• 5 مئی, 2025

تعارف سورۃ البقرہ

(مدنی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 287 آیات ہیں)

مکرم وقار بھٹی نے ترجمۃالقرآن انگریزی از ملک غلام فرید میں درج سورتوں کے تعارف کا اردو ترجمہ قارئین روزنامہ الفضل لندن آن لائن کے لئے بطور مائدہ تیار کرنے کا عزم کیا ہے۔ آج اس سلسلہ میں سورۃالبقرہ کا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قارئین کے لئے استفادہ کا باعث بنائے اور موصوف کو یہ کام مکمل کرنے کی توفیق دے۔آمین

(ایڈیٹر)

وقتِ نزول اور متن

یہ سورۃ قران کریم کی سب سے طویل سورۃہے جو مدینہ میں ہجرت کے پہلے چار سالوں میں نازل ہوئی اور اس کو البقرہ کہا جاتا ہے۔ یہ نام آنحضرت ﷺ سے مروی ہے اس سورۃ کا عنوان اس کی آیات 68 تا 72 سےمنتخب شدہ معلوم ہوتا ہے۔ جہاں یہودیوں کا ایک اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ یہودی ایک لمباعرصہ مصر میں غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے اور فراعین کا ظلم سہتے رہے جو گائے کے پجاری تھے۔ جیسا کہ بالعموم غلام اقوام میں ہوتا ہے یہودیوں نے بھی بغیر سوچے سمجھے مصریوں کے رسم و رواج اپنا لئے اور نتیجتاً گائے کے لئے ان کے دل میں ایک خاص محبت اور مقام پیدا ہوگیا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں سےایک خاص گائے کو ذبح کرنے کا کہا جو ان کے درمیان ایک معبود کی حیثیت اختیار کر گئی تھی تو انہوں نے اس بات پر بہت بحث کی اسی واقعہ کی طرف آیات 68 تا 72 اشارہ کرتی ہیں۔

البقرہ کے علاوہ اس سورۃ کا ایک نام الظھراء بھی ہے اور سورۃ البقرہ اور آل عمران دونوں کو الظھروان بھی کہتے ہیں۔یعنی دو نہایت روشن اور چمکدار۔(صحیح مسلم) آنحضرت ﷺ نےفرمایا ہے کہ ’’ہر چیز کا ایک بلند ترین مقام ہوتا ہے اور قرآن کریم کا بلند ترین مقام سورۃ البقرہ ہے۔‘‘

(جامع ترمذی)

اس سورۃ کو سورۃ الفاتحہ کےعین بعد میں رکھا گیا ہے کیونکہ یہ ان جملہ سوالات کے جواب بیان کرتی ہے جوقاری کے ذہن میں سورۃ الفاتحہ کے بعد قرآن کریم کے متن کے آغاز میں ابھرتے ہیں۔ اگرچہ سورۃ الفاتحہ اجمالاً قرآن کریم کی جملہ سورتوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے تاہم سورۃ البقرہ کے ساتھ اس کا خاص تعلق ہے۔ جو اس دعا کی قبولیت کے طور پر ہے کہ ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا……… جو مغضوب نہ ہوئے۔‘‘ یقیناً سورۃالبقرہ میں جو نشانیاں بیان کی گئی ہیں کتاب اورحکمت کی تعلیم سے نوازا گیا ہے اور تزکیہ کے ذرائع کا ذکر ہے (البقرہ:130) یہ امور اس دعا کی قبولیت کے لئے نہایت موزوں اور تسلی بخش جواب مہیا کرتے ہیں۔

مضامین سورۃ البقرہ

بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم اس سورۃ سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ اس کی پہلی آیت میں ہے کہ یہ ایک( کامل )کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔جبکہ سورۃالفاتحہ جو کہ اپنی ذات میں پورے قرآن کا خلاصہ ہے اور اہم ترین جزوہےاپنا ایک الگ اور منفرد مقام رکھتی ہے۔ جس کا ذکر سورۃ الحجر کی آیت 88 میں یوں کیا گیا ہے کہ ’’اور یقیناً ہم نے تجھے سات بار بار دہرائی جانےوالی (آیات) اور قرآن عظیم عطا کئے ہیں۔‘‘

