ ان کے واقعات میں عقل رکھنے والوں  کے لئے عبرت اور سبق ہے۔ یعنی اسی قسم کے واقعات آئندہ بھی پیش آتے رہیں گے۔ جب اس قسم کے حالات پیدا ہوں تو قرآن کریم کے بیان فرمودہ ان واقعات کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرنا۔ تقویٰ کی نظر سے دیکھنے والی آنکھوں کو ہدایت کا واضح راستہ نظر آجائے گا۔ البتّہ جن کی آنکھیں تقویٰ کے نور سے عاری ہوں گی وہ اس راستہ کو نہ دیکھ پائیں گے۔ چنانچہ انسان کی راہنمائی کر دی گئی کہ جب ظلمت کے دَور میں نور الہٰی  کی شمع روشن ہو اور دوسری طرف اس نور کو بجھانے والی طاغوتی طاقتیں بھی  اپنے   لشکر کے ساتھ  میدان میں آ  جآئیں تو ان واقعات کے مطابق فیصلہ کر لیں کہ آپ نے کس گروہ کے ساتھ شامل ہونا ہے۔

جیسے بارش کی آمد سے قبل ہوائیں  موسم کی خبر دیتی ہیں اور پَوپھٹنے سے طلوعِ  آفتاب کا وقت قریب ہونے کا اندازہ ہر انسان کو ہو جاتا ہے، ایسے ہی جب روحانی طور پہ اللہ کی رحمت کا نزول  قریب ہوتا ہے اور نور الہٰی کا جلوہ ظاہر ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اس کا دوست و دشمن سب کو  اندازہ ہونے لگتا ہے اور پھر دونوں اپنی اپنی تیاری اور منصوبے شروع کر دیتے  ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام میں بچپن سے نظر آنے والی علامات سے جہاں حضرت یعقوب علیہ السلام  کو اُن میں تجلّیٔ الہٰی کا  ظہور ہوتا دکھائی دینے لگا وہاں  برادران ِیوسف کو بھی باپ کی اس بیٹے سے محبت اور شفقت کھٹکنے لگی۔ چنانچہ حضرت یوسف  علیہ السلام کے بھائیوں نے    اپنے زعم میں اُس  چراغ  کو گل کر دیا تھا لیکن  حضرت یعقوب علیہ السلام کو یقین تھا کہ  برادرانِ یوسف نے  اگرچہ  اس کو دُکھ دیا ہے اور اس کے خلاف کوئی تدبیریقیناً  کی ہے لیکن   یہ ممکن  نہیں  کہ یہ لوگ اللہ کے مقابلہ میں یوسفؑ کو عطا ہونے والی نعمت کو روک سکیں۔ لہٰذا آپ ؑ بیٹوں کو یہی جواب دیتے رہے کہ

آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے
گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار

چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام پر اگرچہ ابتلاؤں  اور آزمائشوں  کا طویل دَور آیا جس میں بدکاری کے جھوٹے الزام پر آپ کو کئی سال کے لئے قید بھی کر دیا گیا۔ لیکن خدا تعالیٰ کے ارادوں کو کوئی روک نہ سکا۔ اسی طرح سیّد الانبیاء، سیّد الاحیاء حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو مکّہ والے اگرچہ صادق اور امین کہا کرتے تھے لیکن جب آپ کو نبوّت عطا ہوئی تو انہیں سرداروں نے اپنی سرداری جاتے دیکھ کر آنحضور ﷺ کی مخالفت میں کیا کچھ نہیں کیا۔ پھر ہجرت کے بعد مدینہ میں بعض لوگوں کی سرداری کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ان میں ایسے بھی تھے جو بظاہر ایمان تو لے آئے لیکن اپنی سرداری چھن جانے کے حسد نے ان کو منافق بنا دیا اور وہ حضورﷺ  کے بعد بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی  آنحضور ﷺ سے  قربت اور محبت کو محض اس لئے برداشت نہ کر سکے کہ انہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں آنحضور ﷺ کی جانشینی کے آثار واضح نظر آنے لگے تھے۔ اس پہ انہوں نے آپ ؓکو راستے ہٹانے کے لئے ایسی تدابیر شروع کر دیں کہ حضرت ابو بکرؓ کو آنحضور ﷺ کی  نظروں سے گرا یا جائے اور دونوں کے درمیان اختلافات کی ایک خلیج پیدا کردی جائے  تاکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا راستہ روکا جا سکے۔ اس کے لئے انہوں نے تمام اخلاقی حدود کو پار کرتےہوئے آنحضور ﷺ اور آپ کے  صحابہ ؓ پر مالی بد دیانتی کے الزامات لگا ئے جن  کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۔وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ (التوبہ :۵۹) ان میں سے  ایسے بھی ہیں جوتجھ پر صدقات   کے بارے میں الزام لگاتے ہیں، اگر ان کو اس میں سے کچھ  دے دیا جائے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو  وہ فوراًناراض ہو جاتے ہیں ۔پھر فرمایا کہ  الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ (التوبہ: ۷۹) اور وہ لوگ جو مومنوں میں سے  طوعی نیکی کرنے والوں پر صدقات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں اور ان لوگوں پر بھی جو اپنی محنت کے سوا (اپنے پاس) کچھ نہیں پاتے۔ پس وہ ان سے تمسخر کرتے ہیں، اللہ ان کے تمسخر کا جواب دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

