• 3 مئی, 2024

رمضان کی نیکیوں کا سلسلہ سال بھر جاری رہے

ہم نے محسوس کیا ہے ایک انسان لذیذ اور مزے دار کھانے کی لذت اور اس کے سواد کو بسا اوقات کھانے کے بعد گھنٹوں محسوس کرتا رہتا ہے اور اکثر ایسے انسانوں کو لذیذ کھانے کے بعد جب کوئی اور ڈِش یا مشروب پیش کیا جائے تو وہ یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ میں کھانے کی لذت کو اس مشروب یا ڈِش سے زائل نہیں کرنا چاہتا یا میں اپنا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتا۔ اسی طرح ایک مومن رمضان میں روحانی خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جب وہ آخری دنوں میں داخل ہوتا ہے توبہت روتا ہے کہ یہ روحانی مائده اب ختم ہونے کو ہے اور ان آخری دنوں میں اس میں لذیذ کھانے سے وہ کچھ بچا کر رکھ لیتا ہے تا کہ آئندہ دنوں میں بھی مزا لے سکے۔ یا یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لذیذ کھانا جب قریب الا ختتام ہوتا ہے تو مزہ دوبالا ہونے لگتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک دفعہ اپنے ایک بھانجے کا واقعہ یوں سنایا تھا کہ اسے فرائی انڈہ بہت پسند تھا جب وہ ختم ہونے کو ہوتا تو وہ رونا شروع کر دیتا کہ اب یہ ختم ہو رہا ہے۔ یہی کیفیت رمضان المبارک کی ہے جس میں ایک مومن لذیذ سے لذیذ روحانی کھانے تیار کر کے نہ صرف خود فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ اپنے اللہ کے حضور پیش کرتا ہے تا آئنده زندگی میں اس کے کام آسکیں۔ ایک مومن اتنی کثرت کے ساتھ رمضان میں روحانی کھانے تیار کرتا ہے کہ اس کو یہ تیاری جہاں سہل لگتی ہے وہاں رمضان کے بعد بھی اس جیسی روحانی ڈشیں تیار کرتا رہتا ہے تا سارا سال ہی ان روحانی کھانوں سے نہ صرف خود لطف اندوز ہو بلکہ اپنے عزیز واقارب کو بھی اس سے فائدہ پہنچا سکے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک قول اس طرف توجہ دلاتا ہے۔ اِذَا سَلِمَ الرَّمَضَانُ سَلَمَتِ السَّنۃ (در منثور جلد1 صفحہ341) کہ رمضان اگر سلامتی سے گزر گیا تو سمجھو کہ سارا سال سلامتی سے گزر گیا۔ اس میں دراصل یہی راز ہے کہ رمضان نیکیوں کی وہ پختہ عادت ڈال جاتا ہے جس کے پیچھے انسان سارا سال گناہوں سے بچ جاتا ہے۔

ایک مومن 30 دن روزانہ ہی گناہوں کی دُھلائی والی بھٹی سے گزر کر اپنے جسم کو صاف ستھرا اور پاک کر چکا ہوتا ہے۔ وہ خشوع و خضوع والی پنجوقتہ باجماعت نمازوں کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ فرشتوں کی پکار پر راتوں کو اٹھ کر اپنے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی باتیں ماننے کی عادت اپنا چکا ہو تا ہے۔ اپنے معاصی اور گناہ معاف کروا چکا ہو تا ہے۔ اسی لئے ان نیکیوں اور حسنات کو جاری رکھنے کے لئے عید الفطر کے اگلے روز سے 6 شوال کے روزے رکھے گئے ہیں۔ اور اس کا یہ فلسفہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ کل 36 روزے سال بھر کے 360 دنوں کے روزوں کے ثواب کے برابر ہوں گے۔ اسی لئے رمضان میں اپنے سپر د ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہئے۔آنحضورؐ نے فرمایا اَلْاَعمالُ بِخَوَا تِیْمِھَا کہ اعمال کا دارو مدار انجام پر ہے۔ اس مضمون کو ایک انگریزی ضرب المثل میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ All is well that ends well

اس وجہ سے اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان جب اپنی زندگی کے اختتام کی طرف بڑھتا ہے تو اس میں تقویٰ بڑھ جاتا ہے۔ اللہ سے لگاؤ بڑھتا ہے۔ نمازوں کی طرف پہلے سے زیادہ رغبت ہوتی ہے۔ نیکیاں بجا لاتا ہے۔ تا اختتام درست ہو۔ پس انسان اس دنیا میں ایک مسافر کی مانند ہے اس کی گاڑی نجانے کس اسٹیشن پر رکے اور اسے نیچے اتار دیا جائے۔ اس لئے اسے ہر وقت اپنے آپ کو نیکیوں اور حسنات سے مزین کئے رکھنا چاہئے اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک نیکیوں کا پُل تیار کرتے رہنا چاہئے۔ اور ذوق و شوق سے مسجد کی طرف عبادات کے لئے بڑھنا چاہئے تاخد اکا قرب حاصل رہے۔ اور نیکیوں کا زاد راہ بڑھتا چلا جائے۔

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

رمضان کے تیسرے عشرہ (آگ سے نجات) اور اس سے متعلق ادعیہ ماثورہ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