• 12 مئی, 2025

خادم دین ،با وفا اور خلافت کے سلطان نصیر محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد کی ہمہ جہت شخصیت

جماعت کے قیام کو پچاس سال ہورہے تھے اور اسی کے ساتھ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کو بھی پچیس سال بیت گئے تھے۔ یوں 1939ء کے سال دوجوبلیاں اکٹھی ہو گئی تھیں۔جماعت نے اس سال کو خصوصی اہمیت کے پیش نظر دینی روایات کے ساتھ منایا۔اس تاریخی سال کی ایک خاص بات یہ بھی ہوئی کہ مئی کا مہینہ تھا اور اس کی 9 تاریخ، خاندانِ حضرت مسیح موعود میں ایک بچے کی ولادت ہوئی۔

حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعود اور محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ کے آنگن میں ایک خوبصورت پھول کھلاجس نے اپنی خوشبو سے گلشن احمدیت کو رونق بخشی اور ایک خادم دین اور نافع الناس وجود بن کر تاریخ احمدیت کا ایک روشن با ب ٹھہرا۔گلشن احمدیت کی رونق میں اضافہ کرنے والا یہ خوبصورت پھول محترم صاحبزادہ مرزاغلام احمد تھے جن کا حضرت مسیح موعودؑ سے روحانی اور جسمانی رشتہ بھی تھا ۔آپ نے ان دونوں رشتوں کی لاج رکھی اور اپنی تمام عمر سایہ خلافت میں اس کے سلطانِ نصیر بن کر گزار دی۔ یہ عظیم المرتبت ہستی 5 اور 6 فروری 2018ء کی درمیانی رات اپنے مولیٰ حقیقی سے جاملی۔

محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد خاندان حضرت مسیح موعودؑکے روشن چراغ تھے۔ آپ حضرت مسیح موعود کے پڑ پوتے، حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد کے پوتے اور حضرت سید میر محمد اسحق کے نواسے تھے۔ آپ کی شادی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہمشیرہ محترمہ صاحبزادی امۃ القدوس بیگم سابق صدر لجنہ اماء اللہ پاکستان سے ہوئی۔

صاحبزادہ صاحب موصوف کو بزرگ والدین کے ساتھ ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی تربیت میں پروان چڑھنے کا موقع ملا اور آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت و محبت اور تربیت سے وافر حصہ پایا۔ حضرت مصلح موعودؓ آپ اور آپ کے بڑے بھائی محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد اور آپ کی بہنوں کو اپنے بچوں کی طرح رکھتے تھے۔ یوں آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی نگرانی میں پرورش پائی اور انہی نیک اور دینی روایات کو لے کر آپ آگے بڑھے اور جماعتی روایات کے امین بنے رہے۔

ایم اے پولیٹیکل سائنس کرنے کے بعد 1962ء میں آپ نے خدمت دین کیلئے اپنی زندگی وقف کردی۔ اس طرح آپ کی خدمات سلسلہ کا دائرہ 56 سال پر محیط رہا۔ یہ خدمات غیر معمولی انتظامی صلاحیت والی تھیں، علمی نوعیت کی بھی تھیں۔ ذیلی تنظیموں کی قیادت بھی کی۔ 1974ء، 1984ء، 2010ء کے مشکل اورابتلاء کی صورتحال میں صف اول کے مجاہد کے طور پر سایہ خلافت میں احباب جماعت کو ان حالات سے نکالنے کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ خلفائے سلسلہ کی قربت اور اعتما د حاصل رہا اور خلافت کے سلطانِ نصیر کا کردار ادا کیا۔آپ نے اپنی خدمات کا آغازریویو آف ریلیجنز کے مینیجنگ ایڈیٹر سے کیا پھر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ وحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ میں بطور ناظر تعلیم، ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مقامی، ناظر دیوان صدر مجلس کا رپرداز اور محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد کی وفات کے بعد صدر، صدر انجمن احمدیہ، ناظر اعلیٰ و امیر مقامی مقرر ہوئے جس پر آپ تادم واپسیں فائز رہے۔ ان خدمات کے علاوہ آپ کو صدر مجلس وقف جدید انجمن احمدیہ، صدرخلافت لائبریری کمیٹی، صدر تبرکات کمیٹی، ممبرمجلس افتاء، صدر بیوت الحمد سوسائٹی ،مینیجنگ ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیہ ،نائب افسر جلسہ سالانہ، ڈائریکٹر طاہر فاؤنڈیشن،ممبر الفضل بورڈاور اس کے علاوہ متعدد بورڈز و کمیٹیز کے ممبر کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔

ذیلی تنظیموں میں خدام الاحمدیہ مرکزیہ اورمجلس انصار اللہ مرکزیہ و پاکستان میں بھی تقریباً نصف صدی خدمات کی توفیق ملی۔ دونوں تنظیموں کے صدر رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔2009ء آپ کی مجلس انصار اللہ کی صدارت کا آخری سال تھا اور میری تنظیم انصار اللہ میں آمد کا پہلا سال تھا۔ خاکسارکو آپ کی صدارت میں بطور قائد تربیت انصار اللہ پاکستان کام کرنے کی توفیق ملی۔

محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔آپ کی طبیعت میں رعب و دبدبہ بھی تھا اور ضرورت مند ، غریب لاچار و مجبور لوگوں کے لئے انتہائی نرم گوشہ رکھتے تھے ان کے لئے دل پسیج جاتا تھا ۔خدمت دین اورخدمت خلق کمال تک پہنچی ہوئی تھی ۔مجھے گزشتہ تین دہائیوں سے آپ کی شخصیت کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ لوگ جو دوسروں پر اپنا اثر جما دیتے ہیں،جن کی قوت مؤثر ہ طلسماتی کام دکھاتی ہوئی دوسروں پر اپنا اثر ڈال کر ان پر نقش ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی جو ہر آپ کی شخصیت میں تھا۔آواز میں رعب تھا لیکن ذکر حبیب پر یہی آواز گلوگیر ہو جاتی تھی۔ شیر کی طرح آپ کی گرج بھی سننے کا موقع ملا اور ایک درد مند دل سے اٹھنے والے رقت آمیز بول بھی سننے کو ملے جو طبیعت پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے تھے۔

اس قد آور شخصیت کے ساتھ گزرنے والے کئی لمحات یقینا سرمایہ زیست ہیں اور میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ آپ کی گونا رفاقت نصیب ہوئی اور اس پہاڑ جیسی شخصیت کا مشاہد ہ کا موقع ملا۔ آپ کا ذکر خیر کر نا جہاں ایک قرض ہے وہاں میرے لئے باعث اعزاز بھی ہے۔میں1990ء میں جامعہ سے فارغ التحصیل ہو کر میدان عمل میں آیا تو نظارت اصلاح و ارشاد مقامی جانے کا حدیقۃ المبشرین سے رقعہ ملا۔ یہاں ان دنوں محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد بطور ناظر خدمات سر انجام دے رہے تھے ۔ یوں آپ کے ساتھ براہ راست آمناسامنا ہونے کا یہ پہلا موقع میسر آیا تھا۔ آپ کی بارعب اور پُر کشش شخصیت متاثر کئے بغیر نہ رہ سکی ۔اگرچہ میری میدان عمل میں آپ کے زیر سایہ یہ رفاقت صرف 2 ماہ ہی رہی اور پھر مجھے وکالت تعلیم کے تحت ابلاغیات کی اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹی بھجوا دیا گیالیکن آئندہ زندگی میں آپ کی کئی لحاظ سے رفاقت نصیب ہوئی۔ میرا روزنامہ الفضل میں تقرر ہوا تو محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد بھی ممبر الفضل بورڈ تھے ۔ اس دوران آپ سے بہت مواقع پر رہنمائی لینے کا موقع ملا اور تقریباً سولہ سال بطور ممبر الفضل بورڈ آپ کی رفاقت رہی۔ میرا طاہر فاؤنڈیشن میںتقرر ہوا تو آپ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میںبھی شامل تھے ، میری انصار اللہ آمد پر آپ نے میرا انتخاب بطور قائدتربیت کیا۔ نظارت اشاعت میں بطور مربی سلسلہ خدمت کا موقع ملا تو یہاں بھی کئی مسودات کے حوالہ سے آپ سے راہنمائی کاموقع ملااور پھر نظارت اصلاح و ارشادرشتہ ناطہ میں بھی آپ سے مختلف اوقات میں روابط کا موقع پیدا ہوتا رہا ۔یوں میںان تین دہائیوںمیں آپ کی شخصیت کا عینی شاہدہوں۔

