• 10 جولائی, 2025

جماعت احمدیہ دوالمیال کی تاریخی حیثیتیں

جماعت احمدیہ دوالمیال کی تاریخی حیثیتیں
دوالمیال ضلع چکوال کے حفاظتِ مرکز قادیان جانےوالے خوش نصیب خدام

دوالمیال شہر ضلع چکوال کی تحصیل چواسیدن شاہ کا ایک خوبصورت قصبہ ہے۔یہ قصبہ پاکستان میں توپ والے گاؤں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ اسلام آباد سے ڈیڑھ سو کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔چواسیدن شاہ سے کلرکہار جانے والی سڑک پر کٹاس راج کے خوبصورت قلعہ کے پاس یہ قصبہ واقع ہے۔ دوالمیال گاؤں کی طرف سے جنگ عظیم اول میں شرکت کے لئے برٹش فورسز میں 460 فوجی بھیجے گئے تھے۔

دوالمیال کوہستانِ نمک کا تاریخی گاؤں ہے جس کے 460 بہادر سپوت پہلی جنگِ عظیم میں شامل ہوئے جن میں سے 100سے زیادہ وائسرائے کمشنڈ آفیسرز تھے ۔جن میں سب سے سینئر آفیسر کپٹن غلام محمد ملک جو احمدی تھے۔ پہلی جنگِ عظیم میں دوانعامی توپیں (وکٹوریہ گنز) انعام کے طور پر دی گئی تھیں۔ ایک یورپ میں سکاٹ لینڈ کے ایک گاؤں کو اور دوسری ایشیا میں دوالمیال کو دی گئی تھی۔اس توپ کو حاصل کرنے والے کیپٹن غلام محمد ملک تھے۔اب بھی وہ انعامی توپ قریۂ دوالمیال میں تالاب کے کنارے بڑی شان سے نصب ہے اور ہمارے آباؤ اجداد کی بہادری کی داستان اور ان کی شان و شوکت کی امین ہے۔

کتاب (The History of Indian Mountain Artillery) جس کو بریگیڈیر جنرل سی۔اے۔ایل گراہم نے لکھا۔اس کے صفحہ260اور454 پر کیپٹن غلام محمد ملک سردار بہادر کے فل پیج فوٹو کے ساتھ ان کی خداداد صلاحیتوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے ۔ اسی طرح دوالمیال گاؤں کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے کتاب

(Wisdom and waste in the Punjab Village by Malcolm Lyall Darling)

کے صفحہ 51 پر لکھا گیا ہے کہ ’’دوالمیال گاؤں سے پہلی جنگِ عظیم میں حصہ لینے والے بہادر لوگوں کی تعداد 460 تھی ۔کسی بھی انڈیا کے گاؤں سے اتنی زیادہ تعداد نہ تھی اور اس طرح دوالمیال کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ جنگِ عظیم میں شامل ہونے والوں میں اس کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ 1921ء کی مردم شماری کے مطابق اس وقت دوالمیال میں بچوں بوڑھوں سمیت کل مردوں کی تعداد 879 تھی۔ جن میں سے 460 پہلی جنگِ عظیم میں شامل تھے‘‘

دوالمیال کی دوسری وجۂ شہرت جو اس سے بھی اہم ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جب قادیان کی گمنام بستی سے ایک کرن پھوٹی۔اک روشنی ابھری، اک شمع روشن ہوئی اور اس شمع کے پروانوں میں دوالمیال گاؤں کے احباب کو بھی شامل ہونے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی۔ وہ پروانے جنہوں نے اس شمع پر فدا ہوجانا اپنی زندگی کا مقصد سمجھا۔ ان سنگلاخ پہاڑوں کے باسیوں نے اس قادیان سے پھوٹنے والے نور کو جذب کیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کی دعاوی پر سر تسلیمِ خم کرتے ہوئے صداقتِ مسیح موعود پر آمنا و صدقنا کہنے اور ان کے صحابہ میں شامل ہونے کا مقام ملا۔ دوالمیال گاؤں سے 69 احباب کو صحابی حضرت مسیح موعودؑ ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔

حضرت مسیح موعودؑ کے دیوانوں کے گاؤں کے حضرت حافظ ملک شہباز خان کو دوالمیال کے سب سے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ جنہوں نے اک رؤیا میں دیکھا کہ مشرق سے اک نور ابھرا ہے اور تمام آسمان پر چھا گیا ہے اور اس نور سے تمام عالم منور ہو گیا ہے۔ جب یہ رؤیا حضرت حافظ شہباز نے دیکھی تو صبح اپنی بیٹھک میں تمام دوست احباب سے ذکر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس رویا ء کے مطابق میں یہ سمجھتا ہو کہ امام مہدی کا ظہور ہو گیا ہے۔ کچھ ہی دنوں کی بات کہ دوالمیال میں ایک سنیاسی آیا اور اس نے اسی بیٹھک میں حضرت حافظ شہباز خان اور ان کے دوست احباب کو یہ حیران کن خبر سنائی اس کے ہاتھ میں ایک اخبار تھی کہ قادیان میں ایک شخص نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت حافظ شہباز نے اس سے پوچھا تمہیں کچھ خبر ہے کہ قادیاں کس طرف ہے تو اس سنیاسی نے کہا کہ قادیان یہاں سے مشرق کی جانب ہے۔ آپ نے کہا وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے اور میں اس پر ایمان لاتا ہوں اور یوں دوالمیال میں احمدیت کی ابتدا ہوئی۔ ان لوگوں کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی جنہوں نے اللہ سے لو لگائی ہوتی ہے۔

آپ چونکہ ایک ولی اللہ بزرگ تھے ۔ اور آپ کے ایمان لانے کے ساتھ دوالمیال میں احمدیت پھیلنی شروع ہوئی۔ اور اس وقت دوالمیال قادیان سے باہر دور دراز علاقوں میں واحد جماعت تھی جس کے پاس اپنی احمدیہ مسجد موجود تھی۔ دوالمیال کے پہلے امیر جماعت حضرت مولوی کرمداد صاحب تھے اور ان کی قیادت میں وفود حضرت مسیح موعود ؑ کی زیارت اور جلسہ سالانہ پر جایا کرتے تھے آپ ایک جید عالم اور ماہرِ احادیث تھے اور آپ ایک مشہور حکیم بھی تھے آپ نے حکمت کے نسخے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی شاگردی کر کے لئے تھے۔

1927ء میں دوالمیال کے انہیں صحابہ نے اپنے ہاتھوں سے مینارۃالمسیح کے طرز کے مینارہ کی احمدیہ مسجد کی بنیادیں حضرت مولوی کرم داد کی زیرِقیادت کھودیں اور مزدوری بھی کی اور دوالمیال کے ایک احمدی مستری غلام محمد نے دو سال کی لگاتار محنت کے بعد اس مینارہ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا اور وہ مینار اب بھی اپنی آن بان کے ساتھ دوالمیال میں احمدیت کے نور کو شش جہات میں پھیلا رہا ہے۔ یہ اس وقت کی قیادت کا معجزہ تھا۔ اور ان کی احمدیت کی لگن تھی کہ ناممکن کو ممکن بنا دیا صرف 16 لکڑی کے بالوں اور 16 لکڑی کے پھٹوں کی مدد سے تقریباً 80 فٹ بلند مینار تیار کر دیا۔دوالمیال کے تیسرے امیر اور ضلع چکوال کے پہلے امیر مکرم میجر ملک حبیب اللہ خان نے مالی معاونت کی اور اس مینار پر اپنے خرچ سے 1991ء میں سنگِ مرمر لگوایا اور یہ سنگِ مرمر میجر ملک احمد سرتاج اور کپتان لعل خان کی زیرِ نگرانی لگایا گیا جس نے اس کی شان اور آن کو مزید بڑھا دیا۔

ان صحابہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی اولادوں کی تربیت بڑے احسن رنگ میں کی اور جب پاکستان بننے کے بعد حفاظت مرکز قادیان کےلئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے خدام کو تحریک فرمائی کہ وہ قادیان کی حفاظت کے لئے پیش کریں تو اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے دوالمیال کے دس خدام نے اپنے آپ کو پیش کیا اور حفاظتِ مرکز قادیان میں اپنا حصہ ڈالا اور کافی عرصہ تک وہاں ڈیوٹیاں دیتے رہے۔ دوالمیال کے ان خوش نصیب خدام کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اور ان کی خدمات کو آنے والی نسلوں تک پہچانے کی غرض سے ان کے نام درج کرنا مقصود ہے کہ اس کڑے وقت میں ان صحابہؓ کی تربیت کوسلام پیش کرنے کے لئے ان کے نام درج کئے جاتے ہیں۔

