اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز
عابد خان کی ڈائری سے ایک ورق
سیر و تفریح کا ایک دن
آسٹریلیا کی جماعت نے 12 اکتوبر 2013ء کا دن ایسے دن کے طور پر رکھا تھا کہ حضور انور کو Melbourne کے چند قابل دید مقامات کی سیر کروائی جا سکے۔ مجھے بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ میں بھی گزشتہ ایک ہفتہ سے ایسے ہی ایک دن کی تلاش میں تھا۔ ایک طرف تو میں Melbourne کے اہم مقامات دیکھنے پر خوش تھا دوسری طرف مجھے اس بات کی زیادہ خوشی تھی کہ حضور انور کو چند اہم مقامی مقامات سے لطف اندوز ہونے کا موقع میسر آئے گا اور یہ سعادت تو تھی ہی کہ خاکسار کو حضور انور کے ساتھ یہ وقت گزارنے کا موقع ملے گا۔
اپنے خدام کے لیے حضور انور
کی محبت کی ایک مثال
ہم restaurant میں داخل ہوئے تو حضور انور اور خالہ سبوحی مد ظلھا العالی میز کے ایک طرف تشریف فرما ہوئے جبکہ باقی احباب restaurant کی دوسری جانب یا باہر لگے میزوں پر فروکش ہوئے۔ حضور انور اور آپ کے قافلہ کے علاوہ اس restaurant میں کوئی بھی نہ تھا۔ کچھ دیر بعد حضور انور نے مکرم مبارک ظفر صاحب کو بلایا اور ہدایت فرمائی کہ اس کھانے کی رقم کی ادائیگی حضور انور خود فرمائیں گے اور لوکل جماعت ادا نہیں کرے گی اور دوسری ہدایت حضور انور نے محترم مبارک ظفر صاحب کو یہ فرمائی کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ قافلے کا ہر فرد واحد پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور کوئی بھی بھوکا نہ رہے۔حضور انور کو خاص طور پر باہر ڈیوٹی پر مامور خدام کی زیادہ فکر تھی۔ اس دورہ کے دوران ہمیں بعض مزید اوقات میں بھی باہر کھانا کھانے کا اتفاق ہوا اور ہر موقع پر حضور انور نے مکرم مبارک ظفر صاحب کوانہی دو ہدایات سے نوازا۔
Bird Park کا دورہ
لوکل برڈ پارک کے دورے کا پلان بھی تھا۔ لیکن جب ہم Mount Dandenong سے روانہ ہوئے تو ایک لوکل خادم نے بتایا کہ برڈ پارک اب بند ہوچکا ہوگا اس لئے ہمیں مسجد واپسی کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود میں نے احمد بھائی کو سنا جو حضور انور کی گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ radio پر یہ کہہ رہے تھے کہ حضور انور نے فرمایا ہے کہ ہم برڈ park کے پاس سے گزریں گے اور چیک کریں گے۔ جب ہم نے یہ سنا تو ہمیں احساس ہوا کہ حضور انور برڈ پارک کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ جلد ہی ہم وہاں پہنچ گئے۔ گاڑیوں سے باہر نکلے ہی تھے کہ فورا ہی پرندوں کے ایک غول نے ہماری طرف اڑان بھری۔حضور انور کو کچھ دانے تھمائے گئے اور آپ اپنے ہاتھوں سے ان پرندوں کو کھلانے لگے۔
ایک پرندہ ایک لوکل خادم کے کندھے پر آ بیٹھا اور حضور انور اس مخصوص پرندے کو کھلانے لگے۔ بعد ازاں اس خادم نے بتایا کہ اس کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ پرندہ اس کے کندھے پر آ بیٹھا جس نے حضور انور کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ اس خادم نے اظہار کیا کہ وہ لمحہ اس کی زندگی کا سب سے خوشگوار ترین لمحہ تھا۔ جس دوران حضور انور پرندوں کو کھلا رہے تھے آپ مسکرا بھی رہے تھے۔ اور یہ بات اظھر من الشمس تھی کہ حضور انور اس موقع سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ماشاءاللہ۔ حضور انور اور آپ کے قافلہ کو دیکھ کر Bird Park کے مالک نے کہا کہ وہ خوشی سے اپنے park کو کھلا رکھیں گے۔ اس لیے ہم بند راستے سے اندر داخل ہوئے۔ جونہی ہم آگے بڑھے تو کئی اور پرندے کھانے کی تلاش میں بے چین تھے۔
حضور انور کی پرندوں کو کھلانے کی ویڈیو
