• 14 مئی, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کی مہمان نوازی

اکرامِ ضیف یعنی مہمان نوازی اُن اخلاقِ فاضلہ میں سے ایک ہے جو کہ معاشرہ میں بمنزلہ روح کے ہیں۔ مہمان نوازی معاشرہ میں احترام، محبت اور اعتماد کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک یہ اخلاقی قوت اُس میں نشوونما نہیں پاتی۔

اکرامِ ضیف میں بہت سی باتیں داخل ہیں۔ مثلاً مرحبا کہنا، اظہارِ بشاشت کرنا، حسبِ استطاعت کھانا وغیرہ کھلانا، مہمان کے آرام میں ایثار سے کام لینا اور جب وہ روانہ ہو تو اُس کی مشایعت کرنا۔

اکرامِ ضیف انبیاء علیہم السلام کی سنت میں داخل ہے اور حقیقت میں یہ کامل خُلق اُنہی میں پایا جاتا ہے۔ کیونکہ اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق اُن کے پاس بغرضِ حصولِ ہدایت آئے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے:

وَلَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ بِالۡبُشۡرٰی قَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنۡ جَآءَ بِعِجۡلٍ حَنِیۡذٍ ﴿۷۰﴾

(ہود: 70)

ترجمہ : اور ہمارے فرستادے یقینا ًابراہیم کے پاس خوشخبری لائے تھے اور کہا تھا کہ ہماری طرف سے آپ کو سلام ہو۔ اُس نے کہا کہ تمہارے لئے بھی ہمیشہ کی سلامتی ہو اور پھر وہ جلدی سے ایک بُھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔

اکرامِ ضیف کے کامل خُلق کا نمونہ سب سے زیادہ ہمارے پیارے آقا رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ میں پایا جاتا تھا۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ (صحیحین) یعنی جو خدا تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہےاُسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اِکرام کرے۔

حضرت رسول کریم ﷺ کے بعد ہمیں اس خُلق کا بہترین نمونہ آپ کے بروزِ کامل حضرت مسیح موعوؑ د میں نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبل ازوقت وحی الٰہی کے ذریعہ آنے والی مخلوق کی خبر دی تھی کہ لَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَ لَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ لہٰذا آپ اس پیغام کے بعد مہمانوں کے استقبال اور اِکرام کےلئے تیار تھے۔

رسالہ ’’فتح اسلام‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام اور اپنے سلسلہ کے کاموں کی کامیابی کےلئے پانچ بنیادی شاخوں کا ذکر فرمایا ہے۔ آپؑ نے ان بنیادی شاخوں میں سے ایک شاخ مہمان نوازی کو قرار دیا ہے۔

(ماخوذ از رسالہ فتح اسلام، روحانی خزائن جلد سوم صفحہ14)

آپ کو اللہ تعالیٰ نے جس خاندان میں پیدا کیا تھا وہ اپنی عزت و وقار کے لحاظ سے نہ صرف ممتاز بلکہ اپنی مہمان نوازی اور جود و سخا کے لئے بھی مشارالیہ تھا۔

آپ کی والدہ محترمہ چراغ بی بی صاحبہ خاص طور پر مہمان نوازی کے لئے مشہور تھیں۔ اُن کے دل میں مہمان نوازی کے لئے نہایت جوش اور وسعت تھی۔ اگر چار آدمیوں کے کھانے کی اطلاع ملتی تو آٹھ سے زائد آدمیوں کا کھانا بھیجا جاتا۔ مہمانوں کے آنے سے اُنہیں دلی خوشی ہوتی تھی۔

گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شِیرِ مادر کے ساتھ ہی مہمان نوازی کے خلق کو جزوِ بدن بنایا تھا۔ جب سے آپ نے آنکھ کھولی اس خوبی کو دیکھا اور سیکھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسح کیا اور معطّر فرمایا تو جو قوتیں آپ میں بطور بیج کے تھیں ایک بڑے تناور درخت کی صورت میں نمودار ہوئیں۔

جب آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور نہ ہوئے تھے تب بھی بعض لوگ آپ کے پاس آتے تھے۔ اُن کی مہمان نوازی میں بھی آپ کا وہی طریق تھا جو کہ ماموریت کےبعد تھا۔ غرضیکہ ہر زمانہ میں آپ کی شانِ مہمان نوازی یکساں پائی جاتی ہے۔

ایک جگہ اس خدائی کفالت کے ایک پہلو کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی شکر کے انداز میں فرماتے ہیں : ؎

لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ أُکُلِیْ
وَ صِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامِ الْأَھَالِیْ

یعنی ایک زمانہ تھا کہ دسترخوانوں کے بچے ہوئے ٹکڑے میری خوراک تھے مگر آج خدا کے فضل سے میرے دسترخوان پر خاندانوں کے خاندان پل رہے ہیں۔

