• 14 مئی, 2024

حضرت امام مالکؒ

تعارف

حضرت اقدس محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ و سلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آپؐ کی بعثت کے بعد کے پہلے تین سو سال امت محمدیہ کے لئے بہترین ہیں۔ اسی زمانہ میں دوسری صدی ہجری میں ایک ایسے عظیم الشان بزرگ محدث امام امت محمدیہؐ میں گزرے ہیں جن کے بے شمار پیروکار آج بھی موجود ہیں۔ مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والے اس عظیم عاشقِ رسولؐ کا نام مالک بن انس تھا۔ آپؒ کی پیدائش 93 ہجری میں مدینہ کے پاس وادی عقیق میں آپ کے آبائی گھر جس کا نام قصر مقعد تھا میں ہوئی۔آپؒ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور آپ کا لقب امام دار الہجرت پڑا۔ امام مالک کا نسب اس طرح سے ہے کہ مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر الاصبحی۔ آپ کی والدہ کا نام عالیہ بنت شریک تھا۔ امام مالک کا تعلق یمنی قبیلہ ذو اصبح سے تھا۔ آپؒ کے پر دادا ابو عامر کے متعلق بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ غزوہ بدر کے بعد مدینہ آئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں داخل ہوئے اور بدر کے علاوہ تمام غزوات میں حضور اکرمؐ کے ساتھ شامل ہوئے۔ مگر اکثر مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ ابو عامر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں مسلمان تو ہو گئے تھے مگر حضورؐ کو کبھی دیکھا نہیں تھا اور مدینہ آنحضرتؐ کی وفات کے بعد آئے اور تابعین میں شمار ہوئے۔

امام مالکؒ کے خاندان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے نہایت محبت اور عقیدت تھی۔ آپؒ کے دادا، چچا اور والد اور پھر آپؒ خود محدث بنے۔ آپؒ کے دادا مالک بن ابی عامر نہایت ہی بلند پایہ ثقہ تابع تھے۔انہوں نے حضرت عمر، حضرت طلحہ، حضرت عائشہ، حضرت ابو ہریرہ، اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم وغیرہ سے روایات کی ہیں۔ امام مالکؒ کے دادا مالک بن ابی عامر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے نہایت عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد انتہائی خراب حالات میں جن چار اشخاص نے حضرت عثمانؓ کو دفنایا تھا ان میں آپ بھی شامل تھے۔ (تزیین الممالک بمناقب الامام مالک صفحہ19، از حضرت علامہ جلال الدین السیوطیؒ) تاریخ طبری میں خود مالک بن ابی عامر کے الفاظ نقل ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو میں بھی ان کا جنازہ اٹھانے والوں میں سے تھا۔ ہم ان کے جنازے کو اس قدر جلد جلد لے جا رہے تھے کہ ایک دروازے سے ان کا سر ٹکرایا۔ اس وقت ہم پر بہت خوف و دہشت طاری تھی۔ تا آنکہ ہم نے انہیں حش کوکب میں دفن کر دیا۔‘‘ (تاریخ طبری اردو ترجمہ خلافت عثمانیہ تدفین حضرت عثمانؓ)

امام مالکؒ کے گھرانے کا حال

حضرت امام مالکؒ کا گھرانہ ایک غریب گھرانہ تھا۔ آپ کے والد تیر بنانے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے بھائی کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے اور امام مالکؒ چھوٹی عمر میں ہی اپنے بھائی کے ساتھ کپڑے فروخت کیا کرتے تھے۔ امام مالکؒ کی بیٹی جب بھوک کی وجہ سے روتی تھی تو آپؒ خادمہ کو خالی چکی چلانے کا حکم دےدیتے تھے تاکہ پڑوسیوں کو آپؒ کی بیٹی کے رونے کی آواز نہ آئے۔ مگر پھر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہوا اور اس نے آپؒ کو بے شمار نوازا۔

