• 25 اپریل, 2024

حیا کے لئے حیادار لباس ضروری ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حیا کے لئے حیادار لباس ضروری ہے اور پردہ کا اس وقت رائج طریق حیادار لباس کا ہی ایک حصہ ہے۔ اگر پردہ میں نرمی کریں گے تو پھر اپنے حیا دار لباس میں بھی کئی عذر کر کے تبدیلیاں پیدا کر لیں گی اور پھر اس معاشرے میں رنگین ہو جائیں گی جہاں پہلے ہی بے حیائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا تو پہلے ہی اس بات کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ کس طرح وہ لوگ جو اپنے مذہب کی تعلیمات پر چلنے والے ہیں اور خاص طور پر مسلمان ہیں انہیں کس طرح مذہب سے دُور کیا جائے۔ سوئٹزرلینڈ میں ایک لڑکی نے مقدمہ کیا کہ مَیں لڑکوں کے ساتھ سوئمنگ کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہوں مجھے سکول پابند کرتا ہے کہ مِکس سوئمنگ ہو گی۔ مجھے اس کی اجازت دی جائے کہ علیحدہ لڑکیوں کے ساتھ میں سوئمنگ کروں۔ ہیومن رائٹس والے جو انسانی حقوق کے بڑے علمبردار بنے پھرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم یہ چاہتی ہو کہ علیحدہ کرو، یہ تمہارا ذاتی حق تو ہے لیکن یہ کوئی ایسا بڑا اِیشو نہیں ہے جس کے لئے تمہارے حق میں فیصلہ دیا جائے۔ جہاں اسلام کی تعلیم اور عورت کی حیا کا معاملہ آیا تو وہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بہانے بنانے لگ جاتی ہیں۔ پس ایسے حالات میں احمدیوں کو پہلے سے بڑھ کر زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔ اگر سکولوں میں چھوٹے بچوںکے لئے بعض ملکوں میں سوئمنگ لازمی ہے تو پھر چھوٹے بچے بچیاں پورا لباس پہن کر یعنی جو سوئمنگ کا لباس پورا ہوتا ہے جسے آجکل برقینی (Burkini) کہتے ہیں وہ پہن کر سوئمنگ کریں۔ تاکہ ان کو احساس پیدا ہو کہ ہم نے بھی حیادار لباس رکھنا ہے۔ ماں باپ بھی بچوں کو سمجھائیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی علیحدہ سوئمنگ ہونی چاہئے۔ اس کے لئے کوشش بھی کرنی چاہئے۔

اسلام مخالف قوتیں بڑی شدت سے زور لگا رہی ہیں کہ مذہبی تعلیمات اور روایات کو اسلام کے اندر سے ختم کیا جائے۔ یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ مذہب کو آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ ضمیر کے نام پر ایسے طریقے سے ختم کیا جائے کہ ان پر کوئی الزام نہ آئے کہ دیکھو ہم زبردستی مذہب کو ختم کر رہے ہیں اور یہ ہمدرد سمجھے جائیں۔ شیطان کی طرح میٹھے انداز میں مذہب پر حملے ہوں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام حضرت مسیح موعود کی جماعت کے سپرد ہے اور اس کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنی پڑے گی اور تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں گی۔ ہم نے لڑائی نہیں کرنی لیکن حکمت سے ان لوگوں سے معاملہ بھی کرنا ہے۔ اگر آج ہم ان کی ایک بات مانیں گے جس کا تعلق ہماری مذہبی تعلیم سے ہے تو پھر آہستہ آہستہ ہماری بہت سی باتوں پر، بہت ساری تعلیمات پر پابندیاں لگتی چلی جائیں گی۔ ہمیں دعاؤں پر بھی زور دینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان شیطانی چالوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق بھی دے اور ہماری مدد بھی فرمائے۔ اگر ہم سچائی پر قائم ہیں اور یقینا ہیں تو پھر ایک دن ہماری کامیابی بھی یقینی ہے۔ اسلام کی تعلیمات نے ہی دنیا پر غالب آنا ہے۔

حضرت مسیح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے۔ جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے۔ وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گند گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اورمقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کرسکتا اوراپنی پاکدامنی کاثبوت نہیں دے سکتا۔ دنیوی معاملات میں ہی غور کرکے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدانے خوش حیثیتی عطاکی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں۔ ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہوجاتے ہیں اورساتھ ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی حال دینی امور کا ہے۔ شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اورخدا سے معاملہ درست رکھے۔ خداکو راضی کرے پھر کسی سے نہ خوف کھائے اور نہ کسی کی پرواہ کرے‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 13 جنوری 2017ء)

پچھلا پڑھیں

اعلانات و اطلاعت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2020