اسی طرح آنحضور ﷺ کے اہل بیت یعنی حضرت امّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی پر  الزام لگایا گیا جو تاریخ میں واقعۂ افک کے نام سے مشہور ہے اور اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں فرمایا ہے۔ سورۃ النور کے مضمون پر مجموعی طور پہ غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس سورۃ کا مرکزی مضمون خلافت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اللہ کا نور نبوّت کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوتا اور خلافت کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ لیکن اس سورۃ کا آغاز بدکاری اور قذف کی سزاؤں  سے ہوتا ہے۔ دوسرے رکوع میں واقعۂ افک (یعنی حضرت عائشہ ؓ کی عفت و پاکدامنی پر جھوٹا الزام)، پانچویں رکوع میں اللہ کے زمین و آسمان کا نور ہونے اور ساتویں رکوع میں قیام خلافت کا ذکر فرمایا۔ اگر اس سورۃ کا مرکزی مضمون نور الہٰی، نبوّت اور خلافت ہے تو اس کے آغاز میں ہی زنا کی سزاؤں اور واقعہ افک کا ذکر کیوں کیا گیا؟ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں ۔
’’اب میں یہ بتاتا ہوں کہ  پہلے چار رکوعوں کا باقی پانچ رکوعوں سے جن میں خلافت کا ذکر آتا ہے کیا تعلق ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ پہلے چار رکوعوں میں بدکاری کے الزامات کا ذکر اصل مقصود ہے اور ان میں خصوصاً اس الزام کو ردّ کرنا مقصود ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگا یا گیا تھا۔ اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگایا گیا تو اس کی اصل غرض کیا تھی۔اس کا سبب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ان لوگوں کو  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی دشمنی تھی۔۔۔۔اس الزام کے بارے میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ یاتو یہ کہ یہ الزام نعوذباللہ سچا ہوجس کو کوئی مومن ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ خصوصاً اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر سے اس گندے خیال کو ردّ کیا ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عائشہ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کے لئے لگایا گیا ہو۔ اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون کون لوگ تھے  جن کو بدنام کرنا منافقوں کے لئے  یا ان سرداروں کے لئے فائدہ  بخش  ہو سکتا  تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافقین اپنی دشمنی نکال سکتے تھے۔ ایک ادنیٰ تدبیر سے بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر  دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی۔ ایک رسول کریم ﷺ اور ایک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے۔ کیونکہ  ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں ۔ یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی ۔ یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بدنام کرنے  کے ساتھ وابستہ تھیں۔۔۔۔۔۔پس آپؓ پر الزام یا تو رسول کریم ﷺ سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا پھر حضرت ابوبکرؓ سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ رسول کریم ﷺ کو جو مقام حاصل تھاوہ تو الزام لگانے والے کسی طرح  چھین نہیں سکتے تھے۔انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں۔وہ دیکھ رہے تھے کہ  آپ ﷺ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ؓہی ہے۔ پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشؓہ پر الزام لگا دیا    تا حضرت عائشہؓ رسول  کریم ﷺ کی نگاہ  سے گر جائیں۔اور ان کے گر جانے کہ وجہ سے حضرت ابو بکرؓ کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپ ؓ سے بد ظن ہو  کر اس عقیدت کو ترک کردیں جو انہیں آپ ﷺ سے حاصل تھی۔اور  اس طرح رسول کریم ﷺ کے بعدحضرت ابو بکر ؓ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ پرالزام لگنے کے واقعہ کے بعد  خلافت کا بھی ذکر کیا۔ حدیثوں میں صریح طور پر ذکر آتا  ہے کہ  صحابہؓ   آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد  اگر کسی کا  مقام ہے تو وہ ابوبکرؓ کاہی مقام ہے،،

