• 25 اپریل, 2024

کوئی ایسا نہیں جو اس نبیؐ کی رأفت اور رحمت کا رہتی دنیا تک مقابلہ کر سکے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
آپؐ کے ماننے والوں کا، مومنین کا آپؐ کے لئے جو جذبہ تھا وہ دنیا کی نظر میں شاید دیوانگی ہو لیکن عشق و محبت کی دنیا میں یہ عشق و محبت کی انتہا ہے۔ اس کی ایک مثال دیتا ہوں جس کو غیر نے بھی محسوس کیا اور اپنے لوگوں کو جا کر کہا کہ ان لوگوں کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے جو اس دیوانگی کی حد تک آپؐ سے عشق کرتے ہیں کہ آپؐ کے وضو کے پانی کے قطروں کو زمین پر پڑنے سے پہلے ہی اُچک لیتے ہیں۔ اگر کوئی دنیا دار ہو تو اس اظہار کے بعد دوسروں کے لئے محبت و نرمی اور رحمت کے جذبات رکھنے کی بجائے خود سری اور خود پسندی میں بڑھ جائے۔ لیکن ہم قربان جائیں اپنے آقا حضرت محمد مصطفیؐ کے کہ آپؐ اس کے باوجو د رحمت کے جذبے کے ساتھ اپنے لوگوں کو آرام پہنچانے کے لئے قربانیوں پر قربانیاں کر رہے ہیں، ان پر اپنی رحمت کے پر پھیلا رہے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے طریقے سکھا رہے ہیں۔ اس خیال سے بے چین ہو رہے ہیں کہ کہیں مجھ سے کسی کو کبھی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے میرا نام رحمۃ للعالمین رکھا ہے تو رحمتیں اور شفقتیں مجھ سے نکلنی چاہئیں اور دوسروں کو پہنچنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے مومنوں کے لئے رحمت و مغفرت کی دعائیں مانگ رہے ہیں، ان کی تکلیفوں پر پریشان ہو رہے ہیں۔ کوئی ایسا نہیں جو اس نبیؐ کی رأفت اور رحمت کا رہتی دنیا تک مقابلہ کر سکے بلکہ اس کا عشر عشیر کیا، ہزارواں، لاکھواں حصہ بھی دکھا سکے۔ اس سرا پا رحمت کا ایک واقعہ جو بظاہر معمولی لگتا ہے لیکن اپنے ایک معمولی چاکر کے لئے نرمی و رحمت کے جذبات کی ایک ایسی تصویر کھینچتا ہے جو بڑے بڑے نرم دل اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنے والوں میں ہزارواں حصہ بھی نظر نہیں آ سکتا۔

ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہما ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ حنین کے روز ایک مرتبہ میری وجہ سے نبی کریمؐ کا راستہ تنگ ہو گیا۔ اس وقت مَیں نے موٹے چمڑے کا جوتا پہنا ہوا تھا۔ میرا پاؤں رسول اللہؐ کے پاؤں پر آ گیا تو آپؐ نے اس کوڑے کے ساتھ جو آپؐ نے پکڑا ہوا تھا مجھے جلدی سے پیچھے ہٹایا اور کہا بسم اللہ۔ تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔ راوی کہتے ہیں مَیں نے وہ رات اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے گزار دی۔ مَیں اپنے دل میں بار بار سوچتا تھا کہ مَیں نے رسول اللہؐ کو تکلیف دی ہے۔ جب صبح ہوئی تو ایک شخص آیا اور پوچھا کہ فلاں کہاں ہے؟۔ مَیں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ مَیں یہاں ہوں اور ان کے ساتھ چل پڑا۔ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ ؐ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا تم نے کل اپنی جوتی سے میرے پاؤں کو لتاڑ ہی دیا تھا اور تم نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی لیکن مَیں نے تمہیں کوڑے کے ساتھ اپنے پاؤں سے پیچھے کیا تھا۔ تو یہ جو ہلکا سا کوڑا مَیں نے تمہیں مارا تھایہ، اسّی (80) دُنبیاں ہیں، بکریاں ہیں، بھیڑیں ہیں انہیں اس کے بدلہ میں لے لو۔

(السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 473 باب ما یذکر فیہ صفۃﷺ الباطنۃ وان شارکہ فیھا غیرہ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

تو دیکھیں اس رحمۃ للعالمین کا اپنے چاکروں سے کیا حسن سلوک ہے۔ تکلیف بھی آپؐ کو پہنچی ہے۔ اس تکلیف سے اپنے پاؤں کو آزاد کروانے کے لئے ہلکے سے کوڑے کے اشارے سے دوسرے کا پاؤں پیچھے ہٹایا ہے تو ساری رات آپؐ کے دل میں یہ خیال رہا کہ چاہے یہ ہلکا سا کوڑا ہی سہی۔ مَیں نے یہ کیوں مارا۔ اس سے اس کو تکلیف پہنچی ہو گی۔ اپنی تکلیف کا کوئی احساس نہیں رہا۔ جس کو کوڑا مارا وہ اپنی غلطی پر شرمند ہ ہے۔ وہ ساری رات سو نہیں سکا کہ مَیں نے آنحضرتؐ کو تکلیف پہنچائی ہے۔ لیکن یہ سراپا رحمت صبح اٹھ کر کہتے ہیں کہ تمہیں میرے ذریعہ سے تھوڑی سی جو تکلیف پہنچی تھی یہ اس کا بدلہ ہے۔ یہ اسّی (80) بھیڑیں ہیں یہ لے لو۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 مارچ 2007ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 23 جولائی 2020ء