• 30 اپریل, 2024

جماعتِ احمدیہ کیریباس کا تعارف

جماعتِ احمدیہ کیریباس کا تعارف
اور زمین کے کناروں تک تبلیغ کا نظارہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ بار بار بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس نشان کو ایک نئی شان کے ساتھ پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی توفیق دی۔ یہ 2015ء کی بات ہے جب مجھے مرکز کی طرف سے اطلاع ملی کہ میری تقرری کیریباس آئی لینڈ میں ہوئی ہے۔ میں نے اس وقت اپنا فون نکالا اور گوگل میپ پر تلاش کیا، بہت دفعہ زوم کرنے کے بعد بحرِاوقیانوس میں چند نقطے دکھائی دیے جن میں سےایک نقطہ کا نام کیریباس تھا۔ یہ زمین کا ایک ایسا کنارہ تھا جہاں اسلام کا پیغام جماعت احمدیہ سے پہلے کسی نے نہیں پہنچایا تھا۔ یہ چھوٹے چھوٹے جزیرے بہت دور اور دنیا سے اتنے الگ تھلگ ہیں کہ عام لوگوں نے کبھی ان کا نام تک نہیں سنا ہوگا۔ جہاں جانے کیلئے دو تین دن کا سفر کرنا پڑتا ہے یوں بھی کریباس جانے کے لیے کوئی ڈائریکٹ فلائٹ نہیں ہے۔میرا پہلا سفر ٹورانٹو (کینیڈا) سے شروع ہوا اورلاس اینجلس (امریکہ) اور پھر فجی سے گزرتے ہوئے تقریباً تیس گھنٹے کے بعد جا کرپہنچا۔ کیریباس اور اس کے اردگرد جزیرے خط استواء کے اردگرد واقع ہیں۔ اور کیریباس ان سب جزائر سے اوپر واقع ہے۔ اس وجہ سے دنیا میں سب سے پہلے دن کا آغاز کیریباس میں ہوتا ہے اور نئے سال کا آغاز بھی سب سے پہلے کیریباس میں ہوتا ہے۔ کیریباس کا ٹائم لندن ٹائم سے 12 گھنٹے آگے ہے۔ اس ملک کی آبادی تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔ اس کی لوکیشن کی وجہ سے یہاں موسم سارا سال گرم رہتا ہے۔سال میں دو ہی موسم ہیں ایک بارش کا اور ایک خشک۔

ان جزائر کی دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر ایک جزیرہ بہت سے ٹکڑوں کا مجموعہ ہے۔ جیسا کہ کیریباس جزیرہ 33 ٹکڑوں کا مجموعہ ہے جن میں سے اکیس آباد ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے جزیروں میں سفر کے لیے سمندر میں کشتی کے ذریعے سفر کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے سمندر کی لہریں اور ہوا کا سازگار ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ کیریباس آئی لینڈ ان جزیروں کی طرح ہے جو ہم ٹی وی میں دیکھتے ہیں جس میں پہاڑ، آبشاریں اور جنگلات ہوتے ہیں تو آپ غلط سوچ رہے ہیں یہ جزائر ایسے نہیں ہیں۔ جزیرہ کیریباس جیسے جزیروں کو ’’آٹول‘‘ کہتے ہیں۔ یہ آٹول دراصل آتش فشاں سے بنتے ہیں جو پانی کے نیچے سمندر میں پھٹتے ہیں۔ جب آتش فشاں پھٹ جاتا ہے تو اس کا لاوا چٹان میں بدل جاتا ہے۔ اور سطح سمندر سے اوپر نکل آتا ہے۔ پھر اس کے چاروں طرف مرجان یعنی کورل نامی سمندری زندگی بننے لگتی ہے یہ کورل بہت سخت ہوتے ہیں۔ ان کی برادری پھیلتی جاتی ہے اور وقت گزرنےکے ساتھ ریتلی زمین میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ عمل کئی ملین سال تک ہوتا رہتا ہے اور آتش فشاں سے بنی چٹان سمندر کی لہروں سے رگڑ رگڑ کر سطح سمندر سے نیچے چلی جاتی ہے۔ اور ان کورل سے بنا ایک دائرہ یا آدھا دائرہ چھوڑ جاتی ہے۔ جس کے درمیان پانی ہوتا ہے جو ’’لاگون‘‘ کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آٹول کو بننے میں 30 ملین سال لگتے ہیں۔ آٹول جزائر سطح سمندر سے صرف چند فٹ اوپر ہوتے ہیں۔ان کی زمین بالکل ریتلی اور ریگستان کی طرح ہوتی ہے۔یہ زمین زرخیز نہیں ہوتی اس لیے یہاں چند چیزیں ہی اگائی جاسکتی ہیں۔ جیسے ناریل، کیلے، پانڈانس، کدو، تارو اور بریڈ فروٹ۔