سورۃ البقرہ کے مضامین کی تفصیل اور ترتیب اس کی آیت 130 میں نہایت پر حکمت انداز میں بیان کی گئی ہے۔ اس آیت میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جس میں آپ نے اہل مکہ میں ایک نبی مبعوث کرنے کی التجا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی ہے۔اور اس نبی کی نشانیاں یہ بتائی ہیں کہ

  • وہ ان کو اللہ کی آیات پڑھ کر سنائے۔
  • ایسی عالمگیرکتاب ان کو دے جو کامل شرعی احکام رکھتی ہو۔
  • ان شرعی احکام کی حکمت بھی واضح کرے۔
  • ایسے کامل ضابطہ اخلاق پر مبنی ہو جو ان کے تزکیہ کا باعث بنے اور انہیں ایک طاقتور قوم بنا دے اور ساری دنیا کی ہدایت کا موجب ہو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن چار مقاصد کے لئے دعا کی ہے اس سورۃ میں اسی ترتیب سے ان چاروں مقاصد کو بیان کیا گیا ہے چنانچہ آیات کا ذکرپہلی 168 آیات میں ہے،کتاب (شرعی احکامات) اور حکمت کی تعلیم آیات 169 تا 243 میں دی گئی ہے۔جبکہ قومی ترقی اور تزکیہ کی تعلیم آیات 244 تا 287 میں ہے۔

آیات کے پڑھے جانے سے مراد آنحضرت ﷺ کی صداقت کے دلائل ہیں۔ کتاب اور حکمت سکھانے سے مراد وہ شرعی احکام ہیں جو اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں اور ان کی حکمت اور فلاسفی بھی سا تھ ساتھ بیان فرمائی گئی ہے اور آخر پر حضرت ابراہیم ؑ کی دعا میں جس تزکیہ کا ذکر ہے وہ ان قوانین پر منتج ہوا ہے جن کی طرف اس سورۃ میں قومی ترقی کے حصول کی خاطر توجہ دلائی گئی ہے ۔

اس سورۃ کے40 رکوع اور 287 آیات ہیں ۔اس سورۃ کے آغاز میں تین بنیادی عقائد کا ذکر ہے جن میں خدا پر ایمان،وحی و الہام اور حیات بعد الموت پر ایمان شامل ہیں جبکہ دو عملی احکام یعنی نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ہے۔بقیہ آیات انہی احکامات کی تفصیل ہیں۔

(سورۃ الفاتحہ میں کی گئی) دعائے ہدایت کے جواب میں اس سورۃ کے آغاز میں ہی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کامل ضابطہ قوانین پر مشتمل ہے جس میں جملہ حقائق جو صحفِ سابقہ میں پائے جاتے ہیں موجود ہیں اور مزید حقائق بھی جو ان میں بیان نہیں ہوئے اور یہ کتاب انسان کو اعلیٰ روحانی مدارج کے حصول کے لئے بہترین رہنمائی کرتی ہے ۔

دوسرے رکوع میں زبانی ایمان کے دعاوی ( منافقت) کا ذکر کیا گیا ہے یعنی ایسے بودے ایمان کا جس کی جڑیں دل میں پیوست نہ ہوں۔تیسرے رکوع میں وہ معیار بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق قرآن کریم کی صداقت کو جانچا جاسکتا ہے۔ اس غرض کے لئے اس مادی دنیا میں ہونے والی تدریجی ترقی کو معیار بنایا گیا ہے یہی تدریجی ترقی روحانیت میں پائی جاتی ہے۔

اس کے بعد روحانی دنیا کے پہلے وجود حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے آپ وہ پہلے وجود ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی وحی سے مشرف فرمایا۔چوتھے رکوع میں ہمیں آنحضرت ﷺ پر ہونے والے اعتراضات سے مطلع کیا گیا ہے ۔مگر یہ اعتراضات آپ ﷺ کی صداقت سے دور نہیں کر سکتے جیسا کہ ایسے اعتراضات حضرت آدمؑ کی صداقت کو دور نہیں کر سکے۔