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ324۔325)

پھر  حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ رئیس المنافقین  عبداللہ بن ابئ بن سلول کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ  رسول کریم ﷺ فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں۔لیکن اب اس نے دیکھا کہ ابوبکر ؓ کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔ جب رسول کریم ﷺ نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابوبکرؓ آپ ﷺ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں ۔رسول کریم ﷺ سے کوئی  فتویٰ پوچھنے کا موقع  نہیں ملتا تو مسلمان ابو بکر ؓ سے فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ یہ دیکھ کر عبد اللہ بن ابئ بن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے   کی امیدیں لگائے بیٹھا تھا،سخت فکر لگا۔ اور اس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے۔ چنانچہ اس امر کا ازالہ کرنے اور  حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپؓ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے  کے لئے  اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کو  حضرت عائشہ ؓ سے نفرت پیدا ہو  اور حضرت عائشہؓ سے رسول کریم ﷺ کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ  حضرت ابو بکرؓ کو رسول کریم ﷺ اور مسلمانوں کی نگاہوں میں  جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے او ر ان کے آئندہ خلیفہ بننے کا کوئی امکان نہ رہے۔چنانچہ اسی امر کا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ ۚ کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر اتہام لگایا ہے وہ تم میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھا ہے۔ مگر فرماتا ہے لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ کہ تم  یہ خیال مت کرو کہ یہ الزام کوئی برا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہو جائیگا۔ چنانچہ  لو اب ہم خلافت کے متعلق اصول بھی بیان کر دیتے ہیں  اور تم کو یہ بھی بتا دیتے ہیں  کہ یہ منافق زور مار کر دیکھ لیں ، یہ ناکام رہیں گے۔ اور ہم خلافت کو قائم کر کے رہیں گے۔۔۔۔۔

اس الزام کا ذکر کرنے اور عبداللہ بن ابئ  بن سلول کی اس شرارت کو بیان کرنے کے بعد کہ اس نے خلافت میں رخنہ اندازی کے لئے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا پر الزام لگایا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔  مگر اس کے نور کو مکمل کرنے کا ذریعہ  نبوّت ہے اور اس کے بعد اس کو دنیا میں پھیلانے اور اسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے۔ گویا نبوّت ایک چمنی ہے جو اس کو آندھیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور خلافت ایک ریفلیکٹر ہے جو اس کے نور کو دُور تک پھیلاتا ہے۔ پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے۔بلکہ اپنے نور کو دیر تک دنیا میں قائم رکھنے کے لئے اس سامان کو مہیّا کریں گے۔

اس بات کا مزید ثبوت کہ اس آیت میں جس نور کا ذکر ہے وہ نورت خلافت ہی ہے، اس سے اگلی آیتوں میں  ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ  اس سوال کا جواب دیتا ہےکہ یہ نور کہاں ہے۔ فرماتا ہے فِي بُيُوتٍ یہ نورِ خلافت چند گھروں میں پایا جاتا ہے۔ نورِ نبوّت تو صرف ایک گھر میں تھا مگر نورِ خلافت ایک گھر میں نہیں بلکہ فِي بُيُوتٍ چند گھروں میں ہے۔پھر فرماتا ہے أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وہ گھر ابھی چھوٹے سمجھے جاتے ہیں۔مگر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ان گھروں کو اُونچا کرے  کیونکہ  نبوّت کے بعد خلافت  اُس خاندان کو بھی اُونچا کر دیتی ہے جس میں سے کوئی شخص منصب خلافت حاصل کرتا ہے۔اس آیت نے بتا دیا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصد نور ِخلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتانا مدّنظر ہے کہ نور خلافت نور نبوّت اور  نور الوہیت کے ساتھ کلّی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نوروں مٹانا ہے۔ پس ہم اسے مٹنے نہیں دیں گے۔اور اس نور کو ہم کئی گھروں  کے ذریعہ سے ظاہر کریں گے تا نور نبوّت کا زمانہ اور اس کے ذریعہ سے نور الہٰیہ  کے ظہور کا زمانہ لمبا ہو جائے۔۔۔تُرْفَعُ  کے لفظ نے  یہ بھی بتا دیا کہ  الزام لگانے والوں کی اصل غرض یہ ہے وہ ان  لوگوں کو نیچا کریں اور انہیں لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل کریں مگر خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ  وہ ان کو اونچا کرے۔ اور جب خدا انہیں عزت دینا چاہتا  ہے تو الزام لگانے سے کیا بنتا ہے۔

