• 26 اپریل, 2024

میری دادی جان کی قیمتی یادیں

میرے سر تاج ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ؓ کو وفات پائے تقریباً اڑھائی سال ہو گئے ہیں۔ یاد تو اُن کی تا دمِ واپس دل سے نہ نکلے گی لیکن آج مجھے وہ وقت یاد آ رہا ہے جب کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت اقدس میں 48 گھنٹے کی چھٹی پر حضور کے بیمار ہونے پر حاضر ہوئے تھے۔ اکتوبر 1918ء جمعہ کا دن تھا۔ ڈا کٹر صاحب پٹیالہ کی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد ابھی مسجد کی محراب میں بیٹھے تھے اور میرا بچہ محمد احمد اُن کے پاس محراب میں کھڑا نظم پڑھ رہا تھا۔

؎ تم فخرِ رُسل ہو سیّدنا
تم فضل عمر ہو سیّدنا

ہم سب گھر کی عورتیں بھی نماز جمعہ ادا کر کے اُس کی نظم سننے کے لئے بیٹھی ہوئی تھیں۔ مسجد ہمارے گھر کے بالکل ساتھ تھی۔ اُس وقت ڈاکیہ اچانک تار لے کر آیا تھا جو ڈاکٹر صاحب کے نام میاں بشیر احمد ؓ کی طرف سے دی گئی تھی جس میں لکھا تھا ’’حضور سخت بیمار ہیں آپ آ جائیں‘‘

ڈاکٹر صاحب ہاتھ میں تار لئے ننگے سر ننگے پاؤں مسجد میں سے نکل کر اپنے گھر اُوپر آئے اور بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ مَیں نے پوچھا کیا بات ہے کیوں اتنا گھبرائے ہوئے ہیں؟ تو کہنے لگے حضرت میاں صاحب کا تار آیا ہے کہ حضرت صاحب نے مجھے بلایا ہے۔ میں نے کہا پھر آپ جائیں تو کہنے لگے تمہاری طرف سے تو اجازت ہے جانے کی اور ہسپتال میں دو ڈاکٹروں کے سوا کوئی اور ڈاکٹر نہیں اور انفلوئنزہ جس کی وبا پھیلی ہوئی ہے حضور بھی اُس سے بیمار ہیں۔ چھٹی ملنی تو بہت مشکل ہے مگر کوشش کرتا ہوں اور کہا کہ وحید خان (کمپونڈر) کو بھیجوں گا تم کچھ روپے، ایک جوڑا کپڑوں کا اور لوٹا گلاس بھجوا دینا۔ جب آپ سول سرجن کے پاس پہنچے تو دوسرا ڈاکٹر پہلے ہی چھٹی کے لئے کھڑا تھا۔ اُس کی بیوی بیمار تھی اور بچہ ہوا تھا۔ اُس وقت پنڈت گنگا بشن سوِل سرجن تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے چھٹی کی درخواست دی تو پنڈت جی کہنے لگے تم نہیں جاؤ گے پہلے دوسرا ڈاکٹر جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے اس سے پہلے مجھے چھٹی کی ضرورت ہے۔ اُس کی تو بیوی بیمار ہے اور میرے خلیفہ صاحب بیمار ہیں اور میرے ایمان کا معاملہ ہے۔ پنڈت جی نے اصرار کیا کہ تم نہیں جاؤ گے تو آپ نے استعفیٰ پیش کرتے ہوئے کہا ’’مَیں تو جا رہا ہوں آپ منظور کریں یا نہ کریں‘‘ پنڈت جی ہنس پڑے اور دیکھ کر کہ یہ رکنے والے تو ہیں نہیں۔ کہا 24۔ 24 گھنٹے کی چھٹی پر تم دونوں چلے جاؤ۔

ڈاکٹر صاحب ہسپتال سے سیدھے قادیان کے لئے روانہ ہو گئے اور کمپوڈر کو بھیج کر گھر سے سامان منگوالیا۔ قادیان پہنچے تو اُس وقت حضور بہت بیمار تھے۔ حضور نے اپنے کمرے میں ہی ڈاکٹر صاحب کو بلا لیا اور فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب آپ اس کمرے سے میری اجازت کے بغیر باہر نہ جائیں۔ وہ کمرہ حضرت اُم الموٴمنینؓ کا دلان تھا جس میں حضور بیمار تھے۔ پھر کیا تھا ڈاکٹر صاحب حضور کے پاس بیٹھ کر سب کچھ بھول گئے اور کچھ اُن کو دنیا کی پرواہ نہ رہی کہ اُن کے بیوی بچے کہاں ہیں۔ اسی دلان میں اپنے حضور کے ساتھ تین ماہ گزارے۔

اور پٹیالہ ہسپتال میں خوب شور پڑا ہوا تھا کہ دودن کی چھٹی پر گئے تھے اور اب تک واپس نہیں آئے۔ گھر پر کبھی کمپوڈر کبھی چپڑاسی سب ہی پوچھنے آتے کہ ڈاکٹر صاحب آئے کیوں نہیں؟ آپ اُن کو بلائیں۔ آخر ایک ماہ کے بعد ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی محمد یوسف صاحب کو کہا کہ قادیان جا کر آپ ہی پتہ کریں کہ ڈاکٹر صاحب نے واپس آنا ہے یا نہیں؟ محمد یوسف صاحب کو قادیان پہنچے دو دن ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب کا کوئی پتہ نہیں تھا کیونکہ اُن کو تو کمرہ سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی اور نہ ہی کسی کو اندر جانے کی۔ تیسرے روز خود ہی ڈاکٹر صاحب کسی خادم کو حضور کی دوائی منگوانے کے لئے آئے کیا دیکھتے ہیں کہ بڑے بھائی سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اُٹھ کر دروازے پر گئے اور سلام کے بعد کہا کہ پٹیالہ میں ہسپتال میں شور پڑا ہوا ہے۔ تم نے کب چلنا ہے میں تمہیں لینے آیا ہوں ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’بڑے بھائی آپ چپ کر کے واپس چلے جائیں کیونکہ حضور بیمار ہیں اور ہم نے تو اُن کے لئے جانیں قربان کی ہوئی ہیں میں تو نہیں جا سکتا۔‘‘ بھائی نے کہا میں اتنی دور سے آیا ہوں حضور کی زیارت تو کرادیں ڈاکٹر صاحب نے کہا میں حضور سے اجازت لے کر بتاؤں گا۔ اندر واپس جا کر کچھ پریشان سے کھڑے ہوئے کہ حضور سے کیسے اجازت لوں۔ حضور نے خود ہی اُن کے چہرے سے پہچان کر پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ پریشان کیوں ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ بڑے بھائی آئے ہیں اور زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ حضور نے فرمایا بلا لو۔ بڑے بھائی زیارت کے بعد جانے لگے تو عرض کی ’’حضور اُن کی چھٹی تو دو دن کی تھی ہسپتال میں شور پڑا ہوا ہے اور روز گار کا معاملہ ہے آپ دعا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا اچھا۔ پھر حضور نے شیخ یعقوب علی عرفانیؓ کو ڈاکٹر صاحب کی چھٹی منظور کروانے کے لئے Home Secretary کے پاس بھیجا اور ڈاکٹر صاحب کی تین ماہ کی چھٹی منظور ہو گئی۔

