• 10 جولائی, 2025

ماہر طبیب، مخلص خادم سلسلہ اور نافع الناس وجود مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی

ماہر ڈاکٹر، دیرینہ خادم سلسلہ اور نافع النّاس وجود مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی 19 جنوری 2020ء بعمر 80 سال راہی ملک بقا ہو گئے۔آپ کی وفات سے 2 ہفتے قبل آپ کی اہلیہ آپا شوکت گوہر بنت حضرت مولانا عبد المالک خان بھی انتقال کر گئی تھیں۔دونوں مرحومین کی خوش قسمتی کہ ان دونوں کا الگ الگ تذکرہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبات جمعہ میں فرمایا اور ان کے اوصاف حمیدہ اور خدمات دین کا ذکر فرمایااور پھر نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

بحیثیت طبیب اور خادم سلسلہ آپ سے تعارف تو 1980ء کی دہائی سے تھا۔ لیکن 1996ء میں محلہ دارالعلوم شرقی میں تعلق ہمسائیگی بھی قائم ہو گیا۔ جو تا دم واپسیں قائم رہا۔ یوں آپ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اور روزانہ ملاقات ہو جاتی تھی۔

مکرم ڈاکٹرلطیف احمد قریشی نے 1940ء میں اجمیر شریف میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد مکرم منظور احمد قریشی نے 1937ء میں حضرت مصلح موعود ؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔یوں ڈاکٹر صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کے والدین لاہور منتقل ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ اللّہ تعالیٰ کے فضل سے لائق طالب علم اور فرزند ارجمند تھے۔ آپ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس اعزاز کے ساتھ پاس کرکے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان تشریف لے گئے۔ دوران طالب علمی 1961ء میں آپ کا نکاح مکرمہ شوکت گوہر کے ساتھ ہوا۔ لندن سے آپ نے DCH اور MRCP کی ڈگری حاصل کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی تحریک پر آپ نے اپنی خدمات 1969ء میں جماعت کے سپرد کر دیں اور فضل عمر ہسپتال میں طبی خدمات کا آغاز کر دیا۔اس زمانہ میں ایک ماہر ڈاکٹر کا ربوہ جیسے ایک چھوٹے سے قصبہ جس میں سول سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں، طبی خدمات بجا لانا ایک غیر معمولی قربانی تھی۔

جس روز آپا شوکت گوہر صاحبہ کی وفات ہوئی اسی روز ان کے دو بھانجوں (سیّد حسین احمد صاحب کے بیٹوں) کی دعوت ولیمہ تھی۔ اس دعوت میں ڈاکٹر صاحب شریک ہوئے اور عزیزوں کی خوشیوں میں شمولیت کی۔ میری وہاں ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ نے اپنی اہلیہ کی بیماری میں بہت خدمت کی ہے۔ آپ باقاعدگی سے ڈائیلیسز کے لئے طاہر ہارٹ میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی عاجزی، انکساری، اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک اور جماعت کی خاطر قربانی کا اظہار ان کے جواب میں ملاحظہ کیجئے۔

آپ فرمانے لگے۔ میں نے کیا خدمت کی ہے! خدمت تو شوکت گوہر نے میری کی ہے۔ ساری عمر وفا کے ساتھ۔ اس نے بہت قربانی کی ہے۔ انگلستان جیسی پُر آسائش زندگی کو جماعت کی خاطر چھوڑ کر ایک طرح کے بیابان میں یعنی ربوہ میں آگئیں۔ اس جواب سے آپ اس جوڑے کی قربانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ ایک دوسرے کا کس قدر خیال رکھتے تھے۔اور جماعت کی خاطرآسائش ترک کر کے مشکل حالات میں خدمت ِدین اور خدمتِ خلق کو ترجیح دی۔