اگلےبارہ رکوع یعنی رکوع نمبر5 تا 16 میں حضرت آدم علیہ السلام پر جلوہ گر ہونے کے بعد نئی وحی کا اعادہ کرنے کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ مادی ترقی کی طرح روحانی ترقی کے مدارج طے کرنے کے لئے ہر دور میں خدا تعالی اپنی وحی نازل فرماتا چلا آیا ہے اور ہر وحی اپنی سابقہ وحی سے زیادہ اعلیٰ تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نےایک نئی شریعت کی بنیاد رکھی۔ آپؑ کے بعد پے در پے انبیاء بھجوائے گئے ۔جن کو بنی اسرائیل کی مخالفت اور ظلم و تعدی کا سامنا رہا۔ مستقل طور پر خدائی احکام کی نافرمانی اور ظلم وتعدی کے باعث بنی اسرائیل خدا کی نظر سے گر گئے اور بائبل کی پیشگوئیوں کے مطابق نبوت بنواسماعیل کو منتقل ہوگئی اور عرب کے بیابان اور ویران علاقہ مکہ میں آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے۔جن کو اکمل ترین شریعت دی گئی۔ اس بات نے بنی اسرائیل کو غم و غصہ سے بھر دیا جبکہ ان کو نبوت سے محروم کئےجانے پر ایسےاظہار کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف آپﷺ کی بھرپور مخالفت کی بلکہ آپ کو ناکام و نامراد کرنے کی سرتوڑکوششیں کیں ۔مگر الہٰی تدبیر کے سامنے کبھی کوئی مخالفت کامیاب نہ ہوسکی۔

اگلے دو رکوع (17 اور 18) میں بنی اسرائیل کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ آخر کیوں آپ ﷺ نے جملہ سابقہ انبیاء کے قبلہ کو الوداع کہہ کر مکہ کو قبلہ اپنایا۔بان کو سب سے پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ کسی عبادت میں خاص رخ کو اپنانا کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر بحث کی جائے اس کا بنیادی مقصد لوگوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنا ہے۔ دوسرا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں بنو اسماعیل کے لئے یہ دعا کی گئی تھی اور یہ پیشگوئی تھی کہ مکہ ایک دن مقام حج بنے گا اور خانہ کعبہ ان حاجیوں کا قبلہ ہوگا۔

رکوع نمبر 19 میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو کفار کی طرف سے توحید کے پرچار کے مشن میں سخت مخالفت کا سامنا ہوگا اور یہ مخالفت فتح مکہ تک جاری رہے گی۔ رکوع نمبر 20میں اس اعلیٰ صداقت کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ جو کچھ بھی گزشتہ مضامین بیان کئے گئے ہیں وہ محض اٹکل پچو نہیں ہیں اور زمین اور آسمان کی پیدائش اور دن اور رات کے ادلنے بدلنے میں اورقانونِ فطرت میں یہ ناقابل تردید گواہی ہے کہ قانون قدرت کی طرح روحانی ترقی کے مدارج میں بھی تدریجی ترقی ہوتی ہے اور دوسری طرف ساری کائنات آنحضرت ﷺ کی تائید و نصرت کے لئے مسخر معلوم ہوتی ہے۔

رکوع نمبر 21 کے ساتھ ہی شرعی احکامات اور ان کی حکمتوں کا بیان شروع ہو جاتا ہے ۔ اور سب سے پہلے حلال اور حرام غذا کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کیو نکہ انسا ن کے عمل کا تعلق اس کی ذہنی حالت سے ہے اور ذہنی حالت پر غذا غیرمعمولی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔رکوع نمبر 23میں اسلامی تعلیمات (ایمانیات) کا ذکر گیا ہے جن میں اللہ، حیات بعدالموت، صحف سابقہ اور رسولوں پر ایمان شامل ہے۔ اسی طرح دیگر نیکیوں میں دوسروں سے اچھا سلوک کرنا،عبادت کرنا اور مالی امداد کے ذریعہ قومی فائدہ پہنچانے کو شامل کیا گیا ہے۔ان نیک باتوں میں تنگی اور تکلیف میں صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا اور اپنے عہد و پیمان پورےکرنا بھی شامل ہے۔عدل و انصاف کو قائم کرنا،عزیز رشتہ داروں کی جائز مدد اور معاشرتی قوانین کی پاسداری جن میں وراثتی قانون کو خاص طور پر اہمیت دے کر بیان کیا گیا ہے۔اسی رکوع میں روزہ کے ذریعہ للٰہی ریاضت کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