ڈاکٹر صاحب نے مجھے بھی قادیان بلا لیا۔ عزیزم محمد احمد اور عزیزہ زینب میرے ساتھ تھے۔ مجھے سیّدہ امتہ الحئ ؓ نے اُس کمرہ میں جگہ دی جو مسجد مبارک کے ساتھ ملحق تھا اور اُس کا دروازہ مسجد مبارک کی طرف کھلتا تھا اور دوسرا سیّدہ امتہ الحئ ؓ کے صحن میں تھا۔

ڈاکٹر صاحب کی تین ماہ کی چھٹی پوری ہونے کے بعد ہماری واپسی کا دن آیا توحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بڑے پیمانے پر الوداعی دعوت کا انتظام کیا جس میں دو سو کے قریب بزرگ صحابی اور احباب شریک ہوئے۔ جانے سے چند منٹ پہلے حضور سیّدہ امتہ الحئ بیگم صاحبہ کی طرف تشریف لائے۔ میں اور حضرت اماں جی ؓ صحن میں ایک چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ حضرت اماں جی ؓ نے حضور ؓ سے پوچھا کہ میاں یہ کیا ہو رہا ہے آج کس کی دعوت ہے کہ اتنے کھانے پک رہے ہیں؟ حضور ؓ فرمانے لگے کہ آج ڈاکٹر صاحب کا رخصتانہ ہے۔ اماں جی ؓ نے فرمایا میاں یہ اُن کی بیوی تو میرے پاس بیٹھی ہے۔ کیا کہیں اور شادی کرانی ہے۔ آپ ہنس کر فرمانے لگے کہ واپس پٹیالہ جا رہے ہیں۔

کھانے کے بعد حضور نے نمازیں جمع کرائیں اور پھر ڈاکٹر صاحب کو رخصت کرنے کے لئے مع خدام یکوں کے اڈے کی طرف روانہ ہو گئے۔ میں اور ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے بھائی بھی ساتھ تھے۔ حضور اڈے پر جا کر رُک گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے زارو قطار روتے ہوئے حضور سے بار بار مصافحہ کیا اور ہاتھوں کو چوما۔ حضور رضی اللہ تعالی عنہ نے دعا کروائی اور قادیان کی طرف واپس تشریف لے گئے اور ایک خادم ہمارے ساتھ پٹیالہ تک کر دیا۔ جب تک حضور رضی اللہ تعالی عنہ قادیان کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے رہے ڈاکٹر صاحب اور ہم میں سے کوئی بھی یکہ پر سوار نہ ہوا۔ جب حضور رضی اللہ تعالی عنہ موڑ مڑ گئے تو ڈاکٹر صاحب، مَیں اور بچے یکہ پر سوار ہو کر پٹیا لہ کی طرف روانہ ہوئے۔ قادیان سے پٹیالہ تک ڈاکٹر صاحب زار زار روتے تھے اور کہتے تھے میرا اب دل پٹیالہ میں کیسے لگے گا۔

ابھی پٹیالہ پہنچے دس دن ہی گزرے تھے کہ حضرت صاحب کا خط ڈاکٹر صاحب کے نام ملا کہ ’’ڈاکٹر صاحب آپ کے جانے کے بعد میری طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے۔‘‘ خط کا سارا مضمون یاد نہیں یہی فقرہ یاد رہا۔ دو دن کے بعد پھر حضرت صاحب کا خط اسی مضمون کا ملا۔ گویا حضور ڈاکٹر صاحب کو واپس پٹیالہ بھیج کر خود بے چین ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب کا بھی یہ حال تھا کہ پَر ہوں تو اُڑ کر قادیان چلے جائیں۔ اسی طرح خط و کتابت میں سولہ سترہ دن گزر گئے۔ اٹھارویں دن جو خط حضرت صاحب کا ملا اس میں لکھا تھا ’’ڈاکٹر صاحب میں خود تو بیمار تھا ہی لیکن امتہ الحئ بیگم صاحبہ بہت سخت بیمار ہو گئی ہیں۔ آپ نے اپنے استعفٰے کا کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں؟ بس پھر کیا تھا ڈاکٹر صاحب تو فوراً تیار ہو گئے کہ اب پٹیالہ میں مَیں نہیں رہ سکتا کیونکہ حضور کا منشاء یہی ہے کہ مَیں واپس قادیان آ جاؤں۔‘‘ دوسرے روز ہی چھ ماہ کی چھٹی کی درخواست دیدی۔ افسر کہنے لگے بغیر تنخواہ کے ملے گی ڈاکٹر صاحب نے کہا کوئی پرواہ نہیں مجھے چھٹی کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ خوفِ خدا رکھنے والے ہمدرد بھی تھے۔ انہوں نے کہا آدھی تنخواہ پر دے دی جائے گی۔ آدھی تنخواہ پر چھٹی منظور ہو گئی اور ڈاکٹر صاحب مختصر سا سامان لے کر قادیان کو روانہ ہو گئے۔ مجھے اور بچوں کو میرے والد صاحب کے پاس چھوڑا کہ تم تیاری کر کے پھوپھا جی کے ساتھ بعد میں آ جانا۔

جب ڈاکٹر صاحب قادیان پہنچے حضرت صاحب نے اُسی وقت حضرت میاں شریف احمدؓ کے مکان کا کمرہ ڈاکٹر صاحب کے لئے خالی کروا دیا کیونکہ میاں شریف احمد ؓ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے پاس باہر اُن کی کوٹھی میں رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب چھ مہینے تک اسی کمرے میں رہے اور حضرت صاحب کے ساتھ کھانا کھاتے رہے۔ بعد میں اسی مکان میں اُمّ طاہر رضی اللہ عنہا کی رہائش ہوئی اور آپ نے اسے اپنا کمرہ بنایا۔ اُس کے بعد حضرت صاحب نے کہا ڈاکٹر صا حب آپ ہسپتال چلے جا یا کریں اور ساٹھ روپے تنخواہ مقرر ہوئی۔