رب العالمین کی رحمتوں کے نظارے دیکھ کر انسان حیرت میں پڑجاتا ہے۔ آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ پھلوں اور سبزیوں کی اتنی کم اقسام کے باوجود بھی انسان کی تمام غذائیت کی ضروریات ان چیزوں سےپوری ہو جاتی ہیں۔ اور پیارے شافی خدا نے اپنے بندوں کے لئے بیماریوں سے شفا پانے کے لئے انتظام کیا ہے۔ انہیں مختلف پودوں کے مختلف حصوں سے مقامی لوگ ادویات تیار کر لیتے ہیں اور عام طور پر ڈاکٹر کے پاس جانے سے زیادہ ان ادویات کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس آئی لینڈ کی زمین کی چوڑائی بعض جگہ پر بہت تنگ ہے بعض جگہ پر چوڑائی ایک امریکی ہائی وے کے برابر ہے۔ یہ جزیرہ سطح سمندر سے صرف دو میٹر کی بلندی پر ہے۔ گلوبل وارمنگ والوں نے یہ وارننگ دی ہے کہ بس اگلے 70 سالوں میں کیریباس دنیا کے نقشے سے مٹ سکتا ہے۔ یہ قوم عام طور پرپسماندہ ہے۔

کیریباس کے متعلق ایک دلچسپ تاریخی واقعہ ہے کہ لفظ کیریباتی کا تلفظ اصل میں کیریباس ہے۔ لیکن جب عیسائی مشنری اس ملک میں آئے اور انہوں نے بائبل کا مقامی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا اور اس کام کے لیے جو ٹائپ رائٹر استعمال کی ضرورت تھی اس کا ’’s‘‘ کے حرف کا بٹن خراب نکلا جس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ جہاں حرف ’’s‘‘ کی ضرورت ہوتی وہاں پانچ دفعہ ’’T‘‘ لکھ دیتے اس طرح کیریباس کے سپیلنگ کیریباتی ہو گئے۔ کیریباس کی کوئی تحریری زبان نہیں تھی لیکن جب عیسائی مشنری وہاں آئے تو انہوں نے لکھنے کے لیے انگریزی زبان کے حروف استعمال کرنے شروع کیے۔

کیریباس کی زبان میں حرف ’’ل‘‘ نہیں ہے چنانچہ حال ہی میں ایک نئے احمدی نے فارم پُر کرتے ہوئے اپنے مذہب کا نام لکھا یعنی مسلم۔

کریباس میں احمدیت کا نفوذ

آج سے تقریبا تیس سال پہلے 1987ء میں حضرت خلیفۃ المسیحِ الرابع رحمہ اللہ کی بابرکت راہنمائی میں اسلام کے ایک سپاہی حافظ جبرائیل احمد سعید صاحب مرحوم نے اس زمین پر قدم رکھا۔ اس نوجوان مشنری کا تعلق گھانا سے تھا اور آپ کی تقرری مندرجہ ذیل جزائر پہ ہوئی:

Tuvalu, Solomon Islands, Marshall Islands, Federated States of Mirconesia (FSM) and Kiribati

کیریباس میں اس کے علاوہ مختلف وقتوں میں مشنری خدمات سرانجام دیتے رہے جو مندرجہ ذیل ہیں: مبلغ سلسلہ عمر فاروق یحییٰ صاحب، مبلغ سلسلہ ابراہیم آرکوہ صاحب، مبلغ ومربی سلسلہ احتشام الحق محمود کوثر صاحب اور خاکسار مبلغ و مربی سلسلہ خواجہ فہد احمد۔

حافظ جبرائیل سعید صاحب کو سب سے پہلے جزیرہ طوالو میں تعینات کیا گیا۔آپ نے آٹھ سال تک جزائر میں خدمات سر انجام دیں اور دوسرے جزائر کے کئی دورے کیے۔ جب حافظ جبرائیل کیریباس تشریف لائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے آنے سے پہلے ہی اسلام کا پودا اس جزیرہ میں لگا دیا تھا۔ اس وقت پورے آئی لینڈ میں ایک بھی مسلم نہیں تھا۔ کیریباس کی ایک نوجوان عورت جس کا نام ’’میلے‘‘ تھا کو کہیں سے قرآن مجید کا ایک نسخہ ملا۔ وہ قرآن پڑھ کر اتنی متاثر ہوئی کہ دل سے اس پر ایمان لے آئیں اور اپنے طور پر عبادت شروع کردی سوائے سجدے کے اس کو نماز پڑھنے کا طریقہ معلوم نہیں تھا جب اس کے والد نے اس کو نئے طریقے سے عبادت کرتے دیکھا تو اس نے شدید غصے کا اظہار کیا اور قرآن مجید کو پھاڑنے کی دھمکی دی۔ اس نے جواب میں اپنے باپ کو کہا کہ تو پھر بائبل کے بھی وہ صفحات پھاڑ دینے چاہیے جن میں حضرت عیسیؑ کا خدا کے آگے سجدہ کا ذکر ہے۔ وہ اپنے عقیدہ پر بہت بہادری سے قائم رہیں اور اپنے خاندان اور اردگرد کے لوگوں میں مسلمان کے نام سے مشہور ہو گئی۔ جب حافظ جبریل صاحب کیریباس پہنچے تو انہوں نے آس پاس پوچھا کہ یہاں کوئی مسلمان ہے تو سب نے میلے کے گھر کی طرف اشارہ کیا بعد میں اس کو انیسہ نام دیا گیا۔ آپ کے آنے کے بعد انیسہ نے اسلام کی تعلیمات سیکھی اور ان کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے کیریباس جماعت کو انیسہ کی صورت میں سلطان نصیرہ عطا کیا۔ جو آج بھی کیریباس جماعت کے لیے قابل تقلید وجود ہے۔

کیریباس میں اسلام احمدیت کے علاوہ عیسائی مذہب کے فرقے:

Catholicism, Protestant, Jehovah Witness, Seventh Day Adventists, Latter Day

Saints/Mormonism, and Bahaism موجود ہیں۔

کری باس میں احمدیہ مسجد

کیریباس اور اس کے ارد گرد کے جزائر میں سوائے جماعت احمدیہ کے کسی مسلمان فرقے کی مسجد نہیں ہے۔ غیر احمدی مسلمانوں نے اپنے سینٹر قائم کرنے کی کوشش کی لیکن یہاں کی سخت زندگی اور مشکلات کی وجہ سے وہاں ٹھہر نہیں سکے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلیفۃ المسیح ِالخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں ان جزائر میں اسلام کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے۔اور جماعت احمدیہ کی مساجد اور مشن تعمیر کیے گئے ہیں۔