آپ کی شخصیت کا نقشہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 9 فروری 2018ء میں اتنی خوبصورتی سے کھینچا ہے گویا دریا بلکہ سمندر کو کوزہ میں بند کر دیا ہے۔ یہ خطبہ جمعہ یقینا محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد کی سیرت و سوانح کا عظیم الشان بیان اور آپ کی خدمات کیلئے شاندار خراج تحسین ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ کہ ’’اپنے مرحوم بھائیوں کا ذکر خیر کیا کرو‘‘ کے تحت محترم صاحبزادہ مرزاغلام احمد کے بعض محاسن و محامد کا تذکرہ تحدیث نعمت کے طور پر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا نام غلام احمد رکھا تھا آپ خود بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے بچپن میں فرمایا تھا کہ تمہارا نام تو غلامِ احمد ہے لیکن ہم تمہیں احمد کہہ کے پکاریں گے کیونکہ ابھی حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔

یوں آپ میاں احمد کے نام سے مشہور ہوگئے۔ آپ حقیقت میں اسم بامسمّٰی بنے۔ آپ نے اپنے نام ’’غلام احمد‘‘ کو حقیقت میں سچا کر دکھایا۔ تمام عمر اپنے اس نام کی لاج رکھی۔ آپ احمد عربی ﷺ کے بھی غلام تھے اور احمد ہندی کے بھی چاکر تھے کیونکہ آپ نے ساری زندگی وفا کے ساتھ خدمت دین میں گزار دی۔ یوں آپ نے اپنے نام کو سچا کر دکھایا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو جماعت احمدیہ کی تاریخ اور روایات پر عبور حاصل تھا۔ روایات صحابہؓ اور ان کے خاندانوں کا تعارف آپ کو ودیعت کیا گیاتھا۔ آپ جماعتی روایات کاخاص اہتمام کرتے اور انہی روایات سلسلہ کو اپنی گفتگو اور خطابات کا موضوع بھی بنایا کرتے تھے تاکہ نئی نسل ان روایات کی حفاظت کرسکے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت طیبہ کا بیان اور سیرت کے مختلف پہلوؤں کاتذکرہ آپ کی ایک بڑی خوبی تھی۔ اسی طرح صحابہ مسیح موعود کا تذکرہ بھی بڑے ذوق اور شوق سے فرمایا کرتے۔ مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودکی طرف اپنی صدارت انصار اللہ کے زمانہ میں بہت زور دیا کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ حضرت مسیح موعود کے حالات اور ان کی روایات پڑھنے کے بارہ میں احباب کو توجہ دلاتے ۔ آپ کا یہ ذوق اور جنون اس قدر تھا کہ آپ نے سیرت مسیح موعود اور سیرت صحابہ پر موجود کتب کی اشاعت میں بھی ذاتی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا ۔ چنانچہ آپ کے دور صدارت انصار اللہ میں ’’رفقائے احمد‘‘ کی اشاعت نو ہوئی اور 313 صحابہ حضرت مسیح موعودؑ پر آپ نے کتاب مرتب کروائی۔ سیرت و روایات صحابہ پر مبنی دیگر کئی کتب کی اشاعت بھی آپ نے کروائی۔ یوں روایات صحابہ اور روایات سلسلہ کے امین ہونے کا عملی ثبوت ہمیں دیا۔

مسیح آخر الزمان کی مقدس بستی قادیان سے آپ کو بہت پیار تھا۔ مقامات مقدسہ کی تاریخ کے بارہ میں آپ کا علم سند رکھتا تھا۔ آپ نے اس علم کو اپنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہر سال آپ اپنے خاندان کے بچوں اور دوسرے زائرین کے گروپس کو بھی مقامات مقدسہ کے بارہ میں معلومات بڑی دلچسپی کے ساتھ فراہم کیا کرتے تھے۔