رکوع نمبر24 اور 25میں مناسکِ حج کی تفصیل بیان کی گئی ہے جو قومی یکجہتی کو اجاگر کرنے اور مسلمانانِ عالم کی وحدت کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے اسلامی عبادت ہے۔ رکوع نمبر 26 میں شرعی احکامات کی فلاسفی پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر بالخصوص توجہ دینی ضروری ہے کیونکہ ظاہری اعمال کا باطنی پاکیزگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔پھر یہ بتایا گیاہے کہ عمومی طور پر شرعی احکامات سے روگردانی اس لئے کی جاتی ہے کہ انسان اپنا وقت اور مال و دولت اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتے اور طرح طرح کے بہانے بناکر اس اہم ذمہ داری سے بھاگنا چاہتے ہیں۔درحقیقت کسی بھی قسم کی ترقی بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہوسکتی اس لئے مومنوں کو ابھارا گیا ہے کہ وہ اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت اللہ کے راستے میں خرچ کریں تاکہ مذہبی آزادی کو رائج کیا جا سکے۔

رکوع نمبر 27 میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب مذہبی آزادی کو پامال کیا جائے تو ایسی صورت میں جنگ فرض ہوجاتی ہے اور جان و مال کی قربانی کرنا لازم ہوجاتا ہے۔پھر یہ بتایا گیا ہے کہ محض وقت گزاری اور ذہنی سکون کی خاطر لوگ شراب نوشی میں ملوث ہو جاتے ہیں اور جنگ کے اخراجات اُٹھانے کے لئے جؤا کھیلتے ہیں۔اسلام ایسے بد اعمال کی مذمت کرتا ہے۔ پھر ہمیں بتایا گیا ہے کہ جنگوں کے بعد یتامیٰ کی کثرت ہو جاتی ہے جن کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اسی ضمن میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ مشرک عورتوں سے ہرگز شادی نہ کریں کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ اُن کی گھریلو زندگی میں قباحت کی صورت میں نکلے گا۔

رکوع نمبر 28 تا 31 میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ مخصوص دنوں میں عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات نہ قائم کئے جائیں جو عارضی علیحدگی کی ایک صورت ہے۔ بان ہدایات کے بعد طلاق کے قوانین وضع کئے گئے ہیں جو نسبتاً مستقل علیحدگی کی صورت ہے ۔بعد ازاں رضاعت اور بیواؤں کی بابت اصول بتائے گئے ہیں۔

رکوع نمبر 32 اور 33 میں خاص طور پر ملکی ترقی کی خاطر ایسے اصول بتائے گئے ہیں جن پر عمل کرکے ایک قوم حقیقی ترقی حاصل کر سکتی ہے اور مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ طاقتور اقوام کے مقابل پر اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے اُنہیں ایک موت کو قبول کرنا ہوگا تاکہ حق اور تقویٰ پروان چڑھے۔

رکوع نمبر 34میں یہ بتایا گیا ہے کہ زمین پرہر انسان کا ٹھکانہ عارضی ہے اوراُسے چاہئے کہ اپنے خالق سے تعلق استوار کرنے کے لئے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے اور یہ مقصد خدا تعالیٰ کی صفات پر گہری سوچ و بچار کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بعد ازاں آیت الکرسی کو رکھ اگیا ہے جسے آنحضرت ﷺ نے قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ قرار دیا ہے۔ جس میں خدا تعالیٰ کی صفات کا بیان ہوا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ایسی اعلیٰ اور اکمل صفات کے مالک خدا سے تعلق جوڑنے کے لئے کسی جبر واکراہ کی ضرورت نہیں۔ (سورۃ البقرہ میں آیت الکرسی رکھ کر یہ بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ حی و قیوم خدا کو چھوڑ کر ایک گائے کو معبود بنانا کس قدر بے وقوفی اور گھاٹے کا سودہ ہے۔ از قلم مترجم)