امام مالکؒ  کا حصولِ علمِ حدیث کا شوق اور کمال حافظہ

حضرت امام مالکؒ نے بچپن میں قرآنِ کریم حفظ کیا تھا۔ حدیثِ نبویؐ سیکھنے اور یاد کرنے کا بچپن سے ہی نہایت شوق تھا۔ چھوٹی عمر سے ہی علمِ حدیثِ نبویؐ سے لگاؤ ہو گیا تھا۔ اور حافظہ بھی کمال کا تھا۔ آپؒ کی والدہ نے آپؒ کو حضرت ربیعہ رائی کی مجلس میں حصول علم و ادب کے لئے بھیجنا شروع کیا۔ آپ روز جو بھی سبق سیکھتے اسے لکھ لیتے۔ اس کے بعد درختوں کے سایہ میں بیٹھ کر اسے یاد کرتے۔ آپؒ کی بہن نے آپ کو اس طرح دیکھا تو والد سے جا کر ذکر کر دیا۔ ان کے والد نے کہا ’’اے بیٹی! وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث یاد کرتے ہیں۔‘‘ (امام مالک کے سوانح حیات صفحہ 41، از محمد ابو زہرہ) حدیث سیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ عید کے دن بھی حدیث سیکھنے چلے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ عید کے دن عید کی نماز پڑھ کر سیدھا اپنے استاد ابن شہاب زہری کے گھر چلے گئے۔ ابن شہاب نے خادمہ سے کہا جاؤ باہر دیکھو کون ہے تو اس نے کہا کہ مالک ہے۔ ابن شہاب نے اندر بلانے کو کہا اور پھر امام مالک سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ تم اپنے مکان جانے کے بجائے باہر ہی باہر میرے یہاں آگئے ہو۔ کھانا کھا لو۔ امام مالک نے کہا کھانے کی حاجت نہیں حدیث بیان فرما دیں۔ ابن شہاب نے اسی وقت سترہ احادیث بیان کیں اور پھر کہا کہ اس سے تم کو کیا فائدہ کہ میں حدیثیں بیان کر دوں اور تم یاد نہ کرو۔ امام مالک نے کہا کہ میں تو ابھی آپ کو ساری حدیثیں سنا دوں اور پھر ساری حدیثیں زبانی سنا بھی دیں۔

(سیرت حضرت امام مالک صفحہ 20، از ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی)

ایک مرتبہ امام مالکؒ نے ابن شہاب زہری کو اپنی تختیاں دکھائیں تو ابن شہاب نے مزید 40 احادیث لکھا کر کہا کہ اگر تم ان کو یاد کر لو تو ان کے حافظ ہو جاؤ گے۔ امام مالکؒ نے کہا کہ میں ان کو ابھی زبانی سنا سکتا ہوں۔ ابن شہاب نے کہا کہ سناؤ تو امام مالکؒ نے ساری احادیث سنا دیں۔ اس پر امام ابن شہاب زہریؒ نے کہا کہ ’’اٹھو تم علم کا خزانہ ہو‘‘ یا یہ کہ ’’تم علم کے لئے بہترین خزانہ ہو۔‘‘

امام مالکؒ کا ایسا انہماک علم و حدیث دیکھ کر حضرت امام ابو حنیفہؒ نے امام مالکؒ کے متعلق کہا تھا کہ ’’ما رأیت اسرع منہ لجواب صادق و نقد تام۔‘‘ (سیرت امام مالک صفحہ 27) یعنی میں نے امام مالک سے زیادہ جلد صحیح جواب دینے والا اور کامل نقاد حدیث کسی کو نہیں دیکھا۔

امام مالکؒ کا احترامِ حدیث نبویؐ

حضرت امام مالکؒ کو بچپن ہی سے احترامِ حدیثِ نبویؐ تھا۔ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ امام مالکؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے عمرو بن دینار سے حدیث سنی ہے تو کہا میں نے ان کو حدیث بیان کرتے ہوئے دیکھا اور طلبہ کھڑے کھڑے لکھ رہے تھے تو میں نے ناپسند کیا کہ کھڑے ہو کر حدیثِ رسولؐ لکھوں۔ (سیرت امام مالکؒ صفحہ 23، از محمد عاصم اعظمی) اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ امام مالکؒ ابو الزناد کے پاس سے گزرے جبکہ وہ حدیث بیان کر رہے تھے۔ مالک وہاں نہ گئے۔ بعد میں ابو الزناد امام مالک سے ملے تو پوچھا کہ آپ میرے یہاں کیوں نہ بیٹھے تو جواب دیا کہ جگہ تنگ تھی اور مجھے یہ گوارا نہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد کھڑے ہوئے لکھوں۔

