یہ جملہ تو ہر کسی نے کبھی نہ کبھی تو سنا ہوگا کہ کسی کو سمجھنے کے لئے کبھی کبھار ایک پل بھی کافی ہوتا ہےنہیں تو عمر بیت جائے تب بھی انسان کی سمجھ میں کچھ نہ آئے۔
اگر انسان اپنے بچہ کی پیدائش سے اس کو پروان چڑھانے تک کے مراحل پر غور کرے تو اسے خدا نما بننے میں لمحہ نہ لگے، وہ خدا کے عشق میں ڈوب جائے۔
ماں کا پیار، اس کی ممتا کی تڑپ، باپ کی شفقت اور محبت جو بچے کو آسائش کی آغوش میں رکھتی ہے۔ یہ سب کچھ خدا کا ہی تو پَرتو ہے۔ خدا کی رحمانیت ماں سے کہیں بڑھ کر ہے اور باپ کی انتھک محنت جو بچوں کو رزق مہیا کرتا ہے خدا کا ہی تو دوسرا عکس ہے۔ جو خالق و مالک ہے، رازق ہے۔ اپنے بنائے انسان کے حصے اور نصیب کا رزق ضرور دیتا ہے۔ وہی رزّاق جو پتھر میں بھی کیڑے کو بھوکا نہیں رکھتا۔خدا بھوکا اٹھاتا ہے، بھوکا سلاتا نہیں۔
یوں تو کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے تخلیق کردہ کی بڑائی بیان کر رہاہے۔انسان اگر اپنے شعور کی نظر دوڑائے تو اس کی نظریں ناکام تھکی ہوئی لوٹ آئیں گی لیکن اسے کہیں خلا نظر نہ آئے گا کہ کوئی بھی ذرہ بےمقصد ہے اور اپنے رب کے حضور سربسجود نہ ہو۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے اس مضمون کو کچھ یوں کھولتے ہیںکہ شادی کے بعد ہر نئے جوڑے کے دِل کی خواہش دو سے تین ہو جانے کی ہوتی ہے۔ان کی اس خواہش سے کہیں بڑھ کر نانی، دادی اپنے دل میں ارمان لئے پھرتی ہیں۔پھر خاندان محلے کی ان عورتوں کو بھی کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے جو گاہے بگاہے دبے لفظوں، ذو معنی انداز،تجسس کی کیفیت میں یہ جملہ ضرور نئی دلہن کے گوش گزار کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہیں کہ ابھی تک خوشخبری کے آثار نہیں؟ پھر ہلکا پھلکا فرضی سا مرہم رکھ کر چلو کوئی بات نہیں خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اپنی ذمہ داری سے جلد سبکدوش بھی ہوجاتی ہیں۔ لمحے بھر کوتو نئی دلہن کا دل بیٹھ ہی جاتا ہے وہ بےچاری سوچ میں پڑ جاتی ہے ابھی تو میری شادی کو مشکل سے تین ماہ ہی گزرے ہیں۔ کیا میرے ساتھ کوئی انہونی تو نہیں ہوگئی۔
انسان جب خود بچہ سے بڑھاپے تک پہنچتا ہے تو خود کو شائد اتنے غور سے نہ دیکھ پائے جتنا اپنی اولاد کے ذریعے دوبارہ پیدا ہوتا ہے اور خود کو جیتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ وقت بہت پیارا، پُرسکون، اطمینان بخش ہوتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ ہم دو وجود سے تین یا چار ہونے والے ہیں۔ جی بالکل! کبھی اللہ کی رحمت و عنایات ہم پرانتہائی مہربان ہو تو جڑواں بھی تو ہوتے ہیں ناں!
پھر جب خدا نے اس کائنات میں انسان کے وجود کی تخلیق کا سوچا ہوگا تبھی کھنکتی مٹی اور پانی سے اس کی بنیاد ڈالی ہوگی اور تخلیقی مراحل سے گزارا ہوگا۔بالکل ایسے ہی ماں کے پیٹ میں موجود خوراک اور پانی سے ایک نُطفہ سے بچہ بننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
اُدھر خدا نے اپنی قدرت کو تیز کیا، سالوں کو سمیٹا اور مٹی کا پتلا بنا دیا اور ادھر والدین نے محبت و خوشی ، جوش اور سرشاری میں لمحہ لمحہ گِن گِن کر 9ماہ بتا دئیے۔خدا نے اپنے پتلے میں روح پھونک دی اور اس کا نام انسان رکھ دیا۔ادھر انسان کے ہاں انسان یعنی بچہ پیدا ہوگیا اور اس نے بھی اس کا نام رکھ دیا۔خدا نے اپنے انسان کو پیار کیا اور اپنے پیار کا اظہار یوں کیاکہ فرشتے جو ہر ناپاک کام سے مبّرا ہیں کو سجدہ احترام بجالانے کا حکم دے دیا ۔
ادھر انسانوں کی دنیا میں ہر کوئی اپنے پیار کا اظہار اپنے نت نئے تحائف سے کرتا ہے۔ہاں یہ اور بات ہے کہ نانی ، دادی کا اس میں بھی تھوڑا مقابلہ چلتا ہے کہ نانی نے کیا دیا؟ اور دادی نے اپنی نسل پر کیا نچھاور کیا۔خیر اخیر جیت اسی کی طے پاتی ہے جس نے سونے کی کوئی چیز پہنا دی ہو۔یہ تو تھے دنیاوی مقابلے۔اُدھر خدا نے کس کی جیت کو کافی حدتک خود ہی ممکن بنا دیا؟ظاہر ہے انسان کی!
