ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو
اللہ تعالیٰ اپنے پاک باز نیک اور پیاروں کا امتحان لیا کرتا ہے تاکہ انہیں دین و آخرت میں ترقیات اور انعامات سے نوازے دنیاوی مصائب دکھ اور ابتلا ء عارضی ہوتے ہیں یہ آتے اور چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان امتحانات میں ڈال کر صبر اور طاقت عطا فرماتا جو دشمنوں کیلئے باعث حیرت اور مومنوں کیلئے ازدیا دایمان ہوا کرتے ہیں۔ حدیث النبیﷺ میں ایک ذکر اس طرح بیان فرمایاگیا ہے۔ حضرت خباب بن ارتؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت ﷺ سے اپنی تکالیف کا ذکر کیا۔ آپﷺ کعبہ کے سایہ میں چادر کو سرہانہ بنائے لیٹے ہوئے تھے۔ہم نے عرض کی۔کیا آپ ﷺ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد نہیں مانگتے اور دعا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ سختی کے یہ دن ختم کردے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا تم سے پہلے ایسا انسان بھی گزرا ہے جس کیلئے مذہبی دشمنی کی وجہ سے گڑھا کھودا جاتا اور اس میں اسے گاڑ دیا جاتا۔پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اسے دو ٹکڑے کر دیا جاتا لیکن وہ اپنے دین اور عقیدہ سے نہ پھر تا اور بعض اوقات لوہےکی کنگھی سے مومن کا گوشت نوچ لیا جاتا ہڈیاں اور پٹھے ننگے کر دیئے جاتے لیکن یہ ظلم اس کو اپنے دین سےنہ ہٹا سکتا۔ اللہ تعالیٰ اس دین کو ضرور کمال اور اقتدار بخشے گا یہاں تک کہ اس کے قائم کردہ امن و امان کی وجہ سے صنعاء سے حضرت موت تک اکیلا شتر سوار چلے گا۔ اللہ کے سوا اسے کسی کا ڈر نہیں ہو گا۔ بھیڑیا بکریوں کی رکھوالی کرے گا۔یعنی وہ لوگ جو اس وقت وحشی ہیں تربیت پاکر دنیاکے والی اور رکھوالے بنیں گےلیکن تم جلد بازی دکھا رہے ہو۔
(بخاری کتاب المناقب۔باب علامت النبوۃ فی الاسلام)
دین کی خاطر آزمائش ابتلاء اورمصائب برداشت کرنے سے دین و دنیا کے عالی شان مراتب جلیلہ عطا ہوتے ہیں صبر و شکر کرنے سے محبت رسول اللہ اور رضائے باری تعالیٰ نصیب ہوتی ہے۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں
’’جب اللہ تعالیٰ کسی آسمانی سلسلہ کو قائم کرتا ہے تو ابتلاء اس کی جزو ہوتے ہیں جو اس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے ضروری ہوتا ہےکہ اس پر کوئی نہ کوئی ابتلا آوے۔ تا کہ اللہ تعالیٰ سچے اور مستقل مزاجوں میں ا متیاز کردے اور صبر کرنے والوں کے مدارج میں ترقی ہو۔ ابتلاء کا آنا بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:3) کیا لوگ گمان کر بیٹھےہیں کہ وہ صرف اتنا کہنے پر ہی چھوڑ دیئے جاویں کہ ہم ایمان لائے اور ان پر کوئی ابتلا نہ آوے ایسا کبھی نہیں ہوتا۔۔۔پس ایمان کے بعد ضروری ہے کہ انسان دکھ اٹھاوے بغیر اس کے ایمان کا کچھ مزا ہی نہیں ملتا۔ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ کو کیا کیا مشکلات پیش آئیں اور انہوں نے کیا کیا دکھ اٹھائے۔ آخر ان کے صبر پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے بڑے مدارج اور مراتب عالیہ عطاکئے۔ انسان جلد بازی کرتا ہے اور ابتلا آتا ہے تو اس کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ دنیا ہی رہتی ہے او رنہ دین ہی رہتا ہے مگر جو صبر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ا ن کے ساتھ ہوتاہے اور ان پر انعام و اکرام کرتا ہے۔ اس لئےکسی ابتلا پر گھبرانا نہیں چاہیے ابتلا مومن کو اللہ تعالیٰ کے اور بھی قریب کر دیتا ہے اوراسکی وفاداری کو مستحکم بناتا ہے لیکن کچے اور غدار کو الگ کر دیتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 401)