جلسہ سالانہ قادیان 2017ء میں بھی آپ کو جانے کا موقع ملا۔ خاکسار کو بھی یہ سعادت حاصل ہوئی۔ اس موقع پر آپ کی سیرت کے ایک اور پہلو کا مشاہدہ کرنے کابھی موقع ملاکہ اس بڑھاپے اور کمزوری کی حالت میں آپ نے اٹاری سے قادیان اور قادیان سے اٹاری کا سفر جماعتی انتظام کے تحت چلنے والی بسوں میںہی کیا حالانکہ آ پ کے لئے بس کی سیڑھیاںچڑھنا بہت مشکل مرحلہ تھا لیکن آپ نے فرمایا کہ جس سواری کا جماعت نے انتظام کیا ہوا ہے اسی انتظام کے تحت ہمیں قادیان جانا اور وہاں سے آنا ہے۔چنانچہ آپ اور آپ کے خاندان کے افراد انہی بسوں میں گئے اور انہیں میں واپس آگئے۔ یہ آپ کی اطاعت نظام کی شاندار مثال ہے۔

پچھلی چار دہائیوں سے ہم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد اور صاحبزادہ مرزا غلام احمد کو ایک ساتھ دیکھتے رہے۔ مختلف دنیاوی حالات اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی کہ دونوں بھائیوں نے سلسلہ سے بھی وفا کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور آپس میں بھی وفا کی مثال بن گئے اور خُلدِ بریں میں بھی ایک ساتھ ہونے میں دیر نہ کی اور جلدچھوٹا بھائی بڑے بھائی جان کے ساتھ جاملا۔

دکھی انسانیت کی ہمدردی آپ کی سیرت کا نمایاں پہلو تھا ۔مصائب و آلام سے گزرنے والے لوگ داد رسی اور مدد کے لئے آپ کے پاس آتے۔ مختلف النوع حاجت مند آپ کے ہاں حاضر رہتے تھے۔ ان سب کی ضروریات پوری کرنے کے لئے آپ ذاتی و ممکنہ جماعتی ذرائع اختیار کرتے ہوئے ان کے کام آتے اور جب تک ان کی ضرورت پوری نہ ہو جاتی آپ بے چین رہتے ۔بیوت الحمد سوسائٹی کے لئے آپ کی لمبی خدمات تھیں ۔اس سکیم کے ذریعہ بھی آپ کو سینکڑوں خاندانوں کی سکونتی ضروریات براہ راست اپنی نگرانی میں پوری کر نے کی توفیق ملی ۔علمی ضرورت مند بھی آپ کے پاس حاضر ہوتے۔جماعتی معلومات اور تاریخ کے آپ انسائیکلوپیڈیا تھے ۔علمی جستجو رکھنے والوں کی علمی پیاس بجھانے کے لئے ہمہ تن ہشاش بشاش ہوکر حاضر رہتے ۔روزنامہ الفضل میں خدمت کے دوران مجھے کئی شخصیات کی وفات پراور کئی اہم جماعتی تقریبات کی رپورٹنگ کا موقع ملتارہا۔جب بھی راہنمائی کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوا آپ کو تیار پایا۔آپ چونکہ جماعتی روایات کے امین تھے اس لئے رپورٹنگ پر آپ کی نظر تاریخی رہنمائی کاکام کرتی تھی۔ آپ کی نگرانی میں مجھے کئی مضامین لکھنے کا بھی موقع ملا۔ ماہنامہ انصار اللہ شہدائے لاہور نمبر میری ادارت میں 2010ء میں شائع ہوا تھا۔مجھے اس کے لئے آپ کا انٹرویو لینے کا بھی موقع میسر آیا جوکہ شہدائے لاہور نمبر کی زینت بنا۔