مہمان نوازی کایہ عالَم تھا کہ شروع میں جب مہمانوں کی کثرت نہ تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحت بھی نسبتاً بہتر تھی، آپ اکثر اوقات مہمانوں کے ساتھ اپنے مکان کے مردانہ حصہ میں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اورضیافت کا اہتمام آپ کے گھر سے ہی ہوتا تھا جس کی حضرت اماں جان خود نگرانی فرماتی تھیں مگر جب آخری سالوں میں زیادہ کام ہو گیا تو پھر باہر انتظام کیا گیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لنگر کا انتظام خود اپنے ہاتھ میں رکھا گو بعض احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتے تھے کہ حضور کو انتظام کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور حضور کا حرج بھی بہت ہوتا ہے۔ یہ انتظام اپنے خدام کے سپرد کر دیں مگر آپ نہ مانے کیونکہ آپ کو اندیشہ رہتا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اُن کے پاس انتظام جانے سے کسی کو تکلیف ہو۔

اب خاکسار آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے چند نمایاں اوصاف پیش کرنے کی کوشش کرے گا جن کا اس قلیل وقت میں بیان کرنا ایک بہت مشکل امر ہے۔

آپ کی دلی خواہش ہوتی تھی کہ دوست خصوصاً کثرت سے آئیں اور بہت دیر تک آپ کے پاس ٹھہریں۔ آپ مہمانوں کے جلد واپس جانے پر خوش نہ ہوتے تھے اور جانے پر ناخوشی سےرخصت دیتے تھے۔

آپ کا مقصد محض یہ ہوتا تھا کہ احباب پر حق کھل جائے اور جس غرض سے آپ کو مبعوث کیا گیا ہے لوگوں پر عیاں ہو جائے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ کیا بن جائیں۔ وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کیلئے خدا تعالیٰ نے ہمیں مبعوث فرمایا ہے وہ پوری نہیں ہو سکتی جب تک لوگ یہاں باربار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں۔‘‘

نیز فرمایا کہ:
’’جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اُس پر بوجھ پڑتا ہے یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہوگا اُسے ڈرنا چاہئے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہاں ہماراعیال ہو جائے تو ہماری مہمات کا متکفّل خدا تعالیٰ ہے ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں۔ ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے۔ یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے دور پھینکنا چاہئے۔ میں نے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دیں۔ ہم تو نکمے ہیں۔ یوں ہی روٹی بیٹھ کر کیوں توڑا کریں۔ وہ یہ یاد رکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے کہ ان کے پَیر یہاں جمنے نہ پائیں۔‘‘

ایک روز حکیم فضل دین صاحبؓ نے عرض کیا کہ حضور! مَیں یہاں نکمّا بیٹھا کیا کرتا ہوں۔ حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درسِ قرآن ہی کروں گا، یہاں مجھےبڑی شرم آتی ہے کہ مَیں حضور کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت ہو۔ فرمایا کہ: ’’آپ کا یہاں بیکار بیٹھنا ہی جہاد ہے اور یہ بیکاری بڑا کام ہے۔‘‘ غرض بڑے دردناک اور افسوس بھرے لفظوں میں نہ آنے والوں کی شکایت کی۔

(ملفوظات جلداوّل صفحہ455-456 ایڈیشن1984ء)

ایک مرتبہ حضرت منشی ظفر احمدؓ صاحب کپورتھلوی قادیان تشریف لائے۔ اُن دنوں آپ مجسٹریٹ کے ریڈر تھے اور آپ ایک دو دن کےلئے موقع نکال کر آئے تھے۔ مگر جب بھی اجازت مانگتے تو حضوؑ ر کا یہی جواب ہوتا کہ چلے جانا، ابھی کون سی جلدی ہے اور اس طرح اُنہیں ایک لمبا عرصہ اپنے پاس قادیان میں ہی رکھا۔

(ماخوذ ازسیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانی ؓصفحہ153)

منشی عبدالحق صاحب ایک زمانہ میں عیسائی ہو گئے تھے اور لاہور مشن کالج میں بی۔اے کلاس میں پڑھتے تھے۔ اُنہوں نے الحکم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات پڑھ کر آپ کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کو عملی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُنہیں لکھ بھیجا کہ وہ کم از کم دو ماہ کے لئے قادیان آ جائیں۔

جب منشی صاحب قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت ناساز تھی مگر اس کے باوجود آپ اُن کے استقبال کے لئے باہر تشریف لائے اور پوری تبلیغ فرمائی اور آخر میں منشی صاحب سے فرمایا:
’’آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان وہی آرام پا سکتا ہے جو بےتکلّف ہو۔ پس آپ کو چاہئے کہ جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بے تکلف کہہ دیں۔‘‘

پھر جماعت کومخاطب کر کے فرمایا کہ:
’’دیکھو! یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتے رہو کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔‘‘

(الحکم 31؍جنوری 1902ء صفحہ3-4 کالم 2)

جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مہمان کے آنے پر بےحد خوش ہوتے تھے وہاں آپ کی انتہائی کوشش کوتی تھی کہ مہمان کو ہر ممکن آرام ملے۔ آپ لنگر خانہ والوں کو اس سلسلہ میں خاص تاکید فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے میاں نجم الدین صاحب مہتمم لنگر خانہ کو بلا کر فرمایا:
’’دیکھو! بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ، تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حسنِ ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کرو۔‘‘

(ماخوذ از ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادقؓ صفحہ195 البدر 8؍جنوری صفحہ3-4)

آپ اکثر فرماتے تھے کہ:
’’مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ292 ایڈیشن 2003ء)

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ منی پور آسام کے دوردراز علاقہ سے دو مہمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام سن کر آپ سے ملنے قادیان آئے اور مہمان خانہ کے پاس پہنچ کر لنگرخانہ کے خادموں کو اپنا سامان اُتارنے اور چارپائی بچھانے کو کہا۔ لیکن خدام کو اس طرف فوری توجہ نہ ہوئی اور وہ اُن مہمانوں کو یہ کہہ کر دوسری طرف چلے گئے کہ آپ یکہ سے سامان اُتاریں چارپائی بھی آ جائے گی۔ اُن تھکے ماندے مہمانوں کو یہ جواب ناگوار گذرا اور وہ رنجیدہ ہو کر اُسی وقت واپس روانہ ہو گئے۔ مگر جب حضرت صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی آپ نہایت جلدی، ایسی حالت میں کہ جوتاپہننا بھی مشکل ہو رہا تھا، اُن کے پیچھے تیز تیز قدم چل پڑے۔

حضرت صاحب اتنی تیزی کے ساتھ اُن کے پیچھے گئے کہ قادیان سے اڑھائی میل کے فاصلہ پر نہر کے پُل کے پاس اُنہیں جا لیا اور بڑی محبت اور معذرت کے ساتھ اصرار کیا کہ واپس قادیان چلیں اور فرمایا کہ آپ کے واپس چلے جانے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے۔ آپ یکہ پر سوار ہوجائیں مَیں پیدل چلوں گا۔ آپ اُنہیں اپنے ساتھ واپس قادیان لائے اور مہمان خانہ میں پہنچ کر اُن کا سامان اُتارنے کےلئے آپ نے اپنا ہاتھ یکہ کی طرف بڑھایا مگر خدام نے آگے بڑھ کر سامان اُتار لیا۔

اس کے بعد حضرت صاحب اُن کے پاس بیٹھ کر محبت اور دلداری کی گفتگو فرماتے رہے اور دوسرے دن جب یہ مہمان واپس روانہ ہونے لگے تو حضرت صاحب نے دودھ کے دو گلاس منگوا کر اُن کے سامنے بڑی محبت سے پیش کیے اور پھر دو اڑھائی میل پیدل چل کر بٹالہ کے راستہ والی نہر تک چھوڑنے کےلئے ساتھ گئے اور اپنے سامنے یکہ پر سوار کرا کر واپس تشریف لائے۔

(ماخوذ از سیرت المہدی حصہ دوم از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ57-56 روایت نمبر 1069)

آپ مہمانوں کو بھی کثرت سے فرماتے تھے کہ:
’’آپ مہمان ہیں آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو مجھے بے تکلّف کہیں کیونکہ مَیں تو اندر رہتا ہوں اور نہیں معلوم ہوتاکہ کس کو کیا ضرورت ہے۔ آجکل مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کر سکتے ہیں۔ آپ اگر زبانی کہنا پسند نہ کریں تو مجھے لکھ کر بھیج دیاکریں۔ مہمان نوازی تو میرا فرض ہے۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانی ؓصفحہ142)

حضرت مرزا بشیر احمدؓ سلسلہ احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت نہایت درجہ مہمان نواز تھی۔ خواہ مہمان احمدی و غیر احمدی ہوں وہ آپ کی محبت اور مہمان نوازی سے پورا پورا حصہ پاتے تھے اور آپ کو اُن کے آرام و آسائش کا ازحد خیال رہتا تھا۔ آپ کی طبیعت میں تکلّف بالکل نہ تھا اور ہر مہمان کو ایک عزیز کے طور پر ملتے تھے اور اُس کی خدمت اور مہمان نوازی میں دلی خوشی پاتے تھے۔

اوائل زمانہ کے آنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی مہمان آتا تو آپ ہمیشہ اُسے مسکراتے ہوئے چہرہ سے ملتے، مصافحہ کرتے، خیریت پوچھتے، عزت کے ساتھ بٹھاتے،گرمی کا موسم ہوتا تو شربت بنا کر پیش کرتے، سردیاں ہوتیں تو چائے وغیرہ تیار کروا کر لاتے، رہائش کی جگہ کا انتظام کرواتے اور کھانے وغیرہ کے متعلق مہمان خانہ کے منتظمین کو خود بلا کر تاکید فرماتے کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ نیز جس ملک اور مذاق کا مہمان ہوتا اُس کے کھانے کے واسطے اُسی قسم کا کھانا تیار کرواتے۔