۔۔۔۔ فرمایا کہ خلافت بادشاہت نہیں، وہ تو نور الہٰی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لئے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔۔۔۔تم الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگاؤ۔ نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو۔ نہ ابوبکر ؓ کو  خلافت سے محروم کر سکتے ہو۔ کیونکہ خلافت ایک نور ہے جو نور اللہ کے ظہور کا ایک  ذریعہ ہے اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے،،

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ327تا329)

اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے قیام اور مقام، اس کی ضرورت و افادیت اور اطاعت کے مضامین کھول کے بیان فرما دئیے ہیں۔ اسی طرح مقام  پہ  جہاں بد کاری کی سزا بیان فرمائی، وہاں اس میں بیان کردہ واقعہ افک جیسے بے ہودہ اور جھوٹے الزامات لگانے والوں اور ان الزامات کی اشاعت کرنے والوں کو بھی بہت سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ یہ واقعات اور ان کے بارے میں اللہ کے بیان فرمودہ ارشادات کا مطلب ہے کہ لوگ بعد میں بھی اس قسم کے فتنے اُٹھائیں گے۔ چنانچہ جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہو تو مومنوں  کو قرآن کریم کے ان احکام پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ورنہ پھر ایسے لوگوں کا شمار اپنی مماثلت رکھنے والوں گروہ میں ہی ہوگا۔

کتاب الہٰی سے یہ بات عیاں ہے کہ ایسا معاملہ پیش آنے کی صورت میں متعلقہ حکّام جن کے پاس یہ معاملہ پیش ہو، ان کے علاوہ کسی کو   اس معاملہ میں  بات کرنے کی اجازت نہیں  ہے ۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے  اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ  سورۃ النور میں  واقعہ افک کے بعد کی آیات کا بغور مشاہدہ کریں تو  اللہ تعالیٰ  واضح فرما رہا ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو تب تک ہمیشہ حسن ظنّی سے کام لیتے ہوئے اسے جھوٹ ہی سمجھنا چاہئے۔ پھر فرمایا کہ  إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ ۔(آیت ۱۶) کہ جب تم  اس (جھوٹ) کو اپنی زبانوں پر لے رہے تھے  اور اپنے مونہہ سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کا تمہیں علم ہی نہیں تھا۔ اور تم اسے معمولی سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔ یعنی  اس قسم کی  سنی سنائی باتوں کو بغیر کسی علم کے خواہ مخواہ آگے بیان کرنے کو معمولی مت سمجھو ۔ یہ حرکت  اللہ کے نزدیک  بہت ہی بُری ہے۔  فرمایا  وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ۔(آیت :۱۷)  کہ جب تم نے یہ سنا تھا  تو (سنتے ہی) یہ کیوں نہ کہا کہ ہمیں اس معاملے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ (اے اللہ) تو پاک ہے۔ یہ تو بہتانِ عظیم ہے۔ يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آیت:۱۸)۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے  کہ اگر مومن ہو تو اس قسم کی بات دوبارہ مت کرنا ۔ پھر مزید فرمایاکہ  إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (آیت:۲۰)۔ یقیناً وہ لوگ جو  پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے  حیائی پھیل جائے ، ان کے لئے دنیا و آخرت میں  درد ناک عذاب ہے۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔

پس ایمان کا تقاضا ہے کہ  ہم  قرآن کریم میں  اور خصوصاً سورۃ النّور میں بیان کردہ احکام الہٰی  کی روشنی میں اللہ کے نور کو دنیا میں پھیلانے کے لئے آنحضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق  خلافت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے  کراس سے  صدق اور وفا سے چمٹ جائیں اور منافقین کی طرف سے بچھائے گئے  ہر جال کو روندتے ہوئے  آنحضور ﷺ کے ذریعہ ملنے والے الہٰی نور کو دنیا کی ہر سمت پھیلانے کا عہد کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(شمشاد احمد قمر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

آپؑ کی قوت قدسی