• 18 مئی, 2025

مسجد قباء اور مسجد نبویؐ کی تعمیر

دنیا کی سب سے دلکش، دلفریب، دلنشین اور خوبصورت جگہ وہ جگہ ہے جہاں خدا کا گھر یعنی مساجد تعمیر کی جاتی ہیں۔ مساجد مسلمانوں کی اجتماعی عبادت، منتشر قوتوں کی شیرازہ بندی اور باہمی تعلق کی مضبوطی اور بکھرے ہوئے موتیوں کو سلک مراوید میں پرونے اور محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں نیاز مندی اور وفا داری کے ساتھ اکٹھا کرنے کا ذریعہ ہیں۔مساجد رب کائنات مالک شش جہات کا گھر ہیں جن کی رفعت شان اور عزت عظمت کا مقابلہ عالی شان اور پُرشکوہ عمارات بھی نہیں کر سکتیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

وَّاَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا ﴿۱۹﴾

(الجن: 19)

اور یقیناً مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔

اور حکم دیا۔ وَاَقِیۡمُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ہرمسجد کے پاس اپنی توجہ درست کر لیا کرواور اللہ کی عبادت کو خالص اسی کا حق قرار دیتے ہوئے اسی کو پکارو۔

اللہ تعالیٰ کو شہروں اور بستیوں میں مسجد یں بہت زیادہ پسند ہیں جبکہ منڈیاں اور بازار سخت ناپسند ہیں۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا للّٰہَ یَبْتَغِیْ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ تَعَالیٰ بَنَی اللّٰہ لَہٗ بَیْتًا فِي الْجَنَّۃِ

(مسلم کتاب المساجد باب فضل بناءالمسجد و الحث علیھا)

کہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو ئے مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ اسی کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا ہے:

مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِدًا مِنْ مَالِہِ بَنَی اللّٰہُ لَہٗ مِثْلَہٗ فِي الْجَنَّۃِ

(ابن ماجہ کتاب المساجد باب من بنی اللہ مسجدا)

جو شخص اپنے مال سے اللہ کے لئے مسجد بناتا ہے۔ اللہ اسی کی مانند جنت میں اس کے لئے گھر بناتا ہے۔

ابن ماجہ کی ہی روایت ہے کہ

مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِداً وَلَوْ کَمَفْحَصِ قَطَاۃٍ اَوْ اَصْغَرَ بَنَی اللّٰہُ لَہٗ بَیْتًا فِي الْجَنَّۃِ

( کتاب المساجد باب من بنی اللّٰہ مسجدا)

جو شخص چڑیا کے گھونسلے کے برابر (یعنی چھوٹی سی) بھی محض اللہ کے لئے مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے گھر بناتا ہے۔

جب اسلام کے نیر تاباں نے مدینہ کو اپنی ضیا پاشیوں سے منور کیا تو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے انوار و برکات سے جہان عالم کو مستنیر کرنے کے لئے قیام مسجد کا ارادہ فرمایا اور یہ شرف و مجدمدینہ کے حصہ میں آئی کہ وہاں مسجد تعمیر کی جائے تا اس کی ضیا گستریوں سے اکناف عالم منور ہونے لگیں۔

مسجد قباء

حکم خداوندی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو پہلے چودہ دن قباء مقام پر ٹھہرے۔ ظہور اسلام کے بعد مساجد کی تعمیر کی تاریخ میں مقام قباء پر بننے والی مسجد کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔ جس کی تعمیر میں خود سرورِکائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس شامل ہوئے۔ آپؐ نے اپنے دست مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ آپؐ صحابہؓ کے ساتھ خود بھی اینٹیں اور پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے تھے۔ آپؐ کا جسم گرد آلود ہوجاتا تھا۔ صحابہؓ آ آ کر عرض کرتے۔ ہمارے والدین آپؐ پر قربان۔ اپنا بوجھ ہمیں اٹھانے دیجئے۔ آپؐ فرماتے نہیں۔ تم اس جیسی دوسری اینٹ یا پتھر اٹھا کر لے آؤ۔ اس مسجد کے معمار بھی صحابہؓ تھے اور مزدور بھی۔ وہی اینٹیں لاتے۔ پتھر ڈھوتے۔ دیواریں بناتے چھت ڈالتے۔ چند دن کی محنت کے بعد یہ مسجد مکمل ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسجد سے بہت محبت تھی۔ مدینہ تشریف لے جانے کے بعد بھی آپؐ ہر ہفتہ اس مسجد میں تشریف لاتے اور نماز ادا کرتے۔ حضرت ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے اس مسجد میں آتے اورنماز ادا کرتے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کہتے ہیں: قباء کی مسجد اسلام میں وہ پہلی مسجد تھی جس کی بناء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے تکمیل ہجرت کے بعد پہلے دن رکھی گئی اور جسے مسلمانوں نے گویا ایک قومی عبادت گاہ کے طور پر تعمیر کیا۔

(سیرۃ خاتم النبیین جدید ایڈیشن صفحہ297)

مسجد قباء کی شان

صحیح بخاری میں عروۃ بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ ہجرت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرما ہوئے تو پہلے چند دن آپؐ نے قباء میں قیام فرمایا یہ پیر کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عمرو بن عوف میں کچھ روز ٹھہرنے کے بعد آپ نے اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی۔

(بخاری کتاب المناقب الانصارباب ہجرۃ النبیؐ وا صحابہ الی المدینہ 3906)

حضرت ابن عمرؓ نے بیان کیا کہ

کَانَ النَّبِیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَأْتِی قُبَاءَ مَاشِیًا وَرَاکِبًا

