• 17 مئی, 2024

جماعتیں مبلغین اور مربیان کا مطالبہ کرتی ہیں

جماعتیں مبلغین اور مربیان کا مطالبہ کرتی ہیں
تو پھر واقفینِ نَو کو جامعہ میں پڑھنے کے لئے تیار بھی کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
چھٹی بات جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جس کی طرف ایک واقفِ نَو کو توجہ دینی چاہئے وہ عملی طور پر تبلیغ کے میدان میں کودنا ہے۔ اب بعض واقفاتِ نَو کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ ہمارے لئے جامعہ نہیں ہے۔ یعنی ہم دینی علم حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر اپنے طور پر، جس طرح مَیں نے پہلے بتایا، پڑھیں تو اپنے حلقے میں جو بھی اُن کا دائرہ ہے اُس میں تبلیغ کی طرف توجہ پیدا ہو گی، موقع ملے گا۔ اُس کے لئے جب تبلیغ کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور موقعے ملیں گے تو پھر مزید تیاری کی طرف توجہ ہو گی اور اس طرح دینی علم بڑھانے کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔

پس تبلیغ کا میدان ہر ایک کے لئے کھلا ہے اور اس میں ہر وقفِ نَو کو کودنے کی ضرورت ہے اور بڑھ چڑھ کر ہر وقفِ نَو کو حصہ لینا چاہئے اور یہ سوچ کر حصہ لینا چاہئے کہ میں نے اُس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھنا جب تک دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نہیں آ جاتی اور یہ احساس اور جوش ہی ہے جو دینی علم بڑھانے کی طرف بھی متوجہ رکھے گا اور تبلیغ کی طرف بھی توجہ رہے گی۔

ساتویں بات ہر واقفِ زندگی کو، واقفِ نَو کوخاص طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ اُس گروہ میں شامل ہے جنہوں نے دنیا کو ہلاکت سے بچانا ہے۔ اگر آپ کے پاس علم ہے اور آپ کو موقع بھی مل رہا ہے لیکن اگر دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا سچا جذبہ نہیں ہے، انسانیت کو تباہی سے بچانے کا درد دل میں نہیں ہے تو ایک تڑپ کے ساتھ جو کوشش ہو سکتی ہے، وہ نہیں ہو گی اور برکت بھی ہو سکتاہے اُس میں اُس طرح نہ پڑے۔ پس اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے ہر درد مند دل کو اپنی کوششوں کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور یہ درد سے نکلی ہوئی دعائیں ہیں جو ہمیں اپنے مقصد میں ان شاء اللہ کامیاب کریں گی۔ اس لئے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری دعاؤں کا دائرہ صرف اپنے تک محدودنہ ہو، بلکہ اس کے دھارے ہمیں ہر طرف بہتے ہوئے دکھائی دیں تا کہ کوئی انسان بھی اُس فیض سے محروم نہ رہے جو خدا تعالیٰ نے آج ہمیں عطا فرمایا ہے۔ ویسے بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے مقاصد کا حصول بغیر دعاؤں کے، ایسی دعاؤں جو سچے جذبے اور ہمدردی سے پُر ہوں کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

پس یہ باتیں اور یہ سوچ ہے جو ایک حقیقی واقفِ نَو اور وقفِ زندگی کی ہونی چاہئے۔ اس کے بغیر کامیابی کی امید خوش فہمی ہے۔ ان باتوں کے بغیر صرف واقفِ نَو اور واقفِ زندگی کا ٹائٹل ہے جو ایسے واقفینِ نَونے اپنے ساتھ لگایا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ اور صرف ٹائٹل لینا تو ہمارا مقصد نہیں، نہ اُن ماں باپ کا مقصد تھا جنہوں نے اپنے بچوں کو اس قربانی کے لئے پیش کیا۔ پس جیسا کہ مَیں بیان کر آیا ہوں ماں باپ کے لئے بھی اور واقفینِ نَو کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ مَیں دوبارہ اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں دین کے پھیلانے کے لئے دینی علم کی ضرورت ہے اور یہ علم سب سے زیادہ ایسے ادارہ سے ہی مل سکتا ہے جس کا مقصد ہی دینی علم سکھانا ہو۔ اور یہ ادارہ جماعت احمدیہ میں جامعہ احمدیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ جامعات صرف پاکستان یا قادیان میں نہیں ہیں، یہیں تک محدود نہیں بلکہ یوکے میں بھی ہے۔ جو مَیں نے کوائف پیش کئے ہیں اُن سے پتہ لگتا ہے کہ جرمنی میں بھی ہے، انڈونیشیا میں بھی ہے، کینیڈا میں بھی ہے، اور گھانا میں بھی ہے جیسا کہ مَیں نے کہا وہاں شاہد کروانے کے لئے نیا جامعہ کھلا ہے۔ پہلے وہاں جامعہ تو تھا لیکن تین سالہ کورس میں صرف معلمین تیار ہوتے تھے۔ تو یہ جامعہ احمدیہ جو گھانا میں کھلا ہے، یہ فی الحال تمام افریقہ کے جماعت کے لئے شاہد مبلغ تیار کرے گا۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی جامعہ احمدیہ ہے۔ تبلیغ کا کام بہت وسیع کام ہے۔ اور یہ باقاعدہ تربیت یافتہ مبلغین سے ہی زیادہ بہتر طور پر ہو سکتا ہے۔ اس لئے واقفینِ نَوکو زیادہ سے زیادہ یا واقفینِ نَو کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جامعہ احمدیہ میں آنا چاہئے۔ جبکہ جو اعداد و شمار مَیں نے بتائے ہیں، اس سے تو ہم ہر ملک کے ہر علاقے میں جیسا کہ میں نے کہا مستقبل قریب کیا بلکہ دور میں بھی ہر جگہ مبلغ نہیں بٹھا سکتے۔ اور جب تک کل وقتی معلمین اور مبلغین نہیں ہوں گے انقلابی تبدیلی اور انقلابی تبلیغی پروگرام بہت مشکل ہے۔

