• 5 جولائی, 2025

مذہبی مقدمہ میں پہلی سزائے موت

ایک لمبے عرصہ سے دنیا کے بعض ملکوں میں مذہبی اختلافات اور دینی معاملات میں اپنی رائے سے مختلف فہم کو بنیاد بنا کر مقدمات قائم کرنے کا سلسلہ بڑی شدو مد سے جاری ہے اور بسا اوقات اس طرح کے مقدمات قائم کرنے والوں اور سزائیں دینے والے حلقوں کی جانب سے فخریہ طور پر یہ اظہار بھی کیا جاتا ہے کہ شاید یہ سعادت تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ انہیں ہی حاصل ہوئی ہے۔ وہ بڑے فخر سے اپنی ان کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہیں، دن مناتے ہیں اور تکبر اور غرور سے بھرے ہوئے جملے بولتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ جیسے یہ کام اس سے پہلے تاریخ مذاہب میں کبھی ہوا ہی نہ ہو۔وہ قانون کی پاسداری کا عذر بنا کر مظلوموں کو ظالموں کے سامنے جھک جانے کے مشورے دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات سے تو مذہبی تاریخ بھری ہوئی ہےجہاں اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیاں پیش کرنے والوں کو دیگر قربانیوں کے ساتھ ساتھ اپنی جانیں بھی دینا پڑیں۔

اس موضوع پر غور کرتے ہوئے یہ خیال آیا کہ تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھا تو جائے کہ اس قسم کی سوچ کا آغاز کہاں سے ہوا اور کسے سب سے پہلے اس قسم کے مقدمہ میں اپنی جان دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے جرم میں کسے سزائے موت دی گئی اور تاریخ مذاہب کے اس پہلے مقدمہ کا احوال کیا ہے؟ کون سی تعزیرات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا اور جرم اور مجرم کی تفصیل کیا ہے؟ مقدمہ کی فائل کھولی تو بائبل میں مذکور اس کیس کی FIR کچھ اس طرح لکھی نظر آئی۔

بائبل میں اس مقدمہ کی تفصیل

اور آدم اپنی بیوی کے پاس گیا اور وہ حامِلہ ہوئی اور اس کے ہاں قائن (قابیل) پیدا ہوا۔ تب اُس نے کہا مجھے خداوند سے ایک مرد مِلا۔پھر قائن کا بھائی ہابل (ہابیل) پیدا ہوا۔ اور ہابل بھیڑ بکریوں کا چرواہا اور کائِن کسان تھا۔ چند روز کے بعد یُوں ہوا کہ قائِن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خُداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کُچھ پہلوٹھے بچّوں کا اور کچھ ان کی چربی کا ہدیہ لایا اور خُداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو تو منظور کیا لیکن قائِن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔ اس لئے قائِن نہایت غضب ناک ہو گیا اور اُس کا مُنہ بِگڑا۔اور خُداوند نے قائِن سے کہا تُو کیوں غضب ناک ہو گیا ہے اور تیرا مُنہ کیوں بگڑا ہوا ہے؟۔اگر تُو بھلا کرے گا تو کیا مقبول نہ ہوگا؟ اور اگر تُو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بَیٹھا ہے اور تیرا مُشتاق ہے لیکن تو اُس گناہ کی خواہش پر غالب آ۔ اور قائِن نے اپنے بھائی ہابل کو کچھ کہا اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یُوں ہوا کہ قائِن نے اپنے بھائی ہابل پر حملہ کیا اور اُسے قتل کر ڈالا۔ تب خُداوند نے قائِن سے کہا کہ تیرا بھائی ہابل کہاں ہے؟ اُس نے کہا، مجھے معلوم نہیں۔ کیا میں اپنے بھائی کا محافظ ہوں؟ پھر اُس نے کہا کہ تُونے یہ کیا کیا؟ تیرے بھائی کا خُون زمین سے مُجھ کو پُکارتا ہے اور اب تُو زمین کی طرف سے لعنتی ہوا جِس نے تجھے آمادہ کیا کہ تیرے ہاتھ سے تیرے بھائی کا خُون لے۔ جب تُو زمین کو جوتے گا تو وہ اب تجھے اپنی پَیداوار نہ دےگی اور زمین پر تو خانہ خراب اور آوارہ ہوگا۔ (پیدائش باب 4 آیات 1-13)