جب چھ مہینے کی چھٹی پوری ہوئی تو ریاست والوں نے پھر شور مچایا کہ چھٹی پوری ہو گئی ہے ڈاکٹر صاحب آتے نہیں۔ ڈاکٹر صاحب تو واپس پٹیالہ نہ آئے بلکہ مجھے ہی لکھ دیا کہ تم آ جاؤ۔ مَیں قادیان پہنچ کر سیّدہ امتہ الحئ بیگم صاحبہ کے پاس ہی مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرے میں جس میں پہلے ٹھہرے تھے ٹھہری۔ چند دنوں بعد حضرت صاحب سیّدہ امتہ الحئ بیگم صاحبہ کے ہاں تشریف لائے اور حضرت اماں جی ؓ سے فرمانے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کے لئے مکان خالی ہو گیا ہے۔ محمد احمد کی والدہ کو کہیں اُنہوں نے اپنے مکان میں جانا ہوگا۔ اماں جی ؓ میرے پاس کمرے میں آ کر فرمانے لگیں کہ لو امتہ الحفیظ تمہارے لئے مکان خالی ہو گیا ہے اب تم ہمارے پاس سے چلی جاؤ گی۔ مَیں نے عرض کی اماں جی ؓکون سا مکان میرے لئے خالی ہوا ہے اور وہ کہاں ہے؟ اماں جی ؓ فر مانے لگیں ہسپتال کے پاس محلہ دارلعلوم میں ہے۔ میں نے پوچھا یہاں سے کتنی دور ہے تو آپ نے فرمایا دور تو کافی ہے۔ میرا خیال ہے تم تومہینے بعد بھی ہمارے پاس نہیں آ سکو گی کیونکہ تمہیں پھرنے کی عادت نہیں ہے۔ میری تو اُس وقت رنج سے عجیب حالت تھی۔ ایک تو وطن اور عزیزوں کو چھوڑ کر آئے ہیں پھر حضرت صاحب کے خاندان سے بھی دور چلے جائیں گے۔ مَیں نے اماں جیؓ سے کہا میں تو اُس مکان میں نہیں جاؤں گی مَیں تو پٹیالہ چلی جاؤں گی۔ دوری چند قدم کی بھی اور چند میل کی بھی۔ جب دور ہی رہنا ہے تو پھر پٹیالہ ہی ٹھیک ہے۔ حضرت صاحب کو ڈاکٹر صاحب کی ضرورت ہے وہ ڈاکٹر صاحب کو رکھ لیں۔ میرے ابا ساتھ آئے ہوئے ہیں ہم پٹیالہ واپس چلے جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد حضور پھر تشریف لائے تو مَیں اماں جی کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اماں جی نے حضرت صاحب سے کہا میاں محمد احمد کی والدہ تو وہاں جانا نہیں چاہتیں۔ کہتی ہیں قادیان میں رہیں گے تو آپ کے پاس رہیں گے۔ اگر دور بھیجنا ہے تو پٹیالہ ہی ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے پاس رکھ لیں۔ حضرت صاحب ہنس پڑے اور سوچنے لگ گئے۔ کچھ دنوں بعد حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓوالا مکان جو حضرت اُمِ المومنین رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان کے ساتھ ہی تھا اُس کے اُو پر کا حصہ ہمارے لئے خالی کروا دیا۔ اُس کا دروازہ اُمّ المئومنین رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان کے ساتھ ہی تھا۔ حضرت صاحب کے گھر وں میں جانے کا راستہ بھی اندر سے ہی تھا۔ پھر ایک دن حضرت صاحب ہنستے ہوئے آئے اور حضرت اماں جی ؓسے فرمایا کہ اماں جی والدہ محمد احمد سے کہیں اپنا مکان دیکھ آئیں خالی کروادیا ہے۔ پسند ہو تو اُس میں رہیں۔ اماں جیؓ نے مجھ سے کہا کہ آؤ امتہ الحفیظ اب تو پاس ہی رہو گی تم۔ میں نے کہا اماں جیؓ برقعہ پہن لوں تو اماں جی فرمانے لگیں برقعہ کی ضرورت نہیں یہ تو اندر سے ہی راستہ ہے۔ اُمّ الموٴمنین رضی اللہ تعالی عنہا کے ایک صحن چھوڑ کر دوسرے صحن کی سیڑیاں چڑھ کر چلے جائیں گے ہم۔ میں اماں جی ؓکے ساتھ چلی گئی اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے اس قدر قریب مکان دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی اور خدا کا شکر بجا لائی۔ دوسرے روز ہم اُس مکان میں آ گئے۔ ڈاکٹر صاحب مجھ سے کہنے لگے ’’یہ تمہارا ہی حوصلہ تھا کہ تم نے اتنی بے تکلفی سے حضرت صاحب سے عرض کر دیا۔ میں تو کبھی نہ کہتا اور جہاں بھیجتے چلا جاتا۔ مَیں نے کہا تبھی آپ ساٹھ روپے کی نوکری پر ہسپتال جانے لگ گئے۔ مَیں نے تو آپ سے کہا تھا کہ وہاں جا کر ملازمت نہیں کرنی حضرت صاحب کی خدمت کرنی ہے۔ جس طرح وہ چاہیں اپنے پاس رکھیں۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے میں حضرت صاحب کے حکم سے کیسے انکار کر سکتا تھا۔ اُنہوں نے ہسپتال میں کام کرنے کو کہا میں کام کرنے لگ گیا۔

اُس مکان میں آنے کے بعد بھی دو ماہ تک کھانا حضرت صاحب کی طرف سے ہی آتا رہا جو کہ اُمّ ناصر رضی اللہ تعالی عنہا کی طرف سے آتا تھا۔ دو ماہ کے بعد حضرت صاحب سے اجازت لے کر ہم نے اپنا کھانا پکانا شروع کیا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے سارے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی۔ بے تکلف آمد جامد تھی۔ حضرت صاحب بھی اکثر اندر کی سیڑھیوں سے اندر آ جاتے۔ ڈاکٹر صاحب کو اس مکان کی اس قدر خوشی تھی جیسے جنت میں آ گئے ہوں اور تھا بھی وہ ہمارے لئے جنت کہ خاندان کا قرب حاصل تھا۔ تھوڑی سی تنخواہ تنگی اور تکلیف سے گزر ہوتی تھی مگر حضرت صاحب کے قرب کی وجہ سے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اسی طرح حضرت صاحب کے قرب میں اٹھائیس سال گزارے۔ کسی کو بھی خاندان میں تکلیف ہوتی تو حضرت صاحب اندر کے راستے سے ہی ڈاکٹر صاحب کو بلا لیتے اور حضرت صاحب خود بیمار ہوتے تو ڈاکٹر صاحب کو اپنے پاس ہی رکھتے۔

جب حضرت صاحب کے لئے دوائی بنانے لگتے تو ایک خوراک بنا کر پہلے خود سے پی کر دیکھتے کہ ٹھیک بنی ہے یا نہیں۔ پھر دوسری خوراک بنا کر تیار کرتے اور خود ہی لے کر جاتے پلانے کے لئے اور جب دوائی بنانے لگتے تو کسی سے بات نہیں کرتے تھے کہ دوائی بنانے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے بلکہ دعا کرتے تھے۔ روز مرہ کا یہی کام تھا کہ نماز کے بعد پہلے حضرت صاحب کی طبیعت پو چھنے کے لئے حضرت صاحب کی جس گھر میں باری ہوتی اُدھر ہی چلے جاتے۔ حضرت صاحب صبح کی نماز پڑھ کر آرام فرماتے تھے اُس وقت کوئی جواب نہ ملتا۔ پھر دوبارہ حضرت صاحب کے بیدار ہونے پر دروازے پر حاضر ہوتے۔ جب حضرت صاحب کو اطلاع ہوتی تو حضور فوراً ہی اندر بلا لیتے۔ اپنی طبیعت کا حال بتلاتے اور ٹیکہ لگوانا ہوتا تو ارشاد فرما دیتے کہ آج فلاں ٹیکہ لگا دیں اور باتیں بھی کرتے اور برابر دو گھنٹے ڈاکٹر صاحب کو لگ جاتے۔

1920ء میں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ڈاکٹر صاحب کو لندن بھیج رہے ہیں اور میں بہت ہی فکر مند ہوں اور کہہ رہی ہوں کہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ نے تو پٹیالہ سے ڈاکٹر صاحب کو اپنے پاس بلایا تھا اور اب آپ اتنی دور بھیج رہے ہیں۔ اور مَیں رونے لگ جاتی ہوں۔ اسی طرح میری آنکھ کھل جاتی ہے اور آنکھ کھلنے پر دیکھا تو میرا تکیہ واقعی آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ صبح اُٹھتے ہی میں نے خواب ڈاکٹر صاحب کو سنائی تو ڈاکٹر صاحب حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حال پوچھنے گئے تو حضرت صاحب کو یہ خواب سنادی تو حضور زور سے ہنس پڑے اور فرمایا ڈاکٹر صاحب میرے بغیر آپ کیسے جا سکتے ہیں پھر جب حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ چار سال بعد 1924ء میں ڈاکٹر صاحب کو اپنے ساتھ ہی لندن لے کر گئے۔ اب جب کہ حضورؓ اس دنیا ئے فانی کو چھوڑ کر اپنے مولائے حقیقی کے حضور چلے گئے تو ڈاکٹر صاحب پیچھے اکیلے ربوہ میں کیسے رہ سکتے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