امام مالکؒ اور خواب کی تعبیر

حضرت امام مالکؒ کے متعلق لکھا ہے کہ ایک دفعہ چھوٹی عمر میں آپؒ کے ایک استاد صفوان بن سلیم نے آپؒ سے ایک خواب کی تعبیر معلوم کرنی چاہی۔ امام مالکؒ نے جواب دیا کہ ’’حضرت! آپ جیسے عظیم بزرگ مجھ سے کسی بات کو معلوم کریں۔ یہ عجیب سی بات ہے۔‘‘ ان کے استاد نے کہا ’’بھتیجے! کوئی بات نہیں ہے۔ اس میں کیا حرج ہے؟ میں نے خواب دیکھا ہے کہ آئینہ دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اس پر امام مالکؒ نے فوراً کہا کہ ’’آپ اپنی آخرت سنوار رہے ہیں اور تقرب الی اللہ کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں۔‘‘ ان کے استاد صفوان نے یہ تعبیر سنی تو بہت خوش ہوئے اور کہا ’’أنت الیوم مویلک و لئن بقیت تکونن مالکا اتق اللّٰہ یا مالک اذ کنت مالکا و الا فأنت ھالک۔‘‘ یعنی آج تم مویلک ہو۔ اگر زندہ رہے تو مالک ہو جاؤ گے۔ اے مالک! جب تم واقعی مالک بن جانا تو اللہ سے ڈرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ امام مالک بیان کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں لوگ مجھے پیار کی وجہ سے مویلک کہہ کر پکارتے تھے۔

(سیرت امام مالکؒ صفحہ16، از ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی)

حضرت امام مالکؒ کے اساتذہ میں سے چند ایک دج ذیل ہیں:

ربیعہ رائی، ابن ہرمز، نافع، صفوان بن سلیم، ابن شہاب زہری وغیرہ۔

امام مالکؒ بحیثیت استاد

حضرت امام مالکؒ نے اپنے اساتذہ سے حدیث و فقہ سیکھ کر پھر مسجد نبویؐ میں درسِ حدیث دینا شروع کیا۔ خود امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص مسجد میں درس دینے اور فتوے دینے کے لئے بیٹھتا ہے اسے اس سے پہلے اہلِ صلاح اور صاحبانِ فضل سے مشورہ کر لینا چاہئے اور انہیں سے اپنی مجلس کا مقام بھی طے کرنا چاہئے۔ اگر وہ اسے اس مسند کا اہل سمجھیں تو بیٹھ جائے ورنہ نہیں۔ میں خود نہیں بیٹھا یہاں تک کہ اہلِ علم میں سے 70 علماء نے شہادت دی کہ میں اس منصب کا اہل ہوں۔‘‘

(امام مالک کے سوانح حیات صفحہ 52، از محمد ابو زہرہ)

امام مالکؒ ایک نہایت اعلیٰ پائے کے استاد تھے۔ آپؒ کے ایک شاگرد کا بیان ہے کہ ’’امام مالک جب ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے تو وہ ایسے ہوتے تھے گویا ہم ہی میں سے ایک ہیں۔ ہم سے کھل کر باتیں کرتے تھے۔ اور ہم سب سے زیادہ متواضع تھے۔ لیکن جب درسِ حدیث دینے بیٹھتے تو ان کے کلام سے ہم میں ہیبت طاری ہو جاتی گویا وہ ہمیں پہچانتے ہی نہیں نہ ہم انہیں پہچانتے ہیں۔‘‘

(امام مالک کے سوانح حیات صفحہ 67)

امام مالکؒ کی درسِ حدیث سے پہلے کی تیاری

حضرت امام مالکؒ جیسا کہ ذکر ہوا ہے حدیثِ نبویؐ کا بڑا احترام کرتے تھے۔ چنانچہ آتا ہے کہ حدیث کا درس دینے سے پہلے وضو یا غسل کرکے عمدہ اور قیمتی لباس پہنتے۔ بالوں میں کنگھی کرتے، خوشبو لگاتے اور پھر درس دیتے۔ امام مالکؒ فرماتے تھے کہ ’’أحب أن أعظم حدیث رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم فلا أحدث بہ إلا علی طھارۃ متمکنا‘‘ (تزیین الممالک صفحہ 37، از حضرت امام السیوطیؒ) کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات بڑی محبوب ہے کہ حدیث رسول اللہؐ کی تعظیم کروں اور بغیر طہارت حدیث نہ بیان کروں۔ حضرت امام مالکؒ کی درس گاہ میں بیٹھنے کا عمدہ انتظام ہوتا تھا۔ ہر کوئی با وقار اور با ادب بیٹھتا تھا۔ آپ راستہ میں چلتے ہوئے یا جلد بازی میں حدیث بیان کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ ’’مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث بیان کروں تو لوگ اسے خوب اچھی طرح سمجھیں۔‘‘ (سیرت امام مالک صفحہ 41) اسی طرح لکھ ہے کہ ’’فإذا رفع أحد صوتہ فی مجلسہ زجرہ، وقال: قال اللّٰہ تعالیٰ: یا ایھا الذین اٰمنوا لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبی (الحجرات: 2)، فمن رفع صوتہ عند حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم فکأنما رفع صوت فوق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔‘ (تزیین الممالک صفحہ 36۔35) یعنی جب امام مالکؒ کی مجلس میں کوئی آواز اونچی کرتا تو اسے ڈانٹ دیتے اور کہتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے اونچا مت کرو۔ پھر کہتے کہ جس کسی نے حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یعنی درسِ حدیث کے دوران اپنی آواز اونچی کی تو گویا اس نے اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اونچا کیا۔