جرم کی یہ داستان سن کر انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کیسے محض ایک معمولی مذہبی اختلاف کو بنیاد بنا کر قابیل ایک ظالمانہ فعل کا مرتکب ہو ا اور اس مذہبی منافرت میں اس حد تک بڑھ گیا کہ خود ہی مدعی، خود ہی منصف اور خود ہی گواہ بن کر اس کارروائی کو سرانجام بھی دے دیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو مذہبی جذبات مجروح کرنے کا الزام لگا کر موت کی سزا دے دی۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہابیل تاریخ مذاہب کے وہ پہلے شہید ہیں جنہیں مذہبی جذبات مجروح کرنے کا الزام لگا کر قتل کیا گیا اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں آج تک جاری ہے۔

قرآن کریم میں اس مقدمہ کی تفصیل

قرآن کریم سورۃ المائدہ میں اس مقدمے کی تفصیل کچھ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ:
اور اُن کے سامنے حق کے ساتھ آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ پڑھ کر سُنا جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کر لی گئی اوردوسرے سے قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا میں ضرور تجھے قتل کر دوں گا۔ (جواباً) اس نے کہا یقیناً اللہ متقیوں ہی کی (قربانی) قبول کرتا ہے۔ اگر تو نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ تُو مجھے قتل کرے (تو) میں (جواباً) تیری طرف اپنا ہاتھ بڑھانے والا نہیں تاکہ تجھے قتل کروں۔ یقیناً میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ یقیناً میں چاہتا ہوں کہ تو میرے اور اپنے گناہ اٹھائے ہوئے لوٹے پھر تو اہل نار میں سے ہو جائے اور ظلم کرنے والوں کی یہی جزا ہوتی ہے۔ تب اس کے نفس نے اُس کے لئے اپنے بھائی کا قتل اچھا بنا کر دکھایا۔ پس اس نے اسے قتل کر دیا اور وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گیا۔ پھر اللہ نے ایک کوّے کو بھیجا جو زمین کو (پنجوں سے) کھود رہا تھا تاکہ وہ (یعنی اللہ) اسے سمجھا دے کہ کس طرح وہ اپنے بھائی کی لاش کو ڈھانپ دے۔وہ بول اُٹھا وائے حسرت! کیا میں اس بات سے بھی عاجز آ گیا کہ اس کوّے جیسا ہی ہو جاتا اور اپنے بھائی کی لاش ڈھانپ دیتا۔ پس وہ پچھتانے والوں میں سے ہو گیا۔ اسی بِنا پر ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرض کر دیا کہ جس نے بھی کسی ایسے نفس کو قتل کیا جس نے کسی دوسرے کی جان نہ لی ہو یا زمین میں فساد نہ پھیلایا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔ اور جس نے اُسے زندہ رکھا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندہ کردیا اور یقیناً ان کے پاس ہمارے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آ چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان میں سے کثیر لوگ زمین میں حدسے تجاوز کرتے ہیں۔ (المائدہ: 28-33)

اختلاف کی نوعیت کیا تھی؟

قرآن کریم نے حق کے ساتھ جو واقعہ ہمارے لئے محفوظ کیا ہے اس میں اختلاف کی نوعیت مکمل طور پر مذہبی دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس وقوعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کسی دیگر تفصیل کو بیان نہیں کرتا بلکہ صرف یہ بتاتا ہے کہ اے نبی! اپنے مخاطبوں کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ پڑھ کر سُنا جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کر لی گئی اوردوسرے کی قبول نہ کی گئی۔اب اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی پیش کرنا تو خالص طور پر ایک دینی اور مذہبی معاملہ تھا اور ظاہری طور پر یہی نظر آتا ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے طریق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کرکے اس کی نظر میں قرب کا مقام حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ قابیل کا خیال یہ تھا کہ محض کچھ ظاہری قربانی پیش کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا مقام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ہابیل اس حقیقت سے اچھی طرح آشنا تھے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے لئے اپنی اصلاح نفس کی طرف توجہ دینا بھی لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف متقیوں کی قربانیاں اور تحائف قبول کیا کرتا ہے۔ ظاہری قربانیاں اور تحائف بھی تب ہی اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول ٹھہرتے ہیں جب ان کے ساتھ ساتھ انسان تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ہوجائے۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۳۸﴾

