• 17 مئی, 2024

احساسِ کمتری اور اس کا ہومیو علاج

احساسِ کمتری کیا ہے؟ احساسِ کمتری وہ احساس ہے جس میں انسان خود کو معاشرے میں دوسروں سے بعض لحاظ سے کمتر اور گھٹیا خیال کرتا ہے۔ احساسِ کمتری کے نتیجہ میں انسان کا جذبۂ خود اعتمادی متاثر ہوتا ہے اور نتیجتاً اُس کی قوتِ کار بھی متاثر ہوتی ہے۔

احساسِ کمتری کے اسباب و اقسام

احساسِ کمتری کے کئی اسباب و اقسام ہیں مثلاً بدنی عیوب، مال و دولت، خاندان، نسل، قوم، ذات پات، ہُنر، علم و فن، عہدہ رتبہ میں پستی کا احساس وغیرہ۔ ہم ذیل میں صرف چند ایک کا ذکر کریں گے۔

طبعاً ہر انسان چاہتا ہے کہ معاشرے میں اُس کی مناسب قدرو منزلت ہو ۔ ظاہر ہے کہ اچھے اوصاف کے نتیجہ میں اُسے معاشرے میں ایک اچھا مقام مل سکتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہر انسان اپنے اندر ایسے حقیقی اوصاف پیدا کرے کہ معاشرے میں اُسے ایک جائز مقام ملے اور وہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ مگر بعض لوگ اپنی قدرذاتی اوصافِ محمودہ کے ذریعہ کروانے کی بجائے منفی طور پرمحض دوسروں کو مرعوب و متاثر کرنے کیلئے ذاتی و خاندانی بڑائی، دولت، جائیداد ،علم ،عہدہ رُتبہ ،خاندان، قوم ، نسل ،ذات پات کی وجاہت کے حوالے سے کرانا چاہتے ہیں اور اپنے منہ آپ میاں مٹھو بنتے چلے جاتے ہیں۔ مانا کہ جبلتِ خود نمائی یا جذبۂ خود نمائی ایک خدادادچیز ہے ۔ اس کا جائز استعمال بُرا نہیں مگر احساسِ کمتری کی تسکین کی خاطر جذبۂ خودنمائی کو انتہا تک پہنچا دینا کہ یہ جذبہ نری خود ستائی (خود تعریفی) ہی رہ جائے بہت بُرا ہے۔ ایسا شخص جہاں اپنے احساسِ کمتری کو تسکین دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے وہاں معاشرے میں دوسرے لوگوں کیلئے احساسِ کمتری اور جذبہ عدم اعتمادی بھی پھیلاتا ہے۔ اِسے آگے چل کر ہم قدرے تفصیل سے بیان کریں گے۔

دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ ابتدائی تعارفی ملاقات کے لمحات میں ہی دولت، علم ،رُتبہ ،خاندان وغیرہ کی بڑائی کی بوچھاڑ کر دیں گے۔ بِن پوچھے سوالات کے جوابات کی ایک لمبی سانس میں نان سٹاپ گاڑی چلا دیں گے۔ اِن کے اندازِ بیاں میں ایسے تکلّفات و خرافات ہوں گے جن سے عیاں ہوگا کہ سامع کو متاثر و مرعُوب کرنے کی سازش کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سامع اُن کی قدر مادی ترازؤں کے باٹوں سے کرے۔ اُن کا ہر فقرہ خود ستائی انانیت، بڑائی، ذاتی تفاخر و وجاہت سے شروع ہو گا اور یہیں ختم ہوگا۔ اُن کا ہر زاویہ کلام اِسی چیز کو اُجاگر (Highlight) کرے گا اور ایک اچھے فوٹو گرافر کی طرح جس pose سے بھی تصویر لیں گے focus ایک ہی نقطے کو کریں گے۔مُلک کا ہر بڑا افسر جاگیر دار کھاتا پیتا فرد اُن کا قریبی رشتہ دار ہوگا۔ خواہ اُس کے ساتھ کچھ جان پہچان بھی نہ ہواور ہر قریبی مگر غریب رشتہ دار اُن کا تھوڑا بہت جاننے والا یا واقف کار یا قدیمی خدمت گار ہو گا۔ اس کیٹگری کے لوگ دوغلا اندازِ بیاں رکھتے ہیں ۔ حصولِ مقصد کی خاطر بناوٹی رنگ میں خود کو یا اپنے خاندان کو بُرا بھلا بھی کہہ ڈالیں گے تاکہ اُن کی خودستائی کی مہم اصل (Genuine) لگے مگر سامع صاف سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ محض کھوکھلی تصنّع کا لبادہ اَوڑھے ہوئے ہیں۔