پہلے تو امام مالکؒ مسجد میں ہی درس دیا کرتے تھے مگر بعد میں ایک بیماری کی وجہ سے مسجد نہ جاسکتے تھے تو گھر سے ہی درس دینا شروع کیا۔ آپؒ کے گھر جب کوئی گروہ آتا تو اپنی خادمہ سے کہتے کہ ان سے پوچھو حدیث سیکھنے آئے ہیں یا فتویٰ پوچھنے۔ اگر کہا جاتا کہ فتویٰ پوچھنے آئے ہیں تو باہر جاکر تسلی سے ان کو فتویٰ بتاتے۔ اور اگر کہا جاتا کہ حدیث سیکھنے آئے ہیں تو کہتے کہ ان کو بٹھاؤ۔ پھر جا کر وضو یا غسل کر کے، اچھے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر پھر حدیث پڑھانے آتے۔

امام مالکؒ کی فتویٰ دینے میں احتیاط

حضرت امام مالکؒ سے بے شمار لوگ اور بڑی دور دور سے آئے ہوئے لوگ فتویٰ پوچھتے تھے۔ مگر امام مالکؒ فتویٰ دینے میں انتہائی احتیاط برتتے تھے۔ آجکل کے علماء کی طرح فوراً ہی فتویٰ دینا شروع نہیں کر دیتے تھے بلکہ سوچ سمجھ کر تسلی سے غور کرنے کے بعد دیتے تھے۔ بلکہ کئی مرتبہ یہانتک کہہ دیتے تھے کہ ’’لا أدری‘‘ یعنی میں نہیں جانتا۔ خواہ فتویٰ مانگنے والا کتنی دور سے ہی آیا ہو۔ ’’عبد الرحمان بن مہدی نے کہا کہ ایک آدمی نے امام مالکؒ سے ایک مسئلہ پوچھا اور ذکر کیا کہ وہ یہ دریافت کرنے کے لئے ملک مغرب سے چھ مہینے کی مسافت سے بھیجا گیا ہے۔ فرمایا: ’’جس نے بھیجا ہے اس سے جا کر کہہ دو کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں ہے‘‘ اس شخص نے کہا اور کون جانتا ہے؟ فرمایا: ’’جس کو اللہ نے علم دیا ہو۔‘‘

(امام مالک کے سوانح حیات صفحہ71)

اسی طرح ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص نے آپ سے مسئلہ پوچھا اور اس کے لئے اسے اہلِ مغرب نے بھیجا تھا۔ آپ نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے شہر میں کبھی پیش نہیں آیا نہ اپنے اساتذہ کو اس سلسلہ میں کچھ کہتے ہوئے ہم نے سنا۔ اس لئے آپ واپس جائے۔ جب دوسری صبح ہوئی تو وہ شخص آیا اور اپنا سامان خچر لادے ہوئے کھینچ رہا تھا۔ امام مالکؒ نے فرمایا تم نے مجھ سے دریافت کیا اور مجھے وہ مسئلہ معلوم نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا اے ابو عبد اللہ (امام مالک) مجھے تو آدمیوں نے کہا ہے روئے زمین پر آپؒ سے بڑا عالم نہیں ہے۔ امام مالک نے بغیر ہچکچاہٹ جواب دیا ’’میں بہت اچھا نہیں ہوں‘‘

(امام مالک کے سوانح حیات صفحہ 71)

