آرٹیکل ’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘
پر موصول ہونے والے تبصرے
قسط دوم
- مکرمہ لبنی بشارت۔ جرمنی سے لکھتی ہیں :
ویسے تو ماں ہمیشہ ہی یاد رہتی ہے لیکن آپکا مضمون ’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘ پڑھ کر ماں کی وہ ساری محنت و مشقت کی یادوں نے دل کو بہت بے چین کیا۔ جن کا ذکر آپ نے کیا اور ساتھ ہی وہ قرض بھی یاد آگئے جو میری ماں نے بہت سی احمدی ماؤں کی طرح اپنی اولاد کے دل میں اسلام احمدیت کی محبت، خدمت اور دینی علم کے حصول کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے کئے۔ آپ کے زور قلم میں مزید طاقت اور برکت عطا ہونے کی دعا کے ساتھ اپنی ماں کے اس قرض کا بصد محبت ذکر کرنا چاہوں گی۔
میری والدہ ایک سادہ اور منکسرالمزاج خاتون تھیں۔ گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ بہت فکر اور توجہ کے ساتھ بچوں کو جماعت کے ساتھ وابستہ کرنے کی کوشش میں مصروف رہتیں۔ میں سات سال کی تھی اور دو مقابلوں میں مرکزی اجتماع میں شرکت کے لئے منتخب ہوئی۔ والدہ صاحبہ چودہ دن کی چھوٹی بچی، میری چھوٹی بہن کے ساتھ کراچی سے ربوہ ٹرین کا مشکل سفر کر کے پہنچیں اور مجھے حصہ دلوایا۔ اسکے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ والدہ صاحبہ نے کبھی سفر کی مشکلات یا اور کسی مشکل کی وجہ سے ہمارے جماعتی پروگراموں کا حرج نہیں ہونے دیا۔ کورنگی کے جس علاقے میں ہم رہتے تھے وہاں سے تین بسیں بدل کے احمدیہ ہال پہنچا جاتا تھا۔ ہفتہ میں دو دن مجھے اور چھوٹی بہن کو ساتھ لیکر پہنچتیں صرف اس لئے کہ ہم جماعت کی خدمت گزار بزرگ، مہربان اور شفیق ہستیوں کے ساتھ وقت گزاریں انکی نصائح سنیں، صوفیہ چٹھہ آنٹی کی قرآن کلاسز، پمی آنٹی کی فقہ کلاسز اور بشری داؤد آنٹی، امتہ الباری ناصر آنٹی، امتہ الحفیظ بھٹی آنٹی اور دیگر بہت سی مہربان ہستیاں جو اب بھی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں کی صحبت اور محبت میں گزارے۔ لمحات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اسکے علاوہ بھی ہمیشہ اپنے عمل سے جماعت کی محبت، خدمت دین کی اہمیت، عہدیداران کی محبت و عزت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش میں رہتیں۔
خلافت جوبلی کے سال میں بہت محنت اور لگن سے اپنی نواسیوں اور بہوؤں کو ترجمہ القرآن سکھایا اور عائشہ میڈل کے پرچے دینے کے لیے انکی بھر پور مدد کی آپکی بھر پور توجہ اور محنت سے آپکی تینوں بہوؤں اور کمسن نواسیوں جنکی عمریں اسوقت بارہ اور دس سال تھیں نے سارے امتحان پاس کر کے عائشہ میڈل حاصل کئے، الحمدللہ۔ بیشک یہ وہ قرض ہیں جو کبھی اتارے نہیں جا سکتے
دعا ہے کہ ہر احمدی ماں اپنی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ اپنی اولاد کو جماعت سے وابستہ کرنے والی ہو آمین
- مکرم اے آر بھٹی لکھتے ہیں :
تمام مضامین تحریرات جو الفضل آن لائن میں ہم پڑھتے ہیں ان کا کوئی ثانی نہیں اگر ان پر عمل ہو تو ہمارے دونوں جہاں سنور سکتے ہیں اوراس سلسلہ میں پوری کوشش ہونا چاہئے۔ مضمون بابت والدہ کے صلہ کے بارہ میں پڑھ کر عجیب سی کیفیت ہوئی کہ ماں تو صرف اولاد کے لیے عمرکے آخری حصہ تک فکر مند رہتی ہے چاہے وہ خود کتنی ہی پریشان کیوں نہ ہو۔
ماں کی خدمت کا صلہ اولاد کیا دے گی
جس کی قسمت میں ہوجنت کی خوشخبری دینا
ماں تو ماں ہے دنیا میں کہاں ملتی ہے
جس کی گود میں بے فکری سے سو جانا
الفضل کی تمام تحریرات فکر انگیز ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات اور حضرت بانی جماعت اور خلیفہ وقت کے فرمان بھی ہماری راہنمائی کا موجب ہیں۔ اس روزنامہ میں جماعت کی ترقی اور فقہی مسائل کا حل بھی ہمیں بخوبی مل جاتا ہے غرض یہ کہ یہ روزنامہ ہماری بہترین نشونما کر رہا ہے۔ میں روزنامہ الفضل کے تمام خدمت کرنے والوں کے لئے دعا گو ہوں۔