پھر ذاتی وجاہت کے اظہار کے لئے اُن کو بعض اوقات دروغ گوئی، مبالغہ آمیزی اور ملمّع سازی کا سہارا بھی لینا پڑجاتا ہے۔ جو اپنی جگہ ایک الگ عیب ہے خود ستائی کو آلۂ کار بنا کر دوسروں کو متاثر کرنے اور باطنی احساسِ کمتری کو تسکین دینے سے کئی ایک اور نقصان بھی وابستہ ہیں۔ اس سے انسان اپنے اعلیٰ مقاصد سے دُور ہٹ جاتا ہے اور وہ پدرم سلطان بود اور ہم چو ما دیگرے نیست کے چکر میں رہتا ہے۔ گویا علمی ،اخلاقی، فنی ،روحانی، مادی ترقیات کے دروازے اپنے اوپر مزید تنگ کر لیتا ہے۔ وہ خدمتِ خلق ،عمدگیٔ اخلاق کے حسین ذرائع سے دوسروں کو متأ ثر کرنے کی بجائے خودستائی و خودنمائی کے بدنما ہتھکنڈوں سے دوسروں کو متأثر کرنے میں اپنی ساری توانائی صرف کرتا ہے۔

تحدیثِ نعمت (اظہار ِ تشکر) اور خود ستائی میں فرق

خود ستائی و خود نمائی کو تحدیثِ نعمت قرار دینا محض ایک غلط فہمی اور خود فریبی ہے۔ تحدیثِ نعمت میں انسان تمام تر ترقیات و افضال و نعماء کو خدائے قادر کی طرف منسوب کرتا ہے۔ اُسے ہی مسبّب ،مبدأ و منتہا و مقصود ٹھہراتا ہے اور خود کو لاشیٔ محض سمجھتا ہے۔ اُس کے اندازِ بیان میں سادگی عاجزی و بے تکلّفی ہوتی ہے۔ اُس کے کلام سے تواضع و انکساری عیاں ہوتی ہے۔ تحدیثِ نعمت سے خدائے ذُوالعرش خوش ہو رہا ہوتا ہے اور اپنے بندۂ ناچیز کو اس ادا پر یقیناً مزید ترقیات سے نوازتا ہے۔

تحدیثِ نعمت میں وہ اپنے نہیں بلکہ اپنے مولا کے گُن گاتا ہے۔ اپنے مضمون کو واضح کرنے کے لئے ہم نمونتہً اپنے سیّد و مولا حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کے ادنیٰ خادم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے چند اشعار پیش کرتے ہیں۔ آپؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں۔

اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا
مَیں خاک تھا اُسی نے ثریّا بنا دیا
مَیں تھا غریب و بےکس و گمنام و بےہُنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا
اِک مرجعِ خواص یہی قادیاں ہوا

پھر عرض کرتے ہیں۔

’’سب کُچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے‘‘
کیا ہی حسین و خوبصورت تحدیثِ نعمت ہے۔

ایک گروہ کا جو خود ستائی کی مہم جوئی کے ذریعہ اپنے تئیں احساسِ کمتری کو تسکین دیتا مگر معاشرہ میں دیگر لوگوں کے لئے احساسِ کمتری، احساسِ محرومی، پست ہمتی، کم حوصلگی اور مایوسی جیسے عوامل کو پھیلاتا ہے، بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ جیساکہ ہمارے آقا حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَنْ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْم فَاَھْلَکَھُمْ۔ یعنی جو کہتا ہے کہ قوم ہلاک ہوگئی وہ گویا قوم کو ہلاک کرتا ہے۔

زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ایسا کرنا بہت بڑا گناہ ہے بعض والدین و اساتذہ یہ فریضہ حسن و خوبی سے انجام دیتے ہیں۔ جب وہ بچوں کو سخت سست، نالائق، نکمّا، کسی نہ کام کا کہہ کر پکارتے ہیں تو وہ گویا اپنے خود ساختہ نظریہ کے مطابق اُن کے اندر احساسِ ذمہ داری کا جذبہ اُجاگر کر رہے ہوتے ہیں جو غلط ہے ایسے ہی بعض ناصحین بعض عملی طور پر بظاہر کمزور لوگوں کو بنظرِ تحقیر و تخفیف و استہزا دیکھتے ہیں۔ وہ گویا اپنی طرف سے احساسِ ندامتِ گناہ پیدا کررہے ہوتے ہیں اور رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شیٔ ٍکو بھول جاتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً بھی فرمایا گیا ہے۔