آپ ایسے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ اگر اُن کی صحت ہی درست نہ رہی تو دین کیا سیکھیں گے۔

(ماخوذ از سلسلہ احمدیہ جلداوّل صفحہ208)

ایک مرتبہ سیّد محمد رضوی صاحب (وکیل ہائی کورٹ حیدرآباد دکن) حیدرآباد سے ایک جماعت لے کر آئے۔ حیدرآبادی لوگ عموماً تُرش سالن کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ آپ نے خاص طور پر حکم دیا کہ ان کےلئے مختلف قسم کے کھٹے سالن تیار ہوا کریں تا اُنہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔

ایسا ہی جب سیٹھ اسماعیل آدم صاحب بمبئی سے آئے تو اُن کےلئے بلا ناغہ دو وقت پلاؤ اور مختلف قسم کے چاول تیار ہوتے تھے کیونکہ وہ عموماً چاول کھانے کے عادی تھے۔

(ماخوذ ازسیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ152)

مولانا عبدالکلام آزاد کے بڑے بھائی مولوی ابو نصر آہ مرحوم 3؍مئی 1905ء کو قادیان تشریف لائے۔ اُنہوں نے قادیان سے جانے کے بعد امرتسر کے اخبار وکیل میں اپنے سفرِ قادیان کا حال شائع کیا تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں نے اَور کیا دیکھا؟ قادیان دیکھا۔ مرزا صاحب سے ملاقات کی، مہمان رہا۔ مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ میرے مُنہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے اور مَیں شور غذائیں کھا نہیں سکتا تھا۔ مرزا صاحب نےدودھ اور پاؤ روٹی تجویز فرمائی۔ دورانِ قیام کی متواتر نوازشوں پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا کہ ہم آپ کو اس وعدہ پر واپس جانے کی اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں۔‘‘

پھر آپ لکھتے ہیں کہ:
’’راستے کچے اور ناہموار ہیں بالخصوص وہ سڑک جو بٹالہ سے قادیان آتی ہے۔ یکہ میں مجھے جس قدر تکلیف ہوئی تھی، نواب صاحب کے رقعہ نے لوٹنے کے وقت نصف کی تخفیف کر دی۔‘‘ (گویا اُن کی واپسی کا بھی عمدہ سامان کیا)۔

(ماخوذ ازسیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانی ؓصفحہ143-144)

(الحکم 24؍مئی 1905ء صفحہ10-11)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ:
ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحبؓ ہوتے تھے جو کہ چکوال کے تھے اور راولپنڈی میں دکان کیا کرتے تھے انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ: ’’ایک دفعہ مَیں حضرت اقدسؑ کی زیارت کےلئے قادیان آیا۔ سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی۔ مَیں شام کے وقت قادیان پہنچا۔ رات کو جب کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گذر گئی اور قریباً 12بجے کا وقت ہو گیاتو کسی نے میرے دروازہ پر دستک دی۔ مَیں نےاُٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت اقدسؑ کھڑے تھے۔ ایک ہاتھ میں گرم دودھ تھا اور دوسرے میں لالٹین تھی۔ آپ فرمانے لگے کہ کہیں سے دودھ آ گیا تھا مَیں نے کہا آپ کو دے آؤں۔ آپ یہ دودھ پی لیں۔ آپ کو شاید دودھ پینے کی عادت ہو گی اس لیے یہ دودھ لایا ہوں۔

سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے کہ سبحان اللّٰہ! کیا اخلاق ہیں۔ یہ خدا کا برگزیدہ اپنے ادنیٰ خادموں کی خدمت و دلداری میں کتنی لذت پاتا ہے اور کتنی تکلیف اُٹھاتا ہے۔

(ماخوذ از سیرت المہدی۔ جلد اوّل حصہ سوم صفحہ770 روایت نمبر 868)

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں قادیان سے رخصت ہونے لگا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت بھی دےدی۔ پھر فرمایاٹھہر جائیں۔ آپ دودھ کاگلاس لے آئے اور فرمایا: ’’یہ پی لیں‘‘ شیخ رحمت اللہ صاحب بھی آ گئے پھر اُن کےلئے بھی حضرت صاحب دودھ کاگلاس لائے اور پھر نہر تک ہمیں چھوڑنے کےلئے تشریف لائے اور بہت دفعہ حضور نہر تک چھوڑنے کےلئے تشریف لاتے۔

(سیرت المہدی۔ حصہ دوم از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ107 روایت نمبر 1125)

حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری اپنی کتاب ’’تائید حق‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ:
’’جب مَیں امرتسر گیا تو ایک بزرگ کا نام سنا جو مرزا غلام احمد کہلاتے ہیں اور ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان نامی میں رہتے ہیں۔ غرض میرے دل میں مرزا غلام احمد سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ چنانچہ مَیں قادیان پہنچا۔ مرزا صاحب مجھ سے بڑے تپاک اور محبت سے ملے۔ جناب مرزا صاحب کے گھر میرا وعظ ہوا۔ انجمن حمایتِ اسلام کےلئے چندہ بھی ہوا۔