حضرت اُمِ المومنین رضی اللہ تعالی عنہا بھی ڈاکٹر صاحب کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتی تھیں۔ گھر میں کوئی بھی چیز تقسیم کر کے اپنے بچوں کی طرف بھیجتیں تو ڈاکٹر صاحب کے لئے بھی ضرور بھجواتیں اور فرماتیں ڈاکٹر صاحب بھی تو ہمارا بچہ ہے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب ٹائیفائیڈ سے بیمار ہوئے اور ایک مہینہ بیمار رہے۔ حضرت صاحب پہلے صبح ہی صبح اندر کی سیڑھیوں سے تشریف لا کر طبیعت کا حال پوچھتے پھر رات کو عشاء کی نماز پڑھانے کے بعد اندر کے راستے سے ہی ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں آ جاتے اور دوسرے لوگ باہر کی سیڑھیوں سے آتے۔ حضور کا پورا مہینہ یہی دستور رہا۔ رات کے گیارہ بجے تک سب دوسرے لوگ جن میں کئی بزرگ ہستیاں بھی تھیں ڈاکٹر صاحب کے پاس بیٹھے رہتے۔ ڈاکٹر صاحب بھی اپنا بستر فرش پر لگوا لیتے اور جب تک حضرت صاحب تشریف فرما رہتے آپ بھی زمین پر لیٹے رہتے۔ نظمیں پڑھواتے۔ کبھی درد صاحب پڑھتے کبھی نیک محمد خان صاحب پڑھتے۔ کبھی احمدیہ سکول کا کوئی آ جاتا تو وہ پڑھتا۔ اندر سے میں خود دو تین دفعہ چائے بنا کر بھیج دیتی۔ غرض یہ مجلس رات کے گیارہ بجے تک رہتی اور پھر جس وقت حضرت صاحب اندر تشریف لے جاتے تو درد صاحب احمدیہ سکول کے دو لڑکوں کی ڈیوٹی لگا کر جو رات کو ڈاکٹر صاحب کے پاس رہتے گھر چلے جاتے۔ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں اور درود ہوں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ؓ پر جو اتنی محبت اور شفقت اپنے نا چیز ڈاکٹر پر اور ہم سب پر فر ماتے۔ آمین

حضور ؓ کا ارادہ تبد یلِ آب ہوا کے لئے چار دن کے لئے پھیرو چیچی جانے کا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب بھی ساتھ تھے کیونکہ ہر سفر میں ساتھ ہوتے تھے۔ چار روز کے بعد حضورؓ قادیان تشریف لے آئے۔ اُس کے بعد پھر حضور رضی اللہ تعالی عنہ کا ارادہ ایک ماہ کے لئے پٹھا نکوٹ تبدیلی آب ہوا کے لئے جانے کا ہو گیا۔ اُس وقت میں خود بیمار تھی۔ میرا ایک لڑکا اکیس دن کا ہو کر فوت ہوگیا تھا۔ اس وجہ سے طبیعت پریشان رہتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے آ کر بتایا کہ حضرت صاحب ایک ماہ کے سفر پر پٹھانکوٹ جارہے ہیں اور انہوں نے بھی جانا ہے۔ مَیں نے کہا پھر میں اپنے والد صاحب کے ساتھ (جو اُن دنوں قادیان آئے ہوئے تھے) پٹیالہ چلی جاتی ہوں۔ جب آپ آئیں گے تو آ جاؤں گی۔ عزیزم محمد احمد اور عزیزہ زینب اُس وقت چھوٹے بچے ہی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ اچھا میں حضرت صاحب سے جا کر اجازت لے کر آتا ہوں پھر تم چلی جانا۔

حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت چاہی تو حضور ؓنے نہایت محبت و شفقت سے فرمایا کہ اُن کو اس حالت میں پٹیالہ نہیں جانا چاہئے بلکہ آپ والدہ محمد احمد کو بھی اور اُن کے والد کو بھی پٹھانکوٹ ساتھ ہی لے چلیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے آ کر بتایا کہ حضورؓ تو یہ فرما رہے ہیں بس پھر حضور ؓ کے فرمان سے انکار کس کو تھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک ٹم ٹم کا انتظام کر کے میاں عبداللہ کمپونڈر کو ہمارے ساتھ جانے کے لئے تاکید کر گئے کہ ہمیں گورداسپور تک پہنچا آئیں گے۔ حضور ؓتو اُسی دن ظہر کی نماز کے بعد پھیرو چیچی کو روانہ ہو گئے کیونکہ پھیرو چیچی سے پھر سٹھیالی پہنچنا تھا۔ ہمیں بھی ڈاکٹر صاحب بتا گئے کہ تم سب سٹھیالی کے پلوں پر پہنچ جانا وہاں سے پھر اکٹھے جانا ہوگا۔ ہم دوسری صبح بہت سویرے قادیان سے چل کر دس بجے سٹھیالی کے پلوں پر پہنچے۔ حضورؓ وہاں پہلے سے موجود تھے اور بندوق لئے ہوئے شکار کے لئے تیار کھڑے تھے۔ ہم بھی وہیں ٹھہر گئے اور کچھ دیر اِدھر اُدھر پھرتے رہے۔ وہاں حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت سیّدہ اُم ناصر رضی اللہ تعالی عنہا اور سیّدہ امتہ الحئ بیگم رضی اللہ تعالی عنہا سب تھے۔ پھر گورداسپور کو قافلہ روانہ ہوگیا۔ وہاں ایک بہت بڑا مکان ملک مولا بخش صاحب نے پہلے سے کرایہ پر لیا ہوا تھا اُسی میں جا کر حضورؓ ٹھہرے۔ پہلے نماز ظہر عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ پھر ڈاکٹر صاحب مجھے اور بچوں کو اور میرے والد کو اُوپر کے کمرے میں جگہ دی جس کا راستہ باہر سے بھی تھا تا کہ مردوں کو آنے جانے کی آ سانی رہے۔ چار دن گورداسپور میں قیام فرما کر پھر حضور ؓ پٹھانکوٹ تشریف لے گئے۔ وہاں ایک کوٹھی کا پہلے سے ہی انتظام تھا۔ اس میں حضور نے قیام فرمایا۔