رسول اللہ ؐ کی حدیث مدینہ کے عالم کے متعلق

اس ضمن میں یعنی یہ کہ لوگوں میں مشہور ہو گیا تھا کہ آپؒ سے بڑا کوئی عالم نہیں کے متعلق ایک حدیثِ نبویؐ جو کہ آپؐ کی ایک پیشگوئی ہے اس کا ذکر کرنا ضروری ہوگا کیونکہ اس کو امت کے بعض بزرگان نے، جن میں حضرت امام ترمذیؒ، حضرت امام ابن حجر العسقلانیؒ اور حضرت امام جلال الدین السیوطیؒ وغیرہ شامل ہیں، حضرت امام مالکؒ پر چسپاں کیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے کہ حضرت اقدس خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ

’’يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ، أَكْبَادَ الإِبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلاَ يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِينَةِ‘‘

(جامع الترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی عالم المدینۃ)

آنحضرتؐ نے فرمایا کہ عنقریب لوگ علم کی تلاش میں (زیادہ) سفر کر کے اونٹوں کے جگر پگھلا دیں گے لیکن وہ کسی کو بھی مدینہ کے عالم سے زیادہ عالم نہیں پائیں گے۔

امام الترمذی اسی حدیث کے آگے لکھتے ہیں کہ ابن عیینہ اور عبد الرزاق سے جب پوچھا گیا کہ وہ عالم کون ہے تو انہوں نے کہا کہ مالک بن انس۔

امام مالکؒ کے فتاویٰ صرف واقعی
اور حقیقی مسائل پر ہوتے تھے

حضرت امام مالک فتاویٰ صرف حقیقی اور واقعی باتوں پر دیا کرتے تھے اور فرضی اور بناوٹی مسائل پر فتویٰ دینے سے منع کرتے تھے۔ اپنی درس گاہ میں بھی طلباء کے انہی سوالات کے جوابات دیتے جو واقعی واقع ہوں۔ وہ باتیں فرض نہیں کرتے تھے اور اپنے طلباء کو بھی یہی سکھاتے تھے۔ ایک دفعہ آپ سے کسی نے فرضی مسئلہ پر سوال کیا۔ آپ نے کہا وہی بات پوچھو جو ہوتی ہے اور جو نہیں ہوتی اسے چھوڑ دو۔ دوسرے شخص نے پھر ایسا ہی سوال کیا۔ آپ نے جواب نہیں دیا۔ اس نے کہا آپ جواب کیوں نہیں دیتے؟ آپؒ نے فرمایا ’’اگر تم ایسی بات دریافت کرتے جس سے فائدہ ہوتا تو میں جواب دیتا۔‘‘

(امام مالک کے سوانح حیات صفحہ 70)

امام مالکؒ فتویٰ دیتے ہوئے کیا کہتے تھے

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ امام مالکؒ فتویٰ دینے میں بڑی احتیاط کرتے تھے۔ حضرت امام ابن حجر العسقلانیؒ اپنی کتاب میں حضرت امام مالک کا یہ قول نقل کرتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’میں تو ایک انسان ہوں جو غلطیاں کرتا ہے۔ پس میری رائے پر غور و فکر کرو۔ اگر وہ سنت کے موافق ہو تو اسے اپنا لو۔‘‘ (تہذیب التہذیب زیرِ اسم مالک بن انس) جب بھی آپؒ فتویٰ دینے لگتے تو اس سے پہلے یہ آیتِ قرآنی پڑھتے ’’اِنۡ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحۡنُ بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ‘‘ (الجاثیہ: 33) یعنی ہم ایک ظن سے بڑھ کر گمان نہیں کرتے اور ہم ہرگز یقین لانے والے نہیں۔ اس آیت کو پڑھنے کا یہ مقصد ہوتا تھا کہ کہیں لوگ آپؒ کے فتاویٰ کو وہ مرتبہ نہ دے دیں جو قرآن و حدیث کا ہے یا کہیں آپ کی بات کو شرعی فیصلہ نہ مان لیں۔ اسی لئے جب آپؒ سے خلیفہ ہارون رشید نے کہا کہ آپؒ کی کتاب المؤطا کو خانہ کعبہ میں لٹکا دیا جائے اور اس سے استنباط کرنا لازمی قرار دیا جائے تو آپؒ نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ صحابا کرام کی بھی مختلف آراء تھیں۔

