• 7 مئی, 2024

یہ پھول محفوظ رکھو (مسیح موعودؑ)

حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
(قریباً 1902ء) میں ایک لیڈی مس روز نام کی تھی جس کے مضامین اُس ملک (غالباً امریکہ کی طرف اشارہ ہے) کے اخباروں میں اکثر چھپا کرتے تھے۔میں نے اس کے ساتھ تبلیغی خط و کتابت شروع کی اور اس کے خط جب آتے تھے میں عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ترجمہ کر کے سنایا کرتا تھا اور ہماری مجلسوں میں اسے ’’مس گلابو‘‘ (روز پھول کا اردو ترجمہ) کہا جاتا تھا۔ ایک دفعہ مس گلابو نے اپنے خط کے اندر پھولوں کی پتیاں رکھ دیں۔حضرت صاحب نے انہیں دیکھ کر فرمایا۔
’’یہ پھول محفوظ رکھو کیونکہ یہ بھی یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں‘‘

(ذکر حبیب صفحہ99 از الفضل آن لائن 3؍اکتوبر 2022ء صفحہ16)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کو پڑھتے ہی خاکسار کا ذہن جماعت احمدیہ کے دنیا بھر میں منعقد ہونے والے جلسہ ہائے سالانہ کی طرف گیا۔ بالخصوص قادیان دارالامان کے 2022ء میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ کی طرف ذہن منتقل ہوا۔جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سی خبریں دیں۔ا ن میں سے ایک یہ بھی تھی۔

یَاٴْتُوْنَ مِنُ کُل فَجّ عَمِیُق یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ

(تذکرہ صفحہ465)

حقیقۃ الوحی میں اس الہام کا ترجمہ یوں درج ہے:
’’اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ77)

جلسہ سالانہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں اور اللہ تعالیٰ کے الہامات روزنامہ الفضل ربوہ اور بعد ازاں روزنامہ الفضل آن لائن لندن کی زینت بنتے رہتے ہیں اور ان شاءاللّٰہ بنتے رہیں گے۔ زیر نظر عنوان کی تشریح میں خاکسار نے جو الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیش کیا ہے۔ اس الہام میں الفاظ ’’یَاتُوْنَ‘‘ میں ذی روح لوگ یعنی مرید، متبعین اور وفا دار مراد ہیں جب کہ الفاظ ’’یَاتِیْکَ‘‘ میں وہ تحفے تحائف مراد ہیں جو یہ وفادار مرید 1لے کر آئیں گے یا آتے ہیں اور اوپر بیان شدہ ’’مس گلابو‘‘ کے واقعہ سے یہ بھی عیاں ہے کہ ان میں وہ تحفے بھی مراد ہو سکتے ہیں جو لوگ ساتھ تو نہیں لاتے مگر بجھوا دیتے ہیں۔وہ اشیاء جو تحفتاً آتی ہیں وہ بھی آئیں گی اور ساری دنیا سے آئیں گی۔

؎میں تھا غریب و بے کس و گم نام و بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی
میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی

مس گلابو نے حضورؑ کو پھول کی پتیاں بھجوائیں حضور علیہ السلام نے ان پتیوں کو بھی محفوظ کرنے کی ہدایت جاری فرمائی۔

پھول،ادبی اور معاشرتی دنیا میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔اگر کسی شخص کو اس کے قد کاٹھ کے مطابق قدرو منزلت اور عزت دینی ہو تو اس کی خدمت میں پھول پیش کیے جاتے ہیں۔ دین و دنیا کا کوئی اہم رہنما کسی جگہ کا دورہ کرے تو اس کا استقبال اُسے پھولوں کا گلدستہ پیش کر کے کیا جاتا ہے اور پھولوں کا گلدستہ بھی ایک پھول نما بچہ یا بچی پیش کرتی ہے۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ فرمایا اور اس دوران بھی حضور ایدہ اللہ کی خدمت میں پھولوں کے گلدستے پیش کیے گئے۔ یہ دراصل اس عظیم شخصیت سے پیار ومحبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے اور ایک خاص تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔

شادی بیاہ کے موقع پر میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو گلاب کا پھول پیش کرتے ہیں۔عاشق معشوق بھی آپس میں پھولوں کے تبادلہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

شادی بیاہ کے مواقع پر گاڑیوں اور شادی گھروں کی سجاوٹ پھولوں سے کی جاتی ہے۔ اسٹیج کو پھولوں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ دلہا یا دلہن کی آمد پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں۔ دولہا کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔

گھروں کی کیاریوں کو پھولوں سے سجایا جاتا ہے۔الغرض پھولوں کا آراستگی اور سجاوٹ میں بہت عمل دخل ہے۔ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر مس گلابو کی طرف سے پھولوں کی پتیوں کا جائزہ لیا جائے تو مس گلابو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اس محبت میں پتیاں بجھوائی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پڑھ کر قائم ہوئی تھی۔یہ دراصل ایک تحفہ تھا۔ جن کو یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کا نشان قرار دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محفوظ رکھنے کی ہدایت فرمائی۔

ایک اور اہم پہلو

پھول اور اس کی پتیوں کی بات چل رہی ہے تو اصلی خوشبودار اور رنگ برنگے پھولوں کے مقابل پر بے شمار نقلی اور بناوٹی پھول بھی مارکیٹوں میں موجود ہیں۔ مگر روحانی اور دینی مارکیٹوں میں دستیاب پھولوں کی بات ہی کچھ نرالی ہوتی ہے۔کسی مذہب، دینی فرقہ کا سربراہ یا نبی ایک درخت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی شاخیں،سر سبز وشاداب پتے،اس کی کونپلیں،اس کی کلیاں اوراس کے پھول پھل وہ لوگ ہوتے ہیں جو اٰمنا و صدقنا کہہ کر اپنے آپ کو اور اپنی نسبت کو اس مبارک روحانی درخت کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں۔پھر ان پر جو پھول لگتے ہیں ان سے نہ صرف اس فرقہ یا جماعت کا باغ مہک اٹھتا ہے بلکہ اس فرد کے گھرانے کا باغیچہ بھی خوبصورت لگتا ہے اور ان میں کھلنے والے رنگ برنگے پھول خوشبو بکھیر رہے ہوتے ہیں۔اگر وہ پھلوں والا پودا ہے تو پھل لگنے سے قبل جب پھول اس درخت کو اپنے حصار میں لیتے ہیں تو اس کے اردگرد بھینی بھینی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ پھل لگنے کے بعد تو اس کے ذائقہ سے ہر کوئی مستفیض ہوتا ہے۔یہ پھل اور پھولوں کی بہار اتنی بڑی ہو جاتی ہے کہ انہیں اردگرد پڑوسیوں میں بھی تقسیم کر کے ان کو بھی محظوظ کروایا جاتا ہے۔ہم نے بارہا دیکھا ہےکہ گلاب کے پودے پر لگے پھول دلوں کو بھا رہے ہوتے ہیں اور روح کی تسکین کا موجب ہوتے ہیں وہاں ان کی پتیوں کو بھی خوبصورتی اور سجاوٹ کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ جو پتیاں پھولوں سے الگ ہو کر زمین پر گر جاتی ہیں۔ ان پتیوں سے گلاب کے پودے والی اور اردگرد کی زمین بھی خوشبودار ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے ماننے والوں کو اے میرے درخت وجود کی سر سبز شاخو! کہہ کر پکارا ہے وہ دراصل یہی نصیحت ہے جو خاکسار یہاں بیان کرنے کی کوشش میں ہے۔

حضرت سید میر محمد اسحاقؓ اپنے ماتحت چلنے والے ادارہ ’’دار الشیوخ‘‘ میں پلنے والے یتیم و مسکین بچوں کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ یہ میرا باغ ہے اور بچے اس کے درخت ہیں۔

(الفضل آن لائن 15؍نومبر 2022ء)

ان تمام معنوں کو مدنظر رکھ کر یہ بلا تردّد کہا جا سکتا ہے کہ جلسہ سالانہ پر حاضر ہونے والے لوگ دراصل پھول ہی تو ہیں جو اپنی خوبصورت رنگ برنگی خوشبودار پتیوں سے نہ صرف جلسہ گاہ کو آراستہ کر رہے ہوتے ہیں بلکہ مرکزی جلسہ سالانہ میں حاضر ہو کر امام وقت خلیفۃ المسیح سے تعلق قائم کر کے جہاں اپنے اندر تازگی پیدا کرتے ہیں وہاں خلافت اور جماعت کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں۔