اہلیہ کی خدمت کا تذکرہ ہوا۔ خدمت والدہ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ جو آپ تا دم واپسی کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی والدہ حیات ہیں۔ والدہ کی خاطر آپ نےاور آپ کی اہلیہ نے بہت قربانی دی اور حق خدمت ادا کیا۔ اپنے بچوں کے پاس جو سبھی بیرون ملک بودوباش رکھتے ہیں نہیں جا سکتے تھے۔وفات سے دو روز قبل جمعۃالمبارک تھا۔ ڈاکٹر صاحب جمعہ اپنے محلہ دارالعلوم شرقی مسرور کی مسجد مسرور میں پڑھتے تھے۔ خاکسار نے جمعہ پڑھایا۔ یہ ہمارا معمول تھا کہ جمعہ کی نماز سے فراغت کے بعد کچھ دیر کے لئے ضرور ملتے اور حال احوال معلوم کرتے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا آپ کے بچے جو والدہ کی وفات پر آئے تھے۔ سب واپس چلے گئے؟ ڈاکٹر صاحب کے چہرہ پر کچھ افسردگی کے آثار تھے۔ اور طبیعت میں کمزوری بھی محسوس ہو رہی تھی۔آپ نے جواب دیا کہ سب چلے گئے۔اور میں والدہ کی وجہ سے بچوں کے پاس نہیں جا سکتا۔یہ آخری بات میری ان سے ہوئی اور دو روز بعد ان کے انتقال پُر ملال کی خبر مل گئی۔حقیقت میں والدین کی خدمت کر کے آپ نے جنت کمائی ہے اور اپنی اہلیہ کی 2 سال بیماری میں خوب خدمت کی توفیق پائی۔

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ 24جنوری 2020ء میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت و خدمات کا تذکرہ فرمایاجس میں آپ کے زہد و تقویٰ،عاجزی و انکساری،جذبہ خدمت دین، خدمت والدین،طبابت کے پیشہ میں کمال اور اس کے ذریعہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کا ذکر فرمایا۔

مکرم ڈاکٹر لطیف قریشی ایک ماہر طبیب تھے اور آپ کی تشخیص امراض بہت عمدہ ہوا کرتی تھی اور علاج میں لوگوں کی گنجائش کا بہت خیال رکھا کرتے تھے اور عموماً سستی اور مؤثر دوا تجویز کیا کرتے تھے۔مجھے آج بھی 35 سال پُرانی آپ سے پہلی ملاقات یاد ہے۔یکو والی نہر پر پکنک منانے گئے ۔واپسی پر الرجی کی شکایت ہوئی۔ فضل عمر ہسپتال میں آپ کو دکھایا تو آپ نے دیکھتے ہی avil کی گولی تجویز کر دی جو اس زمانے میں ایک روپیہ میں 4-5 آ جاتی تھیں۔صرف ایک گولی کھانے سے آرام آگیا۔لیکن جب آپ نسخہ تجویز کر رہے تھے مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ میں نے ابھی علامات پوری طرح بتائی نہیں اور ڈاکٹر صاحب نے نسخہ بھی تجویز کر دیا ہے ۔ لیکن نسخہ واقعی انتہائی ارزاں اور کارگر نکلا۔

2000ء تک فضل عمر ہسپتال میں آپ 30 سال تک خدمات بجا لائے پھر گھر میں کلینک کرتے رہے۔ آپ کے مریضوں کی بڑی تعداد مضافات ربوہ اور دور دراز علاقوں سے صبح صبح ہی آپ کے گھر میں واقع آپ کے کلینک پہنچ جاتی اور خدمت کا یہ سلسلہ وفات کے دن تک جاری رہا۔