المؤطا امام مالکؒ

حضرت امام مالکؒ کی کتاب المؤطا کے متعلق آتا ہے کہ یہ فنِ حدیث و فقہ میں پہلی کتاب مدون کی گئی تھی۔ حضرت امام الشافعیؒ کا قول ہے کہ ’’کتاب اللہ کے بعد روئے زمین پر اس سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔‘‘ (مقدمہ المؤطا امام مالکؒ مترجم علامہ عبد الحکیم) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ المؤطا کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’یہ کتاب بہت بلند پایہ ہے بلکہ بعض نے اسے بخاری کے برابر قرار دیا ہے مگر چونکہ اس کے بیشتر حصہ اسلوب فقہ کے طریق پر ہے اس لئے حدیث کی کتاب کے طور پر صحاح میں شمار نہیں کیا گیا ورنہ اپنے مرتبہ کے لحاظ سے وہ کسی مجموعہ حدیث سے کم نہیں۔‘‘

(سیرت خاتم النبیّین صفحہ 31-32)

جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ فتاویٰ دینے میں بڑی احتیاط کرتے تھے اور بڑے غور و فکر کے بعد فتویٰ دیتے تھے۔ لکھا ہے کہ ابن قاسم نے اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ میں نے امام مالکؒ کو سنا فرماتے تھے کہ ’’میں ایک مسئلہ میں تقریباً دس سال سے سوچ رہا ہوں اور ابھی تک اس میں رائے قائم نہیں کر سکا ہوں۔‘‘ اور کہا کرتے تھے کہ اکثر مجھے ایسے مسائل پیش آجاتے ہیں کہ میں ایک سال کی راتیں ان کے سوچ میں گزار دیتا ہوں۔‘‘ (امام مالک کے سوانح حیات صفحہ105) ابن حکم کہتے ہیں کہ امام مالکؒ سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو سائل سے کہتے ’’آپ جائیے میں غور کر لوں۔‘‘ وہ چلا جاتا۔ آپؒ اس میں فکرمند رہتے۔ ہم نے اس سلسلہ میں آپ سے پوچھا تو آپؒ روئے اور کہا ’’میں ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن مجھ سے سوال کیا جائے‘‘۔ اور کہتے تھے ’’جو شخص پسند کرتا ہے کہ کسی مسئلہ کا جواب دے تو وہ خود کو جنت یا دوزخ کے لئے پیش کرتا ہے اور آخرت میں کیسے اس کی گلوخلاصی ہو گی۔‘‘

(امام مالک کے سوانح حیات صفحہ 105)

حضرت امام مالکؒ  کسی بھی مسئلہ کو معمولی اور آسان نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ کسی سائل نے کوئی مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ معمولی مسئلہ ہے۔ اس پر امام مالکؒ غصہ ہو گئے اور کہا ’’آسان اور معمولی مسئلہ ہے! علم میں کوئی چیز معمولی نہیں ہے۔ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا قول نہیں سنا۔ ’’ہم عنقریب تم پر ثقیل قول اتاریں گے۔‘‘ تو علم تمام ثقیل ہے۔ اور خاص طور پر وہ جس کی قیامت کے دن باز پرس ہوگی۔‘‘

(امام مالک کے سوانح حیات صفحہ105)