کچھ دن ٹھہر کر حضور ؓنے دریائے چکی کی سیر کا پروگرام بنایا۔ وہاں دریائے چکی سے پار گزرنا تھا اور سارا دن ٹھہرنا تھا۔ حضرت اُم الموٴمنین رضی اللہ تعالی عنہا کو پانی سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اُم الموٴمنین رضی اللہ تعالی عنہا فرمانے لگیں کہ ’’میں تو پانی میں سے گزر کر پار نہیں جاؤں گی میاں آپ چلے جائیں‘‘ تو حضور ؓ، میاں شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ اور درد صاحب وغیرہ ٹانگہ میں (جو کہ اُمِ الموٴمنین رضی اللہ تعالی عنہا کا ذاتی ٹانگہ تھا قادیان سے ساتھ آیا تھا) میں بیٹھ گئے اور اُمِ الموٴمنین رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ ہم پہلے گزرتے ہیں پھر آپ کو گزاریں گے۔ دریا کی تہہ میں پتھر تھے اس لئے پتھروں میں جا کر پہیے پھنس گئے اور اُس میں پانی بھر گیا۔ اور بڑی مشکل سے حضرت عبد الرحمٰن قادیانی رضی اللہ تعالی عنہ اور نیک محمد صاحب رضی اللہ عنہ، چوہدری علی محمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ اور عبد الاحد خان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ نے مل کر ٹانگہ کو نکالا اور پھر حضور ؓپار اُترے۔ ڈاکٹر صاحب کو عبد الاحد خان صاحب نے کندھوں پر اُٹھا کر پار کر دیا۔ بچے بھی سب باری باری ٹانگہ میں بیٹھ کر پار ہوگئے۔ اس سے اُم الموٴ منین رضی اللہ تعالی عنہ اور بھی ڈر گئیں اور ٹانگہ پر بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ اتنے میں ایک اُونچا چھکڑا آ گیا۔ اُسے دیکھ کر بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی پکار اُٹھے ’’حضور آپ کے لئے سواری آ گئی ہے۔ آپ اس میں سوار ہو جائیں یہ اُونچا ہے اس میں پانی نہیں آ ئے گا خیر۔ ہم سب حضرت اُم ناصر بیگم صاحبہ، سیدہ امتہ الحئ بیگم صاحبہ، حضرت اُم الموٴمنین رضی اللہ تعالی عنہا کے ہمراہ مع چند خادمات چھکڑے میں بیٹھ گئیں۔ بیٹھ کر میں نے اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہا سے عرض کی کہ حضور مجھے بھی پانی سے بے حد ڈر لگتا ہے مجھے اپنے پاس بٹھا لیں۔ اس پر اُمّ الموٴمنین رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے بالکل اپنے سامنے بٹھا کر دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور اُس وقت تک پکڑے رکھا جب تک پار نہ ہو گئے۔

پار جا کر دیکھا وہاں بانسوں کے پہاڑ تھے اور ایک پہاڑ کے سایہ میں حضور کے لئے الگ جگہ بن گئی وہاں سب مرد تھے۔ ایک طرف اوٹ میں عورتوں کے لئے جگہ بن گئی۔ دوپہر کا کھانا کوٹھی سے تیار ہو کر آتا تھا۔ نیک محمد خان صاحب میاں ناصر احمد کی گھوڑی پر بیٹھ کر کھانا لینے چلے گئے۔ ہم سب دریا کے پاس دریا کا نظارہ دیکھ رہے تھے کیونکہ پانی گھوم گھوم کر چل رہا تھا۔ جب نیک محمد خان صاحب کھانا لے کر واپس آئے تو دیکھا ایک طرف سالن کی دیگچیاں بندھی ہوئی تھیں اور دوسری طرف روٹیوں کی گٹھڑی۔ جب گھوڑی عین دریا کے درمیان پہنچی تو ایسی ڈگمگائی کہ روٹیوں کی گٹھڑی پانی کے بیچ گر گئی۔ بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی اور چوہدری محمد علی صاحب نے دوڑ کر گھوڑی کو پکڑا اور سالن کی دیگچیاں بچا لیں۔ گھوڑی کو کھینچ کر باہر نکال لیا۔ اُمّ الموٴمنین رضی اللہ عنہ نے روٹیوں کو گرتے دیکھ کر اِنا للہ وَ اِنَا علیہ راجعون پڑھا۔ سالن تواینٹوں کا چولہا بنا کر گر م کر لیا لیکن روٹیاں خشک کرنے میں دقّت ہوئی۔ بڑے بڑے پتھر کناروں پر پڑے ہوئے تھے صاف ستھرے تھے اور دھوپ میں خوب تپ رہے تھے ساری روٹیاں ان پر پھیلادیں گئیں اور انکو اُلٹ پلٹ کر کے خشک کر لیا۔

کھانا کھانے کے بعد اُمّ الموٴمنین رضی اللہ تعالی عنہ آرام فرمانے کے لئے کچھ دیر کے لئے لیٹ گئیں اور ہم سب خواتین اُن کے ارد گرد بیٹھی رہیں۔ آپ ہمیں اپنی شفقت اور محبت بھری باتوں سے خوش کرتی رہیں۔ پھر فرمانے لگیں سب نماز پڑھ لو۔ ہم سب نے اماں جانؓ کے ساتھ نماز پڑھی۔ نماز کے کچھ دیر بعد حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہ کی طبیعت میں سخت گھبراہٹ ہوئی تو آپ نے بھائی جی کو آوازیں دیں کہ حضرت صاحب کو کہو کہ چکی سے پار نکل چلیں۔ بھائی جی نے بتایا کہ حضور تو آرام فر ما رہے ہیں۔ اس پر آپ کچھ دیر ٹھہر گئیں پھر نیک محمد خان صاحب کو آ وازیں دیں کہ میاں سے کہیں کہ چکی سے پار چلیں۔ نیک محمد خان صاحب نے کہا کہ وہ تو سو رہے ہیں۔ آپ پھر خاموش ہو گئیں۔ تھوڑی دیر بعد پھر آواز دے کر کہا کہ میاں کو جگا دو اور کہو کہ جلدی چلیں۔ حضور بیدار ہو گئے تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد سامان سمیٹ کر چکی کی طرف چل پڑے اور کنارے پر آ کر بیٹھے۔ کچھ لوگ پانی میں سے شہتیر پکڑ پکڑ کر پانی سے باہر پھینک رہے تھے۔ کچھ شہتیر پکڑنے کے بعد اُ نہوں نے کام چھوڑ دیا۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہ نے بھائی جی کے بیٹے عبد القادر کو فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ اُنہوں نے شہتیریاں پکڑنی کیوں چھوڑ دیں۔ اُن سے پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ چکی میں سیلاب آ گیا ہے اس لئے پکڑی نہیں جا رہیں۔

یہ سُن کر اماں جان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور کو فرمایا کہ جلد چکی پار کریں۔ اُسی تانگہ میں باری باری سب پار اُترے اور ڈاکٹر صاحب اور میاں ناصر صاحب اُسی گھوڑی پر جس نے روٹیاں گرائی تھیں سوار ہوئے اور پار جانے لگے تو درمیان میں آ کر گھوڑی جہاں پہلے ڈگمگائی تھی۔ پھر ڈگمگائی۔ قریب تھا کہ ڈاکٹر صاحب پانی میں گر جاتے اماں جان کی نظر جو پڑی تو آپ نے آوازیں دیں کہ بھائی جی، علی محمد، ڈاکٹر صاحب گرنے لگے ہیں۔ گھوڑی کو پکڑو۔ بھائی جی نے جلدی سے گھوڑی کو پکڑا اور ڈاکٹر صاحب کو پار اُتارا۔ پار اُتر کر حضور نے دونوں نمازیں پڑھائیں۔