ایک دفعہ آپ سے آپ کے مریضوں کے حوالہ سے میری بات ہوئی ۔آپ نے بتایا کہ میرے مریضوں کا حلقہ بہت وسیع ہے اور مریض بہت دور دراز علاقوں سے بھی آیا کرتے تھے ۔ اللہ کے فضل سے شفا پاتے۔اس ضمن میں ایک دلچسپ بات بھی آپ نے میرے سوال کرنے پر بتائی۔ میں نے پوچھا جب آپ بیرون ملک جاتے تھے اورپھر مریضوں کو کیسے پتہ چلتا تھا کہ آپ واپس پاکستان آگئے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ مریضوں کا اپنا ایک چینل ہوتا ہے۔ وہ سینہ بسینہ ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب آ گئے ہیں۔یا چلے گئے ہیں۔آپ نے بتایا کہ ایک بار میں انگلستان سے لاہور ائیر پورٹ پر اترا تو میں نے سنا ایک ملازم دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ او ڈاکٹر لطیف قریشی آ گیا ای۔ یعنی وہ دیکھو ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب واپس آ گئے ہیں۔ یہ بات آپ نے مسکراتے ہوئے بتائی کہ مریضوں کو تو ائیرپورٹ سے ہی علم ہو جاتا ہے۔اس سے آپ کی نیک شہرت اور معروف ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کو فضل عمر ہسپتال میں طبی خدمات کے ساتھ انتظامی خدمت کی بھی توفیق پائی۔آپ 1983ء سے 1987ء تک فضل عمر ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر بھی رہے اور فضل عمر ہسپتال کی ترقی کے لئے بڑی محنت کے ساتھ کوشاں رہے۔ اسی دوران آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے معالج ہونے کا بھی اعزاز ملا۔اسی طرح خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے بزرگان، بزرگ صحابہ اور بزرگان سلسلہ کے علاج کی بھی توفیق ملی۔ ذیلی تنظیموں،خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور انصار اللہ مرکزیہ پاکستان میں آپ نے لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔ خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مہتمم خدمت خلق،مہتمم صنعت و تجارت اور مہتمم مجالس بیرون رہے۔ انصار اللہ میں قدم رکھا تو 1981ء میں قائد تربیت مقرر ہوئے۔ 1983ء تا 1985ء قائد اشاعت رہے۔ 1986ء سے 1991ء تک قائد ایثار پھر 1992ء تا 2002 ء نائب صدر انصار اللہ پاکستان کے طور پر خدمات کی توفیق ملی۔بوقت وفات آپ رکن خصوصی انصار اللہ پاکستان تھے۔

ڈاکٹر صاحب متوکل، منکسرالمزاج، قناعت پسند،غریبوں کے ہمدرد، خلافت کے جاں نثار، سادہ لوح اور بہت محنتی انسان تھے۔ساری عمر انتہائی محنت اور جانفشانی کے ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت کی۔ برطانیہ کی آرام دہ زندگی کو ترک کرکےدربارِ خلافت کے بلاوے پر ربوہ آگئے اور وفات کے دن تک خدمت خلق کرتے رہے۔اور نافع النّاس وجود بنے رہے۔

آپ کے چھوٹے بیٹے مکرم ڈاکٹر عطاء المالک قریشی مقیم امریکہ بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ۔والد محترم نے کبھی نماز تہجد نہیں چھوڑی۔اپنی والدہ کی روایت بتاتے ہیں کہ شادی کے پہلے دن سے نماز تہجد باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ اور آخری دن تک یہی معمول رہا۔ والد صاحب غریبوں کے ہمدرد تھے۔ غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے اور دوا بھی اپنے پاس سے دیتے ۔آپ کے تین بچے ڈاکٹر ہیں ۔ان کو یہ نصیحت کرتے کہ اپنے مریضوں کے لئے دعا میں بھی لگے رہا کرو۔ اور امریکہ میں مجھ سے میرے مریضوں کا حال پوچھتے تھے۔جن کے بارہ میں میں نے دعا کے لئے کہا ہوتا۔آپ کے توکل کا یہ عالم تھا کہ جب انگلستان کی پُر آسائش زندگی ترک کر کے ربوہ آگئے تو اللہ کی ذات پر کامل یقین تھا کہ وہ ہر قسم کی ضروریات پوری کرے گا اور بچے بھی اعلیٰ تعلیم پا جائیں گے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے پیسے میں برکت رکھی اور بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بچوں کی اعلیٰ دینی تربیت کی اور بچوں کو یہ تلقین کی کہ اگر اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کر لو گے تو آپ کے سارے کام اللہ کر دے گا۔دکھاوے اور تصنّع سے بیزار تھےاور انتہائی سادہ طرز معاشرت رکھا۔ کھانے پینے اور لباس میں بہت سادگی تھی ۔علم دوست شخصیت تھے۔اپنے بچوں کو کتب تحفہ میں دیتے۔ ادبی ذوق رکھتے تھے۔اچھے اشعار سننا پسند کرتے لیکن ساتھ کہتے حضرت مسیح موعودؑ کی نظم و نثر کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ درثمین کے اشعار ترنم سے پڑھا کرتے اور ریکارڈ بھی کروائے۔ تلاوت میں باقاعدگی تھی اور تفسیر قرآن زیر مطالعہ رہتی۔مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا ترجمہ قرآن تحفہ میں دیا اور خاص ہدایت کی کہ اس کا دامن کبھی مت چھوڑنا۔قرآن پر ہمیشہ غور و فکر اور تدبّر کرتے رہنا۔ خلافت سے وابستگی کا عالم کہ چھوٹی عمر میں جب حضرت مصلح موعودؓ دہلی دروازہ لاہور کی مسجد میں خطبہ دیتے تو بڑے شوق سے سننے جایا کرتے اور پھر گھر آکر نوٹس بناتے۔ ہر چھوٹے بڑے کام سے پہلے خلیفۃ المسیح کو خط لکھتے اور کام کے بارہ میں مشورہ حاصل کرتے ۔یہ خلاصہ ہے ان باتوں کا جو عزیزم ڈاکٹر عطا ءالمالک قریشی نے مجھے میری درخواست پر بیان کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد کو آپ کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مکرم ڈاکٹر لطیف قریشی کی سادگی کے ہم کئی سال سے گواہ ہیں۔ لباس انتہائی سادہ، خوراک بھی سادہ اور بحیثیت ڈاکٹر خوراک کے حوالہ سے یہی نصیحت کرتے کہ سادہ خوراک صحت کی ضامن ہے۔ آپ کی منکسر المزاجی اور اطاعت نظام کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ گو آپ نے بڑے بڑے جماعتی عہدوں پر کام کیا لیکن جب ہمارے محلہ دارالعلوم شرقی مسرور کی عاملہ میں آپ سیکرٹری تعلیم منتخب ہو گئے تو پھر محلہ کی سطح پر بھی بڑی محنت اور عاجزی کے ساتھ کام کیا اور اس کو معمولی خیال نہیں کیا۔