(بخاری کتاب فضل الصلوٰۃ باب اتیان مسجد قباء ماشیا و راکبا)

کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباءمیں پیدل بھی تشریف لاتے اور سوار ہو کر بھی۔ نافع کی روایت میں ہے اور آپ اس میں دو رکعت نماز ادا فرماتے۔

نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ ہر ہفتہ کو مسجد قباء آتے اور بغیر نماز ادا کئے اس میں سے باہر نکلنا ناپسند فرماتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہونے کی حالت میں بھی اور پیدل بھی یہاں تشریف لایا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب فضل الصلوٰۃ باب مسجد قباء)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کو پیدل بھی اور سوار ہو کر بھی مسجد قباء تشریف لاتے۔ عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

( بخاری کتاب فضل الصلوٰۃ)

مسجد قباء میں نماز پڑھنے کا ثواب

سنن ترمذی میں ہے۔ اَلصَّلاَة فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍکَعُمْرَۃٍ مسجد قباء میں نماز پڑھنا عمرہ کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔

(ترمذی کتاب الصلوٰۃ۔ باب ماجاء فی الصلوٰۃ فی مسجد قباء)

حضرت سہیل بن حنیفؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے اپنے گھر میں وضو کیا پھروہ مسجد قباء آئے اور اس میں نماز ادا کرے اسے عمرہ کے برابر اجر ملے گا۔

(ابن ماجہ کتاب اقامۃا لصلوٰۃ باب ماجاء فی الصلوۃ فی مسجد قباء)

اسید بن ظہیرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسجد قباء میں دو رکعت نماز پڑھنا مجھے اس شخص کی نسبت جو دو دفعہ بیت المقدس سے ہو کر آتا ہے زیادہ محبوب ہے۔ ایک روایت میں ہے۔ ’’اگر لوگوں کو مسجد قباء کی عظمت و شرف کا علم ہو جائے تو وہ اس تک پہنچنے کے لئے اپنے اونٹوں کو تھکا دیں۔

(شرح زرقانی جلد2 صفحہ155)

اہل قباء کی شان

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ آیت فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا ؕ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُطَّہِّرِیۡنَ (التوبہ: 108) یعنی اس میں (آنے والے) ایسے لوگ ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ بالکل پاک ہو جائیں اور اللہ کامل پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اہل قباء کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ وہ پانی سے استنجا کیا کرتے ہیں۔

(سنن ترمذی کتاب تفسیر القرآن۔ ومن سورۃ توبہ)

مسجد قباء کی توسیع

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے 91ھ/709ء میں مسجد قباء کی توسیع کی اور چونا وغیرہ سے پتھروں کی چنائی کی۔ پتھر کے بے حد مضبوط ستون بنوائے جن کے درمیان سوراخ کر کے لوہے کی سلاخوں اور سیسہ وغیرہ ڈالا۔ پھر ان پر انتہائی دلفریب نقش و نگار کرایا۔ چھت پر عمدہ لکڑی لگائی۔ برآمدوں کے درمیان صحن رکھا اور پہلی دفعہ مسجد کا مینار بنوایا۔ بعدازاں مختلف ادوار میں تعمیر و توسیع ہوتی رہی۔ اکتوبر 1986ء میں جو توسیع ہوئی وہ پہلے سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔عورتوں کے لئے شمال کی جانب الگ حصہ مخصوص کیا گیا ہے۔ اس وقت مشرق، مغرب اور شمال میں دو بڑے اور چار چھوٹے دروازے ہیں۔

مسجد قباء کے امام

ابتدائی زمانہ میں مسجد قباء میں حضرت مولیٰ حذیفہؓ کو امام مقرر کیا گیا۔ آپ مہاجرین اولین بشمول حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ اور دیگر صحابہؓ کی امامت کے فرائض سر انجام دیا کرتے تھے۔ بعدازاں سعد ابن عدیم امام مقرر ہوئے جو حضرت عمرؓ کے زمانہ تک یہ خدمات بجالاتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے مجمع بن حارثہؓ کو بطور امام تعینات فرمایا۔

قبلہ کا تبدیل ہونا

جس وقت سید الاولین و آخرین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدقباء کی تعمیر فرمائی اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا۔ پھر 16-17 ماہ بعد جب بیت اللہ کو اللہ تعالیٰ نے قبلہ قرار دیا تو مسجد قباء میں بھی یہ تبدیلی واقع ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مسجد قباء میں نماز فجر ادا کررہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن میں یہ حکم نازل ہوا ہے کہ کعبہ کو اپنا قبلہ بنا لو۔ چنانچہ ان سب نے اپنے رخ کعبۃ اللہ کی طرف کر لئے تم بھی اپنے رخ بیت اللہ کی طرف پھیر لو۔ تو لوگوں نے اپنے رخ بیت اللہ کی طرف کر لئے جبکہ وہ شام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے۔

(بخاری کتاب التفسیر باب و من حیث خرجت فول وجھک شطر المسجد الحرام 4494)

مسجد نبوی سے مسجد قباء کا فاصلہ

مسجد قباء مدینہ منورہ سے جنو ب مغربی جانب تقریباً 3کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ عام رفتار سے چلتے ہوئے ایک شخص چالیس منٹ میں وہاں پہنچ جاتا ہے۔ پہلے اس کا راستہ تنگ اور دشوار گزار تھا۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بہت سی اراضی خرید کر یہ راستہ کشادہ کر دیا۔

(باقی کل ان شاءاللّٰہ)

(عبدالقدیر قمر)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط (قسط 2)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2022