اماں جان بار بار یہی فرماتیں کہ میاں اب جلدی چل پڑو اور جلدی کوٹھی پہنچو مگر حضور نے اسی جگہ جو ڈاک آئی تھی دیکھنی شروع کردی اتنے میں ایک طرف سے تھوڑا سا بادل اُٹھا اور بوندا باندی شروع ہو گئی ہم لوگ اُس وقت ایک چھوٹے سے ٹیلے پر چڑھی ہوئی تھیں وہاں رتیاں لگی ہوئی تھیں تو ہم سب رتیاں توڑنے لگیں پھر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا نے ہمیں اُس ٹیلے سے نیچے بلوایا اور فرمانے لگیں کہ یہ میاں تو اُ ٹھتے نہیں یہاں بوندا باندی شروع ہو گئی ہے میں تو چلتی ہوں تو ہم سب اماں جانؓ کے پیچھے چل پڑیں۔ تھوڑی دور چل کر اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا، دیکھیں پہلے کون کوٹھی پہنچتا ہے۔ اُس وقت میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا کے پیچھے تھی۔ میں نے کہا آپ ہی سب سے پہلے پہنچیں گی بس سب چل پڑے جن میں مرزا گل محمد صاحب کی بیوی رضیہ صاحبہ جو اُمّ ناصر رضی اللہ تعالی عنہا کی بہن تھیں۔ اُنہوں نے حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ ہی قدم تیز کیا۔ تھوڑی دیر بعد موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ بس کچھ دور چل کر سب کی ہمت جواب دے گئیں۔ جوتیاں ٹوٹ گئیں، کپڑے بھیگ گئے۔ ٹانگہ ساتھ تھا سب بچوں کو اس پر بٹھا کر پہلے بھیج دیا۔

جب بارش تیز ہوئی تو حضور ؓبھی مع اپنے قافلہ کے اُ ٹھ کر کوٹھی کی طرف بڑھے اور ہم سے پیچھے آ کر آگے نکل گئے۔ جس وقت حضور ؓہمارے آگے چلے تو یہ حالت تھی کہ کوٹوں کی جیبیں پانی سے بھری ہوئی تھیں اور پگڑیوں سے پانی بہہ رہا تھا اور شلواریں کیچڑ سے لت پت۔ حضور تو خدا کے فضل سے بہت تیز چلتے تھے اور خدام بھاگ بھاگ کر ساتھ ملتے تھے۔ کوٹھی کے قریب پہنچ کر حضور ؓکو خیال آیا کہ عورتوں کو تو پیچھے چھوڑ آئے۔ اُن کو دیکھیں کیا حال ہے؟ آپ واپس تشریف لے آئے۔ حضور سے پہلے نیک محمد خان صاحب بچوں کو کوٹھی میں اُتار کر ٹانگہ واپس لا چکے تھے۔

اُ نہوں نے حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا سے عرض کی کہ حضورؓ ٹانگہ میں سوار ہو جائیں۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چند قدم کے فاصلے پر پیچھے میں تھی۔ آپ نے فرمایا میں تو ٹانگہ میں سوار نہیں ہوتی پیدل ہی چلی جاؤں گی وہ جو پیچھے تھکی ہاری بیٹھی ہیں اُن کو جا کر لے آؤ۔ پھر نیک محمد خان صاحب نے مجھ سے کہا آپ سوار ہو جائیں۔ پہلے تو میں نے ارادہ کیا کہ بیٹھ جاؤں لیکن پھر خیال آیا کہ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا پیدل جا رہی ہیں تو میں کیسے سوار ہو جاؤں۔ یہ سوچا کہ میں آپ کے پیچھے پیچھے ہی چلی جاؤں گی۔ سو میں نے بھی نیک محمد خان صاحب کو انکار کر دیا اور کہا کہ جو پیچھے بیٹھی ہیں اُن کو لے آؤ۔ وہ اُن سب کو ٹانگہ میں بٹھا کر لے آئے۔ میں خود حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا کے پیچھے کوٹھی میں ٹانگہ میں آنے والوں سے پہلے داخل ہو گئی۔

اماں جانؓ تو سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئیں اور مَیں نے جو دیکھا کہ باورچی خانے میں چار چولہے جل رہے ہیں اور خوب گرم ہے تو وہیں گھس گئی اور پیڑھی پر بیٹھ گئی۔ اتنے میں ٹانگہ والیاں بھی پہنچ گئیں۔ بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی بھی ٹانگہ کے ساتھ ساتھ پہنچے۔ بھائی جی نے میری لڑکی عزیزہ زینب کو کندھوں پر اُ ٹھایا ہوا تھا کیونکہ اُس نے ٹانگہ پر بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ چونکہ اُس پر خوب بارش پڑی تھی اس لئے وہ سردی سے نیلی ہو گئی اور با لکل مردہ سی ہو گئی۔ بھائی جی نے باہر سے آواز دی کہ زینب کو لے لیں۔ ایک خادمہ زینب کو لے کر آئی میں نے اُس کو بھی وہیں گرم جگہ پر بٹھا لیا اور ایک خادمہ سے اپنا ٹرنک منگوا کر اُس کو خشک کپڑے بدلوائے اور خود بھی بدلے۔

اتنی دیر میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا نے بھی لباس تبدیل کر کے کوئلوں کی انگیٹھیاں منگو اکر سینکی اور جب ذرا گرم ہوئیں تو اُن کو خاکسارکا خیال آیا۔ آپ نے کمرے کی کھڑکی سے خادماؤں کو آوازیں دیں کہ ڈاکٹر صاحب کی بیوی کدھر گئی۔ کہاں ہے وہ پہنچی بھی کہ نہیں۔ کہیں راستہ میں ہی نہ مر گئی ہو۔ پہلے تو خادمائیں ہنستی رہیں پھر ایک نے باورچی خانہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا وہ یہ ہمارے پاس باورچی خانہ میں بیٹھی ہیں۔ اماں جان باورچی خانہ میں ہی تشریف لے آئیں۔ مجھے دیکھتے ہی فرمایا ’’ہت تمہارا بھلا ہو سب سے اچھی جگہ تو تم بیٹھی ہو‘‘ تم یہاں کس وقت پہنچی ؟ میں نے عرض کیا اماں جان! میں تو آپ کے پیچھے پیچھے ہی چل رہی تھی۔ آپ مقنا طیس تھیں اور میں لوہا۔ آپ کے قدموں کے ساتھ گھسٹتے ہوئے کوٹھی میں داخل ہو گئی۔ آپؓ ہنستی رہیں پھر اُن کام کرنے والیوں کو فرمایا ’’اُتارو اپنی ہنڈیاں اور یہاں قہوے کے دیگچے چڑھاؤ مرد سب بارش میں شرابور بھیگے آئے ہیں اُن کو باہر قہوہ بھیجو۔‘‘ آپ نے دو دیگچے بھر کر قہوے کے بنوائے اور دو تین سیر مصری نکال کر قہوے کے ساتھ مردوں کو بھجوائی اندر عورتوں کو بھی قہوہ پلوایا۔ دوسری صبح ایک دھوبی اور ایک موچی بلوایاگیا۔ دھوبی کو سارے قافلہ کے کپڑے جو کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے اُٹھا کر دئے اور موچی کو جوتیں گانٹھنے کے لئے بٹھایا۔

صبح کو جب حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا سب کے ساتھ اکٹھے ہو کر بیٹھیں تو خوب ہنسیں اور فرمانے لگیں جب میں نے کہا کہ دیکھیں کون سب سے پہلے کوٹھی میں داخل ہوتا ہے تو عزیزہ رضیہ نے میرے ساتھ قدم تیز کئے اور یہ چپکی سی کہتی ہے کہ اماں جان آپ ہی پہلے پہنچیں گی سو یہ تو میرے ساتھ لگی ہوئی میرے سے پہلے پہنچ گئی اور رضیہ پیچھے بیٹھی رہ گئی۔