کیریباس میں زندگی بہت ہی سادہ ہے اور باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ چند سال پہلے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے مقامی ممبران کا ایک وفد لندن گیا امیگریشن آفسر نے ایک ممبر سے پوچھا کہ تمہاری کتنی آمدن ہے اس نے جواب دیا کہ اس کی بیوی اسکول ٹیچر ہے اور وہ پچاس ڈالر کماتی ہے۔ امیگریشن آفسر نے چونک کے پوچھا کہ اتنی کم آمدن میں گزارا کیسے ممکن ہے تو اس نے مسکرا کر کہا کہ ہمیں اپنے جزیروں میں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم کو گھر کی ضرورت ہوتی ہے تو لکڑی درخت سے کاٹ کر گھر بنا لیتے ہیں اور کھانے کی ضرورت ہوتی ہےتو سمندر سے مچھلی پکڑ لیتےہیں۔ یا درخت سے کوئی پھل توڑ کر کھا لیتے ہیں۔ زیادہ تر مقامی لوگوں کی زندگی اس قدر سادہ ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے یہ لوگ عموما ننگے پاؤں چلتے ہیں۔ ان کے گھر کی چھت ہوتی ہے لیکن دیواریں نہیں ہوتی، باتھ روم بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے لیکن وقت کے ساتھ ان جزائر میں تبدیلی آ رہی ہے۔ درآمد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔چند سال سے یہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر ہے۔چاول کی امپورٹ کی وجہ سے مقامی لوگ تینوں وقت چاول کھانا پسند کرتے ہیں۔ چینی کا استعمال بھی لوگ بے تحاشہ کرتے ہیں۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے لوگ پانی میں چینی ملا کر پیتے ہیں جماعت کے ایک ممبر نے مجھے بتایا کہ بہت پہلے جب صرف کنویں کے پانی کا پانی دستیاب تھا۔وہ کڑوا تھا۔ اس کو پینا بہت مشکل ہوتا تھا جب چینی دستیاب ہوگی تو لوگوں نے پانی میں چینی ملانا شروع کر دیں پھر یہ نسل در نسل معمول بن گیا۔دارلخلاقہ تاراوا میں چینی کی وجہ سے نصف آبادی ذیا بطیس کا شکار ہوگئی ہے۔

جماعت احمدیہ کی مخالفت

یہاں کے لوگ مہربان اور خوش مزاج ہیں لیکن مختلف مذاہب کی وجہ سے آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جس میں مغربی میڈیا نے بھی اسلاموفوبیا بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی سادہ طبیعت کی وجہ سے ان کی باتوں میں آجاتے ہیں اور اسلام کو قاتل مذہب پکارتے ہیں۔ یہ لیبل بعض اوقات دوسرے مذہبی لوگوں کی ذریعے کیاجاتاہے۔ جب سے جماعت احمدیہ قائم ہوئی ہے تمام مبلغین بہت محنت سے ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔چند سال پہلے کی بات ہے کہ کیریباس کے عوام نے اپنے صدر مملکت سے شکایت کی کہ قاتلوں کو اپنے ملک کے اندر آنے کی اجازت کیوں دی ہے؟ اس پر ملک کے صدر نے اسلام کا دفاع کیا۔ کیونکہ وہ جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلامی تعلیمات سے خوب آگاہ تھے اوران کو کہا کہ میں نے قرآن مجید پڑھا ہے اور میں اسلامی تعلیمات کو جانتا ہوں اور یہ کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے۔یہاں احمدی مبلغین نے مخالفت کو بڑے ہمت اور حوصلہ سے برداشت کیا جیسا کہ ایک واقعہ ہے جو سابق مشنری مبلغ سلسلہ احتشام الحق کوثر کو پیش آیا جب وہ مائکرونیشیا قریبی آئی لینڈ میں خدمت انجام دے رہے تھے۔ جس گاؤں میں مربی صاحب کی تقرری ہوئی وہاں اتنی مخالفت تھی کہ وہاں کے لوگوں نے ان کے گھر کا پانی بند کر دیا جب ساتھ والے گاؤں کے لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اس بات کو انسانیت کے خلاف سمجھتے ہوئے مربی صاحب کے گھر پانی پہنچانے کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ اسی طرح ایک آدمی جب بھی مربی صاحب کے پاس سے گزرتا ان پر پتھر پھینکتا اور گالیاں دیتا لیکن مربی صاحب جواب میں مسکرا کر کہتے السلام علیکم میرے دوست آپ کیسے ہیں؟ آخرکار کچھ عرصے کے بعد مربی صاحب کے حسن سلوک کو دیکھ کر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور معافی مانگی اور بعد میں بہت عزت سے پیش آنے لگا۔ جیسے کہ قرآن مجید میں آتا ہے‘‘ اور جب جاہل انسان ان سے مخاطب ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو‘‘۔ مبلغین کو ہی صرف سخت حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ ان لوگوں کو بھی بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں جو اسلام قبول کرتے ہیں اور اپنی ایمان کی حفاظت کرتے ہیں۔