(الحج: 38)

(یاد رکھو کہ) ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگز اللہ تک نہیں پہنچتے لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تک پہنچتا ہے (درحقیقت) اس طرح اللہ نے ان قربانیوں کو تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے تا کہ تم اللہ کی ہدایت کی وجہ سے اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور تو اسلام کے احکام کو پوری طرح ادا کرنے والوں کو بشارت دے۔

اب ظاہر ہے کہ یہی وہ مضمون تھا جو حضرت آدم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے ہابیل کو تو سمجھ آچکا تھا لیکن قابیل اس مضمون سے بے خبر تھا اور اس کی نظر میں یہی کافی تھا کہ اس نے اپنی سمجھ کے مطابق کچھ قربانی اللہ کے حضور پیش کردی اور اپنی ذمہ داری سے آزاد ہوگیا۔

کیا اس معمولی اختلاف پر قتل کرنا مناسب تھا؟

ہمارا مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف الخیال بنایا ہے اور بہت مرتبہ وہ اپنے معاملات میں ایک دوسرے سے الگ سوچ بھی رکھتے ہیں۔ ایک ہی بات دو اشخاص تک پہنچتی ہے لیکن وہ اس بات کی اپنی اپنی سوچ اور عقل کے مطابق تشریح کرتے ہیں۔خیالات کا یہ تنوع ہی انسانوں کو ایک دوسرے سے ممیز اور ممتاز بناتا ہے۔لیکن کسی بھی مذہبی یا سماجی اختلاف رائے کی بنیاد پر ہتھیار اٹھا کر دوسرے فریق کی جان لے لینا کسی بھی طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس اختیار کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ جو بھی راستہ اختیار کرنا چاہے کرسکتا۔ جیسا کہ فرمایا:

وَقُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ

(الکہف: 30)

اور (لوگوں کو) کہہ دے (کہ) یہ سچائی تمہارے رب کی طرف سے ہی (نازل ہوئی) پس جو چاہے (اس پر) ایمان لائے اور جو چاہے (اس کا) انکار کر دے۔

یا جیسا کہ تمام تر تبلیغ حق کو معراج تک پہنچانے کے بعد آنحضرتﷺ کی طرف سے کافروں کو یہ بھی سمجھایا گیا کہ ان معاملات میں لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ:

لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ

(الکافرون: 7)

تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔

بلکہ قرآن کریم نے توعقل اور فہم رکھنے والوں کے لئے بڑی وضاحت کے ساتھ ہمیشہ کے لئے یہ اصولی اعلان بھی فرمادیا ہے کہ:

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ

(البقرہ: 257)

دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقیناً ہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی ہے۔

اور یہ عجیب بات ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے پیش آنے والے اس مقدمہ کے دونوں فریقوں کی گفتگو بھی ہمیں واضح طور پر یہی قانون سمجھاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔جب قابیل نے یہ کہا کہ اس اختلاف رائے کی بنیاد پر میں تیری جان لے لوں گا تو ہابیل نے وہی جواب دیا جو آج کی دنیا کا کوئی بھی مہذب اور متقی انسان دے سکتا ہے کہ ان معاملات میں جبر کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اگر تو نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ تُو مجھے قتل کرے (تو) میں (جواباً) تیری طرف قتل کی نیت سے اپنا ہاتھ بڑھانے والا نہیں ہوں۔ یقیناً ً میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

تاریخ انسانی کے یہ دونوں کردار حقیقی ہیں اور درحقیقت دو طرح کے انسانی رویوں کے عکاس ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اختلاف رائے کو برداشت ہی نہیں کرسکتے اور دوسرے وہ جو اپنے اختلاف کو بڑی محبت اور سچے دلائل کے ساتھ مخالف فریق کو سمجھاتے چلے جاتےہیں اور اس راہ میں اپنی جانیں بھی دینا پڑیں تو اس سے دریغ نہیں کرتے لیکن اس مقصد کے لئے کسی کی جان لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس لئے نہیں کہ وہ بزدل یا کمزور ہوتے ہیں بلکہ صرف اس لئے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔

اسی قسم کے بعض دیگر مقدمات کی تفصیل

قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں انسانی رویوں کا مظاہرہ ہر دور اور ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے، خاص طور پر مذہبی حوالے سے۔ چنانچہ جب بھی اللہ تعالیٰ نے کسی مامور کو اس دنیا میں بھیجا تاکہ وہ بھٹکے ہوئے ذہنوں کی اصلاح کرکے انہیں سیدھا راستہ دکھا سکے تو اس قسم کی بحثیں چھیڑ دی گئیں اور مقدمات بھی قائم کر دئیے گئے۔ اور اس حوالہ سے قرآن کریم نے بے شمار مثالیں ہمارے لئے محفوظ بھی فرمادی ہیں۔ جن میں سے ایک مقدمہ حضرت نوح ؑکے خلاف بنایا گیا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:
جب ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا تھا کیا تم تقویٰ سے کام نہیں لو گے۔ یقیناً میں تمہارے لئے ایک امانت دار پیغمبر ہوں۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔ اور میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو صرف تمام جہانوں کے ربّ پر ہے۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔انہوں نے کہا کیا ہم تیری بات مان لیں؟ جبکہ سب سے نچلے درجہ کے لوگوں نے تیری پیروی کی ہے۔ اس نے کہا مجھے اس کا کیا علم ہے جو کام وہ کیا کرتے تھے؟ ان کا حساب صرف میرے ربّ کے ذمہ ہے۔ کاش تم شعور رکھتے۔ اور میں تو ایمان لانے والوں کو دھتکارنے والا نہیں ہوں۔ میں تو صرف ایک کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا اے نوح! اگر تُو باز نہ آیا تو ضرور تو سنگسار کئے جانے والوں میں سے ہو جائے گا۔ اس نے کہا اے میرے ربّ! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے۔ پس میرے درمیان اور ان کے درمیان واضح فیصلہ کر دے اور مجھے نجات بخش اور اُن کو بھی جو مومنوں میں سے میرے ساتھ ہیں۔ پس ہم نے اسے اور اُن کو جو اس کے ساتھ تھے ایک بھری ہوئی کشتی میں نجات دی۔ پھر ہم نے بعد میں باقی رہنے والوں کو غرق کر دیا۔ (الشعراء: 107-121)

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دونوں قسم کے رویوں کا ذکر فرمادیا ہے بلکہ ان کے نتائج سے بھی آگاہ فرمادیا ہے۔ یہ اسی قسم کے نتائج ہیں جو قابیل کو اپنے جرم کے بعد بھگتنے پڑے تھے چنانچہ وہی نتیجہ حضرت نوح ؑکے مخالف فریق کو بھی دیکھنا پڑا اور وہ عبرت کا ایک نشان بن گئے۔لیکن یہ واقعہ کوئی ایک انفرادی واقعہ نہیں ہے بلکہ اس قسم کے رویوں کی داستان آدم ؑاور حضرت نوح ؑکے دور سے ہوتے ہوئے عصر حاضر تک پہنچتی ہے جس کے درمیان بہت بڑے بڑے وجودوں کے نام بھی آتے ہیں جن پر اسی قسم کے مقدمات بنائے گئے اور سزائیں دینے کی کوشش کی گئی۔

حضرت ابراہیمؑ کے خلاف قوم کا مقدمہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی تھے جو اپنی قوم کی بت پرستی کے متعلق انہیں تنبیہ کرنے اور خدائے واحد کی جانب بلانے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے۔انہوں نے جب ان بے جان بتوں کی کمزوری ظاہر کرنے لئے اپنے بت خانے کے بتوں کو توڑا تو قوم مشتعل ہوگئی اور ایک طوفان آگیا اور تلاش شروع ہوئی کہ یہ کس کا کام ہو سکتا ہے۔قرآن کریم بیان کرتا ہے:
انہوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کو سنا تھا جو اُن کا ذکر کر رہا تھا۔ اُسے ابراہیم کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا پس اُسے لوگوں کی نظروں کے سامنے لے آؤ تا کہ وہ دیکھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ اے ابراہیم !کیا تو نے ہمارے معبودوں سے یہ کچھ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ آخرکسی کرنے والے نے تو یہ کام ضرور کیا ہے۔ یہ سب سے بڑا بت سامنے کھڑا ہے اگر وہ بول سکتے ہوں تو ان سے (یعنی اس بت سے بھی اور دوسرے بتوں سے بھی) پوچھ کر دیکھو۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف چلے گئے اور کہا کہ یقیناً تم ہی ظالم ہو۔ پس وہ سربہ گریباں کردیئے گئے (اور بولے) تُو یقیناً جانتا ہے کہ یہ کلام نہیں کرتے۔ اس نے کہا پھر کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں ذرّہ بھر فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے؟ تُف ہے تم پر اور اس پر جس کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا اس کو جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔ ہم نے کہا اے آگ! تُو ٹھنڈی پڑ جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔ اور انہوں نے اُس سے ایک چال چلنے کا ارادہ کیا تو ہم نےخود انہی کو کلیةً نامراد کر دیا۔ (الانبیاء: 60-71)