to err is human ,to forgive divine غلطی کرنا انسان کا خاصّہ ہے اور معاف کرنا خدا کا۔ ہمارا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ غلطیوں اور کوتاہیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ خوف و رجا کے بین بین رہا جائے۔ بعض معالج پیشہ احباب بعض اَطباء زیادہ فیس لینے کی خاطر مبالغے کی انتہا کو چھوتے ہوئے یہ فریضہ اس صورت میں انجام دیتے ہیں۔ بالخصوص خود لذّتی، جریان احتلام اور خصوصی کمزوری کے مریضوں کو مخاطب ہو کر کہیں گےاب آگئے ہو اپنا ستیا ناس کرکے ہمارے پاس۔ اب تم علاج کے قابل نہیں رہے۔

تو جیہہ یہ کہ وہ احساسِ ندامت و زیاں کو بیدار کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے ظالم معالجین اپنے مریضوں کو احساسِ کمتری اور مایوسیوں کے تاریک گڑھوں میں دھکیل رہے ہوتے ہیں۔نتیجتاًوہ دَر بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خودکشی پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ بہترین راہ یہ ہے کہ احساسِ زیاں بھی دلایا جائے اور اُمید کو بھی قائم رکھا جائے۔ مثلاً اس طرح کہ ان چیزوں سے نقصان تو واقعی ہوتا ہے اور قدرے ہوا بھی ہے مگر خیر ہے اِنْ شَا ءَاللّٰہ سب ٹھیک ہو جائے گا کوئی ایسا نقصان نہیں جو ناقابلِ علاج ہو ۔

ارشاداتِ نبوی ﷺ

حضرت ابی سعید الخدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا: إِذَا دَخَلْتُمْ عَلَى الْمَرِيضِ فَنَفِّسُوا لَهُ فِي الْأَجَلِ فَإِنَّ ذَالِكَ لَا يَرُدُّ شَيْئًا وَهُوَ يُطَيِّبُ نَفْسَ الْمَرِيْضِ۔ جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس سے اُس کی درازیٔ عمر کے بارہ میں گفتگو کرو۔ چونکہ اس سے کوئی حرج نہیں ہوتا البتہ اس سے مریضوں کا دل خوش ہو جاتا ہے۔

(ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ بن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک اعرابی کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور حضور ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب کسی بیمار کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تو اس سے فرماتے لَا بَأْسَ طُہُوْراً اِنْ شَاءَ اللّٰہ۔ کوئی خطرہ کی بات نہیں اگر اللہ نے چاہا تو پاکیزگی و سلامتی ہوگی۔ (بخاری شریف)۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اِذَا حَضَرْ تُمُ الْمَرِیْضَ فَقُوْلُوْ ا خَیْراً۔ جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس سے اچھی باتیں کرو۔

(بحوالہ طب نبوی، مصنفہ حافظ نذر احمد صفحہ247 ۔ 248)

بعض معالجین بعض مشکل سے ٹھیک ہونے والی بیماریوں (کیونکہ لاعلاج مرض تو کوئی بھی نہیں) کے بارہ میں مریض کے منہ پر ہی مایوس کُن الفاظ کہہ دیتے ہیں ۔ اُس مریض نے اُس مرض سے مرنا ہوتا ہے یا نہیں البتہ اس احساسِ وہم میں عذاب لے لے کر مرتا ہے۔ آج کل ایک قسم کا احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی ہے جو بالخصوص مشرقی ممالک کے باشندوں میں نظر آرہا ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم کسی طرح اُڑ کر بھی بیرونی ممالک میں پہنچ جائیں اور جو ایسا نہیں کر سکتے وہ خود کو کمتر، گھٹیا اور محروم خیال کرتے ہیں یہ احساس اس قدر شدت اختیار کر رہا ہے کہ ان لوگوں کو ایک قسم کے foreign fever جنونِ پردیس میں مبتلا کررہا ہے وہاں well settled لوگ بھی اپنے ممالک کو خیر باد کہہ کر چھوڑتے جا رہے ہیں اور باہر آکر پریشان ہوتے ہیں۔ پھر بچے بچیوں کے رشتوں کے بارہ میں بھی یہی صورت حال درپیش ہے۔ وہاں رشتہ کرنا بھی گویا عبث و فضول سمجھا جارہا ہے اور کئی ایسے لوگ ہیں جو اپنے احساسِ کمتری کے ازالہ کے لئے باہر رشتے کرتے ہیں اور پھر بعد میں پریشان ہوتے ہیں۔

بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے کے ایک حصہ میں احساس کمتری کے جذبہ کی تسکین کا ایک اور رجحان بھی پایا جاتا ہے اور وہ ہے اُردو کے ساتھ انگریزی بول بول کر دوسروں کو متأثر کرنے کا رجحان۔ اُردو انگریزی کی اس کھٹی مِٹھی آمیزش کی مختلف لوگوں میں مختلف شرح اور تناسب ہوا کرتا ہے۔ بعض کا 50 فیصداور بعض کا کم و بیش ۔یعنی دورانِ گفتگو جہاں دستیابی ذخیرہ الفاظ میں رکاوٹ محسوس کی حسبِ شرح ہوا کرتی ہے۔ یہ عجیب پُرتکلّف سا کھیل لگتا ہے بالخصوص جہاں یہ کھیل نسبتاً کم تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہو وہاں اور بھی مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے۔ اس پُر تصنّع کارروائی سے سامعین متأثر کم اور متنفّر زیادہ ہوتے ہیں۔اِسی طرح بعض مضمون نگار اَدباء، شعراء، مقرّرین ثقیل الفاظ کے سہارے سے اس جذبہ کی تسکین کا سامان کرتے ہیں جو کہ درست نہیں۔ہمیں تسلیم ہے کہ اُردو ایک مخلوط زبان ہے اور اس کو مختلف زبانوں کے حسین الفاظ کے اضافہ سے آراستہ کرنا اور ان الفاظ کے استعمال سے دوسرے قارئین کو علمی لحاظ سے مستفیض کرنا ایک نہایت احسن اور قابلِ تعریف فعل ہے مگر جس رُجحان کی حوصلہ شکنی ہمیں مطلوب ہے وہ مختلف و جُداگانہ شے ہے۔

مناسب صورتوں میں جذبۂ خود نمائی کے تحت اظہار ِ علم بُرا نہیں مگر منفی رُجحانات کی ترویج کسی صورت بھی درست نہیں۔ معاشرہ میں پائے جانے والے احساسِ کمتری کے بعض دیگر گوشوں کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے۔ مَردوں عورتوں کا نِت نئے فیشنوں ، ملبوسات، زیورات ، قیمتی گاڑی پر غیر ضروری خرچ عموماً احساسِ کمتری کے جذبہ کی تسکین کی خاطر ہوا کرتاہے۔ سِگریٹ نوشی تو ویسے ہی بُری ہے مگر قیمتی برانڈز کا دکھاوے کی خاطر استعمال جس کے پسِ پردہ احساسِ کمتری کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے مواقع پر غیر ضروری نمود و نمائش پر اَسراف سے بھی دراصل احساسِ کمتری کے جذبہ کی تسکین ہی مقصود ہوتی ہے نیز اس سے دوسرے لوگوں میں احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے۔ دعوتوں، ولیموں میں انواع و اقسام کے کھانوں پربےتحاشا خرچ جو متأثر کرنے کی غرض سے ہو سب احساسِ کمتری کے مختلف مظاہر ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو خدا نے اپنے فضل سے دیا ہے اگر وہ اَسراف سے بچیں، سادگی کی عمدہ مثالیں قائم کریں تو یہ بہت بڑی نیکی ہے، اس سے معاشرہ میں احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی گھٹتا ہے، معاشرہ میں سکون و اطمینان کی فضا قائم ہوتی ہے اس سلسلہ میں شیخ سعدی ؒ کا کیا ہی عمدہ شعر ہے۔

تواضع ز گردن خر ازاں نکوست
گداگر تواضع کند خوئے اوست

یعنی بڑے لوگوں کے لئے عاجزی، سادگی ،نیکی ہے جبکہ ایک نادار کی مجبوری ہے۔ نادار لوگ جب احساسِ کمتری کے جذبہ سے مجبور ہو کر صاحبِ ثروت لوگوں کے دوش بدوش چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ پس اصحابِ ثروت ہی کو چاہئے کہ سادگی کی خاطر اپنے کمزور بھائیوں کی خاطر قربانی پیش کریں۔