حضرت امام مالکؒ کو سزا

جیسا کہ اولیاء کرام اور بزرگانِ دین کے مخالفین بھی ہوتے ہیں، امام مالکؒ سے بھی دشمنی کرنے والے موجود تھے۔ امام مالکؒ نے دو حکومتیں دیکھیں۔ ایک اموی حکومت اور دوسری عباسی حکومت۔ دور عباسی میں عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے دور میں امام مالکؒ نے ایک فتویٰ دیا۔ امام مالکؒ ایک حدیث بیان کرتے تھے کہ ’’اگر جبراً طلاق کسی سے دلائی جائے تو واقع نہ ہوگی۔‘‘ فتنہ پرور لوگوں نے اس حدیث کی آڑ میں یہ پھیلانا شروع کر دیا کہ امام مالکؒ خلیفہ ابو جعفر منصور کی بیعت سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ اس پر آپؒ کو منع کیا گیا کہ یہ حدیث مت سنایا کریں۔ مگر امام مالکؒ نے پھر بھی یہ حدیث سنائی تو مدینہ کے حاکم نے امام مالک کو سخت سزا دی۔ اس کے متعلق مولانا دوست محمد شاہد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ’’جعفر نے مدینہ پہنچ کر نئے سرے سے لوگوں سے بیعت لی۔ امام مالک کو کہلا بھیجا کہ آئندہ طلاق جبری کے عدم اعتبار کا فتویٰ نہ دیں کہ لوگوں کو بیعتِ جبری کی بے اعتباری و عدمِ صحت کے لئے سند ہاتھ آئے۔ امام سے ترکِ حق کی توقع کس قدر بے جا خواہش تھی۔ امام صاحب بدستور معاملۂ جبری کے عدمِ صحت کا فتویٰ دیتے رہے۔ سلیمان نے غضبناک ہو کر حکم دیا کہ اُن کو ستّر کوڑے مارے جائیں۔ امام دار الہجرت کو محکمہ امارت میں گناہگاروں کی طرح لایا گیا۔ کپڑے اتارے گئے اور شاہانہ امامت پر دستِ ظلم نے ستّر کوڑے پورے کئے۔ تمام پیٹھ خون آلود ہوگئی۔ دو ہاتھ مونڈھے سے اتر گئے۔ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو حکم دیا کہ اونٹ پر بٹھا کر شہر میں انکی تشہیر کی جائے۔ امام صاحب بایں حالِ زار بازاروں اور گلیوں سے گزر رہے تھے اور زبانِ صداقت نشان بآوازِ بلند کہہ رہی تھی ’’جو مجھ کو جانتا ہے وہ جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں فتویٰ دیتا ہوں کہ طلاقِ جبری درست نہیں۔‘‘ اس کے بعد اسی طرح خون آلود کپڑوں کے ساتھ مسجدِ نبویؐ میں تشریف لائے اور دو رکعت نماز پڑھی۔‘‘ یہ واقعہ 147 ہجری کا ہے۔

(مقربانِ الہی کی سرخروئی صفحہ17۔16)

امام مالکؒ کے متعلق خوابیں

حضرت امام مالک کے متعلق بعض لوگوں نے خوابیں بھی دیکھیں تھیں۔ اسماعیل بن مزاحم المروزی کہتے ہیں کہ ’’رأیت کأن النبی ؐ فی المنام، فقلت: یا رسول اللّٰہ من نسأل بعدک؟ قال: مالک بن أنس‘‘ (تزیین الممالک صفحہ 26، از امام السیوطیؒ) یعنی اسماعیل بن مزاحم کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں نبیؐ کو دیکھا تو میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ہم آپؐ کے بعد کس سے (فتوے) پوچھا کریں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ مالک بن انس سے۔

مطرف جو امام مالک کے شاگرد تھے کہتے ہیں کہ ایک شخص نے مجھے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا۔ آپؐ مسجد میں بیٹھے تھے اور لوگ آپؐ کے گرد بیٹھے تھے۔ امام مالک آپؐ کے سامنے کھڑے تھے اور رسول اللہؐ کے آگے مشک رکھی ہوئی تھے۔ آنحضرتؐ اس میں سے مٹھی بھر مشک امام مالک کو دیتے جاتے تھے اور امام مالک اسے آگے لوگوں پر چھڑکتے جاتے تھے۔ مطرف کہتے ہیں کہ میں نے مشک کی تعبیر علم اور اتباعِ سنت کی۔

(تزیین الممالک صفحہ 26)

امام سیوطیؒ امام مالکؒ کا ایک قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ما بت لیلۃ إلا و رأیت فیھا النبی ؐ‘‘ (تزیین الممالک صفحہ 33) یعنی کوئی ایسی رات نہیں گزری جس میں میں نے رسول اللہؐ کو نہ دیکھا ہو۔

حضرت امام مالکؒ  کا حلیہ

حضرت امام مالکؒ کے حلیہ کے متعلق آتا ہے کہ آپؒ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی، قد لمبا، سر بڑا، آنکھیں روشن اور بڑی بڑی، داڑھی دراز تھی۔ لباس زیادہ تر سفید ہوتا تھا۔ عمدہ خوشبو اور عطر لگاتے تھے۔

(سیرت امام مالک صفحہ 148)

امام مالکؒ کی انگوٹھی

امام مالکؒ کی ایک انگوٹھی تھی جس میں سیاہ نگینہ ’’حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل‘‘ کندہ تھا۔