اہل محلہ اور ہمسایوں کے ساتھ بہت عمدہ تعلق تھا۔عیدین کے موقع پر ہمیشہ آپ کےگھر سے ہمارے ہاں کوئی ڈش بڑی خوبصورتی اور سلیقہ سے تیار شدہ آیا کرتی تھی اور کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آپ خود ٹرے اٹھائے گھر تشریف لائے۔یہ عمل آپ کی سادگی ، ملنساری اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی پر دلالت کرتا ہے۔عیدالاضحیہ کے موقع پر قربانی کرتے اور اس کا گوشت ہمسایوں کے ہاں بڑی باقاعدگی سے بھجواتے۔

آپ عالم اور علم دوست شخصیت تھے۔طب اور حفظان صحت کے موضوع پر کتب بھی مرتب کی تھیں۔حفظان صحت کے موضوع پر محلہ میں کئی بار لیکچر سننے کا موقع ملا۔ہر رمضان میں محلہ میں فجر کے بعد آپ دو تین دن درس بھی دیا کرتے تھے۔علمی محفلوں میں بڑے شوق کے ساتھ شرکت کرتے تھے اور اہل علم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

ڈاکٹر لطیف قریشی کے ساتھ محلہ میں بہت عمدہ وقت گزرا۔ نمازوں بالخصوص جمعہ کے بعد ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔2019ء میں آپ رکن خصوصی انصارا للہ پاکستان بنے تو آپ متعدد بار انصار اللہ میں میرے دفتر بھی تشریف لائے۔ اور کام کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔آپ نے ساری عمر دوسروں کے دکھ بانٹنے میں گزار دی اور اپنی خدمت کا کسی کو موقع نہیں دیا۔اللہ تعالیٰ نے فعال اور مستعد حالت میں ہی اس نافع النّاس وجود کو اپنے پاس بلا لیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور اعلیٰ علیّین میں مقام عطا فرمائے۔آمین

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا جو امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ 1۔ ڈاکٹر محمد احمد محمود قریشی امریکہ جماعت اور ہیومنیٹی فرسٹ امریکہ کے فعال ممبر ہیں۔ 2۔ مکرمہ امۃ الرفیق راحت اہلیہ مکرم ناصر عتیق احمد کینیڈا۔ 3۔ مکرم عبدالحئی مبشر برطانیہ۔ 4۔ مکرمہ ڈاکٹر امۃ اللطیف عصمت امریکہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر مرزا انس احمد نیوجرسی۔ 5۔ ڈاکٹر عطاء المالک قریشی امریکہ۔

اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے مرحوم والدین کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔آمین

(محمد محمود طاہر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ (23 ۔اپریل 2020 ء)