- مکرمہ ثمرہ خالد۔ جرمنی سے لکھتی ہیں :
مورخہ 12فروری کی اشاعت میں اداریہ ’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘
ماں کی عظمت کو بہترین خراجِ تحسین تھا۔ درحقیقت صرف ایک یہی رشتہ ہےجو ہر قسم کے منفی جذبہ سے پاک، بے غرض وبے لوث محبتیں لٹانے والا اور اولاد کے حق میں ہمیشہ مجسم دعاہوتا ہے۔ خاکسار کی والدہ محترمہ آج سے 25 سال قبل باعثِ کینسر وفات پا گئیں تھیں۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے پاس وقت کم ہے وہ تو ہمارے لئے ہمہ وقت مجسم دعا بن گئیں۔ اس سوچ کے ساتھ کہ اپنے کمسن بچوں کے لئے دعاؤں کا خزانہ چھوڑ جاؤں۔ عاجزہ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ان کی بیماری اور تکلیف دہ وقت میں دل وجان سے ان کی خدمت کی توفیق ملی۔ (الحمد اللّٰہ علی ذلک)
اللہ تعالیٰ ہر ایک کو والدہ کے مقام کو سمجھتے ہوئے ان کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ہر ماں کو اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائے، آمین۔
- مکرمہ درثمین احمد۔ جرمنی سے لکھتی ہیں :
واقعی بعض قرض ایسے ہوتے ہیں جو کبھی نہیں اتارے جا سکتے۔ گزشتہ دو دن سے یہی خیال بار بار آرہا ہے کہ لوگ تو ایک ماں کا قرض نہیں چکا پاتے، میں تو ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جنہیں دو دو ماؤں کا پیار، احساس، مامتا، شفقت نصیب ہوئی، بلکہ دو بھی نہیں تین ماؤں کی توجہ حاصل رہی ہے، الحمدللّٰہ۔
اس خوش نصیبی پر میں ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والے رب کی شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب بارہ سال کی عمر میں، میں نے اپنی والدہ کو کھویا، ہم چار بہن بھائی تھے اور سب کے سب مجھ سے چھوٹے تھے۔ کہتے ہیں کہ پالنے والے کا حق پیدا کرنے والے سے بڑا ہوتا ہے۔ یہ جملہ سننے میں جسقدر آسان ہے برتنے میں اتنا ہی کٹھن ہے۔ اس کا احساس آج مجھے خود ماں کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی اولاد کی محبت تو قدرتی طور پر ماں کے دل میں ڈالی ہوئی ہوتی ہے مگر کسی دوسری عورت کی اولاد کو سینے سے لگا کر رکھنا اور پروان چڑھانا یہ حوصلہ اور ظرف کسی کسی میں ہوتا ہے۔ اور میں آج اس اخبار کے توسط سے اپنی اس عظیم ماں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں۔ جنہوں نے نہ صرف ہمیں سینے سےلگا کر رکھا بلکہ اپنی محبت سے سینچ کر پروان چڑھایا۔ ہم بہن بھائیوں کی ایسی عمدہ پرورش کی کہ آج خدا کے فضل سے ان کی چھ کی چھ اولادیں ہر لحاظ سے ایک پروقار زندگی گزار رہے ہیں۔ اور ہم سب اپنی اس ماں کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکتے۔ بس شکر گزاری اور احسان مندی کا جذبہ ہی ہے کہ دل سے اپنے ماں باپ کے لئے ہر لمحہ دعائیں ہی نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں لمبی صحت و سلامتی والی زندگی دے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ مرحومہ اور میری ساس مرحومہ (تیسری ماں )کے بھی درجات بلند فرمائے اور انہیں اپنی رضا کی جنتوں کا وارث بنائے۔ آمین ثم آمین
- مکرمہ عفت بٹ۔ ڈنمارک سے لکھتی ہیں :
آپ کے اس مضمون نے رلا دیا .آپ کے لکھنے کا انداز تصنع سے عاری ہے۔ خدا آج کے بچوں کو اپنی ماؤں اور اپنے باپوں، بزرگوں کی سچی قدر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
- مکرمہ صادقہ چوہدری۔ کینیڈا سے لکھتی ہیں :
بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے۔ یہ حقیقت بہت جان لیوا ہے۔ جس گہرائی میں اتر کر لکھاہے وہاں سےابھرنا محال ہے۔
- مکرمہ سعدیہ طارق لکھتی ہیں :
بعض قرض جو چکائے نہیں جا سکتے، بہت ہی دل چھونے والی تحریر ہے۔ آپ نے بہت اچھے طریقے سے ماں کی قربانیاں قلمبند کی ہیں۔ اللہ تعالی بہترین جزا دے۔