35ویں رکوع میں یہ بتایا گیا ہے کہ تقویٰ کی جڑیں کسی بھی شخص میں خدا کے فضل سے جڑ پکڑتی ہیں جبکہ اخلاقی اقدار قوموں میں نبیوں کے ذریعہ پروان چڑھتی ہیں اور اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اس قسم کی احیاء نو حضرت ابراہیمؑ کی نسل میں چار مرتبہ وقوع پذیر ہوگی۔پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اجتماعی کوشش اور ملکی تعاون اخلاقی اقدار کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ ان اجتماعی کوششوں اور ذہنی ہم آہنگی کے نتائج مومنوں کی قربانیوں سے بہت بڑھ کر نکلتے ہیں۔

پھر جملہ لین دین کے معاملا ت میں سود کو سختی سے منع کیا گیا ہے اور سود دینے والے اور لینے والے کو خدا اور اس کے رسول کے خلاف اعلان ِجنگ کرنے والے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ سودی کاروبار باہمی ہم آہنگی اور تعاون اور دوسروں کےساتھ اچھا سلوک کرنے کی روح کے خلاف ہے۔مسلمانوں کو مزید بتایا گیا ہے کہ وہ کسی ایسی بات کی طرف توجہ نہ دیں کہ سود کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ خدانے ہر سودی کاروبار کرنے والے ملک کی تباہی مقدر کر چھوڑی ہے پھر یہ بتایا گیا ہے کہ باہمی ہم آہنگی اور تعاون کا ایک طریق یہ ہے کہ قرض دینے والا اور لینے والا قرض کی رقم کو معاہدے کی صورت ضابطہ تحریر میں لے آئیں۔ یہ سورۃ اس خوبصورت بیان پر ختم ہوتی ہے کہ اگرچہ مذکورہ بالا تمام ہدایات اخلاقی ترقی کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہیں تاہم سب سے بہترین اور یقینی ذریعہ جس سے اصل اور حقیقی ترقی حاصل ہوسکتی ہے وہ مستقل بنیادوں پراللہ تعالیٰ کی صفات میں غور و فکر اور دعاؤں کے ذریعہ الہٰی تائید و نصرت چاہنا ہے۔

از قلم مترجم: یہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورۃ کے مضامین کا خلاصہ ہے اور مرکزی خیال جو اس سورۃ کا کفار اور اہل کتاب کے لئے بیان کیا گیا وہ یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ذاتِ بابرکت اور مکہ کی بستی کے بارے میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کی دعا قبول ہوئی ہے اس لئےاگر آپﷺ کا انکار کیا جائے تو حضرت ابراہیمؑ (نعوذ باللہ) ایک جھوٹے نبی ثابت ہوتے ہیں اورنتیجتاً سلسلہ موسوی اور عیسائیت کو بھی جھوٹا قرار دینا پڑے گا۔ یوں بالواسطہ اسلام کے پیغام کی سچائی کو قبول کرنے کے لئے پوری دنیا کو پیغام دیا گیاہے کیونکہ انسان کی تخلیق ایک بہت بلند پایا مقصد کے حصول کے لئے کی گئی تھی جس تک رسائی صرف قرآن کریم کی تعلیمات کے ذریعہ ممکن ہے جو اس وقت کامل شریعت کی واحد کتاب ہے اور اپنے احکامات کی حکمت اور فلاسفی پر مفصل روشنی ڈالتی ہے جن پر ایمان لانے اور عمل پیرا ہونے سے دل کی پاکیزگی اور ہستی باری تعالیٰ پر یقین پیدا ہوتاہے۔

(وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ (23 ۔اپریل 2020 ء)