… لیکن جامعہ احمدیہ میں آنے والوں کی تعداد جرمنی میں بھی اور یوکے میں بھی بہت کم ہے۔ ان دونوں جامعات میں یورپ کے دوسرے ملکوں سے بھی طالب علم آتے ہیں، اس طرح تو یہ تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح امریکہ اور کینیڈا کے جامعات میں تعداد کم ہے۔

جماعتیں مبلغین اور مربیان کا مطالبہ کرتی ہیں تو پھر واقفینِ نَو کو جامعہ میں پڑھنے کے لئے تیار بھی کریں۔ کینیڈا اور امریکہ میں اس وقت پندرہ سال سے اوپر تقریباً آٹھ سو واقفینِ نوَہیں۔ اگر ان کو تیار کیا جائے تو اگلے دو سال میں جامعات میں داخل ہونے والوں کی تعداد خاصی بڑھائی جا سکتی ہے۔ صرف مربی مبلغ کے لئے نہیں بلکہ جامعہ میں پڑھ کے، دینی علم حاصل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم کے لئے بھی تیار کئے جا سکتے ہیں۔ ان کو جامعہ میں پڑھانے کے بعد مختلف زبانوں میں سپیشلائز بھی کرایا جا سکتا ہے۔ پھر جو جامعہ میں نہیں آ رہے، وہ بھی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں اور زبانیں سیکھنے والے کم از کم جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے بھی فرمایا تھا اور یہ ضروری ہے کہ تین زبانیں اُن کو آنی چاہئیں۔ ایک تو اُن کی اپنی زبان ہو، دوسرے اردو ہو، تیسرے عربی ہو۔ عربی تو سیکھنی ہی ہے، قرآنِ کریم کی تفسیروں اور بہت سارے میسر لٹریچر کو سمجھنے کے لئے۔ اور پھر قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے جب تک عربی نہ آتی ہو صحیح ترجمہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اردو پڑھنا سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپ کی تفسیریں، آپ کی کتب، آپ کی تحریرات ہی ایک سرمایہ ہیں اور ایک خزانہ ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہیں، جو صحیح اسلامی تعلیم دنیا کو بتا سکتی ہیں، جو حقیقی قرآنِ کریم کی تفسیر دنیا کو بتا سکتی ہیں۔ پس اردو زبان سیکھے بغیر بھی صحیح طرح زبانوں میں مہارت حاصل نہیں ہو سکتی۔ ایک وقت تھا کہ جماعت میں ترجمے کے لئے بہت دِقّت تھی، دِقّت تو اب بھی ہے لیکن یہ دِقّت اب کچھ حد تک مختلف ممالک کے جامعات کے جو لڑکے ہیں اُن سے کم ہو رہی ہے یا اس طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ جامعہ احمدیہ کے مقالوں میں اردو سے ترجمے بھی کروائے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بعض کتب، کے ترجمے کئے ہیں اور جو بھی طلباء کے سپروائزر تھے، اُن کے مطابق اچھے ہوئے ہیں۔ لیکن بہرحال اگر معیار بہت اعلیٰ نہیں بھی تو مزید پالش کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال ایک کوشش شروع ہوچکی ہے۔ لیکن یہ تو چند ایک طلباء ہیں جن کو دوچار کتابیں دے دی جاتی ہیں، ہمیں زیادہ سے زیادہ زبانوں کے ماہرین چاہئیں۔ اس طرف واقفینِ نَو کو بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر جامعہ کے طلباء کے علاوہ کوئی کسی زبان میں مہارت حاصل کرتا ہے تو اُسے جیسا کہ مَیں نے کہا عربی اور اردو سیکھنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ اس کے بغیر وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جس کے لئے زبان کی طرف توجہ ہے۔

(خطبہ جمعہ 18؍ جنوری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اعلان دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2022