ایک چھوٹی سی بات لکھتاہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ مجھ کو پان کھانے کی بُری عادت تھی۔ امرتسر میں تو مجھے پان ملا۔ لیکن بٹالہ میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا نہ اچار الائچی وغیرہ کھا کر صبر کیا۔ میرے امرتسر کے دوست نے کما ل کیاکہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اس بری عادت کا تذکرہ کر دیا۔ جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی روانہ کیا دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھا چکا تو پان موجود پایا۔ سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوایا گیا تھا۔‘‘

(ماخوذ از تائیدِ حق صفحہ54)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بیان کیا کہ جب مَیں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضرت صاحب اندر سے میرے لیے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب مَیں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگوایا۔ جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا حضرت صاحب نے فرمایا کہ:
’’مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے؟ کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا۔ اچھا مَیں کچھ انتظام کرتا ہوں۔‘‘

اور پھر آپ نے اپنے سر کی پگڑی کے ایک کنارہ کا ٹ کر اُس میں وہ کھانا باندھ دیا۔

(سیرت المہدی از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ391-392 روایت نمبر 433)

اسی طرح ڈاکٹر عبداللہؓ صاحب نَومسلم بیان کرتے ہیں کہ:
جب مَیں قادیان پہنچا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مزدور کے پاس، جوکہ اینٹیں اُٹھا رہاتھا، کھڑے تھے۔ آپ مزدور کے پاس سے آ کر راستہ پر کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اس وقت کہاں سے آئے ہو؟ عرض کیا کہ بٹالہ سے آ رہا ہوں۔ پوچھا کہ پیدل آئے ہو؟ مَیں نے عرض کیا: ہاں۔ افسوس کے لہجہ میں فرمایا تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہو گی۔ آپ نے فرمایا اچھا بتاؤ چائے پیو گے یا لسّی؟ مَیں نے عرض کیا کہ: حضور کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: تکلّف کی کوئی ضرورت نہیں، ہمارے گھر گائے ہے جو تھوڑا سا دودھ دیتی ہے، گھر والے چونکہ دہلی گئے ہوئے ہیں اس لئے لسّی بھی موجود ہے اور چائے بھی۔ جو چاہو پی لو۔ مَیں نے کہا: لسّی پیوں گا۔

آپ نے فرمایا کہ مسجد مبارک میں چل کر بیٹھو۔ مَیں مسجد میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں بیت الفکر کا دروازہ کھلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حضوؑ ر ایک کوری ہانڈی مع کوری چپنی کے، جس میں لسّی تھی، خود اُٹھائے ہوئے دروازہ سے نکلے۔ چپنی پر نمک تھا اور اُس کے اوپر ایک گلاس رکھا ہوا تھا۔ حضورؑ نے وہ ہانڈی میرے سامنے رکھ دی اور اپنے دستِ مبارک سے گلاس میں لسّی ڈالنے لگے۔ مَیں نے خود گلاس پکڑ لیا۔ اتنے میں چند اَور دوست بھی آ گئے۔ مَیں نے اُنہیں بھی لسّی پلائی اور خود بھی پی۔ پھر حضوؑ ر وہ ہانڈی اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے۔ حضوؑ ر کی اس شفقت اور نوازش کو دیکھ کر میرے ایمان کو بہت ترقی ہوئی۔

(ماخوذ ازسیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانی ؓ صفحہ132)

اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام مہمانوں کی ضرورت اور راحت کے لئے اپنی ضروریات کو قربان کر دیا کرتے تھے۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں لاہور سے حضوؑ ر کی ملاقات کے لئے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس اوڑھنے کے لئے رضائی وغیرہ نہیں تھی۔ مَیں نے حضرت کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضور! رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے۔ حضور مہربانی کر کے کوئی کپڑا عنایت فرمائیں۔ حضرت صاحب نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دھسا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دھسا میرا۔ آپ ان دونوں میں سے جو پسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونوں رکھ لیں۔

(ماخوذ از سیرت المہدی از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ391 روایت نمبر 433)

اسی طرح حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ
ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت مہمان آئے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف منگوانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا۔ مَیں عشاء کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دیے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالباً میاں محمود (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ) پاس لیٹے تھے اور ایک شُتری چوغہ اُنہیں اوڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا آپ نے طلب کرنے پر اپنا لحاف اور بچھونا مہمانوں کے لئے بھیج دیا اور ساری رات اسی طرح گذار دی۔

(ماخوذ از سیرت المہدی حصہ دوم از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ91-92 روایت نمبر 1118)