اُس کے چند روز بعد مادھو پور کی سیر کا پروگرام بنایا گیا چار ٹانگے کرایہ پر منگوائے گئے۔ بہت صبح چلنا تھا۔ سالن وغیرہ تو رات کو ہی تیار کر لیا گیا تھا۔ حضرت صاحب نے ایک ٹوکرا ڈبل روٹیوں کا منگوا لیا۔ قافلہ نماز کے بعد روانہ ہوا اور گیارہ بجے کے قریب مادھوپور نہر پہنچ گئے۔ نہر پر بہت بڑا پُل بنا ہوا تھا اُس کو ٹانگوں سے اُتر کر عبور کر کے دوسری طرف جا کر ٹھہرنا تھا۔ باقی تو سب اُس کو پار کر گئے لیکن حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنہا اُس پر سے نہ گزریں اور کہنے لگیں یہ پُل تو پانی کے اوپر ہے میں تو نہیں جاتی میں بھی آپ کے پیچھے کھڑی تھی آپ فرمانے لگیں بس ہم دونوں یہیں ٹھہریں گے۔ اتنے میں حضور ؓکی نظر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر پڑی تو فرمایا اماں جان تو وہیں کھڑی ہیں اور حضور مرزا شریف احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر واپس آئے اور فرمایا اماں جان آپ کیوں نہیں آ ئیں اور آپ یہاں کھڑی ہیں تو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فر مایا نہ میاں مجھے تو ُپل سے گزرتے ڈر لگتا ہے میں تو یہیں ٹھہروں گی۔ حضرت صاحب نے فر مایا کہ آپ یہاں اکیلی کیا کریں گی اور یہ آپ کے ساتھ چھوٹا سا کون کھڑا ہے ؟ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فر مایا کہ یہ تمہارے ڈاکٹر کی بیوی ہے اور میرا ساتھ دے رہی ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں اماں جان چلئے ایک طرف میں چلتا ہوں اور دوسری طرف میاں شریف چلیں گے۔ اس طرح ہم آپ کو لے کر چلتے ہیں۔ بس اماں جان نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ایک طرف حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسری طرف میاں شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ ٰعنہ اس طرح پُل پار کیا۔

جب کھانے کا وقت آیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود سب کو کھانا بانٹا۔ آپؓ ایک ایک ڈبل روٹی اٹھاتے اور اُس کو کھو کھلا کر کے بیچ میں سالن بھرتے اور سب کو ایک ایک پکڑاتے جا تے اور فرمایا اس وقت دستر خوان بچھانے کا وقت نہیں ہے جو بیٹھا ہے بیٹھا کھا لے اورجو کھڑا ہے کھڑا کھا لے کھانے کے بعد نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور عصر کے وقت پٹھانکوٹ واپس آ گئے۔

پھر ایک دن نور پور کی سیر کا پروگرام بنا اور چار ٹانگے منگوائے گئے اور صبح دس بجے قافلہ روانہ ہوا۔ راستہ میں حضورؓ کا ٹانگہ سب سے آگے تھا اُس کے بعد حضرت اُمّ الموٴ منین رضی اللہ تعالی عنہا، سیدہ امتہ الحئ بیگم صاحبہ کا اور اُن کے پیچھے بچوں کا ٹانگہ تھا جس میں میں ڈاکٹر صاحب بھی تھے۔ چوتھے ٹانگے میں باقی دوسرے مرد تھے۔ اگلے ٹانگہ میں حضورؓ کوئی شعر کہتے اور ڈاکٹر صاحب کو آواز دے کر سناتے۔ پھر اُسی کے مطابق ڈاکٹر صاحب بھی شعر کہہ کر حضورؓ کو سنا دیتے۔ اسی طرح یہ قافلہ بارہ بجے نور پور پہنچا۔ راستہ میں شاہ پور کنڈی میں کچھ دیر ٹھہرے جہاں پر بے حساب بندر تھے۔ وہاں کچھ دیر بندروں کا تماشہ دیکھ کر آ گے چل دئے۔ نور پور ڈاک بنگلے میں ٹھہرے جو راوی کے منبع پر بنا ہوا تھا۔ اُس جگہ دریا با لکل ایک نالی کی طرح تھا اور کافی گہرائی میں تھا۔ چونکہ وہاں دیر میں پہنچے اس لئے واپسی میں دیر ہو گئی رات ڈاک بنگلہ میں ہی ٹھہرنا پڑا۔ ڈاک بنگلے سے ہی کھانے کا انتظام کیا اور کچھ کمبل منگوا لئے۔ اسی طرح رات گزاری۔ کھانا جو وہاں سے تیار ہو کر آیا اُس کا گھی بہت خراب تھا۔ سالن تو کسی سے کھایا نہ گیا۔ سوپ اور ڈبل روٹی کے ٹکڑوں پر گزارا کیا۔

دوسری صبح نماز پڑھنے کے بعد ہی حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہو گئے اور دس گیارہ بجے تک پٹھانکوٹ پہنچ گئے۔ اس قافلہ میں مندرجہ ذیل اصحاب شامل تھے۔

1۔ حضرت میاں شریف احمد صاحب
2۔ عبد الرحیم درد صاحب
3۔ ڈاکٹر صاحب
4۔ بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی
5۔ نیک محمد صاحب۔
6۔ چوہدری علی محمد صاحب۔

باقی مردوں کو کوٹھی پر ہی چھوڑ دیا تھا۔

ایک دن حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اُ مّ ناصر بیگم صاحبہ اور سیّدہ امتہ الحئ بیگم صاحبہ اور حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ مع خدام ایسی جگہ تشریف لے گئے جہاں بے شمار چیڑکے درخت کھڑے تھے اور اُن کا پھل نیچے گرا ہوا تھا جسے توڑ کر چلغوزے نکالتے ہیں۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے اشارہ کیا کہ بیٹا یہ اُٹھا کر لاؤ اس میں سے چلغوزے نکلیں گے۔ میں اُ ٹھا کر لائی لیکن وہ خالی تھا تو آپؓ نے فر مایا معلوم ہوتا ہے اس میں سے نکالے جا چکے ہیں۔ پٹھانکوٹ میں ایک دن لطیفہ ہوا۔ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مردوں کے لئے خیمہ لگانے کا ارشاد فرمایا کیونکہ کوٹھی میں جگہ کم تھی۔ وہاں سارے مرد بیٹھے ہوئے تھے میرے والد صاحب کھونٹیاں بنا بنا کر دے رہے تھے اور باقی لوگ انہیں گاڑ رہے تھے۔ حضور ؓایک کمرے میں لیٹے ہوئے تھے اور عبدالاحد خان آپ کو دبا رہے تھے، حضور ؓ نے کھڑکی میں سے لوگوں کو اکٹھے ہوتے دیکھا تو عبد الاحد خان صاحب سے پوچھا یہاں کیا ہو رہا ہے۔ عبد ا لاحد خان صاحب جن کو اُس وقت چائے اور قہوہ کا نشہ ہو رہا تھا کہنے لگے حضورؓ قہوہ پی رہے ہیں۔ حضور ؓنے جب دریافت فر مایا تو معلوم ہوا کہ خیمہ لگایا جا رہا ہے۔ حضور عبد ا لاحد خان صاحب کی اس بات پر خوب ہنسے۔

