• 26 اپریل, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
حالیہ دورہٴ امریکہ کی ڈائری

والدہ کی وفات کا صدمہ برداشت کرنے کی توفیق ملنا

ایک دوسرے دوست جن کو اس دن میں Zion میں ملا وہ مکرم رضی اللہ نعمان تھےجو حال ہی میں جامعہ احمدیہ کینیڈا سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ آپ Zion اپنے بڑے بھائی مکرم جری اللہ صاحب کے ساتھ آئے تھےجنہوں نے اس دورہ کے دوران کام میں خاکسار کی کچھ معاونت کرنی تھی۔ ان کی والدہ ایک مختصر بیماری کے بعد چند ماہ قبل فوت ہو گئی تھیں تو میں نے ان سے تعزیت کی۔ اس پر رضی صاحب نے مجھے بتایا کہ جب سے ان کی والدہ کی وفات ہوئی ہے وہ جذباتی طور پر بہت پریشانی سے دوچار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کی وفات ان کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش تھی۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی پہاڑ ہمارے اوپر گر گیا ہو اور ہمارے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔ ان کی والدہ محترمہ نصرت قادر صاحبہ مرحومہ کا تعلق کینیڈا کی جماعت سے تھا۔ ان کی وفات جولائی میں ہوئی اور چند ہفتوں کے بعد حضور انور نے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر خیر فرمایا۔ جس دوران ہم مسجد کے باہر کھڑے تھے رضی صاحب نے بتایا کہ کس طرح جب سے ان کی والدہ کی وفات ہوئی ہے ان کو کسی چیز پر بھی توجہ مرکوز کرنے میں مشکل درپیش تھی جس میں دعا بھی شامل تھی۔ رضی صاحب کے لیے حضور انور کی امامت میں Zion میں نماز پڑھنے کا موقع میسر آنا اور آپ کو مسجد میں تشریف لاتے اور واپس جاتے ہوئے دیکھنا ایک زبردست تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

رضی صاحب نے بتایا کہ:
’’میری والدہ کی وفات کے بعد میں بہت تکلیف میں تھا اور معمول کی زندگی گزارنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ میں دعا میں مشغول رہا اور ناامید نہ ہوا لیکن مجھے توجہ مرکوز کرنے میں مشکل کا سامنا تھا۔ تاہم حضور انور کی موجودگی نے اس حالت کو پہلے ہی (دن) بدل دیا۔ آپ کی اقتدا میں میری دعاؤں کی کیفیت ہی بدل چکی تھی اور مجھے دعا میں خاص توجہ اور روحانیت کا احساس ایک مرتبہ پھر مِل گیا تھا۔‘‘ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی والدہ انہیں کہتی تھیں کہ خلیفۃ المسیح کی ہمیشہ اطاعت کرنا خواہ کچھ بھی ہو۔

رضی صاحب نے بتایا کہ میری والدہ کی حالت ایسی تھی کہ جب وہ ہسپتال میں تھیں جہاں دوسرے وقت گزارنے کے لیے موسیقی سنتے یا فلمیں دیکھتے ہیں۔ لیکن آپ ہمیشہ فرماتیں کہ حضور انور کا حالیہ خطبہ جمعہ لگا دو۔ اس لیے جب میں نے حضور انور کو Zion میں دیکھا تو میری والدہ کے الفاظ (کہ خلافت کے مطیع رہنا) میرے سامنے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ میری زندگی کی بہترین دعائیں تھیں۔ کیونکہ والدہ کو کھونے کے بعد مجھے احساس ہوا تھا کہ ابھی بھی میرے پاس کوئی ہے، جو خلیفہ وقت ہیں۔ دراصل اب آپ کی وفات کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ آپ کی ہدایات ہمارے لیے کتنی اہم ہیں کہ ہم ہمیشہ خلیفۂ وقت کے مطیع رہیں کیونکہ جب ہمارا خیال تھا کہ ماں کی محبت کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا تو ہمیں خلافت مل گئی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