یعنی جہاں ایک جانب حضرت ابراہیمؑ یہ عقلی دلیل دے رہے تھے کہ یہ بت جنہیں تم خدا سمجھ کر ان کی عبادت کرتے ہو اور ان سے امداد مانگتے ہو یہ تو خود اس قدر بے بس اور لاچار ہیں کہ نہ تو خود اپنی حفاظت کرسکتے ہیں، نہ ہی اپنے مجرم کو سزا دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا نام بتا سکتے ہیں وہیں اس مضبوط دلیل کے جواب میں کوئی دلیل پیش کرنے کے بجائے یہی فیصلہ کیا گیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو سزائے موت دے دی جائے اور آگ میں زندہ جلا دیا جائے لیکن یہ دلیل ابھی مکمل نہیں ہوتی بلکہ بات آگے چلتی ہے اور حقیقی قادر و قدیر خدا اس جلتے ہوئے آگ کے آلاؤ سے ابراہیم علیہ السلام کو زندہ نکال کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ حقیقی خدا ایسا طاقتور اور توانا وجود ہوا کرتا ہے کہ کوئی اسے تو کیا اس سے تعلق رکھنے والے وجودوں کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتاپھر خواہ وہ ابرہہ کے طاقتور لشکر ہوں، ابراہیمؑ کی قوم ہو یا کسی بھی زمانے کے معاندین حق ہوں۔ ہر ایک انسان اللہ کا محتاج توہے مگر وہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ اپنے مزعومہ معبودوں کی امداد کرنے کے لئے مقدمات کے یہ سلسلے ہر دور میں جاری رہتے ہیں۔

عیسیٰؑ کو سزائے مَوت سُنائی جاتی ہے

اللہ تعالیٰ کے ایک پاک اور برگزیدہ وجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف بھی ایسے ہی مقدمات قائم کرکے انہیں عدالتوں میں لے جایا گیا۔ اناجیل ان مقدمات اور سزائے موت دئیے جانے کی تفصیلات سے بھری ہوئی ہیں کہ کیسے توہین مذہب کا ایک جھوٹا الزام لگا کر اسے ثابت کئے بغیرمذہب کے ٹھیکیداروں نے اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی کو عدالتوں میں گھسیٹا اور عدالت نے بھی آپ کو بے قصور جاننے کے باوجود محض مذہبی اور سیاسی دباؤ میں آکر اس ظالمانہ سزائے موت کی اجازت دےدی۔ پِیلاطُوس جس کے سامنے یہ مقدمہ زیر کارروائی تھا وہ جانتا تھا کہ یہ غلط ہورہا ہے اور اس نے یہ اظہار بھی کیا کہ تم جس شخص پر الزام لگا کر میرے پاس لائے ہو میں نے جو تحقیقات کی ہیں ان میں اس پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا لیکن مخالف فریق چلا چلا کر کہنے لگا کہ نہیں یہ مجرم ہے اسلئے اس کو مصلُوب کرو! اِس پر اُس نےعیسیٰ علیہ السلام کو اُن کے حوالہ کردیا کہ وہ مصلوب کئے جائیں۔ پس وہ ان کو لے گئےمگراللہ تعالیٰ نے اپنی ہمیشہ سے جاری تقدیر کے مطابق اس سزائے موت کا حکم صادر ہونے کے باوجود بھی آپ کی حفاظت فرمائی لیکن انسانی فطرت کا قابیل اور ہابیل والا رخ ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے آگیا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح محض مذہبی عقیدے اور اس کی کسی قدرمختلف تشریح کی بنا پر انسان دوسرے فریق کو مارنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا کہ دین کے معاملات تو خالص اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا جھوٹا پیغامبر بن کر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے تو اسے سزا دینے اور تباہ کرنے کے لئے قادر خدا خود ہی کافی ہے۔ قوم ابراہیم کے بتوں کی طرح اس کام کے لئے اسے کسی انسان کی مدد کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔

عیسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ صلیب کے بعد بھی قریب تین سو سال تک آپ کے ماننے والوں کو ظلم و ستم کی چکیوں میں پیسا جاتا رہا۔ انہیں بھوکے جنگلی جانوروں کے سامنے پھینک کر ان کی چیخ و پکار سے لطف اندوز ہوا جاتا رہا۔ رومن زمانے کے COLOSSEUM ان مجبور اور بے بس ملزموں کی فریادوں کے ہمیشہ کے لئے گواہ بن گئے جہاں آج بھی ان مظلوم اصحاب کہف کی صدائیں گونجتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ گویاقابیل کے ہاتھوں لگائے ہوئے ظلم کے پودے تناور درخت بنتے چلے جارہے تھے لیکن قومیں اس بارے میں سوچنے کے لئے تیار ہی نہیں تھیں اور عمومی خیال یہی تھا کہ مذہبی معاملات میں نرمی کیسی؟ اس کے لئےتو جان دی بھی جاسکتی ہے اور جان لی بھی جاسکتی ہے۔ اصحاب کہف کی دردناک داستان سے لے کر مکہ کی گلیوں میں حضرت بلالؓ ، خبیب ؓ اور خباب ؓ اسی داستان کے جیتے جاگتے کردار رہے ہیں۔

رسول اللہ ؐ کے خلاف قوم کا مقدمہ

ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے حق کی تبلیغ شروع کی تب بھی یہی کچھ ہوا۔ قوم مخالف ہوگئی۔ اہلِ مکہ سے صبر نہ ہوسکا اور ان کے بعض دانشور ابو طالب کے پاس اۤئے اور انہیں سمجھایا کہ اپنے بھتیجے کو ان باتوں سے روکیں یا ان کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔ابو طالب کو اپنے یتیم بھتیجے کی فکر ہوئی اور انہیں بلا کر سمجھانے لگے۔ حضورﷺ نے جب اپنے مہربان چچا کے منہ سے تبلیغِ حق ترک کردینے کا مشورہ سنا تو فرمایا:
’’خدا کی قسم! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا تعالیٰ کا دامن چھوڑ دوں تو میں ہرگز اس کے لئے اۤمادہ نہیں ہوں۔ یا تو خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے گا یا پھر میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں گا۔ کفارِ مکہ نے جب یہ دیکھا کہ ان کی سب تدبیریں ناکام ہورہی ہیں اور اۤپؐ کی دعوت عام ہورہی ہے تو انہوں نے مشورہ کرکے مکہ کے سب سے چالاک اور زیرک سردار عتبہ بن ربیعہ کو اۤپؐ کے پاس بھیجا کہ وہ اۤپؐ کو دنیاوی طمع اور لالچ دے کر تبلیغِ دین سے روک دے۔عتبہ نے اۤپؐ کے پاس پہنچ کر کہا، ’’بھتیجے تم حسب و نسب میں ہم سے بہتر ہو۔ اگر تم دولت کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہو تو ہم تمہارے واسطے اتنا مال جمع کردیں گے کہ تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ گے۔ اگر سرداری حاصل کرنا چاہتے ہو تو ہم اس پربھی راضی ہیں کہ تمہیں قریش کا سردار بنادیں۔ اگر تم شادی کے خواہش مند ہو تو مکہ کی سب سے خوبصورت لڑکی کو تمہاری دلہن بنادیں گے۔ ’’آپ نے عتبہ کے اس طویل لیکچر کو سن کر جواب میں سورۃ حٰمٓ السجدہ کی تلاوت کی اور اس کی ہر ایک پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ جس پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا گیا اور اس پاک نبی اور آپ کے ماننے والوں پر مشق ستم اور بھی تیز کردی گئی لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق صبر اختیار فرمایا اور پھر وہ دن بھی آئے کہ اسلام کی وہ خوبصورت تعلیم دنیا نے دیکھی جس میں مذہب اور عقیدے کے فرق کے باوجود انسانی حقوق کے اعتبار سے انسانوں کی جان، مال، عزت اور حرمت کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت وقت اور مسلمانوں کے نظم اجتماعی پر ڈالی گئی اور معاشرہ جنت نظیر بن گیا۔