کیریباس کا معاشرہ خاندان اور برادری سے بہت جڑا ہوا ہے۔ جہاں انسان اپنے پڑوسیوں کے لئے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے الگ ہونا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب کوئی بھی ان میں سے اسلام قبول کرتا ہے تو ان کے خاندان اور برادری ان کو گھر سے نکال دیتے ہیں اور بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔اس کے علاوہ وہاں کے پادریوں کی طرف سے بھی لعنت کی دھمکیاں آجاتی ہیں۔ ان سب مشکلات کے باوجود اسلام کی روشنی ان کے دلوں تک پہنچتی ہے تو وہ خوشی سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں آنے والی ہر تکلیف کو برداشت کر لیتے ہیں۔ کریباس میں کچھ مذہبی رہنماؤں نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خوف پیدا کر دیا ہے کہ اگر وہ ان مذہبی رہنماؤں کی باتوں پر عمل نہیں کریں گے تو ان پر لعنت بھیجی جائے گی۔ ایسا ہی ایک واقعہ چند سال پہلے پیش آیا جب ہماری جماعت کا پری اسکول اچھی اور مفت تعلیم کی وجہ سے مشہور ہو رہا تھا۔ گاؤں کے لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے کیتھولک پری اسکول چھوڑ کر احمدیہ مسلم پری اسکول میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی۔ کیتھولک اسکول کا لوکل لیڈراور پادری نے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ ’’جو بھی مسلم پری اسکول جائے گا اس پر لعنت بھیجی جائےگی‘‘۔ یہ سن کر بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو ہمارے احمدیہ پری اسکول سے نکالنا شروع کر دیا۔ احمدیہ مسلم جماعت کے صدر صاحب پریشان ہو کر خاکسار کے پاس آئے اور کہا کہ اب ہم کیا کریں گے؟ پادری نے ہم پر لعنت بھیجی ہے اور بہت سے طالب علم چھوڑ کر جارہے ہیں۔ پھر میں نے ان کو لفظ ‘‘لعنت’’ کا مطلب سمجھاتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس نے ہم پر لعنت بھیجی ہے، اس لیے اب ہمارا کام ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بائبل اور قرآن پاک سے اس لفظ کے صحیح معنی سے آگاہ کریں۔ اور پھر یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اس واقعہ کے بعد کیتھولک پری اسکول میں حاضری کم ہونے لگی اور ہمارے پری اسکول میں حاضری بڑھنے لگی۔ ایک سال کے اندر کیتھولک چرچ کو اپنا پری اسکول بند کرنا پڑا۔ آج احمدیہ پری اسکول اتنا مشہور ہے کہ آس پاس کے گاؤں کے بچوں کے والدین بھی اپنے بچوں کو یہاں بھیجتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارے اسکول میں ہر سال 50 سے زیادہ بچے داخل ہوتے ہیں۔