احساسِ کمتری کا علاج

اپنے اندر وہ اعلیٰ اَوصاف پیدا کئے جائیں کہ معاشرہ از خود قدر کرے نہ کہ خود ستائی کی ضرورت پیش آئے۔ گویا ’’کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘‘ ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے بعض پہلو کمزور تھے اور اُنہوں نے علم و ہنر و فن میں کمال پیدا کیا اور معاشرے میں اپنا نام پیدا کیا اور اپنا لوہا منوایا۔ ایسے لوگوں کو خود تعریفی کی ضرورت ہی کب پڑتی ہے اور وہ اس مقولہ کا مصداق ٹھہرتے ہیں ’’مشک آن است کہ خود ببوئید نہ کہ عطار بگوئید‘‘ ایسے لوگ گفتار سے نہیں کردار سے دوسروں کو متأثر کرتے ہیں۔ ایسے گروہ کی صحبت سے بچا جائے جو خود بھی احساسِ کمتری کا شکار ہے اور احساسِ کمتری پھیلاتا بھی ہے ۔وہ صرف ظاہر داری، زبانی جمع خرچ اور زبانی پھوکے نعروں سے معاشرے میں اپنا رُعب جمانا چاہتا ہے اور اس کے بالمقابل ایسے گروہ کی صحبت اختیار کی جائے جو مثبت روّیہ رکھتا ہے ۔ علم وہنر، فن، اخلاق و کردار کی خوشبو سے معاشرہ کو معطّر کرتا ہے۔ ایسے گروہ میں بیٹھ کر عملی طور پر بلند پروازی کا ولولہ پروان چڑھتا ہے جو بالآخر حقیقی ترقی کا باعث بنتا ہے اور احساسِ کمتری کا قلع قمع کرتا ہے ۔ خاکسارنے اُوپر احساسِ کمتری میں مبتلا اور احساسِ کمتری پھیلانے والے مختلف گروہوں کا ذکر کیا ہے مگر محض اُن کو موردِ الزام ٹھہرانا قرینِ قیاس نہیں اس میں اہلِ معاشرہ کا بھی کافی قصور شامل ہے۔ دولت، زمین، جائیداد، روپیہ پیسہ، جتھہ، بیرونِ مُلک کا لیبل، کوٹھی، کار ،اعلیٰ عہدہ وغیرہ جس کے پاس ہوں ہمیشہ معاشرہ ان کی زیادہ قدر کرتا ہے بہ نسبت ایک نیک شریف النفس باخلاق صاحبِ علم آدمی کے۔ اگر اہلِ معاشرہ بھی مثبت و حقیقی خوبیوں کے حامل شخص کی قدردانی شروع کردے تو اس سے احساسِ کمتری کے عوامل کی ازخود حوصلہ شکنی ہوگی اور نتیجتاً احساسِ کمتری کا دائرہ کم ہوگا۔

ہومیو علاج

احساسِ کمتری اور اِسی طرح کے دیگر ذہنی و نفسیاتی عوارض کے لئے ہم ذیل میں ہومیو علاج تحریر کرکے اس مضمون کو ختم کرتے ہیں ۔

  • یہ خیال کرے کہ وہ حقیر ہے۔

ارجنٹم نائٹ Arg-N 30-200

  • دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھے۔

پلاٹینا سٹیفی سائیگریا
Staphisagria 30, 200 and high

  • خود ستائی (خود تعریفی) کرے۔

پلاٹینا Platina 30, 200 and high

  • خود اعتمادی نہ رہے۔

اناکارڈیم Anacardium 200 and high

  • خوشامد پسند ہو ،چاہے کہ اُس کی خوشامد کی جائے۔

پلاڈیم

  • غرور اور تکبر نمایاں ہو۔ اپنے متعلق بہت بلند رائے رکھتا ہو اور دوسروں کو کمتر سمجھتا ہو۔

پلاٹینا

  • خیال کرے کہ اُسے سراہا نہیں جا رہا۔

پلاٹینا

  • اپنی معاشرتی حیثیت سے مایوس ہو جائے۔

وریٹرم البم Vrat 30-200

ملتے جُلتے درج ذیل نفسیاتی عوارض کے لئے

  • طلباء میں امتحان کا خوف۔

اناکارڈیم 30 ۔200 یا بلند

  • امتحان میں فیل ہونے کا خوف۔

ارجنٹم نائٹ 30۔200 یا بلند

  • امتحان سے پہلے غیر معمولی گھبراہٹ ہو۔

جیلسیمیم 200۔30 Gelsemium یا بلند

  • خیال کرے کہ وہ بے انتہا علم رکھتا ہے۔

کینا بس انڈیکا Cannabis Indica 30-200

(ہومیو ڈاکٹر نذیر احمد مظہر۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ (23 ۔اپریل 2020 ء)