دین و ایمان کو بچانے اور اسے ترقی دینے کی خاطر دنیاوی عارضی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں اہل ایمان کے لئے دشمنان کا مخالفانہ سلوک کھاد اور زور آور خوراک کا باعث بنا کرتا ہے دین کی مخالفت اکثریت اپنا سہارا زور اپنی ساری طاقت اپنا سارا اچارہ کرتی رہتی ہے۔ڈراوا،دھونس،دھمکیاں، لالچ اورخوف سب کچھ کیا جاتا ہے مگر ان کو ہ ِ وقار ایمانداروں کےلئے یہ سارے معاملات ہیں اور ان کے سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ وقتی اور عارضی تکالیف تو پہنچا کرتی ہیں لیکن یہ کسی لحاظ سے بھی ایمان کو کمزور نہیں کر سکتیں اور دشمن ایسے منصوبوں میں ایک لاکھ چوبیس ہزار دفعہ ناکام و نامراد ہوچکا ہے اور ایماندار اتنی ہی بار شیریں ثمرات حاصل کر چکے ہیں۔
ایک حدیث میں دینی و مذہبی مخالفت کا واقعہ اس طرح نقل ہے جو رہتی دنیا تک مومنین کیلئے مشعل راہ بنا رہیگا۔
حضرت خباب بن الارتؓ ان خوش نصیبوں میں سے تھے جنہوں نے چھٹے نمبر پر اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی اس لئے سادس الاسلام کہلائے۔آپؓ آہن گری کا کام کرتے تھے مشرکین مکہ آپ کو سخت تکالیف دیتے حتیٰ کہ آپ کی بھٹی سے کوئلے نکال کر ان پر آپ کو لٹا دیتے اور چھاتی پر پتھر رکھ دیتے تا کہ آپؓ ہل بھی نہ سکیں۔آپؓ نے ایک لمبے عرصہ تک تکلیفیں اٹھائیں۔ لوہے کی زرہیں پہنا کر آپ کو دھوپ میں ڈال دیا جاتا اور زرہیں دھوپ میں انگارہ ہو کر آپ کو جھلساتیں۔ آپؓ بے حال ہو جاتے مگر استقامت کا کوہ وقار بنے رہتے۔آپؓ نے ایک دفعہ بتایا کہ مجھے آگ کے انگاروں پر ڈال کر بھی گھسیٹا جاتا پھر میری کمر کی چربی اور خون سے وہ آگ بجھتی۔ان کے حالات کے باوجود جب اسلام کو ترقی ہوئی اور فتوحات کا دروازہ کھلا تو اس بات پر رویا کرتے تھے کہ خدانخواستہ ہماری تکالیف کا بدلہ کہیں اس دنیا میں ہی تو نہیں مل گیا۔
(اسد الغابہ زیر حالات حضرت خباب بن الارتؓ)
آسمانی کتب اور سیرۃ کی کتابوں کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء و رسل اولیاء کرام بنی نوع انسان کے خیر خواہ ہوتے ہیں لیکن دستار بند اورجبہ پوش عوام کو ساتھ ملاکر ان کے سازشیں کرتے جتھے بناتے تنظیمیں فعال کرتے فتویٰ دیتے گھروں و ملکوں سے نکالتے وطن بدر کرتے جلسے کرتے جلوس نکالتے مقدمے کرتے قانون بناتے تحریکیں چلاتے۔بائیکاٹ کرتے اور جینا حرام کرنےکی پر زور کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اپنے خیال میں دین، مذہب اور عقیدہ کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ مگر تقدیر ربانی بھی ساتھ ساتھ متحرک رہتی ہے جو مومنوں کو ثبات قدم اور دلوں کو مطمئن کرتی رہتی ہے اور تدریجاً مومنوں کی اقلیت کو اکثریت میں بدلتی رہتی ہے مومن دعاؤں گریہ و زاری اللہ رسول اور قانون و آئین اور شریعت کی تابعداری کرتے رہتے ہیں اور دشمن ان کے بالمقابل قدم اٹھاتے رہتے ہیں۔ دشمن اپنے ظالمانہ خیال میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ ربّ عرش کریم کے محبوبان کے قتل کے درپے ہو جاتے ہیں۔
ایک واقعہ حدیث شریف میں یوں بیان ہو ا ہے:۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں گویا رسول اکرمﷺ کو دیکھ رہا ہوں جبکہ آپﷺ گذشتہ انبیاء میں سے ایک نبی کا ذکر فرمارہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا اس نبیؑ کو اس کی قوم نے مارا اور زخمی کر دیا وہ نبی اپنے چہرہ سے خون پونچھتا جاتا اور کہتا جاتا اے خدا! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ نہیں جانتے اور اپنی جہالت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔
(بخاری۔کتاب الانبیاء۔باب قول اللہ عزوجل ام حسبت ان اصحاب الکھف)
ہمارے زمانہ میں حضرت شہزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کو زمین میں گاڑ کر پتھراؤ کر کے جان سے مارا گیا آپ کو کئی طرح کے لالچ دیئے گئے مگر آپؒ نے ایمان کو ترجیح دی اور ساری پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔
’’صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کا واقعہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔تذکرۃ الشہادتین کو با ر بار پڑھو اور دیکھو کہ اس نے اپنے ایمان کا کیسا نمونہ دکھایا ہے۔ اس نے دنیا اور اس کے تعلقات کی کچھ بھی پروا نہیں کی۔بیوی یا بچوں کا غم اس کے ایمان پر کوئی اثر نہیں ڈال سکا۔ دنیوی عزت اور منصب اور تنعم نے اس کو بزدل نہیں بنایا۔اس نے جان دینی گوارا کی مگر ایمان کو ضائع نہیں کیا۔عبد اللطیف کہنے کو مارا گیا یا مر گیا مگر یقیناً سمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 511،512)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں
’’خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتا ہے اور اس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے مثلاً کسریٰ اگر آنحضرتﷺ کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اسی رات مارا گیا کیسے ظاہر ہوتا اور اگر مکہ والے لوگ آپﷺ کو نہ نکالتے تو اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُبِیْناً (الفتح :2) کی آواز کیسے سنائی دیتی۔ ہر ایک معجزہ ابتلا سے وابستہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ: 586،587)
نیز فرمایا:۔
’’اس نسخہ کو ہمیشہ یاد رکھو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ کہ جب کوئی دکھ یا مصیبت پیش آوے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاؤ اور جو مصائب اور مشکلات ہوں ان کو کھول کھول کر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرو کیونکہ یقیناً خد اہے اور وہی ہے جو ہر قسم کی مشکلات اور مصائب سے انسان کو نکالتا ہے وہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے۔ اس کے سو اکوئی نہیں جو مددگار ہو سکے۔بہت ہی ناقص ہیں وہ لوگ کہ جب انہیں مشکلات پیش آتی ہیں تو وکیل، طبیب یا اور لوگوں کی طرف تو رجوع کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا خانہ بالکل خالی چھوڑ دیتے ہیں۔ مومن وہ ہے جو سب سے اول خدا تعالیٰ کی طرف دوڑے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ96)
سید نا حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’ہمیشہ یاد رکھیں یہ ان مومنین کی قربانیاں ہی تھیں جنہوں نے قرونِ اولیٰ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمیٹنے کے لئے (رفقاء) حضرت مسیح موعودؑ نے کوشش کی، ملک بدر ہوئے،مالی نقصانات برداشت کرنے پڑے،جہاد کرنا پڑا،سب کچھ ہوا۔اور پھر قربانیوں کو ایسے پھل لگے کہ آج ہم دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 16 فروری2007ء از مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم صفحہ 137،138)
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو
آفت ظلمت و جور ٹل جائے گی
آہ مومن سے ٹکڑا کے طوفان کا
رخ پلٹ جائے گا رت بدل جائے گی
٭…٭…٭
(مرسلہ: نذیر احمد سانول)