• 8 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 21)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
قسط 21

ارشاد برائے ہندوستان

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

علاوہ ازیں ابن عربی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ کان فی الھند نبی اسود اللون اسمہ کاھن یعنی ہندوستان میں ایک نبی گذرا ہے جس کا رنگ کالا تھا اور نام اس کا کاہن تھا۔

مجدد الف ثانی سر ہندی صاحب فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں بعض قبریں ایسی ہیں جن کو میں پہچانتا ہوں کہ نبیوں کی قبریں ہیں۔

غرض ان سب واقعات اور شہادتوں سے اور نیز قرآن شریف سے صاف طور سے ثابت ہے کہ ہندوستان میں بھی نبی گذرے ہیں۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ وَاِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ (فاطر: 25)۔ اور حضرت کرشن بھی انہیں انبیاء میں سے ایک تھے جو خداتعالےٰ کی طرف سے مامور ہوکر خلق اللہ کی ہدایت اور توحید قائم کرنے کو اللہ تعالےٰ کی طرف سے آئے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک قوم میں نبی آئے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کے نام ہمیں معلوم نہ ہوں۔

(ملفوظات جلد10صفحہ143یڈیشن 1984ء)

ارشاد ات برائے عرب

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

ختم نبوت کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں پر دلائل اور معرفت طبعی طور پر ختم ہوجاتے ہیں وہ وہی حد ہے جس کو ختم نبوت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ملحدوں کی طرح نکتہ چینی کرنا بے ایمانوں کا کام ہے۔ ہر بات میں بینات ہوتے ہیں اور ان کا سمجھنا معرفت کا ملہ اور نور بصر پر موقوف ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ایمان اور عرفان کی تکمیل ہوئی، دوسری قوموں کو روشنی پہنچی۔ کسی اور قوم کو بین اور روشن شریعت نہیں ملی۔ اگرملتی تو کیا وہ عرب پر اپنا کچھ بھی اثر نہ ڈال سکتی۔ عرب سے وہ آفتاب کا کہ اس نے ہرقوم کو روشن کیا اور ہر بستی پر اپنا نور ڈالا۔ یہ قرآن کریم ہی کو فخر حاصل ہے کہ وہ توحید اور نبوت کے مسئلہ میں کل دنیا کے مذاہب پر فتحیاب ہو سکتا ہے۔ یہ فخر کا مقام ہے کہ ایسی کتاب مسلمانوں کوملی ہے۔ جو لوگ حملہ کرتے ہیں اور تعلیم و ہدایت اسلام پر معترض ہوتے ہیں وہ بالکل کور باطنی اور بے ایمانی سے بولتے ہیں۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ258 ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

مجھے حیرت ہوتی ہے کہ پھر اسلام سے کیوں پرخاش رکھی جاتی ہے۔ اسلام کا خدا کوئی مصنوئی خدا نہیں، بلکہ وہی قادر خدا ہے جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور پھر رسالت کی طرف دیکھو کہ اصل غرض رسالت کی کیا ہوتی ہے؟

اول یہ کہ رسول ضرورت کے وقت پر آئے اور پھر اس ضرورت کو بوجہ احسن پورا کرے۔ سویہ فخربھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے۔ عرب اور دنیا کی حالت جب رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم آئےکسی سے پوشیدہ نہیں۔ بالکل وحشی لوگ تھے۔ کھانے پینے کے سوا کچھ نہ جانتے تھے۔ نہ حقوق العباد سے آشنا، نہ حقوق اللہ سے آگاہ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک طرف ان کا نقشہ کھینچ کر بتلایا کہ یَاْ کُلُوْنَ كَمَا تَاْ کُلُ الْاَنْعَامُ (محمد: 13) پھر رسول پاک کی تعلیم نے ایسا اثر کیا یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًاوَّقِيَاماً (الفرقان: 65) کی حالت ہوگئی۔ یعنی اپنے رب کی یاد میں راتیں سجدے اور قیام میں گزار دیتے تھے۔ اللہ! الله!! کس قدر فضیلت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے ایک بینظیر انقلاب اور عظیم الشان تبدیلی واقع ہوگئی۔ حقوق العباد اور قوت اللہ دونوں کو میزان اعتدال پر قائم کر دیا اور مردارخوار اور مردہ قوم کو ایک اعلیٰ درجہ کی زندہ اور پاکیزہ قوم بنادیا۔ دو ہی خوبیاں ہوتی ہیں علمی یا عملی۔ عملی حالت کا تو یہ حال ہے کہ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًاوَّقِيَاماً (الفرقان: 65) اورعلمی کا یہ حال ہے کہ اس قدر کثرت سے تصنیفات کا سلسلہ اور توسیع زبان کی خدمت کا سلسلہ جاری ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ249-250 ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