خدا نے فرشتوں کے سجدہ ادب سے انسان کو اشرف المخلوقات کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا۔اب یہ سوچ دماغ کے کسی کونے میں ضرور گھوم رہی ہوگی کہ انسان کی کہانی میں شیطان کا بھی کچھ رول ہے۔جی بالکل! مناسب تھا کہ پہلے ذکرِ خیر ہوجائے۔ اب شیطان کا تذکرہ بھی کئے دیتے ہیں۔
جیسے ہی بچہ نے ماں کے وجود سے باہر کی دنیا میں اپنی آنکھیں کھولیں تو ساتھ ہی رونے لگتا ہے اس میں دنیا کا قصور نہیں۔بقول سائنس کہ بچے کے رونے میں اسی کا بھلا ہے جب وہ روتا ہے تو اس کےدل و دماغ کو آکسیجن ملتی ہے اور وہ نارمل کہلاتا ہے۔بالکل ایسا ہی کردار شیطان کا بھی ہے جب اس دنیا میں خدا نے انسان کو بھیجا، اپنی روح اس میں پھونکی اور فرشتوں کو باادب کروایا تب شیطان ملعون کو اشرف المخلوقات پر غصہ آیا اور اسی نے انسان کو رلایا۔
یہی ایک لمحہ ہے کہ انسان کی سمجھ میں آجائے تو عمر بتانے کی ضرورت نہ پڑے بچہ کو ڈائریکٹ آکسیجن کی ضرورت تب پڑی جب وہ ماں کے پیٹ سے باہر آیا۔
اسی طرح انسان کو خدا شناسی و آگہی،خدا طلبی کرنے، خداپرست اور خدا رسیدہ بننے کے لئے اپنے خالق کی محبت کی آکسیجن کی ضرورت ہے اور وہ تب ملے گی جب وہ اپنے خالق کی تخلیق پر غور کرے گا۔
جیسے انسان اپنے بچے کی انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھاتا ہے ۔ہر لڑکھڑاتے قدم پر اسے سنبھالتا ہے۔ ہر مادی ضرورت پوری کرتا ہے سردی ہو یا گرمی، بھوک ہو یا پیاس اپنی بھرپور توانائی بچے کی پرورش میں صرف کرتا ہے۔بالکل ایسے ہی خدا نے اپنے بندے کی ذہنی،جسمانی،اخلاقی اور روحانی ترقی بتدریج کی۔حضرت آدمؑ سے لےکر حضرت محمد ﷺ تک انسان پر یکدم بوجھ نہیں ڈالا۔ بلکہ انسان کے ہر لڑکھڑاتے قدم پر اس کی ذہنی و روحانی ترقی کے حساب سے خدا نے اسے انبیاء علیہ السلام کی انگلی تھمائی (پکڑائی) جسے پاؤں پاؤں چل کر محمد مصطفیٰ ﷺ کی کامل شریعت تک پروان چڑھایا،زہد و تقویٰ ، عبادت اور روحانیت کی انتہاء تک پہنچایا۔
جب بچہ کسی نامناسب چیز کو اٹھانا چاہتا ہے حالانکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ماں ضرور ٹوکے گی۔ ایک بار ماں کو ضرور دیکھتا ہے لیکن جھٹ سے اس چیز کو پکڑتا ہے۔ لیکن ماں پھر بھی اسے بچاتی ہے کیونکہ وہ اس کے رحم سے آیا ہے اور وہ بہت پیار کرتی ہے۔
اسی طرح انسان غلطیاں کرتا رہتا ہے۔ گو اسے معلوم بھی ہوتا ہے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے پھر بھی غلط قدم بڑھا لیتا ہے۔ لیکن پھر بھی خدا اپنے بنائے پتلے اپنی تخلیق پر بہت رحیم ہے اور معافی کا دروازہ کھلا رکھتا ہے اور ہر توبہ کرنے والے پر بڑے فضل سے متوجہ ہوتا ہے۔
جس طرح بچہ اپنی چھوٹی چھوٹی پیاری باتوں سے سب کی توجہ کا مرکز بنتا ہے، بالکل خدا بھی اپنے بندے کی چھوٹی چھوٹی، ادنیٰ سےادنیٰ نیکی پر بڑی پیار کی نظر رکھتا ہے۔جو اپنے نبی موسیٰؑ سے اس بات پر بھی ناراض ہوسکتا ہے، جب ایک گڈریا اپنے انداز میں خدا سے اپنی محبت کے اظہار میں مصروف تھا کہ تو میرے پاس آئے تو میں تجھے تیل لگاؤں، خوشبو لگاؤں، اس پر حضرت موسیٰؑ نے اسے ٹوکا کہ یہ انداز گفتگو خدا کے شایان شان نہیں…پر خدا حضرت موسیٰؑ سے ہمکلام ہوا کہ تو میرے اور اس گڈریئے میں کیوں مخل ہوا! میں تو اس کے محبت کے انداز سے بہت محظوظ ہورہا تھا۔
غرض خداکی آگہی، اس کا عشق،اس کی محبت میں ایک جملہ، ایک آنسو اس کی بارگاہ میں بہت مقبول ہے۔اپنے فضل و کرم کے بےشمار انعامات تو بن کہے ہماری جھولی میں ڈالتا رہتا ہے جس کا ہمیں ادراک بھی نہیں ہوتا۔
اگر ہمیں ادراک ہوجائے تو اس کے لطف وکرم کی بارش میں بھیگ کر اس کی محبت میں فنا ہوجائیں۔بس ایک لمحہ چاہئے گہری سوچ کا کہ ہم کس کی تخلیق ہیں اور اس دنیا میں کیوں ہیں۔
اوّل و آخر صرف وہی لافانی رب ہے
جس کی بندگی میں ہی سب ہے
(نوشابہ واسع بلوچ ۔جرمنی)