حضرت بابو غلام محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ:
مارچ 1897ء میں ہم لاہور کے کافی سارے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے قادیان اس غرض سے دورہ کیا کہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کی حقیقت اُن کے گھر جا کر معلوم کی جائے۔ ان نوجوانوں میں مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر محمد اقبال صاحب، چوہدری شہاب الدین صاحب بھی شامل تھے۔

رات کو کھانا کھانے کے بعد حضرت صاحب تشریف لائے اور ہر ایک سے پوچھا کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں۔ ہر شخص نے کہا کہ حضور! مجھے کوئی تکلیف نہیں مگر مَیں پریشان کھڑا تھا۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! میری چارپائی کسی نے چھین لی ہے اور مَیں حیران ہوں کہ کہاں سوؤں؟ فرمایا: ٹھہریئے! مَیں آپ کے لئے اَور چارپائی لے کر آتا ہوں۔ مگرجب کافی دیر گذر گئی اور چارپائی نہ آئی تو مَیں نے حضوؑ ر کے مکان کے صحن کے دروازہ سے اندر جو جھانکاتو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص جلدی جلدی چارپائی بُن رہا ہے اور حضورؑ اس کے پاس بیٹھے ہوئے دِیا ہاتھ میں لے کر اُسے روشنی کر رہے ہیں مَیں آگے بڑھا اور عرض کیا کہ حضور دِیا مجھے پکڑا دیں۔ مگر حضورؑ نے فرمایا کہ اب تو ایک پھیرا ہی باقی ہے۔ حضوؑ ر کے یہ اخلاق دیکھ کر مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میرے آنسو نکل آئے۔ اُس وقت مَیں حضورؑ کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر کہہ رہا تھا کہ یہ چہرہ جھوٹے شخص کا ہر گز نہیں ہو سکتا۔

اس سے پہلے جب ہم مغرب کے بعد حضوؑ ر کے ساتھ کھانے پر بیٹھے ہوئے تھے تو مَیں چونکہ حضوؑ ر کے قریب تھا حضوؑ ر اُٹھاتے بٹیر اور فرماتے یہ کھائیں، دوسرا گوشت اُٹھاتے اور میرے آگے رکھ کر فرماتے یہ کھائیں۔ اس لئے مَیں حضوؑ ر کے اخلاقِ عالیہ سے بہت ہی متاثر تھا۔ مگر رات چارپائی والا واقعہ دیکھ کر مَیں دل و جان سے حضوؑ ر کا غلام بن گیا۔

(تاریخِ احمدیت لاہور از شیخ عبدالقادر سوداگر مل۔ صفحہ217-218)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کی یہ بھی ایک صفت تھی کہ آپ مہمانوں سے بالکل بےتکلفانہ برتاؤ کرتے تھے اور مہمان یقین کرتا تھا کہ وہ اپنے عزیزوں اور غمگسار دوستوں میں ہے۔

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ153)

آپ اکثر اوقات مہمانوں کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے اور کھانے کے دوران ہر قسم کی گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا دسترخوان بھی بچھ جاتا۔

آپ ایسے مواقع پر اس بات کی نگرانی بھی فرماتے تھے کہ ہر شخص کے سامنے دسترخوان کی ہر چیز پہنچ جائے۔ ہر مہمان کے متعلق دریافت فرماتے رہتے کہ کسی خاص چیز کی عادت تو نہیں۔ پھر حتّی الوسع ہر ایک کےلئے اُس کی عادت کے موافق چیز مہیا فرماتے تھے۔

اگر آپ کو یہ معلوم ہو جاتا کہ مہمان کو اچارکا شوق ہے اور اچار دسترخوان پر نہ ہوتا تو خود کھانا کھاتے کھاتے اُٹھ کر اندرونِ خانہ تشریف لے جاتے اور اچار لا کر مہمانوں کے سامنے رکھ دیتے۔

چونکہ آپ بہت تھوڑا کھانے کی وجہ سے جلد شکم سیر ہوجاتے تھے اس لئے سیر ہونے کے بعد بھی آپ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرّے اُٹھا کر مُنہ میں ڈالتے رہتے تھے تاکہ کوئی مہمان اس خیال سے کہ آپ نے کھانا کھا لیا ہے دسترخوان سے بھوکاہی نہ اُٹھ جائے۔

بے تکلفی پیدا کرنے کے لئے کبھی کبھی شہتوت، بیدانہ کے ایّام میں باغ میں جا کر ٹوکرے بھروا کر منگواتے اور مہمانوں کو ساتھ لے کر انہی ٹوکروں میں سے سب کے ساتھ کھاتے۔

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ154)

ایک دفعہ خواجہ (کمال الدین ) صاحب کے لئے آموں کا ایک بارِخر خریدا گیا۔ احباب مذاق کرتے تھے کہ خواجہ صاحب آموں کا گدھا کھا گئے ہیں۔

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 155)