دیکھو! جس جس قدر انسان تبدیلی کرتا جا تا ہے، اسی قدر و ہ ابدال کے زمره میں داخل ہوتا جا تا ہے۔ حقائق قرآنی نہیں کھلتے جب تک ابدال کے زمره میں داخل نہ ہو۔ لوگوں نے ابدال کے معنی سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اپنے طور پر کچھ کا کچھ سمجھ لیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ابدال وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر پاک تبدیلی کرتے ہیں اور اس تبدیلی کی وجہ سے ان کے قلب گناہ کی تاریکی اور زنگ سے صاف ہو جاتے ہیں۔ شیطان کی حکومت کا استیصال ہو کر اللہ تعالیٰ کا عرش ان کے دل پر ہوتا ہے۔ پھر وہ روح القدس سے قوت پاتے اور خدا تعالیٰ سے فیض پاتے ہیں۔ تم لوگوں کو میں بشارت دیتا ہوں کہ تم میں سے جو اپنے اندر تبدیلی کرے گا وہ ابدال ہے۔ انسان اگر خدا کی طرف قدم اٹھائے تو اللہ تعالیٰ کا فضل دوڑ کر اس کی دستگیری کرتا ہے۔ یہ سچی بات ہے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ چالاکی سے علوم القرآن نہیں آتے۔ دماغی قوت اور ذہنی تر قی قرآنی علوم کو جذب کرنے کا اکیلا باعث نہیں ہوسکتا۔ اصل ذریعہ تقویٰ ہی ہے۔ متقی کا معلم خدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر امیت غالب ہوتی ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے امی بھیجا کہ باوجود یکہ آپ نے نہ کسی مکتب میں تعلیم پائی اور نہ کسی کو استاد بنایا۔ پھر آپ نے وہ معارف اور حقائق بیان کئے جو دنیوی علوم کے ماہروں کو دنگ اور حیران کر دیا۔ قرآن شریف جیسی پاک، کامل کتاب آپ کے لبوں پر جاری ہوئی۔ جس کی فصاحت و بلاغت نے سارے عرب کو خاموش کرا دیا۔ وہ کیا بات تھی جس کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علوم میں سب سے بڑھ گئے۔ وہ تقویٰ ہی تھا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی مطہر زندگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ قرآن شریف جیسی کتاب وہ لائے جس کے علوم نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔

آپ کا امی ہونا ایک نمونہ اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآنی علوم یا آسمانی علوم کے لئے تقویٰ مطلوب ہے نہ د نیوی چالاکیاں۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ386-387ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

فرمایا : جاہل لوگوں کو بات بات میں ٹھوکرلگتی ہے۔ ان کو سمجھانا چاہئے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہی نام تھے۔ جب مسیح نے پیشگوئی کی تو احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے کی کیونکہ وہ خود جمالی شان رکھتے تھےیہ وہی نام ہے جس کا ترجمہ فارقلیط ہے۔

جہلاء کے دماغ میں عقل نہیں ہوتی اس لئے ان کو موٹی موٹی نظیر وں کے ساتھ جب تک نہ سمجھایا جائے وہ نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کو تو بچوں کی طرح سبق دینا چاہئے۔ عورتیں اور بچے بھی تو طرح طرح کی نظیروں کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔

قرآن شریف اس وقت گم شدہ ہے۔ جنہوں نے اس نعمت کو پالیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں۔ جن کے پاس حق ہے وہ کیوں کا میاب نہ ہو۔ حق والا اگر دوسروں کو جو اس سے بے خبر ہیں سمجھا تانہیں ہے تو وہ بزدلی اور گناہ کرتا ہے۔ اس کے سمجھانے سے اگر اور نہیں تو وہ منہ ہی بند کر لے گا۔ ان لوگوں کی تو یہ حالت ہے کہ اگر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی اور نام قرآن شریف میں ہوتا اور اس کو اب پیش کیا جاتا تو بھی اعتراض کرتے۔ کون سی بات ہے جس کو ہم نے اپنی طرف سے پیش کیا؟ ہمیشہ ان کے سامنے قرآن شریف ہی پیش کیا ہے اور انہوں نے اعتراض ہی کیا ہے۔ انہیں یہ بات کہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رکھا ہے اس میں سر یہ ہے کہ باطل معبودوں کی نفی اور توحید الہٰی کا اظہار جلالی طور پر ظاہر ہونے والا تھا۔ عرب تو باز آنے والے نہ تھے اس لئے محمدی جلال ظاہر ہوا۔ احمدی رنگ میں وہ ماننے والے نہ تھے اس جمالی رنگ میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے وہ کامیابی نہ ہوئی جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی۔ اس میں اشارہ تھا کہ جلال سے اشاعت ہوگی۔ اللہ کے ساتھ محمد ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اللہ اسم اعظم ہے اور جلالی نام ہے۔ اس کے ہمارے پاس دلائل ہیں۔ سارے قرآن شریف میں اللہ ہی کو موصوف ٹھیرایا گیا ہے۔ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی اس میں وہ نام سب داخل ہیں جو قرآن شریف میں ذکر کئے گئے ان سب سے موصوف اللہ ہی ہے جو اسم اعظم ہے پس اسم اعظم کا ظہور محمد صلی الله علیہ وسلم ہی کے ذر یعہ ہونا چاہئے تھا جوشخص اب بھی ضد کرے وہ ایمان سے خارج ہو جا تا ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ89-90 ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