مذہبی مباحثات کے حوالہ سے قانون سازی

اسلام کی رواداری کی انہی عظیم الشان تعلیمات سے متاثر ہوکر دیگر حکومتوں اور تہذیبوں نے بھی بالآخر سبق سیکھا اور اپنے معاشروں کو بہتر بناکر مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کے علم بردار بن گئے۔ جدید دنیا میں ظاہری ترقیات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے علم اور شعور میں بھی اضافہ ہوا اور دنیا بھر میں آزادی اظہار کی تحریکات نے جنم لیا۔ دنیا میں لوگوں کو نہ صرف سیاسی، معاشرتی، اخلاقی اور دینی علوم پر بات کرنے کی آزادی دی گئی بلکہ لوگوں کے لئے ان معاملات میں بعض قانون بنا کر حدود و قیود بھی طے کردی گئیں کیونکہ اس آزادی کے ساتھ یہ خدشہ بہر حال موجود تھا کہ اس آزادی کے نتیجے میں فتنہ اور فساد پیدا نہ ہوجائے۔ چنانچہ اسی امر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندوستان کی برطانوی حکومت نے 1825ء میں تعزیرات ہند یعنی Indian Penal Code کی تیاری کا کام شروع کیا اور 1862ء میں یہ قوانین اپنی حتمی شکل میں تمام صوبوں اور ریاستوں کی عدالتوں میں استعمال ہونا شروع ہوگئے۔ یہ بعینہ وہی زمانہ ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا تھا اور آپ نے مستقبل میں آسمانی نور اور الہام الٰہی کی روشنی میں مذاہب کے درمیان فیصلے فرمانے تھے۔ چنانچہ تعزیرات ہند کے ان قوانین کے مجموعہ میں جہاں ہر شخص کو اپنے اپنے مذہب اور ایمان کے مطابق عمل کرنے کی آزادی دی گئی وہیں صدیوں سے جاری اس ظلم کے خاتمے کے حوالے سے بھی اقدامات کر دئیے گئے کہ مذہب یا عقیدے کے فرق کی بنیاد پر کسی دوسرے شخص کو تکلیف میں مبتلا نہیں کیا جا سکے گا اور گویا انگریزی حکومت نے اسلام کے اس خوبصورت اصول کو تسلیم کرلیا کہ محض عقیدے کے فرق کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس ظلم پر اس سے حکومت کی طرف سے باز پرس کی جائے گی۔چنانچہ تعزیرات ہند کے 15 ویں باب میں سیکشن 295 تا 298 صرف اسی مقصد کے لئے متعارف کروائے گئے کہ کسی بھی مذہب اور عقیدے کے خلاف جرائم کو روکا جاسکے اور لوگ پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ کسی بھی خوف کے بغیر اپنے عقیدے اور اپنی مذہبی تعلیمات کا اظہار کر سکیں اور کسی فرد یا گروہ کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر کسی دوسرے فرد کے مذہبی عقائد کو پامال کرے اور قابیل بنتے ہوئے اس کے خلاف اپنے دست ستم کو دراز کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف اس قانون کو پسند فرمایا بلکہ مذہبی مناظروں اور بحثوں کے نتیجے میں ہونے والی بد نظمی اورلڑائی جھگڑے کے سد باب کے لئے 22؍ستمبر 1895ء کو ہندوستان کے وائسرائے سے درخواست کرتے ہوئے تعزیرات ہند کی ان دفعات میں توسیع کی بعض تجاویز بھی پیش فرمائیں تاکہ مستقبل میں کوئی بھی معصوم جان محض مذہبی یا فروعی فقہی اختلافات کی بنیاد پر قتل نہ ہو اور تاکہ وہ غلطی جو انسانیت کے آغاز میں قابیل نے کی تھی وہ بار بار دہرائی نہ جائے اور دنیا اسلام کے بیان فرمودہ اصولوں کے مطابق مذہبی آزادی کے ساتھ جینا سیکھ جائے۔ یہ بات مان لی جائے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے کہ سچ اور حق رب کی طرف سے ہی نازل ہوتا ہے اس لئے انسانوں کو داروغہ بننے کا اختیار نہیں ہے پس جو چاہے اس حق پرایمان لائے اور جو چاہے (اس کا) انکار کر دے کیونکہ یہ آزادی تو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم کے ساتھ ہی ابلیس کی شکل میں عطا فرمادی تھی اور یہ فیصلہ کردیا تھا کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ بھی کوئی جبر نہیں کریں گے پس کسی انسان کو اس کا اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے۔