  1. مکرم ملک محمد رفیع ولد محمد اکرم
    ( آپ مکرم ملک مبارک احمد آف دوالمیال پروفیسر جامعہ ربوہ کے چچا زاد بھائی تھے اور مکرم قاضی عبدالرحمٰن دوسرے امیر جماعت احمدیہ دوالمیال کے بھتیجے اور مکرم عبدالصمد دوالمیال صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے پوتے تھے)
  2. مکرم ملک مختار احمد ولد صوبیدار ملک حبیب خان
    (جسٹس آف دی پیس ناٹنگھم سٹی،یو۔کے۔ سابق صدر جماعت احمدیہ ناٹنگھم سٹی) آپ حضرت مولوی کرمداد صحابی حضرت مسیح موعودؑ،پہلے امیر جماعت احمدیہ دوالمیال کے بھانجے تھے۔اور ایک مخلص احمدی اور دلیر داعی الٰی اللہ تھے اور خلافت سے نہایت حُب اور وفا کا رشتہ تھا۔
  3. مکرم ملک احمد خان ولد جعفر خان
    ( آپ دوالمیال کے پہلے احمدی حضرت حافظ شہباز احمد کے بھتیجے تھے اور نہایت ہی مخلص اور دلیر احمدی تھے اور احمدیت خدمت آپ کا شعار تھا)
  4. مکرم کفایت علی
    ( آپ کا تعلق دوالمیال کے حضرت مولوی فتح علی صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے تھا اور خادم کی حیثیت سے آپ کی خدمات نمایاں ہیں۔آپ ایک دلیر داعی الٰی اللہ اور مخلص احمدی تھے)
  5. مکرم ناصر احمد ولد عبدالعزیز
    ( آپ کے والد مکرم عبدالعزیز صحابی حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے دادا حضرت مولوی فتح علیؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ تھے اور آپ مخلص احمدی تھے اور آپ کی تربیت آپ کے والدین نے بہت ہی احسن رنگ میں کی۔ اور خوب بڑھ چڑھ کر آپ نے احمدیت کی خدمت کی)
    6.مکرم عبدالحفیظ
    (آپ کا تعلق دوالمیال کے حضرت مولوی فتح علی صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے تھا۔اور آپ ایک مخلص خادم اور خلافت سے وفا کا تعلق تھا۔)
  6. مکرم عبدالرحمٰن
    آپ نہایت مخلص احمدی اور دلیر داعی الی اللہ تھے۔
  7. مکرم عبدالحق ولدخدا بخش
    (ایک مخلص خادمِ احمدیت اور خدمتِ خلق میں ایک نام اور علم الانساب کے ماہر تھے۔ اور احمدیت سے دلی لگاؤ تھا)۔
  8. مکرم محمد انور ولد مہر محمد
    ( آپ کا تعلق مکرم محمد علی ولد نیامت صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے تھا۔اور نہایت مخلص احمدی تھے اور احسن رنگ میں احمدیت کی خدمت کی۔)

ان خدام نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی تحریک پر اپنے آپ کو دوالمیال سے پیش کیا جن کے آباؤ اجداد نے اس عظیم وجود حضرت مسیح موعودؑ کی قربت پائی اور اس زمانہ میں اس عظیم فرزند کی محفلوں سے فیضیاب ہوئے اور جنہوں نے اس در سے گوہرِ آبدار سمیٹے اور اس رخِ زیبا کے منہ سے پھول جھڑتے ہوئے دیکھے اوررفقاء حضرت مسیح موعودؑ کا رتبہ پایا۔ انہوں نے ہی ان خدام کی تربیت کی تھی۔ اور اب جب خلیفۂ وقت نے اس تحریک کے لئے بلایا تو دوالمیال کے ان خدام نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس تحریک میں اپنے آپ کو پیش کیا اورقادیان حفاظتِ مرکز کے لئے چلے گئے اور نہایت دلیری سے اپنی ڈیوٹیاں دیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے کہ انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی تربیت کو اپنے گلے لگا کر دین کی خدمت میں کوشاں رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند کرے اور ان کی اولادوں کو احمدیت کی بھرپور خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولاد کو ان آباؤ اجدادکی توقعات پر پورا اترنے اور احمدیت پر ثابت قدم رہنے اور خلافتِ احمدیہ سے منسلک رہنے اور زیادہ سے زیادہ احمدیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ (23 ۔اپریل 2020 ء)