سانحہ 28 مئی 2010ء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سنبھالنے کے لئے آپ جماعت کے مرکزی نمائندہ ونگران کی حیثیت سے کئی دن لاہور میںہی قیام پذیر رہے اور شہداء کی تجہیز و تکفین اور ان کے پسماندگان کی خبر گیری اوراحباب جماعت لاہور کی ڈھارس بندھانے کا کام بھی آپ کی تاریخی خدمت ہے۔ اس سانحہ عظیم کے موقع پر آپ کی قائدانہ صلاحیتیں،قوت فیصلہ ،جذبہ خدمت ،جذبہ ہمدردی اور احباب جماعت سے محبت کا دلکش پہلو کھل کر مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔قیام لاہور کے دوران آپ نے پریس کانفرنس اور ٹی وی پروگرامز میں شرکت اور جماعت احمدیہ کا موقف دبنگ انداز میں پیش کیا۔

مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور مجلس انصار اللہ مرکزیہ و پاکستان میں آ پ کو احباب جماعت کے تربیتی مسائل خوش اسلوبی سے حل کرنے کے جہاں بہت مواقع میسر آئے۔ وہاں آپ نے اپنا ذاتی نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنی اولاد کی اعلیٰ دینی روایات کے ساتھ تربیت کی۔ اس تربیت کا ہی ثمرہ ہے کہ آپ کی اولاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمات دینیہ میں پیش پیش ہے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے مکرم مرزا فضل احمد ناظر تعلیم کے طور پر خدمت کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔دوسرے بیٹے مکرم مرزا ناصر انعام احمد پرنسپل جامعہ احمدیہ برطانیہ کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم آپ کے بیٹے مکرم مرزا نصیر احسان احمد نیشنل سیکرٹری مال کے طور پر خدمت بجا لارہے ہیں۔

آپ کے داماد مکرم سید میر محمود احمد ابن مکرم سید میر مسعود احمد بھی واقف زندگی اور ناظر صحت کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔آپ کی اہلیہ محترمہ صاحبزادی امۃ القدوس بیگم کو بھی تقریباً نصف صدی لجنہ اماء اللہ مرکزیہ و پاکستان میں خدمات کی توفیق ملی اور کئی سال صدر لجنہ اماء اللہ پاکستان رہیں۔ یوں آپ کا گھر خدمت گاروں کا گھرانہ ہے۔ آپ شجر سایہ دار بھی تھے اور پھلدار بھی ۔خدمت کی یہ لو جو آپ کے سینہ صافی میں تمام عمر منور رہی یہ شمع اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی اولاد میں بھی روشن ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد کو مقبول خدمات دینیہ کی توفیق دے اور آپ کی نیک روایات کو زندہ رکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔آمین

مورخہ 4 فروری 2018ء کو ایوان محمود میں خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ کی علمی و ورزشی ریلی کی تقریب تقسیم انعامات میں مجھے بھی شمولیت کا موقع ملا جس کے مہمان خصوصی محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب تھے۔ یہ آپ کی آخری پبلک میٹنگ اور صدارت تھی۔آپ نے اپنے خطاب میں محترم محمد شفیق قیصر صاحب مرحوم کا ذکر خیر کیاکہ وہ کس قدر جماعتی وفا اور اطاعت کا مظاہرہ کرنے والے واقف زندگی تھے۔ وہ اپنی ذات اور بیوی بچوں کی پرواہ کئے بغیر خلیفہ وقت کے ارشادات پر انتہائی مشکل حالات میں بھی جماعت کی خدمت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اورپھر اسی راہ میں انہوں نے جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔

ا س درسِ وفا کے وقت محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد پر رقت طاری ہو گئی اورآپ نے پُرنم آنکھوں سے ہمیں یہ سبق دیا کہ دربار خلافت سے اٹھنے والی ہر آواز پر دیوانہ وار لبیک کہتے چلے جاؤ اور زندگی کے آخری لمحہ تک وفا کے ساتھ خدمت سلسلہ کرتے جاؤ۔یقینا محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے زندگی کی آخری سانسوں تک سلسلہ کی خدمت اور خلافت سے وفاکی۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندفرمائے۔

(محمد محمود طاہر)

پچھلا پڑھیں

اعلانات و اطلاعت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2020