• 8 مئی, 2024

اصل چیز عمارت نہیں، اصل چیز وہ روح ہے جو اس عمارت میں آنے والوں اور رہنے والوں کی ہوتی ہے

اصل چیز عمارت نہیں، اصل چیز وہ روح ہے جو اس عمارت میں آنے والوں
اور رہنے والوں کی ہوتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جیسا کہ مَیں نے بتایا جب یہاں صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہی تو بڑی بڑی خوبصورت مسجدیں مسلمانوں نے بنائیں۔ مثلاً قرطبہ کی مسجد ہے، دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے اور دوسری جگہوں پر مسجدیں ہیں۔ جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادیاں تھیں، بڑی بڑی مسجدیں تھیں، اشبیلیا میں، غرناطہ وغیرہ میں۔ لیکن جب اسلام کی حقیقی تعلیم کی روح اُن مساجد میں آنے والوں میں مفقود ہو گئی تو وہی جگہیں جہاں خدائے واحد کا نام لیا جاتا تھا، یا تو مسمار کر دی گئیں یا شرک کی آماجگاہ بن گئیں۔ قرطبہ کی مسجد دیکھیں، حیرت ہوتی ہے کہ ایسی خوبصورت اور مضبوط عمارت ہے۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اُس کی خوبصورتی اور مضبوطی میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔ لیکن بدقسمتی سے آج وہ گرجے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل چیز عمارت نہیں، اصل چیز وہ روح ہے جو اس عمارت میں آنے والوں اور رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ پس جب مسلمانوں میں وہ روح ختم ہو گئی تو مسجدیں غیروں کے قبضے میں چلی گئیں۔ پس اگر اس مسجد کی عظمت کو ہم نے قائم رکھنا ہے اور یقینا قائم رکھنا ہے ان شاء اللہ، تو پھر اس کی روح کو قائم رکھنے کی کوشش کریں اور یہ کوشش ہمیں ایک محنت سے کرنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرنی ہو گی کہ اے اللہ! اس مسجد کو روح قائم کرنے والے ہمیشہ عطا فرماتا رہ تا کہ قیامت تک یہ توحید کا مرکز رہے۔ توحید کے نعرے یہاں سے بلند ہوں۔ خدا کی نظر میں ہماری قربانی قبول ہو تو پھر ہی یہ مقصد حقیقت میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔

پھر دوسری آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان بزرگ انبیاء نے اپنی دعاؤں کو خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ صرف اپنے تک محدودنہ رکھا، بلکہ اپنی اولاد اور نسلوں تک وسیع کیا۔ پس یہ ہے دعا کا طریق اور یہ ہے ترقی کرنے والی اور نسل در نسل کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے چلے جانے کی سوچ اور فکر، اور یہ فکر اور سوچ ہو گی تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہماری کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔ اور پھر یہ دعا ہو کہ ہماری ذریت کو بھی نیکیوں پر قائم رکھ تب اس گھر کی آبادی کا مقصد حاصل ہو گا۔

ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ذریّت کو بھی نیکیوں پر قائم رکھے تا کہ اس گھر کی آبادی کا مقصد ہمیشہ حاصل ہوتا چلا جائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قربانی کی قبولیت تب ہو گی جب حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے لوگ ہماری نسلوں میں سے پیدا ہوتے رہیں گے۔ عبادت کرنے والے ہماری نسلوں میں سے پیدا ہوتے رہیں، اور اس طرح پر عبادت کرنے والے پیدا ہوں جس طرح اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور جیسا کہ اے اللہ! تو نے عبادت کا حکم دیا ہے اور طریق سکھایا ہے۔ پس ہم یہ دعا کریں جو دعا انبیاء نے کی تھی کہ ہمیں بھی وہ طریق سکھا۔ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا۔ اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا۔ یہ دعا ہمیں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عبادتوں اور قربانیوں کے طریق اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے سمجھ آتے ہیں۔ اس کی روح، اس کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کا اِدراک اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہوتا ہے۔ بیشک نماز بھی عبادت کا ایک طریق ہے، مسجد میں لوگ آتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں لیکن یہی نمازی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کی نمازیں اُن کے منہ پر ماری جاتی ہیں اور اُن کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضل کو مانگتے ہوئے ایسی نمازیں ہمیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اُس کی نظر میں مقبول ہوں اور پھر صرف نمازیں ہی نہیں ہیں، ہر کام جو خدا تعالیٰ کے حصول کے لئے کیا جائے وہ عبادت بن جاتا ہے، چاہے وہ حقوق العباد ہوں۔ پس اس روح کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔

پس یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ عبادت کی روح کو سمجھ کر ہی ہم توحید کے پیغام کو پھیلا سکتے ہیں اور اپنی نسلوں میں اس پیغام کو راسخ کر سکتے ہیں اور اُس کے لئے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ہے، نسلوں کے لئے بہت تڑپ کر دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم احمدی اپنے اجلاسوں میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہر قربانی کے لئے تیار رہیں گے تو اس عہد کی روح کو اپنی نسلوں میں پھونکنے کی ضرورت ہے تا کہ دین کی اشاعت کے لئے قربانیاں کرنے والے گروہ پیدا ہوتے رہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق قربانیوں کے طریق بھی بدلتے رہیں گے اور اس دعا وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا کا یہ بھی ایک مطلب ہے۔ سپین میں اگرچہ پہلے مسلمان جو داخل ہوئے وہ مدد کے لئے آئے، جہاد بھی کیا اور داد رسی کے لئے آئے تھے اور پھر وہ آگے پھیلتے چلے گئے۔ انہوں نے بیشک تلوار کا جہاد کیا لیکن آج کی قربانیاں تبلیغ کے جہاد کے ذریعہ سے ہیں۔ اشاعتِ لٹریچر کے لئے مالی قربانیاں کر کے ہیں۔ مساجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانیاں کر کے ہیں۔ قربانیوں کی نوعیت حالات کے مطابق بدل جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو کہ ہمیں قربانیوں کے طریق سکھا، یعنی بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی رضا کے حصول کے لئے قربانیوں اور عبادتوں کے طریق ہمیں سکھا۔ اس دعا کو قرآنِ کریم میں محفوظ کر کے ہمیں یہ اصولی ہدایت اللہ تعالیٰ نے فرما دی کہ قربانیاں حالات کے مطابق دینی ہیں۔ نیکی اس طرح اور اس قسم کی کرنی ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو سمیٹنے والی ہو۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو سب سے بڑی نیکی یہ بیان فرمائی کہ تہجد پڑھا کرو۔

(ماخوذ ازصحیح البخاری کتاب التہجد باب فضل قیام اللیل حدیث نمبر1122)

کسی کو پھر فرمایا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ جہاد کیا کرو۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب من قال ان الایمان ھو العمل حدیث نمبر26)

پس جس میں جس نیکی کی کمی ہو، وہی اُس کے لئے ضروری ہے اور وہی اس کے لئے بڑی ہے۔ وہی اُس کے لئے مناسبِ حال عبادت کا طریق ہے اور وہی اُس کے لئے مناسبِ حال قربانی ہے۔

پس اس دعا میں اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے ہر قسم کی کمزوریوں کو دور کرنے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان اپنی کوشش سے نہ ہی عبادتوں کے معیار حاصل کر سکتا ہے، نہ قربانیوں کے معیار حاصل کر سکتا ہے۔ اس لئے دعا عرض ہے کہ تُبْ عَلَیْنَا۔ ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ ہماری نیکیوں کو قبول کر لے اور پھر نیکی سے نیکی پھوٹتی رہے۔ ایک نیکی سے اگلی نیکی کی جاگ چلتی چلی جائے۔ قربانی سے قربانی پھوٹتی رہے۔ تیری عبادت، تیری رضا چاہتے ہوئے حمد کرنے والے ہوں، نہ کہ دکھاوے کے لئے۔ اور یہ عبادت پھر ہماری سوچوں کا محور بن جائے۔

(خطبہ جمعہ 29؍ مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اپریل 2022