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی صاحب اور چند دیگر احباب حضرت اقدسؑ کی ملاقات کے لئے اندر مکان میں حاضر ہوئے۔ آپؑ نے خربوزے کھانے کو دیئے اور مولوی صاحب کو ایک موٹا سا خربوزہ دیا اور فرمایا کہ اسےکھا کر دیکھیں کیسا ہے ؟ پھر آپ ہی مسکرا کر فرمایا موٹا آدمی منافق ہوتا ہے پھیکاہی ہو گا۔ چنانچہ وہ پھیکا ہی نکلا۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ155)

حضرت خلیفہ نورالدین جمونی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اقدؑ س چاء دانی چائے سے بھری ہوئی لائے اور فرمایا کہ خلیفہ صاحب یہ تم نے پینی ہے یا مَیں نے؟ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا ہمارے گھر والوں پر حرام ہے۔ اس سے اَور بھی تعجب خلیفہ صاحب کو ہوا۔ اُنہیں متعجب پایا تو فرمایا یہ حرامِ طبّی ہے، شرعی نہیں۔ اُن کی طبیعت اچھی نہیں ہے اور چائے اُن کو مضر ہے۔

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ154)

ایک دفعہ حضرت مفتی صاحب کےلئے ایک ٹوکرا آموں کامنگوایا اور نشست گاہ میں بلا کر فرمایا کہ مفتی صاحب یہ مَیں نے آپ کے واسطے منگوایا ہے، کھالیں۔ مَیں کتنے کھا سکتا تھا، چند ایک ہی مَیں نے کھائے۔ اس پرتعجب سے فرمایا کہ آپ نے بہت تھوڑے کھائے ہیں۔

(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادقؓ صفحہ258)

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مہمان داری کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ دوست دشمن کا امتیاز نہ تھا۔ آپ مخالف الرائے، ہندو، عیسائی یا مسلمان سبھی کے ساتھ اُسی محبت سے پیش آتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بیان فرماتے ہیں کہ ایک عرب ہمارے ہاں آیا۔ وہ وہابیوں کا سخت مخالف تھا یہاں تک کہ اُس کے سامنے وہابیوں کا ذکر آتا تو گالیوں پر اُتر آتا۔ اُس نے یہاں آ کر بھی سخت گالیاں دینی شروع کیں اور وہابیوں کو بُرا بھلا کہنے لگا۔ ہم نے اُس کی کچھ پرواہ نہ کر کے اُس کی خوب خدمت کی اور اچھی طرح سے اُس کی دعوت کی اور ایک دن جب وہ غصہ میں بھرا ہوا وہابیوں کو گالیاں دے رہا تھا کسی شخص نے اُس کو کہا کہ جس کے گھر میں مہمان ٹھہرے ہوئے ہو وہ بھی تو وہابی ہے اس پر وہ خاموش ہو گیا۔

(البدر 14؍جولائی 1907ء)

ایک دفعہ مولوی عبدالحکیم نصیر آبادی قادیان میں آیا۔ یہ بہت مخالف تھا اور اُس نے لاہور میں 1892ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباحثہ کیا تھا اور اس مباحثہ کے کاغذات لے کر چلا گیا تھا۔ حضرت کو اُس کے آنے کی اطلاع ہوئی تو اس کو ایک عمدہ کمرہ میں اُتارا گیا اور ہر قسم کی خاطر و تواضع کے لئے آپؑ نے حکم دیا اور ہدایت دی کہ کوئی شخص اس سے ایسی بات نہ کرے جو اُس کی دل شکنی کا باعث ہو اور چونکہ وہ مخالف ہے اگر ایسی بات بھی کرے کہ جو رنج دہ اور دل آزاری کی ہو تو صبر کیا جاوے۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ ۔ صفحہ160-161)

اکتوبر 1902ء میں ایک سادھو کوٹ کپورہ سے آیا اور حضرت اقدؑس کی خدمت میں حاضر ہوا اور شام کو ملاقات کی۔ آپ نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ یہ ہمارا مہمان ہے اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کر دینا چاہئے۔ ایک شخص کو خاص طور پر حکم دیا کہ ایک ہندو گھر سے اس کے لئے بندوبست کیا جاوے۔

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ142)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک مہمان نے آ کر کہا کہ میرے پاس بسترا نہیں ہے۔ حضرت صاحب نے حافظ حامد علیؓ صاحب کو کہا کہ اس کو لحاف دے دو۔ حافظ حامد علیؓ صاحب نے عرض کیاکہ یہ شخص لحاف لے جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ ’’اگر لحاف لے جائے گا تو اُس کا گناہ ہو گا اور اگر بغیر لحاف کے مر گیا تو ہمارا گناہ ہو گا۔‘‘

(الحکم 21؍اپریل 1918ء )

اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ وہ مہمان بظاہر کوئی ایسا آدمی معلوم نہ ہوتا تھا جو کسی دینی غرض سے آیا ہو مگر آپ نے اس کی مہمان نوازی میں کوئی فرق نہیں کیا۔