جونہی ہم اس راستے سے داخل ہوئے۔حضور انور نے مجھے اپنا ویڈیو کیمرہ عنایت فرمایا اور فرمایا کہ جس دوران آپ پرندوں کو کھلا رہے ہیں آپ کی ویڈیو بناؤں۔ایک لمحہ کے لیے میں بہت گھبرا گیا۔ کیونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ حضور انور کا کیمرہ کیسے استعمال کرنا ہے۔ اسی وجہ سے میں Zoom بھی صحیح طور پر نہیں کر سکا۔ ایک لمحہ کے لیے تو مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور میں نے دعا شروع کر دی اور شکر ہے کہ چند لمحوں میں ہی مجھے صحیح بٹن کا پتہ چل گیا اور میں زوم آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تاکہ حضور انور کے پرندوں کو کھلانے کی اچھی سی ویڈیو ریکارڈ کر سکوں۔ اگلے چار سے پانچ منٹ حضور انور اپنے دست مبارک سے مختلف پرندوں کو کھلاتے رہے۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک پرندے نے حضور انور کے دست مبارک سے خوشی خوشی کھانا شروع کر دیا لیکن جب بعض دیگر خدام نے اس کو کھلانے کی کوشش کی تو اس نے انکار کر دیا۔ انہوں نے یہ بات حضور انور کو بتائی تو آپ نے دوبارہ ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور اس پرندے نے پھر سے خوشی خوشی کھانا شروع کر دیا۔
پرندوں کو کھلانا
کچھ دیر بعد حضور انور نے میرے سے کیمرہ لیا اور مجھے فرمایا کہ پرندوں کو کھلاؤں۔ میں نے کچھ دانے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھے اور انہیں کھلانےلگا اور اس دوران حضور انور اپنے کیمرے سے ویڈیو بناتے رہے۔ یقینا یہ میرے لیے ایک یادگار لمحہ تھا۔ الحمدللہ۔ جس دوران پرندے میرے ہاتھ سے کھا رہے تھے میں حضور انور کو ویڈیو بناتے ہوئے اورمسکراتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔ واپسی پر گاڑی کی طرف جاتے ہوئے میں نے حضور انور سے عرض کی›جزاکم اللہ۔ یہ موقع فراہم کرنے کے لیے۔› اس پر حضور انور نے فرمایا تم شہروں میں پلے بڑھے ہو اس لیے تم نے ایسے پرندوں کو پہلے کبھی نہیں کھلایا ہوگا۔
حضور انورنے بالکل بجا فرمایا تھا۔ میں نے ایسے پرندوں کو پہلے کبھی نہیں کھلایا تھا۔ میں باہر زیادہ گھومنے پھرنے کی طبیعت والا نہیں ہوں اور پرندوں کو کھلانے کا یہ بالکل نیا تجربہ تھا۔ ایسی خوشی اور مسرت میں نے کم ہی محسوس کی ہوگی۔ میری اصل مسرت پرندوں کو کھلانے میں نہیں تھی بلکہ اس بات میں تھی کہ حضور انور بنفس نفیس وہاں موجود تھے اور آپ کی ہدایت پر میں نے پرندوں کوکھلایا تھا۔
میں اس برڈ پارک میں کئی لاکھ مرتبہ بھی جاؤں مگر ایسی خوشی کے جذبات جو اس شام میں تھے، شاید دوبارہ کبھی نہ ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حضور انور اس آدھے گھنٹے میں خوب محظوظ ہوئے جو ہم نے برڈ پارک میں گزارا۔ جس کا مطلب تھا کہ سب احباب نہایت پرجوش تھے۔ ماشاءاللہ۔
وقف کے بارے میں حضور انور کی راہنمائی
Melbourne میں وقف نو کلاس کے دوران حضور انور نے بچوں کو وقف کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: وقف نو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ یہیں آسٹریلیا میں رہیں گے اور کام کریں گے۔ بلکہ جب آپ اپنی تعلیم مکمل کر لیں تو آپ کو جماعت کو بتانا چاہیے اور جہاں بھی میں آپ کو بھجواؤں آپ کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہ حقیقی وقف ہے۔
ایک نوجوان واقفہ نو کے جذبات
ایک نو سالہ بچی عزیزہ اُمنہ سعید حضور انور کی وقفے نو کلاس میں شامل ہوئی اور بعد ازاں اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ ‘حضور انور کے آسٹریلیا تشریف لانے پر میں بہت خوش ہوں اور حضور انور کو قریب سے دیکھنے نے مجھے سکھایا ہے کہ ایک اچھی احمدی ناصرہ کیسے بننا ہے۔ سب سے اہم چیز وقف نو کی کلاس تھی کیونکہ مجھے حضور انور سے سوال پوچھنے کا موقع ملا اور اگلے روز ہماری فیملی ملاقات تھی اور حضور انور کو میں کلاس کی وجہ سے یاد تھی۔ اس بات سے میں بہت خوش ہوئی۔ اس دورہ سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ حضور انور جو فرما رہے اسے ہمیں دھیان سے سننا چاہیے۔
Melbourne کے احمدیوں کے جذبات
مجھے جماعت کے دیگر ممبران سے بھی بات کرنے کا موقع ملا اور حضور انور کے Melbourne میں ایک ہفتہ بسر کرنے کے اثرات نہایت نمایاں تھے۔
