حضرت حافظ محمد الدین صحابی حضرت مسیح موعودؑ ولد مکرم عزیز الدین قوم قریشی اصل میں گجو چک ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے لیکن بعد ازاں چک117 چہور ضلع ننکانہ صاحب (سابق ضلع شیخوپورہ) میں مقیم ہوگئے اور پھر ساری زندگی وہیں گزاری۔
حضرت حافظ محمد الدین پرانے صحابہ میں سے تھے، حضرت مسیح موعودؑ کے عاشق، مخلص احمدی اور خلافت کے ساتھ منسلک رہنے والے تھے۔ نظام وصیت کے آغاز میں ہی اس میں شامل ہوگئے، آپ نے 1906ء میں وصیت کی، وصیت نمبر 82 تھا۔ آپ کی وصیت اخبار بدر 15 نومبر 1906ء صفحہ 14 پر شائع شدہ ہے۔ آپ نے 17 جون 1945ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ آپ کی وفات پر آپ کے بیٹے مکرم محمود احمد نے آپ کے مختصر حالات زندگی درج کرتے ہوئے لکھا:
’’میرے والد حافظ محمد الدین (ساکن چہور) حضرت مسیح موعود ؑکے پرانےصحابی تھے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے احمدیت میں داخل ہونے کا موجب یہ ہوا کہ ایک دفعہ میں ایک کتاب ’’سچ بیان‘‘ پڑھ رہا تھا جس میں پنجابی اشعار میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ ولسلام کی وفات کا ذکر کیا گیا ہے، ان اشعار کا میری طبیعت پر اتنا اثر ہوا کہ اسی وقت حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر لی۔ والد صاحب دینی علوم کے اچھے عالم تھے، ان کے ذریعہ ہمارے گاؤں میں جماعت احمدیہ قائم ہوئی۔ کئی سال خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے والد صاحب کو اس جماعت کی تربیت کا موقع دیا جس کے نتیجہ میں ہمارے گاؤں کی جماعت اچھے معیار کی جماعتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ تبلیغ کا جوش آخری دنوں تک والد صاحب کے دل میں موجود تھا، فرمایا کرتے تھے کہ فلاں فلاں غیر احمدی رشتہ دار سے میل جول رکھو، ان کو خط لکھو، ان سے ملو تا کہ وہ احمدیت قبول کریں۔آپ کی نیکی اور تقویٰ کا غیروں پر بھی بہت اثر تھا، ہمارے گاؤں کے سرکردہ غیر ازجماعت افراد جب تک والد صاحب سے کسی مسئلہ کی تصدیق نہ کرا لیتے یقین نہ کرتے۔ غیر از جماعت والد صاحب کا بہت احترام کرتے تھے جس پر بعض دفعہ بچپن میں ہم حیران ہوا کرتے تھے کہ غیر ازجماعت والد صاحب کا اس قدر کیوں احترام کرتے ہیں۔
والد صاحب کی طبیعت میں تربیت کا مادہ حد درجہ غالب تھا، تربیت کے متعلق چھوٹے چھوٹے امور پر بھی بہت زور دیتے، نماز کے لئے احمدی نوجوانوں کے علاوہ غیرازجماعت نوجوانوں کو بھی ہمیشہ کہتے رہتے، میں نے بارہا دیکھا کہ مغرب کی نماز کے وقت والد صاحب مسجد جا رہے ہوتے تو جس راستہ سے گزرتے بعض غیر ازجماعت نوجوان آپ کو دیکھ کر اِدھر اُدھر ہو جاتے کہ حافظ صاحب آ رہے ہیں، نماز کے لئے لے جائیں گے اور بعض نماز کے لیے آ بھی جاتے، یہ وقار اور اثر خدا تعالیٰ کی دین ہے۔اگرغیر ازجماعت نوجوانوں کا کوئی گروپ تاش کھیل رہا ہوتا اور والد صاحب ادھر سے گزرے تو وہ تاش چھپا لیا کرتے۔ اصل میں خدا کے فضل اور اس کے بے انتہا کرم سے والد صاحب کا عملی پہلو ایسا تھا کہ اپنے اور غیر آپ کی صفات حسنہ کے قائل و مقر تھے اور آپ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔
تقویٰ کے لحاظ سے میں نے والد صاحب کو بلند مقام پر پایا، مجھے بچپن کا ایک چھوٹا سا واقعہ کبھی نہیں بھولتا، میں آپ کے ساتھ سانگلہ ہل شہر سے اپنے گاؤں چہور جا رہا تھا، میں نے راستہ چلتے چلتے گیہوں کی ایک بالی کھینچی اور مسل کر پھینک دی، اس پر والد صاحب نے مجھے سمجھایا کہ دیکھو تم نے کسی کے اتنے دانے ضائع کر دیئے، یہی چند دانے بار بار بوئے جاکر کئی ہزار دانے بن سکتے تھے۔ تربیت کا یہ پہلو ہمیشہ اُن کے پیش نظر رہا۔
خلافت ثانیہ کی بیعت کے متعلق ایک دفعہ میں نے پوچھا تو فرمانے لگے میں گاؤں میں تھا، جب مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کی اطلاع ملی، میری طبیعت میں ایک اضطراب پیدا ہوگیا اور میں نے بغیر اس اطلاع ملنے کے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمؓد خلافت پر متمکن ہوئے ہیں، اپنے خدا کے سامنے مقدس محمود کی بیعت کر لی اور مجھے چین نہ آیا جب تک یہ اطلاع نہ مل گئی کہ جماعت نے حضور کو ہی خلیفہ چنا ہے۔ نیکی کو جلدسے جلد کرنے کا جذبہ والد صاحب کی فطرت میں داخل تھا، نیکی بجا لانے میں کسل اور غفلت کا کوئی شائبہ آپ کی طبیعت میں نہیں پایا جاتا تھا۔
والد صاحب بہت پرانے موصی تھے، 20دسمبر 1905ء کو رسالہ الوصیت شائع ہوا اور چار ماہ بعد 2اپریل 1906ء کو آپ نے وصیت کر دی، آپ کا وصیت نمبر 82 ہے۔ والد صاحب اپریل 1941ء میں عارضہ فالج میں مبتلا ہوئے اور پورے چار سال پونے دو ماہ صاحب فراش رہے، اس لمبی بیماری کے دوران والد صاحب کو17جون کو اچانک سر سام ہوا اور چند گھنٹوں میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ 18 کی شام کی گاڑی سے جنازہ لاہور سے قادیان لایا گیا اور 19 کی صبح کو حضور کی اجازت سے حضرت مولوی سید سرور شاہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور والد صاحب بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے، ان کی تدفین اُن کے ایمان اور اخلاص کی مصدق ہوئی یہ امر بھی والد صاحب پر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی ایک علامت ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے از راہ کرم جمعہ 22جون کو آپ کا جنازہ غائب پڑھا اور فرمایا ‘‘حافظ محمد الدین حضرت مسیح موعودؓ کے پرانے رفیق اور مخلص احمدی تھے‘‘
(الفضل 9 جولائی 1945ء صفحہ 6)
حضرت حافظ محمد الدین کی اہلیہ محترمہ کا نام حضرت فاطمہ بی بی تھا جنہوں نے 16جولائی 1934ء کو تقریباً 52 سال کی عمر میں وفات پائی اور بو جہ موصیہ ہونے (وصیت نمبر 2482۔ موصیہ 1/5) حصہ کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
(غلام مصباح بلوچ ۔کینیڈا)