• 26 اپریل, 2024

تعارف سورۃ الکہف (اٹھارہویں سورہ)

(مکی سورہ، تسمیہ سمیت اس سورہ کی 111 آیات ہیں)
اردو ترجمہ ازترجمہ قرآن انگریزی (حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ) ایڈیشن 2003ء
(مترجم: وقار احمد بھٹی
)

وقت نزول اور سیاق و سباق

ابنِ عباس اور ابنِ کثیر کے نزدیک یہ مکمل سورۃ مکہ میں نازل ہوئی(منثور)۔ تقریباً سب کے سب مفسرینِ قرآن نے اس بات پر اتفاق کیاہے۔ مغربی علماء نے اس سورۃ کے نزول کو نبوت کے چھٹے سال میں قرار دیا ہے مگر زیادہ مستند طور پر یہ (نبوت کے) چوتھے یا پانچویں سال میں نازل ہوئی۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ یہ سورۃ اکٹھی اور مکمل نازل ہوئی تھی اور ستر ہزار فرشتوں کے حصار میں نازل ہوئی(منثور، جلد چہارم صفحہ 210)۔ سورۃ النحل میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آنحضرتﷺ کو یہود و نصاریٰ سے سخت مخالفت کا سامنا ہوگا اور یہ مضمون تفصیل سے بیان ہوا تھا، اس مضمون کی مزید تفصیل سورۃ بنی اسرائیل میں بیان ہوئی ہے جہاں بتایا گیا ہے کہ آپﷺ ایسے علاقہ میں ہجرت کریں گے جہاں یہودیوں کے ساتھ رہیں گے اور انکے ساتھ نئے تعلقات استوار ہوں گے۔ بعد ازاں دونوں (یہود و نصارٰی)کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہوگا اور بالآخر آپﷺ ان پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں آنحضرتﷺ کی ایک رؤیا کا ذکر کیا گیاہے کہ جس میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آپﷺ یہودیوں کی سرزمینِ مقدس کو فتح کرلیں گے اور یہودیوں کی دو بغاوتوں کی طرف اشارہ کیا گیاہےجن کا ذکر استثناء کی کتاب میں موجود ہے۔ پہلی بغاوت حضرت داؤد کے بعد ہوئی اور نتیجۃً یہودیوں کو انکے آبائی علاقہ سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور ان کا آبائی علاقہ ان کو واپس مل گیا۔ لیکن وہ ایک بار پھر بد اعمالیوںمیں بڑھ گئے، خدا کے احکامات کا انکار کیا اور دوسری مرتبہ حضرت عیسیٰ کے وقت میں بغاوت کی۔ اس دوسری بغاوت کی انکو سخت سزا ملی۔ ان کے مقاماتِ مقدسہ ان سے چھن گئےاور وہ موعودہ سرزمین سے بے دخل کر دئے گئے۔ ان پیشگوئیوں میں ان حالات کا بھی ذکر ہے جن سے بنی اسرائیلیوں کو گزرنا پڑا (یعنی یہود کو) اور ان کے حالات کے تذکرہ میں دو سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

(الف)اگر عیسائی، جو موسوی سلسلہ کا دوسرا حصہ ہیں، کو وہ سزا نہیں دی گئی جو یہود کو دی گئی تھی، کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ عیسائی خدائی افضال کے وارث ہیں اور یہودیوں سے کی جانے والی موعود نعمتوں کے وارث ہیں؟

(ب) مسلمانوں کو کیوں کہ تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ ہوشیار رہیں مبادا یہودیوں کے نقشِ قدم پر چل کر وہ خدائی ناراضگی کا موجب بنیں، اس تنبیہ سے کس طرف اشارہ ہےاور ان (مسلمانوں) کا مستقبل کیا ہے؟