ایک جچا تلا جواب

28؍ ستمبر بروز بدھ سارا دن حضور انور نے ازراہ شفقت احمدی احباب سے فیملی ملاقاتیں فرمائیں۔ صبح کے وقت مجھے بھی چند لمحات کے لیے حضور انور سے شرف ملاقات حاصل ہوا جس میں حضور انور نے گزشتہ روز RNS کو دیے گئے انٹرویو کا ذکر بھی فرمایا۔ تبسم فرماتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:
’’جرنلسٹ کے لہجے کی وجہ سے میں اس کے سوالات ٹھیک سے سن نہیں پا رہا تھا۔ اس لیے مجھے واضح نہیں تھا کہ وہ کیا سوال کر رہی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ میرے جوابات اس کے سوالات کے مطابق ہی تھے۔‘‘ حضور انور نے مزید فرمایا ’’میرا خیال ہے کہ لوکل جماعت کی ٹیم مجھ سے توقع کر رہی تھی کہ میں ڈوئی اور اسلام کی فتح کے بارے میں زیادہ فاتحانہ رنگ میں بات کروں۔ میرے جوابات زیادہ جچے تلے تھے اور میں نے جملہ انبیاء اور مذاہب کی عزت و اکرام کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔ یہ پیغام ہے جو دوسروں کو بار بار باور کروانا بہت اہم ہے تاکہ وحدت اور معاشرے میں باہمی رواداری قائم رہے۔‘‘

گروپ ملاقاتیں

دن کے باقی حصہ میں حضور انور نے از راہ شفقت دو الگ الگ احمدی مرد و زن کےگروپس کو شرف ملاقات بخشا۔ مردوں کی ملاقات کے دوران نوجوان اور بڑی عمر کے احباب کو حضور انور سے ملاقات کا شرف ملا جنہوں نے اپنے آبائی علاقوں کا تعارف کروایا نیز چند مسائل کا ذکر کرکے آپ سے دعاؤں کی درخواست کی۔

نہایت شفقت اور محبت سے حضور انور نے ہر ایک کی بات کو سنا اور اور ان کو دعاؤں سے بخشا۔جنہوں نے اپنی تعلیم، کیریئر اور فیملی کے حالات کے بارے میں اپنی خواہشات کا اظہار کیا اور دعا کی درخواست کی۔ کچھ نے بہت فخر سے بتایا کہ کس طرح ان کے بڑوں یا رشتہ داروں نےاحمدیت کی خاطر شہادت کا رتبہ پایا۔ کچھ نے دعاؤں کی درخواست کی کہ ان کو شادی کے لیے ہم کفو ساتھی مل جائےجبکہ دوسروں نے بتایا کہ وہ کئی سالوں سے شادی شدہ ہیں لیکن ان کے ہاں اولاد نہیں ہے، پھر انہوں نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اولاد کی نعمت سے نوازے۔

ایک دوست کے جذبات خوب عیاں تھے جب انہوں نے حضور انور کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے ہاں کئی سال سے اولاد نہیں ہو رہی تھی لیکن وہ مستقل حضور انور کو دعا کے لیے خطوط لکھ رہی تھی۔ چنانچہ شادی کے پندرہ سال کے بعد انہیں اولاد کی نعمت نصیب ہوئی ہے۔

لجنہ اماء اللہ کی ایک گروپ میٹنگ کے دوران ایک ممبر لجنہ نے حضور انور کو بتایا کہ اس سال تھوڑے سےعرصے کے دوران ان کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا۔ جواب میں حضور انور نے ان کے والدین کے لیے دعا کی نیز ان کے لیے اور دیگر فیملی ممبران کے صبر اور حوصلہ کے لیے بھی دعا کی۔

ایک دوسری ممبر لجنہ نے نہایت خوشی سے حضور انور کو بتایا کہ چھ سال کی تگ و دو کے بعد انہیں اولاد کی پہلی نعمت ملی ہے۔جواب میں حضور انور نے ان کی اچھی صحت کے لیے دعا کی اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید اولاد عطا فرمائے۔

چند خواتین نے حضور انور کو بتایا کہ انہوں نے مختلف شعبہ جات میں اعلی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے جیسے ڈاکٹر یا ٹیچر۔ حضور انور نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی، خاص طور پر ان کی جو وقف نو کی سکیم کا حصہ ہیں کہ وہ جماعتی ہسپتالوں اور سکولوں میں افریقہ اور پاکستان میں اپنی خدمات پیش کریں۔

چند خواتین نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی کہ ان کے بچے مضبوط ایمان کے مالک ہوں اور احمدیت کی حقیقی خدمت گار ثابت ہوں۔

(حضور انور کا دورہٴ امریکہ ستمبر- اکتوبر 2022ء از ڈائری عابد خان)

(باتعاون: مظفرہ ثروت۔ جرمنی)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍جنوری 2023ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2023