احمدیت، عافیت کا حصار

کیریباس میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے شراب، نشہ آور چیزوں میں برے طریقے سے ملوث تھے۔ اس کے علاوہ ایک نہایت خطرناک نشہ جس کو کاوا کہا جاتا ہے۔جو فیجی میں بنتا ہے۔ اور دوسرے جزیروں میں برآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے اتنے بد اثرات ہیں کہ آہستہ آہستہ انسان کے جسم کو چند گھنٹوں کے لیے مفلوج کر دیتا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں کا معاشرہ ان نشہ آور چیزوں کی دلدل میں بری طریقے سے پھنسا ہوا ہے۔کہ اس سے چھٹکارا پانا ان کے لئے بہت مشکل ہو گیا ہے یہاں تک کہ ان کے مذہبی لیڈر بھی اس نشے آور جوئے کے شکار ہیں۔ جو کہ آئندہ نسلوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ان حالات میں اسلام احمدیت ہی ان کے لیے عافیت کا ایک حصار ہے۔جب یہ لوگ احمدیت قبول کرتے ہیں تو اسلام کی تعلیمات کی وجہ سے ان کا طرزِ زندگی بالکل تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ بہترین روحانی زندگی کے سفر پر چل پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان برائیوں سے نجات پا لیتے ہیں اور اپنے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔کیریباس میں مخالفت کی وجہ سے کئی برسوں تک جماعت احمدیہ اپنی کوئی مسجد تعمیر نہ کر سکی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور انور کی دعاؤں کی بدولت تیس سال بعد 2017 میں کیریباس کی پہلی مسجد تعمیر کی گئی جس کا نام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الاحد رکھا اور 2018 میں ایک دوسرے گاؤں میں مشن ہاؤس جس کا نام بیت العافیت رکھا گیا۔ اس کے علاوہ جماعت احمدیہ کیریباس نے اپنا پہلا جلسہ سالانہ 2017 میں بڑی کامیابی کے ساتھ منعقد کیا۔

جماعت احمدیہ نے ایک پسماندہ گاؤں میں مسلم اسکول شروع کیا۔ جہاں پر غریب بچوں کے لیے تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا اس اسکول میں اچھی تعلیم کے علاوہ اس میں کوئی فیس نہیں ہے یہاں کی حکومت کی طرف سے کوئی قانون نہیں ہے کہ ہر بچہ اسکول جائے۔ اس لیے غریب ماں باپ فیس نہ دے سکنے دینے کی وجہ سے بچوں کواسکول نہیں بھیجتے۔ اس لئے جماعت کا یہ اسکول ان کے لئے نعمت عظمیٰ ہے۔ ابھی تک ہمارے پری اسکول کی پانچ گریجویشن تقاریب منعقد ہو چکی ہیں۔ اور 80 سے زیادہ بچے گریجوایٹ ہو کر اگلی کلاسوں میں جا چکےہیں۔ جماعت احمدیہ کیریباس سالانہ اجتماع کے موقعہ پر کھیلوں کا پروگرام بھی منعقد کرتی ہے۔ ہماری ایک احمدیہ مسلم ساکرلیگ ہے جس میں 60 سے زیادہ کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ اور یہ سارا پروگرام جماعت کی پراپرٹی میں منعقد کیا گیا۔اس کے علاوہ یہاں لجنہ امااللہ نے بھی بڑی پیش رفت کی ہے اور اپنا سالانہ اجتماع اور تربیتی کیمپ کا انعقاد کیا ہے۔ اللہ کے فضل سے ہر سال کیریباس میں لوگ جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہے ہیں اور دن بدن دنیا کے اس گوشے میں جماعتیں اس بات کو ثابت کر رہے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے اور کیریباس کے پسماندہ باشندوں کے لئے ایسا ہی مکمل دین ہے جیسا کہ ایک ترقی یافتہ ملک کے باشندوں کے لئے یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔

(خواجہ فہد احمد۔ کریباس)

پچھلا پڑھیں

اسکاٹ لینڈ میں جماعت احمدیہ کا قیام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 مارچ 2022