*مکرم عبدالقدیر راضی صاحب نے بتایا کہ ‘اس حقیقت کا بیان کرنا مشکل ہے کہ حضور یہاں ہمارے درمیان موجود تھے۔ جس دوران حضور یہاں تھے تو مجھے لگ رہا تھا کہ ہم کسی اور دنیا میں ہیں۔ حضور انورکے دورہ کے دوران ہم نے ایسے احمدیوں کے چہرے بھی دیکھے جو پہلے نہ دیکھے تھے اور وہ جماعت کے قریب آگئے ہیں۔ میں سیکرٹری وصایا ہوں اور حضور انور کے دورہ کے بعد سے ہماری لوکل جماعت کے درجنوں احباب نے وصیت کے نظام میں شمولیت اختیار کی۔
*ایک لوکل خادم مکرم حیدر مسعود صاحب جو بطور لوکل قائد اور سیکرٹری تعلیم کی خدمت بجا لا رہے تھے، نے حضور انور کے دورہ کے بارے میں بہت جذباتی گفتگو فرمائی۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ ‘حضور انور کا آسٹریلیا تشریف لانا میری زندگی کا سب سے یادگار لمحہ تھا۔ ابھی بھی میری آنکھوں سے آنسو رواں ہیں کہ میرے جیسے شخص کو حضور انور سے ملنے کی سعادت ملی اور حضور انور کا قرب نصیب ہوا۔ حضور انور کے دورہ نے مجھے یکسر بدل دیا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی سوچ کے تابع جماعت کے بارے میں آپ کا ایمان کمزور ہو جاتا ہے یا آپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں یا اتنی مالی قربانی نہیں کرتے جتنی کرنی چاہیے۔ حضور انور کو دیکھتے ہی ایسے جذبات ہوا ہو جاتے ہیں۔ میری زندگی، میرا دل، میرا مال، میرے اہل و عیال اور ہر چیز حضور انور کے قدموں پر نثار ہے۔ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ حضور انور سے میری ملاقات ہوئی۔ سینکڑوں احمدی جو مجھ سے کئی درجہ بہتر ہیں اور پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ملک میں رہتے ہیں، اس خوش قسمت موقع کے لیے دعا کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے مجھے عطا فرمایا۔
*محترم ڈاکٹر سلمان احمد صاحب نے بتایا کہ ’حضور انور کے دورہ کے دوران میری آپ سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ اس دن جب میں نے پہلی مرتبہ حضور انور کو دیکھا تو فوراً میرے دل میں یہ جذبات پیدا ہوئے کہ میں حضور انور سے پہلے کیوں نہیں ملا۔ مجھے خیال آیا کہ میں نے گزشتہ سال ضائع کر دئے ہیں۔ حضور انور کی موجودگی تمام جماعتوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوئی۔ لوگوں کو بسا اوقات جماعت کے بارے میں کچھ تحفظات ہوتے ہیں لیکن براہ راست حضور انور کی تقاریر سننے سے وہ سب بودے خیالات دور ہو جاتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ حضور کی موجودگی نے Melbourne جماعت کی حالت ہی بدل دی ہے۔ حضور انور کی دورہ کی برکت سے ہماری جماعت ایک دوسرے کے قریب آ گئی ہے اور ہماری آپس کی محبت میں روز افزوں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح حضور انور کے دورہ کے دوران ہم میں سے اکثریت نے کوشش کی کہ باقاعدگی سے نمازیں ادا کریں اور اب یہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہیں۔
*محترم طاہر احمد صاحب نے بتایا کہ ’حضور انور کی آسٹریلیا میں موجودگی نے ہر احمدی میں ایسی خوشی کی لہر دوڑا دی ہے کہ ہر کوئی اب اس بات کو اپنا فرض سمجھتا ہے کہ جماعتی خدمت پوری ذمہ داری، اخلاص اور محبت سے کرے۔ حضور انور کے دورہ کے باعث ہم پر دوسروں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کی اہمیت واضح ہوئی ہے اور ہمارا تبلیغ کا شعبہ پہلے سے زیادہ فعال ہو گیا ہے۔›
*محترم ڈاکٹر محمد ملک مجوکہ صاحب نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ ’حضور انور کی قربت میں چند دن بسر کرنے کے بعد مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ ایک سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ مجھے حضور انور کی شفقت اور محبت کا پتہ چلا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ آپ بہت وسیع حوصلہ کے مالک ہیں اور ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں پر نہایت محبت سے اصلاح فرماتے ہیں۔ خلیفہ کے ساتھ تعلق پہلے سے بڑھ کر مضبوط ہوا ہے اور حضور انور کی دوبارہ آسٹریلیا تشریف آوری باعث صد افتخار ہو گی۔
(حضور انور کا دورہ آسٹریلیا 2013 حصہ دوم۔اردو ترجمہ از ڈائری عابد خان)
(مترجم: ابو سلطان)