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد چند احباب کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ ایک احمدی مہمان نظام الدین ساکن لدھیانہ، جو بہت غریب آدمی تھے اور اُن کے کپڑے بھی دریدہ تھے، حضرت مسیح موعودؑ سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر تھے۔ اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ جو بعد میں لاہوری کہلائے، آتے گئے اور حضورؑ کے قریب بیٹھتے گئے جس کی وجہ سے میاں نظام الدین صاحب کو پَرے ہٹنا پڑتا رہا اور آپ سرکتے سرکتے جوتیوں تک پہنچ گئے۔ اتنے میں کھانا آیا تو حضورؑ نے سالن کا ایک پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اُٹھائیں اور میاں نظام الدین صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ:
’’آؤ !میاں نظام الدین ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں‘‘

اور مسجد کے صحن کے ساتھ کوٹھڑی میں حضرت صاحب اورمیاں نظام الدین صاحبؓ نے ایک پیالہ میں کھانا کھایا اَور کوئی اندر نہیں گیا۔

(ماخوذ از سیرت المہدی۔ جلد دوم از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ55-56 روایت نمبر 1067)

مہمانوں میں آپ عام برتاؤ اور سلوک میں ہر گز کوئی امتیاز نہیں رکھتے تھے۔ گو منازل و مراتب مناسبہ کو بھی ہاتھ سے نہ دیتے تھے اور یہ حضرت نبی کریم ﷺ کے ارشاد کی تعمیل تھی۔ 1905ء کے جلسہ سالانہ میں منتظمین نے مولوی غلام حسین پشاوری اور اُن کے ہمراہیوں کے لئے خاص طور پر چند کھانوں کا انتظام کرنا چاہا۔ حضرت مسیح موعوؑ د تھوڑی تھوڑی دیر بعد کیفیت طلب فرماتے کہ کھانے کا کیا انتظام ہے؟ اور کس قدر بن گیا ہے؟ اور کیا پکایا گیا ہے؟ اس سلسلہ میں جب عرض کیا گیا کہ مولوی صاحب کےلئے خاص طور پر انتظام کر رہے ہیں تو فرمایا کہ:
’’میرے لئے سب برابر ہیں۔ اس موقع پر امتیاز اور تفریق نہیں ہو سکتی۔ سب کےلئے ایک ہی کھانا ہونا چاہئے یہاں کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ مولوی صاحب کےلئے الگ انتظام اُن کی لڑکی کی طرف سے ہو سکتا ہے اور وہ اس وقت میرے مہمان ہیں اور سب مہمانوں کے ساتھ ہیں۔ اس لئے سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیا جائے۔ خبردار کوئی امتیاز کھانے میں نہ ہو۔ ‘‘

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ157)

مہمانوں کے لئے حضرت مسیح موعوؑ د کے دلی جذبات آپ کے ان اشعار سے واضح ہو جاتے ہیں:؎

مہماں جو کر کے اُلفت آئے بصد محبت
دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت
پر دل کو پہنچے غم جب، یاد آئے وقتِ رخصت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
گر سو برس رہا ہے، آخر کو پھر جدا ہے

یہ واقعات، جو کہ مہمان نوازی، اکرامِ ضیف اور مشایعتِ مہمان کےپہلوؤں کو پیش کرتے ہیں، یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعوؑ د کو اپنا کام کرنے میں قطعاً کوئی تأمل نہ ہوتا تھا اوریہ آپ کی صداقت کی بھی زبردست دلیل ہیں۔

اگر تکلّف اور تصنّع کو آپ کے اخلاق کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا تو آپ اپنے مخلص اور جاں نثار مریدوں کے درمیان کھڑے ہو کر اپنے ایک خادم کو دودھ نہ پلاتے جیسا کہ ایک خادم اپنے آقا کو پلاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ محبت اور ہمدردیٔ مخلوق کے اُس مقام پر کھڑا تھا جہاں انسان باپ سے بھی زیادہ مہربان اور شفیق ہوتا ہے۔

وہ اپنے خادموں کو غلام نہیں بلکہ اپنے معزز اور شریف بھائی سمجھتا تھا اور اُن کے اِکرام و احترام سے وہ سبق دیتا تھا کہ ہمیں کس طرح اپنے بھائیوں سے سلوک کرنا چاہئے اور کس طرح ایک دوسرے سے احترام کے اُصولوں پر کاربند ہو کر اس حقیقی عزت اور احترام کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے جو مؤمنین کا خاصا ہے۔

کیا دنیاکے پِیروں اور مرشدوں میں اس کی نظیر پائی جا سکتی ہے۔ ہر گز نہیں۔ ہاں اگر یہ نظیر ملے گی تو صرف اس جماعت میں جو انبیاء علیہم السلام کی جماعت ہو۔ یا اُن لوگوں میں ملے گی جنہوں نے منہاج نبوّت پر خدا تعالیٰ کی تجلّیوں اور فیوض کوحاصل کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ ان کے اُسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(انور رشید۔ صدر مجلس انصار اللہ سویڈن)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط (قسط 2)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2022