قابیل اب زیادہ سفاک ہوچکا ہے

لیکن یہ بات نہایت قابل افسوس ہے کہ اسلام نے مذہبی رواداری کا جو درس اپنے ماننے والوں کو دیا اوردنیا کی بڑی بڑی حکومتوں نے بھی اس کی خوبی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے تسلیم کرلیا اور اس بارے میں قوانین بھی بنا دئے۔ بدقسمتی سےطاقت ملتے ہی بعض نام نہاد مسلمان حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں انہی قوانین میں بعض ایسی ترامیم اور اضافے کر دئے گئےجو ظلم کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ بن گئے اور اس قانون کو جو مظلوموں کی امداد کے لیے بنایا گیا تھا ظالموں کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار کے طور پر دے دیا گیا تاکہ وہ قانون کا سہارا لے کر ظلم کے بازار کو گرم رکھ سکیں۔ قابیل کی سوچ اور فکرجو آج بھی زندہ ہے بعض ملکوں میں اسے قانونی تحفظ دیا جا چکا ہے اور قابیل بڑے فخر سےمحض مذہب اور عقیدے کے فرق کی بنیاد پر قانون کے اس کوڑے کو ہاتھ میں لئے مظلوموں پر برساتا چلا جا رہا ہے۔ آج بھی عقیدے کے فرق کی بنا پر لوگوں کی زندگی اجیرن کی جاتی ہے۔ آج بھی مقدمات بنا کر انہیں پابند سلاسل کیا جاتاہے اور آج بھی ان کو قتل کیا جاتا ہے۔ اگر ہزاروں سال گزرنے کے بعد کچھ فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ موجودہ دور کا قابیل اس معاملے میں اور بھی بے حس، سفاک اور بے باک ہوگیا ہے۔سابقہ قابیل نے مذہبی بنیاد پر اپنے بھائی کو قتل کیا تو اس پر نادم ضرور ہوا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کو بھیجا تھاجو زمین کو (پنجوں سے) کھود رہا تھا تاکہ وہ اسے سمجھا دے کہ کس طرح وہ اپنے بھائی کی لاش کوقبر بنا کر زمین میں ڈھانپ دے۔آج بعض ملکوں کے قابیل اس بات سے بھی عاجز آچکے ہیں کہ اس کوے کی نصیحت سے ہی فائدہ اٹھا لیں۔ مذہبی منافرت کے نتیجے میں قتل کرنے کے بعد لاشوں کو دفنانے کے معاملے پر توجھگڑتے ہی تھے لیکن اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوت شدہ اور مدفون لوگوں کی قبروں کے خلاف بھی غصہ نکالا جاتا ہے۔ ان کی قبروں کی بے حرمتی کی جاتی ہے، ان کی مٹی کو پامال کیا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قابیل سے زیادہ تقویٰ شعار اور ایک کوے سے زیادہ ذہین ہیں۔وہ قابیل کو ملنے والی اس الٰہی سزا کو بھول چکے ہیں کہ اختلاف مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کے بعد جب زمین میں کھیتی باڑی کی جاتی ہے تو وہ پہلی سی پیداوار نہیں دیتی اور اس طرح کے ظلم کرنے والے لوگ اور قومیں زمین میں خانہ خراب اور بے یار ومددگار ہوکر رہ جایا کرتی ہیں۔

(مولانا فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍جنوری 2023ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2023