ڈاکٹر صاحب کو ہر جلسے پر یہی خواہش رہتی کہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک وقت کا کھانا ہمارے گھر مہمانوں کے ساتھ کھا لیں اور سب مہمانوں کو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تبرک کھانا نصیب ہو۔ ایک دفعہ یہ عجیب لطیفہ ہوا کہ جلسہ ختم ہونے کے بعد دوسرے یا تیسرے روز دعوت کا خیال آیا۔ حضور کے کھانے کا انتظام کرنا تھا۔ حضور ؓکی باری اُس دن سارہ بیگم (اُمّ رفیع) کی طرف تھی۔ میں خود دعوت منظور کروانے کے لئے سیّدہ اُمّ رفیع صاحبہ کی طرف گئی۔ جب حضور ؓسے کھانے کے لئے عرض کیا تو فرمایا کہ پہلے اُم ّ طاہر صاحبہ کی طرف سے میری کاپی لا کر دو پھر بتاؤں گا۔ میں جلدی سے کاپی لانے کے لئے چلی گئی اور واپس آ کر کاپی حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رکھ دی۔ اور مجھے با لکل سمجھ نا آئی کہ حضور ؓنے کیا فر مایا ہے اور باہر آ کر کھانے کی منظوری کے لئے انتظار کرتی رہی۔ جب کافی دیر ہو گئی تو میں واپس آ گئی کہ شائد آج حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ منظور نہیں فر مائیں گے۔ اور گھر میں آ کر ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ نہیں بتلایا اور میں انتظار کر کے واپس آ گئی ہوں۔ شائد حضورؓ کا منشاء نہیں یا وقت نہیں کہ وہ کھانے کے لئے تشریف لائیں۔ اُس روز پھر کھانے کا اہتمام نا کیا۔ لیکن حضور رضی اللہ تعالی عنہ یہی سمجھے ہوئے تھے کہ کھانا ڈاکٹر صاحب کی طرف ہے جب رات کے دس بجے تو حضور نے عبدا لاحد خان پٹھان کو بھیجا کہ جاؤ ڈاکٹر صاحب کو پوچھو کہ اگر سب مہمان کھانے کے لئے آ گئے ہیں تو میں بھی آ جاؤں۔ ڈاکٹر صاحب فوراً اندر آ ئے اور مجھ سے کہا کہ تم تو کہتی تھی حضور نے کچھ جواب نہیں دیا حضور تو کھانے کا پوچھوا رہے ہیں۔ میں نے کہا مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آئی تھی۔ اُس روز حضور کی سیّدہ اُمّ طاہر صاحبہ کی طرف باری تھی۔ ڈاکٹر صاحب مجھے کہنے لگے تم جلدی سے اُمّ طاہر صاحبہ کی طرف جا کر اُن کو بتلا دو کہ مجھے غلطی لگی ہے اور میں کھانا تیار نہ کر سکی۔ جس وقت حضور رضی اللہ تعالی عنہ اس طرف آ ئیں تو آپ حضور کو یہیں ٹھہرا لیں اور میری غلطی کا بھی بتلا دیں اور معافی بھی میری طرف سے چا ہیں۔ کیونکہ ہمارے گھر آنے کا راستہ اُمّ طاہر کے صحن سے ہی آتا تھا۔ عبدا لاحد خان سے کہہ دیا کہ حضور سے عرض کریں کہ کھانا تیار ہے آ جائیں۔ حضور جب صحن میں آ کر سیڑھی چڑھنے لگے تو اُمّ طاہر نے کمرے سے آواز دی کہ آپ کا کھانا یہیں ہے اُ وپر نہ جائیں مگر حضور نے بھی نہ سنا اور اُ وپر آ کر ڈاکٹر صاحب کو آ واز دی۔ ڈاکٹر صاحب نکل کر بھاگے اور حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور والدہ محمد احمد کو غلطی لگی کہ آپ نے کھانا منظور نہیں کیا اس لئے کھانا تیار نہ کیا گیا۔ حضرت صاحب ہنستے ہوئے واپس نیچے چلے گئے۔ دوسرے روز عزیزم محمد احمد کو حضور کی خدمت میں بھیجا کہ جاؤ حضور سے عرض کرو کہ آج کھانا آپ ہمارے یہاں کھائیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا ’’بہت اچھا‘‘

جب کھانا تیار ہو گیا تو میں خود حضور ؓکو بلانے کے لئے گئی۔ اُس روز سیّدہ اُمّ طاہر کے گھر باری تھی۔ میں نے اُن سے کہا کہ حضور کی خدمت میں عرض کر دیں کہ کھانا تیار ہے آ پ چلیں۔ جب حضور ؓکو کھانے کے لئے عرض کیا تو حضور رضی اللہ تعالی عنہ ہنس پڑے کہ مجھے تو کھانے کا کوئی پتہ نہیں میرے پاس تو کوئی نہیں آیا اس پر میں نے عرض کی حضور صبح محمد احمد آپ کے پاس آیا تھا۔ حضور نے فر مایا مجھے تو پتہ نہیں، کونسا محمد احمد آیا تھا اور کئی محمد احمد کے نام گنوا دئے۔ میں نے عرض کیا نہیں حضور ڈاکٹر صاحب کا محمد احمد، حضورؓ نے فر مایا کون سا ڈاکٹر؟ مَیں نے عرض کیا جو آپ کے ڈاکٹر ہیں تو حضورؓ چپ ہو گئے۔ مَیں نے گھر آ کر اپنی چھوٹی بیٹی عزیزہ زینب جو (سات آٹھ سال کی تھی) کو بھیجا کہ جاؤ حضورؓ کو ساتھ لے کر آؤ۔ وہ بھاگی بھاگی گئی۔ حضورؓ پہلے ہی آنے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ اُس نے جا کر حضور ؓکا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ چلیں آپ کھانا کھائیں۔ یہ حضورؓ کے ساتھ بے تکلف تھی کیونکہ حضور بہت محبت اور پیار سے اُس سے پیش آتے تھے۔ حضور ؓنے آ کر کھانا تناول فر مایا اور سب مہمانوں کو تبرک بھی نصیب ہوا جو کہ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے۔ (پٹیالہ۔ سمانہ۔ دہلی۔ فروز پور)

ایک دفعہ حضور ؓ کو کسی شہادت کے سلسلے میں گورداسپور جانا تھا۔ حضورؓ ڈاکٹر صاحب کو ساتھ نہ لے کر گئے کیونکہ دوسرے ہی دن واپس آ جانا تھا۔ وہ رات ڈاکٹر صاحب نے ساری رات حضور ؓ کی خیریت سے واپسی کی دعائیں کرتے اور قرآن شریف پڑھتے گزاری۔ اُمّ طاہر صاحبہ کا کمرہ چونکہ ہمارے مکان کے ساتھ ہی ہوتا تھا وہ بھی سنتی رہیں۔ جب آ نکھ کھلتی ڈاکٹر صاحب کے قرآن شریف پڑھنے کی آواز جاتی۔ صبح اُٹھ کر اُنہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ ڈاکٹر صاحب ساری رات جاگتے رہے ہیں کیا بات ہے؟ میں نے کہا حضورؓ جو اُن کو پیچھے اکیلا چھوڑگئے ہیں اس لئے بے چین رہے۔ ساری رات قرآن پڑھتے اور دعائیں کرتے گزاری ہے۔

ڈا کٹر صاحب نے اپنی تمام عمر سلسلہ کی خدمت اور خلیفہ وقت کی خدمت میں مصروف رہ کر گزاری۔ نہ دن دیکھا نہ رات کو رات سمجھا۔ اپنی جان مال اور اؤلاد کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ اُن کی نیکیوں اور خدمتوں کو قبول فرمائے۔

آمین ثم آمین

(امتہ الحکیم عائشہ۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

دعا کی درخواست

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