مضامین کا خلاصہ

ان دونوں فطری اور بر محل سوالوں کا جواب اس سورۃ میں دیا گیاہے اور کچھ روشنی عیسائیت میں برپا ہونے والے انقلابات پر ڈالی گئی ہے جو سلسلہ موسویہ کی دوسری شاخ ہے۔ پھر اس میں بتایا گیاہے کہ کس طرح مسلمان یہودیوں کے طریق کو اپنانے کیوجہ سے جو رویہ اپنائیں گے اور اپنے تئیں خدائی غضب کا نشانہ بنائیں گے۔ بعد ازاں ایک اور سوال کا جواب دیا گیاہے کہ ان معاملات کا اہلِ کہف (غار والوں) اور ذوالقرنین اوریاجوج ماجوج اوردوباغات والی مثال اور اسراء (وہ روحانی سفر) جو حضرت موسیٰ نے اختیار کیا تھا، کا آپس میں کیا تعلق ہے۔

متذکرہ بالا سوالات کا جواب یہ سورۃ یوں دیتی ہے کہ ان مثالوں کے ذریعہ تمثیلی زبان میں عیسائی اقوام کے عروج و زوال کا ذکر کیا گیاہے اور یہ بھی کہ جو مشکلات اور مصائب مسلمانوں کو ان اقوام سے اپنی بے اعتدالیوں کی وجہ سے پہنچنے والے تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اسراء (روحانی سفر) کی مزید تفصیلات بیان کرنے کے لیے اور وضاحت کے لئے اس کو دو باغوں والی مثال کے بعد رکھا گیاہے۔ حضرت موسیٰ کا یہ روحانی سفر تمثیلی زبان میں ان کے پیروکاروں کی مادی اور اخلاقی ترقیات پر روشنی ڈالتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے آپﷺ کے پیروکاروں کی غیر معمولی ترقی آپﷺ کے اسراء میں بیان کی گئی ہے، جو سورۃ بنی اسرائیل میں بیان ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ کے اسراء میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کب اور کیسے یہ ترقی بنی اسرائیلیوں کو نصیب ہوگی اور کہاں ختم ہوگی اور کب بنی اسرائیل خدائی افضال سے محروم ہو جائیں گے اور یہ (افضال) بنی اسماعیل کو منتقل کردئے جائیں گے۔ بعد ازاں ہمیں بتایا گیاہے کہ بنی اسماعیل خدائی نعمتوں کے حصول کے بعد، اپنی باری پر خدا کے احکامات کی نافرمانی کی صورت میں ان کے غضب کا نشانہ بنیں گے اور یاجوج اور ماجوج کے ذریعہ انہیں سزا دی جائے گی جو پوری دنیا پر حاکم ہوں گے اور غلبہ رکھتے ہوں گے۔

اس سورۃ کے اختتام پر ذوالقرنین کا ذکر کیا گیا ہے جو یاجوج اور ماجوج کے پوری دنیا پر غلبہ کی راہ میں حائل ہو گا۔ یوں عیسائیت کی مادی اور روحانی حالت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ابتدائی دنوں اور بعد میں آنے والے دنوں کی تفصیل مذکود ہے۔ غار میں رہنے والے (اصحاب کہف) ابتدائی عیسائیوں کی علامت ہیں جبکہ یاجوج اور ماجوج ان کے غلبہ کے دنوں کی شان و شوکت کو پیش کرتے ہیں۔ یوں اس سورۃ کے اختتام پر مسلمانوں کو یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ خدا مذہب کے مقابل پر کھڑی ہونے والی طاقتوں کو توڑ دے گا اور بکھیر دے گا جو یاجوج اور ماجوج کے سہارے پروان چڑھی ہوگی اور مسلمانوں کا بچاؤ ذوالقرنین کے ذریعہ ہوگا۔ یہ ذوالقرنین ثانی بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام ہیں جو آنحضرت ﷺ کے امتی اور پیروکار ہیں۔