سب صاحب اس بات کو سن لیں کہ چونکہ ہماری یہ سب کارروائی خدا ہی کے لیے ہے۔ وہ اس غفلت کے زمانہ میں اپنی حجت پوری کرنی چاہتا ہے جیسے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں ہوتا رہا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ زمین پر تار یکی پھیل گئی ہے تو وہ تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو سمجھاوے اور قانون کے موافق جت پوری کرے۔ اس لیے زمانہ میں جب حالات بدل جاتے ہیں اور خدا سے تعلق نہیں رہتا۔ سمجھ کم ہو جاتی ہے۔ اس وقت خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو مامور کر دیتا ہے تا کہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو سمجھائے اور یہی بڑا نشان اس کے مامور ہونے پر ہوتا ہے کہ وہ لغوطور پر نہیں آتا ہے بلکہ تمام ضرور تیں اس کے وجود پر شہادت دیتی ہیں۔ جیسے ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا۔ اعتقادی اور عملی حالت بالکل خراب ہوگئی تھی اور نہ صرف عرب کی بلکہ کل دنیا کی حالت بگڑ چکی تھی۔ جیسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42)۔ اس فسا دعظیم کے وقت خدا تعالیٰ نے اپنے کامل اور پاک بندہ کو مامور کر کے بھیجا جس کے سبب سے تھوڑی ہی مدت میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہوگئی۔ مخلوق پرستی کی بجائے خدا تعالیٰ پو جا گیا۔ بد اعمالیوں کی بجائے اعمال صالحہ نظر آنے لگے۔ ایسا ہی اس زمانہ میں بھی دنیا کی اعتقادی اور عملی حالت بگڑ گئی ہے اور اندرونی اور بیرونی حالت انتہا تک خطر ناک ہوگئی ہے۔ اندرونی حالت ایسی خراب ہوگئی ہے کہ قرآن تو پڑھتے ہیں، مگر یہ معلوم نہیں کہ کیا پڑھتے ہیں اعتقاد بھی کتاب اللہ کے برخلاف ہو گئے ہیں اور اعمال بھی۔ مولوی بھی قرآن کو پڑھتے ہیں اور عوام بھی، مگر تدبر نہ کرنے میں دونوں برابر ہیں۔ اگر غور کرتے تو بات کیسی صاف تھی۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ127 ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

اس وقت ہمارے دو بڑے ضروری کام ہیں۔ ایک یہ کہ عرب میں اشاعت ہو، دوسرے یورپ پر اتمام حجت کریں۔ عرب پر اس لئے کہ اندرونی طور پر وہ حق رکھتے ہیں۔ ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہوگا کہ ان کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ خدا نے کوئی سلسلہ قائم کیا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کو پہنچا ئیں اور اگر نہ پہنچائیں تو معصیت ہوگی۔ ایسا ہی یورپ والے حق رکھتے ہیں کہ ان کی غلطیاں ظاہر کی جاویں کہ وہ ایک بندہ کو خدا بنا کر خداسے دور جا پڑتے ہیں۔ یورپ کا تو یہ حال ہو گیا ہے کہ واقعی اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ کا مصداق ہوگیا ہے۔ طرح طرح کی ایجاد یں صنعتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس سے تعجب مت کرو کہ یورپ ارضی علوم وفنون میں ترقی کر رہا ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب آ سمانی علوم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں تو پھر زمین ہی کی باتیں سوجھا کرتی ہیں۔ یہ کبھی ثابت نہیں ہوا کہ نبی بھی کلیں بنایا کرتے تھے یا ان کی ساری کوششیں اور ہمتیں ارضی ایجادات کی انتہا ہوتی تھیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ130-131 ایڈیشن 2016ء)

  • سیدعبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتا ہوں وہاںیں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟

فرمایا: ’’مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔‘‘

عرب صاحب نے عرض کیا وہ لوگ حضور کے حالات سے واقف نہیں ہیں اور ان کو تبلیغ نہیں ہوئی۔

فرمایا: ’’ان کو پہلے تبلیغ کردینا پھر یا وہ مصدق ہو جائیں گے یا مکذب۔‘‘

عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے۔

فرمایا: ’’تم خدا کے بنو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہوجائے اللہ تعالیٰ آپ اس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ280-281 ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

پھر ایک اور پہلو فصاحت بلاغت کا ہے قرآن شریف کی فصاحت بلاغت ایسی اعلیٰ درجہ کی اور مسلم ہے کہ انصاف پسند دشمنوں کو بھی اسے ماننا پڑا ہے قرآن شریف نے فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (البقرہ: 24) کا دعوی کیا۔ لیکن آج تک کسی سے ممکن نہیں ہوا کہ اس کی مثل لاسکے۔ عرب جو بڑے فصیح و بلیغ بولنے والے تھے اور خاص موقعوں پر بڑے بڑے مجمع کرتے اور ان میں اپنے قصائد سناتے تھے وہ بھی اس کے مقابلے میں عاجز ہو گئے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ384 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

اعلان دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2022