مجھے سال ہا سال جلسہ سالانہ برطانیہ میں پاکستان سے شامل ہونے کی توفیق ملتی رہی ہے۔ حدیقۃ المہدی میں شاملین جلسہ کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک روحانی باغ لگ چکا ہے اور ہر طرف اشخاص اس میں بطور پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔ کسی سے اطاعت و وفا کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے، کسی سے نماز باجماعت کی خوشبو، کوئی تسبیح و تحمید کی خوشبوئیں بکھیر رہا ہوتا ہے۔ کسی میں اپنے آقا و مولیٰ سے محبت و عقیدت کی وجہ سے درودشریف کی خوشبو کی لپٹیں نکل رہی ہوتی ہیں۔ ہر طرف اخوت و بھائی چارے کا ماحول ہوتا ہے۔ اللہ ہی اللہ اور خلیفۃ المسیح کے دیدار کی لگن ہر ایک کو ستائے رکھتی ہے۔ محبت کی یہ آگ دونوں طرف سے برابر نظر آتی ہے۔اگر ایک طرف عشاق احمدیت پھبھے پھار یعنی ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر اپنےخلیفہ کا دیدار اور اس پر ہر ایک نگاہ ڈالنے کی فکر میں رہتے ہیں تو دوسری طرف خلیفۃ المسیح کی ان عشاق سے محبت دیدنی ہوتی ہے وہ اپنے سے پیار کرنے والوں کا دیدار کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں اور ان روحانی رنگ برنگے پھولوں کی خوشبوؤں سے فیض یاب ہو رہے ہوتے ہیں اور بزبان حال کہا جا رہا ہوتا ہے کہ یہ پھول اور ان کی پتیاں ہیں۔ جن کو محفوظ کر لیں۔اب دیکھیں! پہلے جلسہ سالانہ منعقدہ 1891ء میں جن 72 خوش نصیب پھولوں نے شرکت فرمائی۔ ان کے اسماء تاریخ احمدیت میں تا قیامت محفوظ چلے جائیں گے۔ ’’اوڑھنیوں والیوں کے لیے پھول‘‘ نام نے اس موقع پر میری توجہ اس طرف بھی پھیری کہ ان جلسوں پر خلیفۃ المسیح کے منہ سے پاک کلمات کی صورت میں پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں وہاں شاملین کی طرف سے اخلاص و وفا کے عہد وپیمان بھی رنگا رنگ کے خوبصورت پھول ہیں جو ان کے مونہوں سے نکلتے ہیں اور احمدیت کی وفاداری کی تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ایک تیسرا پہلو

اس مضمون کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے اور وہ عملی طور پر لوگوں کی کثرت سے آمد کی وجہ سے سڑکوں پر گڑھے پڑنا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ربوہ میں جب سڑکیں تارکول کی نہ تھیں تو جلسہ سالانہ سے قبل سڑکوں پر سرخ رنگ کی کیری (پتھریلی مٹی) ڈال کر چھڑکاؤ کیا جاتا تھا اور دو تین دن بعد یوں لگتا تھا کہ وہ سڑک پکی سڑک کی طرح ہے مگر شاملین جلسہ کی آمدورفت سے ان سڑکوں پر گڑھے بن جاتے تھے اور یَأْتون مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کے الہام کا پورے ہونے کا نظارہ ہم دیکھا کرتے تھے۔اب تو پاکستان میں حکومتی پابندیوں کی وجہ سے جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہوتا مگر یہ لنگر تو اب 100 سے زائد ممالک میں جاری ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں جہاں آمدورفت کے لیے سڑکیں پختہ نہیں ہیں وہاں شاملین جلسہ کی آمد سے یہ الہام پورا ہوتا ہم دیکھتے ہیں۔قادیان میں جتنی بار جلسہ میں شمولیت کی مجھے توفیق ملی۔وہاں یہی کیفیت دیکھنے کو ملی۔ سیرالیون مغربی افریقہ جہاں خاکسار کو ساڑھے سات سال خدمت دین کی توفیق ملی اور 2019ء میں جب مرکزی نمائندہ کے طور پر خاکسار نے جلسہ سالانہ سیرالیون میں شمولیت کی۔ وہاں بھی خاکسار نے دیکھا کہ جلسہ سالانہ 2019ء میں 24 ہزار سے زائد شاملین جس طریق سے سفر کر کے پہنچے تھے ان میں سے بعض میلوں پیدل چل کر آئے وہ دراصل یَأْتِون مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کا زندہ ثبوت تھے۔ ایڈیٹر الفضل آن لائن کی حیثیت سے جو رپورٹس جلسہ سالانہ کی افریقن ممالک،بعض لاطینی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک سے بغرض اشاعت آتی ہیں۔ ان میں بھی بعض رپورٹس میں یہ ذکر ملتا ہے کہ اتنی کثرت سے لوگ ان جلسوں میں شرکت کرنے کے لیے سڑکوں پر چلتے ہیں۔ جن کے چلنے سے سڑکوں پر راستے عمیق ہو جاتے ہیں۔اس کا نظارہ قادیان کے 127 ویں جلسہ سالانہ پر دیکھنے کو ملے گا۔

اللہ تعالیٰ ا س جلسہ سالانہ کو ہر لحاظ سے مبارک کرے۔ شاملین جلسہ کے ساتھ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تمام دعائیں ان کے حق میں قبول فرمائے جو شاملین جلسہ کے لیے آپ علیہ السلام نے کی ہیں۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط (قسط 2)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2022