یہ سورۃ کیونکہ خاص اہمیت کی حامل ہے، اس سورۃ کی چند اضافی تفصیلات اور مضامین کا بیان کرنا مناسب ہوگا۔ یہ سورۃ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم اس لئے نازل فرمایا ہے کہ سابقہ الٰہی صحف میں جو خرابیاں راہ پا چکی ہیں ان کو دور کیا جا سکے۔ اس میں خدا کا بیٹا بنانے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ایسا کرنے سے وہ خدا کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ یہ لوگ اسلام سے نفرت کرتے ہیں اور ان کی ابتدائی حالت اور آخری حالت ایک جیسی نہیں ہے۔ ابتداء میں یہ کمزور تھے اور سخت ظلم و تعدی کا نشانہ بنے۔ پھر خدا نے ان پر رحم کیا اور مشکلات اور مصائب کا زمانہ ختم ہوا اور انہیں کامیابی کی راہ پر ڈال دیا۔ مگر جب وہ صاحب ثروت ہو گئے اور کامیاب و کامران ہو گئے انہوں نے مشرکانہ عقائد اپنا لئے اور خدا کی طرف جھکنے کی بجائے وہ دنیا کی طرف جھک گئے اور پوری طرح اس میں کھو گئے۔ مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ان کی حالت سے سبق سیکھیں اور اپنے عروج اور غلبہ کے دنوںمیں خود اپنے محافظ بنیں، اور دولت کی اندھا دھن محبت میں، دنیاوی ساز و سامان کے لالچ میں، پُر سکون اور پُرتعیش زندگی کے بھروسہ پر عبادتِ الٰہی کو نہ بھولیں۔

عیسائی اقوام کی شان و شوکت اور طاقت کے سامنے مسلمانوں کی مفلسی اور تنگدستی کو دو آدمیوں کی مثال سے واضح کیا گیاہے ایک امیر اور دوسرا غریب۔ پھر اس سورۃ میں ان بڑی تبدیلیوں کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ کو ان کی رؤیا میں دکھائی گئی تھیں۔ جس میں انہیں بتایا گیاہے کہ ان کے سلسلہ کی ترقی بہت محدود اور کم درجہ کی ہوگی جو بعد میں آنے والے ایک سلسلہ (محمدیہ) کے حصہ میں آئے گی۔ یہ بعد میں آنے والا سلسلہ (اسلام) ان کامل تعلیمات کا مجموعہ ہوگا جو موسوی سلسلہ میں ادھوری چھوڑ دی گئی ہوں گی اور گرتی ہوئی عیسائیت کے مقابل پر غالب آئے گا۔ عیسائی اقوام کے تنزل کا ذکر کرنے کے بعد اور اسلام کی ترقی کی خبر دینے کے بعد اس سورۃ میں وہ حالات بیان کئے گئے ہیں جو اسلام کے غلبہ کی وجہ بنیں گے۔ چنانچہ یہ بتایا گیاہے کہ ایک وقت آئے گا جب مسلمان مذہب سے منہ پھیر لیں گے اور پورے طور پر دنیاوی مال و متاع میں غرق ہو جائیں گے۔انہیں اس بات کی سزا دینے کے لئے خدا عیسائی اقوام کو ترقی اور کامیابی عطا فرمائے گا جنہیں (ایک حکمت کے ماتحت) ایک عرصہ تک جنوبی اور مشرقی علاقوں میں پھیلنے سے روکا گیا تھا۔ یہ پوری دنیا پر ایک بڑی تباہی لائیں گے اور دنیا کے ممالک دو مد مقابل گروہوں میں بٹ جائیں گے جبکہ دونوں مختلف نظریات کے حامل ہوں گے۔ گناہ اور نا انصافی دنیا میں پھیل جائے گی اور ظلم عام ہو جائے گا۔ جب چیزیں اس نہج پر پہنچ جائیں گی تو خدا ایسے حالات پیدا کردے گا کہ حالات پر قابو پایا جائے ایسے وقت میں کہ ایک تند و تیز سیلاب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہاہو۔ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے اس سورۃ میں نہایت واضح طور پر اشارہ دیا گیاہے کہ وہ لوگ (جو آپﷺ کے سچے پیروکار ہیں) اس سیلاب کو روکنے میں نہایت اہم کردار ادا کریں گے جو ایک مرتبہ پہلے یاجوج ماجوج کی سیاسی طاقت کو توڑ چکے ہیں۔

(مزید تفصیل کے لئے پانچ جلدوں پر مشتمل تفسیر انگریزی کے صفحہ 1474تا1480کامطالعہ کریں)۔

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 23 جولائی 2020ء