امام مالکؒ کی عبادت

حضرت امام مالکؒ کا یہ طریق تھا کہ مہینہ کی پہلی رات ساری رات عبادت کرتے تھے۔ امام مالکؒ کی بیٹی فاطمہ کہتی ہیں کہ جمعہ کی ساری رات عبادت میں گزارتے تھے۔ ابن وہب کہتے ہیں، امام مالک کی بہن سے پوچھا گیا کہ گھر کے اندر امام مالک کی مشغولیت کیا تھی؟ تو جواب دیا ’’المصحف و التلاوۃ‘‘ اسی طرح مغیرہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات میں امام صاحبؒ کے پاس سے گزر رہا تھا وہ الحمد للّٰہ کے بعد سورۃ ’’اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ‘‘ پڑھ رہے تھے۔ میں ٹھہر گیا۔ امام صاحبؒ جب ’’لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ‘‘ پر پہنچے تو دیر تک روتے رہے اور یہی آیت دہراتے رہے اور صبح تک اسی حال میں رہے۔ امام مالکؒ رات کو نماز پڑھتے ہوئے اپنے رومال کو تہہ کر کے سجدہ کی جگہ رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں ایسا اس لئے کرتا ہوں کہ میری پیشانی پر سجدے کا نشان نہ پڑے جس کو دیکھ کر لوگ سمجھیں کہ میں قیامِ لیل کرتا ہوں‘‘۔

(سیرت امام مالک صفحہ150۔149)

امام مالکؒ کی وفات

حضرت امام مالکؒ کی وفات 179 ہجری میں ربیع الاول کے مہینہ میں ہوئی۔ وفات کے وقت آپؒ کی عمر 86 سال تھی۔

امام مالکؒ کے متعلق بزرگانِ امت کے اقوال

حضرت امام مالک کے بے شمار طلباء تھے۔ حضرت امام الشافعیؒ بھی انہی میں سے تھے۔ امام شافعیؒ امام مالکؒ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’مالک تو ستارہ ہے‘‘

(تزیین الممالک صفحہ 31)

امام نسائیؒ کہتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک تابعین کے بعد امام مالکؒ سے زیادہ دانش مند اور ان سے بزرگ اور ان سے زیادہ ثقہ کوئی نہیں۔‘‘

(سیرت امام مالک صفحہ 84)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کہتے ہیں کہ ‘‘امام مالکؒ ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث میں سب سے زیادہ پختہ و ضابط تھے اور اسناد میں سب سے زیادہ ثقہ تھے۔’’

(سیرت امام مالک صفحہ 84)

تصانیف امام مالکؒ

حضرت امام مالکؒ کی بہت سی تصانیف کا ذکر آتا ہے جن میں سے سب سے زیادہ مشہور المؤطا ہے جو حدیث و فقہ کی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ آپؒ کی بعض تصانیف کے نام اس طرح سے ہیں:

المناسک، تفسیر، المجالسات عن مالک، رسالتہ فی الاقضیہ وغیرہ۔

(تزیین الممالک صفحہ 83)

ایک دفعہ خلیفہ ہارون رشید نے امام مالکؒ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں آپؒ سے المؤطا سیکھوں۔ امام مالکؒ نے کہا کہ ٹھیک ہے امیر المؤمنین۔ پھر پوچھا کہ کب؟ تو امام مالکؒ نے کہا کہ کل۔ اگلے دن امام مالکؒ اپنے گھر میں خلیفہ ہارون رشید کا انتظار کر رہے تھے اور خلیفہ ہارون رشید اپنے محل میں امام مالکؒ  کا انتظار کر رہے تھے۔ جب تاخیر ہوئی تو ہارون نے کسی کو بھجوا کر امام مالکؒ کو بلوایا اور کہا کہ ’’اے ابوعبد اللہ! میں تو آج آپ کا انتظار کرتا رہا‘‘۔ اس پر امام مالکؒ نے کہا کہ ’’اے امیر المؤمنین! میں بھی آج آپ کا انتظار کرتا رہا‘‘۔ پھر امام مالکؒ نے خلیفہ ہارون رشید کو کہا کہ ’’إن العلم یؤتیٰ ولا یأتِی، و إن ابن عمک ھو الذی جاء بالعلم فإن رفعتموہ ارتفع، و إن وضعتموہ اتضع۔‘‘ (تزیین الممالک صفحہ 93۔92) یعنی علم عطا کیا جاتا ہے آتا نہیں۔ اور آپ کے چچا زاد صلی اللہ علیہ و سلم علم لائے ہیں۔ پس اگر تم اسے عزت دو گے تو وہ رفعت حاصل کرے گا اور اگر اسے نیچے چھوڑ دو گے (عزت نہیں دو گے) تو نیچے گر جائے گا۔

(سید حاشر احمد۔ طالبعلم جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اپریل 2022